فیس بک پر سکرولنگ کرتے ایک دلچسپ تصویر دیکھی۔ ایک گیس کا سیلنڈر ہے اور اس کے پائپ کے ساتھ چار چولہے(Burners) جل رہے ہیں۔ پہلے پر فیملی لکھا ہے، دوسرے پر کام ، تیسرا دوست اور چوتھا صحت ہے۔یہ ممتاز ٹرینر، ماہر نفسیات، مصنف عارف انیس ملک کی پوسٹ تھی۔ عارف انیس نے اپنی تازہ تحریر میں سوال اٹھایا،’’ کون سا چولہا جلے گا؟‘‘ بات دلچسپ تھی، اس لئے رک کر پوری تحریر پڑھی۔ عارف انیس ملک نے بتایا کہ فرض کریں کہ گیس سیلنڈر آپ کی اپنی ذات ہے اور آپ سے جڑے یہ چاروں برنرز یاچولہے ہیں۔ گیس یا توانائی کی ایک مخصوص مقدار ہی ہے اور چاروں چولہوں کے جلنے کا دارومدار اسی پر ہے۔ تیز آگ کے لئے کسی ایک برنر کو مدھم یا بند کرنا پڑے گا توآپ کس برنر کی قربانی دیں گے؟ کام یعنی پروفیشن، صحت ، اہل خانہ، دوستوں میں سے کس کو بوقت ضرور قربان کرسکتے ہیں؟ اصل سوال یہ تھا کہ ان چاروں چولہوں کو بیک وقت اچھے طریقے سے کیسے چلایا جا سکتا ہے؟
پوسٹ پڑھنے کے بعد نیٹ پر کچھ وقت لگا کر فور برنرز تھیوری (THE FOUR BURNERS THEORY) کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ اس تصور پر ماہرین کا لکھا خاصا مواد موجود ہے۔معلوم ہوا کہ فور برنرز تھیوری دراصل ایک بے رحم حقیقت پسندانہ تصور ہے۔ یہ تھیوری بتاتی ہے کہ زندگی کے سفر میں کامیاب ہونے کے لئے آپ کو ان چاروں برنرز میں سے کم از کم ایک بند کرنا پڑے گا ۔ اگر غیر معمولی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو چار میں سے دو برنر یا چولہے بند کرنے پڑیں گے ، ان کے حصے کی گیس باقی دونوں کو دینے سے شعلہ تیز ہوگا اور حیران کن کامیابیاں تب حاصل ہوپائیں گی۔بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ اگر آپ اپنے پروفیشن پر توجہ دیں، معمول کے آٹھ گھنٹوں سے کچھ زیادہ صرف کریں یا ان آٹھ گھنٹوں کو یوں برتیں کہ جسم وجاں کی توانائی نچڑ جائے ۔ تب فطری بات ہے کہ گھر اور دوست احباب نظرانداز ہوں گے۔ اگر کسی نہ کسی طرح ان سب کے لئے وقت نکال لیں گے ،تب صحت ضرور متاثر ہوگی۔ جو لوگ بارہ چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں، کچھ وقت آنے جانے، کھانے پینے ، نہانے دھونے کے لئے بھی درکار ہوگا، ایسے میں وہ روزانہ چھ سات گھنٹے کی نیند بھی نہیں لے پاتے۔ نیند کی کمی، تھکن اور مسلسل اعصابی تنائو سے کئی بیماریوں جیسے شوگر، بلڈ پریشر ، ہارٹ اٹیک وغیرہ میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
اسی وجہ سے کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں سے اکثر کا طرز زندگی غیر متوازن تھا۔ دنیا کے کامیاب اور مشہور ترین لوگوں میں سے ایک بل گیٹس کی زندگی میں کئی برس ایسے گزرے جب اس نے ہفتے میں ساتوں دن کام کیا اور پورے سال میں بمشکل دو چار دن ہی چھٹی کی۔ ظاہر ہے ایسے میں اہل خانہ ، دوست احباب لازمی متاثر ہوں گے ۔ایک آرٹیکل میںاس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے انٹرویو کا حوالہ دیا گیا۔ ایلون مسک مشہور کار کمپنی ٹیسلا کے مالک ہیں، انہوں نے زندگی میں بڑے نشیب وفراز دیکھے اور بے پناہ محنت کر کے اس مقام تک پہنچے۔ اپنے انٹرویو میں مسک نے اعتراف کیا کہ وہ ہفتے میں ستر گھنٹے کام کرتے تھے۔ یاد رہے کہ مغربی ممالک میں عام طور سے چالیس گھنٹے ہفتہ کا م کرنے کا رواج ہے، یعنی پیر سے جمعہ تک آٹھ گھنٹے روزانہ ، جبکہ ہفتہ اتوار کی ویک اینڈتعطیل ۔ ایلون مسک کا یہ کام بارہ چودہ گھنٹے روزانہ بنتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنی اس مصروفیت کے باعث وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پائے، حتیٰ کہ ویک اینڈز پر بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی وہ دفتری ای میلز کا جواب دیتے رہتے تھے۔ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کچھ مان لیتے ہیں، بعض اعتراف نہیں کر پاتے۔ان کی زندگی کا مطالعہ مگر بتا دیتا ہے کہ کامیابی کے سنگھاسن پربراجمان ہونے کی انہوں نے ’’قیمت ‘‘ادا کی ہے۔ فور برنرز تھیوری یہی بتاتی ہے کہ کامیابی کی ایک خاص قیمت ہے ، جوہر حال میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے کسی ججھک یا ندامت کے بغیر ایسا کر گزریں۔ آپ کی کامیابی کے ثمرات بہرحال ان لوگوں کو بھی پہنچیں گے جنہیں آپ نے بھاگ دوڑ میں کسی حد تک نظرانداز کیا۔یہ مضامین پڑھتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ یہ نکتہ کام کرنے والے بندے سے زیادہ اس کے اہل خانہ کے پڑھنے کا ہے۔ اگرگھر والے اس حقیقت کو سمجھ کر تعاون نہ کریں تو غیر معمولی کام نہیں کئے جا سکتے۔ایسے بے شمار خاوندوں کی کہانیاں سنائی اورپڑھائی جا سکتی ہیں، جن کی بیویوں کے ایثار، تعاون اور قربانی نے انہیں اپنے پروفیشن میں کامیاب اور نمایاں بنایا۔ افسوس کہ مرد حضرات فراخ دلی سے یہ مانتے نہیں۔کھلاڑی، فن کار، فوجی، پولیس والے اور کئی دیگر شعبے ایسے ہیں جہاں اپنے فرائض انجام دینے کے لئے بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ کئی کئی ماہ کی کرکٹ سیریز اور بڑے کھیلوں کے ٹورنامنٹ کی تیاری کرنے والے دن رات ایک کرتے ہیں، اپنی زندگی کے بہت سے سنہری لمحات انہیں مس کرنے پڑتے ہیں۔ساون بھادوں کی جھڑیاں، سردیوں کی بھیگی رت، بہارکے حسین دنوں میں اہل خانہ سے دور وہ دن رات ورزش اور پریکٹس میں جتے رہتے ہیں۔ ننھے معصوم بچوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ فوج اور دیگر سروسز کے جوان ، افسر اپنی زندگی کے سفر میں بہت کچھ کھوبیٹھتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ شہر سے سینکڑوں، ہزاروں میل دور دور افتادہ علاقوں میں پوسٹنگ کے بعد کا وقت گزارنا ان کا مقسوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جو دن کو ہسپتال میں وقت دینے کے بعد روزانہ شام کو کلینک چلاتے ہیں، ان کی سوشل لائف ختم ہوجاتی ہے۔ صحافی حضرات الّو کی طرح راتوں کو جاگتے اور دن کو سوتے ہیں۔ ایسے صحافی کا تصور کریں جو زندگی کے تیس چالیس سال روزانہ شام چھ بجے سے رات دو بجے تک نیوز روم میں گزار کر سنسان سڑکوں پر سفر کر کے تین چار بجے واپس گھر پہنچتا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کو اتوار کی چھٹی بھی نہیں مل سکتی کہ چھٹیاں روٹیٹ ہوتی رہتی ہیں۔
ادیب، محقق، سکالرز اپنی زندگیاں کتابوں کے اوراق کی نذر کر دیتے ہیں۔دو تین ہفتے قبل مشہور بھارتی محقق، ادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی انتقال کر گئے۔ فاروقی صاحب نے بہت سی کتابیں اپنے پیچھے چھوڑیں۔میر تقی میر کی شاعری کی تشریح پر مشتمل چار جلدوںکی کتاب’’ شعر شورانگیز ‘‘ہی ان کا اتنا بڑا اور وقیع کام ہے ۔ فاروقی صاحب نے تفہیم غالب سمیت اور بہت کچھ تنقید پرلکھا۔داستان طلسم ہوشربا پر شاندار کام کیا۔ آخری برسوں میں فکشن کی طرف متوجہ ہوئے، اردو کے تین بہترین ناولوں میں سے ایک’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ لکھ ڈالا، کچھ نہایت عمدہ تاریخی افسانے لکھے جبکہ ایک ناولٹ قبض زماں بھی شائع ہوا۔ ایک ناول لکھ رہے تھے جو ادھورا رہ گیا۔ فاروقی صاحب اتنا کام اپنی اہلیہ محترمہ اور بچیوں کے حد درجہ تعاون کے بغیر قطعی طور پر نہ کر پاتے؟
سیدابوالاعلیٰ مودودی کے کام کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ قرآن پا ک کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘لکھنا ہی غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ اس تفسیر کو بلامبالغہ کروڑوں لوگ پڑھ چکے، درجنوں زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے مولانا مودودی کی درجنوں کتابیں اس کے علاوہ ہیں، تفہیمات، خطبات ، خلافت وملوکیت اور نجانے کیا کیا۔ برسوںماہانہ ترجمان القرآن کی ادارت بھی کرتے رہے ، طویل عرصہ روزانہ عصر کے بعد ان کی محفل جاری رہی جس میں عام لوگ بھی شریک ہوسکتے تھے۔پھر جماعت اسلامی جیسی منظم اور ہمہ گیر جماعت کا قیام ، امیر جماعت کے طور پر انہیں ہر روز کئی وفود سے ملاقاتیں کرنا پڑتیں۔ ان کی اولاد میں سے کسی کی تحریر پڑھی، جس کے مطابق والد کو بعض اوقات یہ یاد نہ ہوتا کہ کون سا بچہ کس کلاس میں پڑھ رہا ہے۔ یہ سب معاملات ان کی بیگم دیکھتی رہیں۔اہلیہ محترمہ کے غیر معمولی تعاون کی وجہ سے ہی مولانا یہ سب کچھ کر پائے-اس لئے فور برنرز تھیوری دونوں فریقوں کو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فوربرنرز تھیوری کے آگے ہتھیار ڈال دئیے جائیں۔ کچھ نہ کچھ جگاڑ تو ہمیں لگانا ہی پڑے گا۔ یوںفٹا فٹ ایک یا دو چولہے بند کر دئیے تو ہماری استادی مشکوک ہوجائے گی۔زندگی کے یہ چار چولہے کس طرح جلائے جا سکتے ہیں، یہ ہنر سیکھنا پڑے گا۔ آخری سوال یہ کہ کیا واقعی زندگی کے صرف چار چولہے ہیں؟ یہ سب تو ایک خاص قسم کا مغربی تصور ہے، جس میں خدا کے بغیر زندگی کا نقشہ کھینچا گیاہے- ہمیں لگتا ہے کہ زندگی میں پانچواں چولہا بھی ہے اور اس کی اہمیت کم نہیں۔وہ چولہا بندگی کا ہے۔ اپنے عظیم رب کی بندگی اور اسے خوش رکھنے کی سعی۔