اللہ نے یہ کائنات cause & effect کی بنیاد پر بنائی ہے. ہر ضرورت کو پورا کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے اور بتایا بھی ہے. ہر فرد اور سماج کی ترقی اور تبدیلی کے لئے یہ عام اصول دیا ہے کہ لیس للانسان إلا ما سعی اوران اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهمگویا تبدیلی کی کلید انسانی ہاتھوں میں دے دی ہے-لیکن ہر انسان کو زندگی میں کبھی کبھی ایسے حالات سے سابقہ پڑتا ہے کہ ہر تدبیر بے اثر ہو جاتی ہے، ہر کوشش رائگاں چلی جاتی ہے، ہر ذریعہ اور وسیلہ الٹ پڑ جاتا ہے گویا ساری کائنات دشمنی اور مخالفت پر کمر بستہ ہے. ہزار جتن کے باوجود روزگار نہیں ملتا، مریض صحت یاب نہیں ہوتا، مقدمے سے خلاصی نہیں ہوتی، اولاد نہیں ہوتی یا ایسا کچھ بھی کہ جیسے قسمت روٹھ گئی ہے.یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں. ایسا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ مقبولان بارگاہ کے بارے میں کئی بار یہ خیال گزرتا ہے کہ اللہ خود ان کے دشمنوں کی صف میں جا کھڑا ہو گیا ہے. سب سے برگزیدہ افراد اللہ کے رسول ہوتے ہیں، ان پر جب اس طرح کے حالات پیش آتے ہیں تو ان کی باطنی کیفیت کی شدت کو قرآن نے سورہ یوسف میں ان الفاظ سے بیان کیا کہ
جب میرے رسول بھی مایوسی کی اس انتہا کو پہنچ گئے کہ انہیں خیال آنے لگ گیا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے (یعنی نبوت یا نصرت کے پیغامات سچ نہیں تھے).
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹینشن کس درجے کی تھی.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ممکن ہے اس کی کچھ اور وجوہ بھی ہوں لیکن میرے خیال میں اللہ انسانوں کے دل سے وسائل، اسباب، علم، عقل اور تدبیر کی خدائی کے بت کی محبت اور اس کی اثر آفرینی کو دھو دینا چاہتا ہے.نیز قرآن نے بارہا ہمیں بتایا کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی اس کا بلا شرکت غیرے مالک ہے. ہم کسی بھی شے کے مالک نہیں لیکن جب ہماری possessiveness حد سے بڑھ جاتی ہے تو ہم من پسند نتائج نہ ملنے پر ٹینشن کا شکار ہو جاتے ہیں.
اس ٹینشن سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
آپ کو یاد ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طائف کی گھاٹی پر اسی کیفیت سے دوچار ہوئے تھے، تب آپ نے اللہ سے کہا-بار الہا! میں تجھ سے اپنی بے بسی اور بے مائیگی کا گلہ کرتا ہوں، میں(جو کہ صادق و امین کے طور پر معزز تھا) لوگوں میں بے توقیر ہوگیا ہوں، تو نے میرے امور اس دشمن کے ہاتھ میں دے دئیے جو مجھ پر بار بار حملہ آور ہوتا ہے یا اس عزیز (چچا، ابولہب) کے ہاتھ میں جو سب کسی کا مالک و مختار ہو گیا ہے. تاہم اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں "
اس کیفیت کو ارباب تصوف نے تفویض کانام دیا ہے کہ اپنے اختیار و تدبیر سے دست کش ہوکر سب کچھ اللہ کے فیصلے پر چھوڑ دیا جائے. یہ مطلب نہیں کہ تمام ظاہری اسباب ترک کر دئیے جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان حالات میں اللہ کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو اسے دل و جان سے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے.
اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام ٹینشن لمحے بھر میں دور ہو جاتی ہے. میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اس کے بعد بتدریج حالات بدلنے لگ جاتے ہیں لیکن بالعموم اس طرح نہیں جیسے تفویض سے پہلے ہماری خواہش تھی بلکہ کسی نئے ایسے رخ پر جو ہماری تجویز اور خواہش کی بہ نسبت ہمارے لیے زیادہ مفید ہوتے ہیں.