یو ٹیوب پر دیکھیں تو ایسے ایسے عملیات ہیں جو لمحوں میں تحت الثریٰ سے اوج ثریا پر پہنچا دیتے ہیں- جبکہ حضرت غوث پانی پتی کہتے ہیں کہ اگر وظائف بادشاہتیں دیتے ہوں تو کسی کو بتانے کے بجائے ہم خود کیوں نہ بادشاہ بن جائیں- وظائف کی تائید میں احادیث نبویہ بھی پیش کی جاتی ہیں کہ استغفار پڑھنے سے یوں گناہ جھڑ جاتے ہیں ، فلاں وظیفہ سے رزق کے انبار لگ جاتے ہیں اور اس تصور کو پھیلا کر کئی آستانوں نے اپنا کاروبار بے حساب بڑھا لیا اور بڑی تعداد میں خلق خدا کو کام کاج کے بجائے کروڑوں بار فلاں تسبیح اور لاکھوں بار فلاں وظیفہ کرنے پر لگا دیا- جو وقت انسان اپنی زندگی سنوارنے، اپنی شخصیت کی تعمیر کرنے، اپنی اولاد اور خاندان کو خوشیاں دینے اور خلق خدا کے کام آنے پر صرف کر سکتا تھا اسے شب و روز کی غٹر غوں کی نذر کر کے اللہ کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ رب کن فیکون، مجھے اپنا خلیفہ بنانے کے بجائے کبوتر بنایا ہوتا -
مجھے معلوم ہے کہ میری اس بات کے جواب میں بے سمجھے بوجھے احادیث پیش کی جائیں گی کہ فلاں کلمات کہنے سے یہ ہو جاتا ہے- مجھے تسلیم ہے کہ کلمات اپنا اثر رکھتے ہیں اسی لئے ہم گالی کھا کر بے مزہ ہوتے ہیں اور تعریف سن کر نہال لیکن اللہ کے ہاں یہ سسٹم نہیں ہے کہ ہم اس کے احکام کو پس پشت ڈال کر اس کی تعریف کر کے یہ سمجھیں کہ وہ خوش ہو گیا- ذرا غور کیجے، ہم اس خیال سے اللہ کو علم و دانش کے کس معیار پر اتار لاتے ہیں-
دعاؤں اور وظائف کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ ان مختصر الفاظ میں ایک پیغام ہوتا ہے، زندگی کے رویے کو تبدیل کرنے کا- اگر ہم اپنا رویہ تبدیل کر لیں تو الفاظ کی گردان کئے بغیر بھی کام درست ہونے لگتے ہیں اور رویہ تبدیل کئیے بغیر کروڑوں تسبیحات بے اثر ہوتی ہیں-
آئیے، اسے مثال سے سمجھیں، کہا گیا ہے کہ توبہ استغفار سے سب کچھ درست ہو جاتا ہے اور اس کے لئے روزانہ اتنی تسبیحات پڑھا کرو جبکہ توبہ استغفار کے الفاظ محض self suggestion کے لیے ہیں. اگر ایک شخص اسلام آباد سے لاہور جانا چاہتا ہے اور وہ اسلام آباد بائی پاس سے پشاور کو چل پڑا، دنیا کا کوئی وظیفہ اسے لاہور نہیں پہنچا سکتا- وہ توبہ کرے یعنی عملاً پلٹ جائے اور استغفار کرے یعنی آئندہ احتیاط ملحوظ رکھے تو مثبت نتائج یقینی ہوتے ہیں-
اسی طرح ہر وظیفہ اور دعا کے پس منظر میں کامیابی کے طریق کار کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو اس مسئلے میں یقینی کامیابی کا فارمولا ہے-ایک دوسری مثال لیں، شاید آپ بھی ہر جمعہ کو سوشل میڈیا پر پڑھتے ہوں کہ سورہ کہف پڑھیں تو دجال کے فتنے سے محفوظ رہیں گے اور ہم نے اسے وظیفہ بنا لیا ہے
جبکہ ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں دجال کا ظہور ہو جائے تو آپ اس کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکو گے، اس لئیے اپنے ایمان کو بچانے کا وہی طریقہ ہے جو اصحاب کہف نے اختیار کیا تھا کہ عزلت گزیں ہو جاؤ. اس نبوی پیغام کی روح نکال کر ہم نے اسے صرف لفظوں تک محدود کر دیا-
دعا کا مطلب اپنے آپ کو الحی اور القیوم کی طاقت سے پلگ ان کر کے قوت عمل اور جوش و جذبہ حاصل کرنا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ شادی کئے بغیر کوئی وظیفہ صاحب اولاد نہیں کر سکتا-