لکھنؤ میں ایک حجام ہوا کرتا تھا۔جو پورے شہر میں چل پھر کر لوگوں کی حجامتیں بنایا کرتا۔لیکن اس کی ایک عجیب عادت یہ تھی کہ جوں ہی اس کے علم میں آتا کہ شہر میں کوئی فوت ہو گیا ہے یا کوئی جنازہ جا رہا ہے تو وہ فوراً اپنا صندوقچہ کسی کے حوالے کرتا ، اور جنازے میں شامل ہو نے چل پڑتا۔ بعض اوقات تو یوں ہوتا کہ دن بھر میں کوئی بھی کام نہ کرتا صرف دو تین جناز ے پڑھتا ، شام ہو جاتی اور گھر کی راہ لیتا۔ عمر بھر اس کا یہی وطیرہ رہا ۔ جناز ے میں شامل ہونا اور جنازے کی نماز پڑھنا اس کی اولین ترجیح تھی۔ یہی حجام لکھنؤ کے مشہور عالم دین مولانا عبدالباری فرنگی محل کی حجامت بھی بنایا کرتا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جس دن مولانا کا انتقال ہوا ، اس حجام کا بھی انتقال ہو گیا۔ مولانا کے جنازے میں شمولیت کے لیے دور دراز سے لوگ پہنچے اور لاکھوں کا مجمع ہو گیا۔ شہر کے ایک بڑے گراونڈ میں مولانا کا جناز ہ پڑھا گیا۔ عین اسی وقت اس حجام کا جناز ہ بھی گھر سے روانہ ہو ا اور اسی گراونڈ میں لایا گیا۔ مولانا کے جنازے کے بعد اعلان ہو ا کہ بھائی ایک اور جناز ہ بھی آگیا ہے براہ کرم وہ جناز ہ بھی پڑھ کر جائیں۔ وہ لوگ جو مولانا کے جنازے میں شمولیت کی غرض سے آر ہے تھے اور لیٹ ہو نے کی وجہ سے اس میں شامل نہ ہو سکے تھے وہ بھی پہنچ گئے تھے اور وہ سب بھی اس حجام کے جنازے میںشامل ہو گئے ۔ اسی طرح اس کا جناز ہ مولانا کے جناز ے سے بھی بڑھ کر ہو گیا۔عمر بھر کی محنت کا صلہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ورنہ عام حالات میں ایک بیچارے حجام کی موت پر کتنے لوگ جنازے میں شامل ہوتے یہ سب جانتے ہیں۔
مولانا عبدالقادر رائے پوری نے کہا کہ ان کے گائوں میں ایک ہندو تھا جس کی کریانہ کی دوکان مسجد کے دروازے کے سامنے تھی ۔ یہ ہندو ہر جمعرات کو مسجد کے چراغ میں تیل ڈالا کرتا تھا۔ اپنے اس عمل کو اس نے ساری عمر بہت پابندی سے نبھایا۔ایک دن یہ نماز جمعہ کے فوراً بعد مسجد میں پہنچا اور کہا کہ بھائی مجھے مسلمان کر لو۔لوگو نے پوچھا تمہیں کیا ہوا؟ اس نے کہا کئی دنوں سے ایک بزرگ میرے خواب میں آر ہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تمہارا انتقال ہونے والا ہے ، جلدی سے مسلمان ہو جائو۔ لوگوں نے کہا سوچ لو ، اگلے جمعہ مسلمان ہو جانا ، اس نے کہا ، ہو سکتا ہے اگلا جمعہ آنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا اور پھر واقعی اگلا جمعہ آنے کی نوبت نہ آئی اور اس سے پہلے ہی اس کا انتقا ل ہو گیا۔
یہ دونوں واقعات مجھے حضرت اقدس نفیس شاہ صاحب ( سیدانور حسین نفیس رقمؒ) نے اس وقت سنائے تھے جب میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ حضرت کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے اس بات کا یقین ہو جائے کہ خاتمہ ایمان پر ہو گا اوراللہ کریم بخش دے گا۔حضرت نے کہا تھا کہ کسی بھی نیکی کو چھوٹا نہ سمجھو۔ بظاہر ایک معمولی نیکی پر بھی مداومت کرو گے تو اللہ کریم اس کو ہی ذریعہ بنا لے گا۔اور پھر ساتھ ہی انہوں نے دھیرے سے یہ بھی کہا تھا
میری طلب بھی ان کے کرم کا صدقہ ہے
یہ قدم اٹھتے نہیں اٹھائے جاتے ہیں
فرمایا کہ جب وہ بخشنے پر آئے تو بہانہ بھی خود ہی بنا دیتاہے بس اس سے مانگتے رہو۔مالک کے سامنے جھولی پھیلائے رکھنا اور اس سے مانگتے رہنا ہی بندہ ہونے کا تقاضا ہے اس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہو باقی کا م مالک خود ہی کر لے گا۔