متحدہ عرب امارات کے دارالخلافہ ابو ظبی سے دبئی کی طرف سفر کریں توچالیس پینتالیس کلو میٹرکے فاصلے پراسی شاہراہ کنارے ایک بڑا ہسپتال آتاہے جسے رحبہ ہسپتال کہا جاتاہے وہ اسی ہسپتال کےآئی سی یووارڈ ون کے کمرہ نمبر 108 میں داخل تھا - اسےکل رات دو بجے ابو ظبی سٹی سے یہاں شفٹ کیا گیا تھا-کیونکہ اس کا کووڈ سیریس حالت اختیار کر گیا تھا-
رات کا پچھلا پہر تھا اوراسے پیشاب کی حاجت ہو رہی تھی - بیڈ کے ساتھ لٹکی پیشاب کی بوتلیں پہلے ہی بھر چکی تھیں اس لیے اسے خالی بوتل کی ضرورت تھی - اس نے بیڈ کے ساتھ لگی بیل کا بٹن دبایا- تھوڑی ہی دیر میں چھوٹے سے قد کی فلپائنی نرس مسکراتے چہرے کے ساتھ آ موجود ہو ئی - اس نے کہا کہ مجھے یورن کے لیے ایک بوتل لا دیں اور جو موجود ہیں انہیں خالی کردیں-نرس واش روم میں بوتلیں خالی کرکے دوبارہ بیڈ کے ساتھ لٹکانے لگی تو اسے محسوس ہوا کہ بستر کی چادر گیلی ہے - وہ کہنے لگی لگتا ہے کہ آپ کے بسترکیچادر گیلی ہے ؟ اس نے کہا ہاں بعض اوقات پیشاب کرتے ہو ئے ہاتھ کانپ جاتا ہے اور بوتل سے لیک ہوجاتا ہے ‘مجھے ٹاول دے دیں تو میں گیلی جگہ پر رکھ لیتا ہوں- نرس نے چادر ہٹا کر دیکھا تو بستر واقعی گیلا ہو رہا تھا- اس نےکہا اوہو! ٹاول تو ٹھیک نہیں رہے گا- بستر کی چادر بدلنی چاہیے - مریض اس قابل نہ تھا کہ بستر سے ا ٹھ سکے ‘ بہت سی مشینوں کی تاریں اس کے جسم کے ساتھ منسلک تھیں-اس نے کہا کہ میں تو بسترسے اٹھ نہیں سکتا‘ چادر کیسے بدلی جائے گی-نرس مسکرائی اس نے کہا یہ میرا کام ہے آپ کو بسترسے اٹھنےکی ضرورت نہیں لیکن چادر بدلنا ضروری ہے کیونکہ گیلی چادر کے ساتھ آپ رات بھر ڈسٹرب رہیں گے - وہ باہر گئی اور بیڈ کے لیے سارا ضروری سامان لے آئی -مریض کے بستر پر لیٹے لیٹے اس نے چادر‘ تکیہ کمبل سب کچھ بدل دیا - صرف مریض کو تھوڑا دائیں بائیں ہونا پڑا- مریض حیران ہو رہاتھا کہ اس کا جسم اس نرس سے دوگنا تھا لیکن اس نے اکیلے ہی کمال مہارت سے بستر اس طرح بدل دیا کہ نہ تو مشینوں کی تاریں جسم سے الگ کرنا پڑیں اور نہ ہی اسے بسترسے اٹھنا پڑا- یہ سارا کام کرنے کے بعد اس نے کہا اب امید ہے آپ بہتر سو سکیں گے - کیونکہ گیلے بستر پر سونا ممکن نہیں ہوتا-
اسے یہاں داخل ہوئے تین دن ہو چکے تھےآج ڈیوٹی پر جو نرس موجود تھی وہ اگرچہ عمر میںاس سے بہت چھوٹی تھی لیکن وہ اس سے ایک مادر مہربان کی طرح بات کر رہی تھی-اس نے پوچھا کہ اگر اسے واش روم جانے کی حاجت ہو تو کیسے جائےکہ وہ توبستر سے اٹھنے کےقابل نہیں - وہ بولی آپ کو واش روم جانے کی ضرورت نہیں جب بھی آپ کوحاجت محسوس ہو تو مجھے بتائیے گا میں پیمپر لگا دوں گی ‘ آپ بستر پر ہی فارغ ہو جائیں-پیمپر کےنام سے ہی اسے وحشت ہو رہی تھی اس لیے وہ چپ ہو رہا- لیکن تھوڑی ہی دیرمیں وہ واپس آ گئ اور اس کے پاس بہت سے پیمپر تھے - وہ کہنے لگی کہ دیکھیں آج ڈاکٹر نے صبح آپ کو قبضکشا گولیا ں بھی دی ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ آج آپ کو اجابت ہو جائے یہ آپ کے پیٹ کی حالت درست کرنے کے لیے ضروری ہے اس لیے آپ پیمپر لگوا لیں تا کہ جب بھی آپ کو ضرورت محسو س ہو تو دقت نہ ہو- ہو سکتا ہے کہ عین ضرورت کے وقت اسے آنے میں دیرہو جائے-و ہ بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اسے تسلی دے رہی تھی اور کہہرہی تھی کہدیکھیں آپ اس وقت میرے لیے ایک بچے کی مانند ہیں-اور یہی کہتےکہتے اس نے پیمپر لگادیا-وہ آنکھیں بند کیے لیٹا رہا اور سوچتا رہاکہ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے بیماری اسے کس طرح مجبور اورلاچارکر کے رکھ دیتی ہے - اس لیے وہ جوصحت مند ہیں انہیں ہر ہر لمحے صحت کا شکر ادا کرتے رہنا واجب ہے -
لیٹ کر اجابت کرنا کوئی آسان کام تو ہے نہیں -یہی اس کے ساتھ ہوا- فراغت تو رہی تھی لیکن ناکافی البتہ پیمپر خراب ہو جاتاتھا اور وہ ہر با ر آتی بالکل ایک ماں کی طرح صفائی کرتی اور پیمپر بدل جاتی - شام تک اسےتین بار ایساکرنا پڑا اور اس دوران نہ تو اس نے کسی ناگواری کا احساس ہو نے دیا اور نہ ہی کسی کر اہت کا‘ بلکہ مریض کو اس طرح تسلی دیتی رہی کہ اسے بالکل بھی بوجھ محسوس نہ ہو-
بے بسی اور پچارگی کی صحیح تصویر دیکھنی ہو تو ہسپتالوں خصوصاً ان کے آئی سی یو وارڈکو ضرور وزٹ کرنا چاہیے - اس عالم بے بسی میں جب کہ اپناکوئی بھی پاس نہیں ہوتا تو نرسوں کے نرم الفاظ مریض کی جس طرح ڈھارس بندھاتے ہیں اور اس کو جس طرح حوصلہ دیتے ہیں اس کووہی جان سکتا ہے جو اس طرح کے حالات سے گزرا ہو-
اس سے قبل جب اسے اس ہسپتال شفٹ کیا جا رہا تھا تو ایمبولینس میں اس کے ساتھ تین نرسیں آئی تھیں اور سارا راستہ وہ باتیںبھی کرتی آئی تھیںکہ مریض کا دل پریشان نہ ہو-نرسوں کا یہ رویہ اسی ہسپتال سے خاص نہ تھا- دو سال قبل بھی اسے ایسی ہی ایک نرس سے واسطہ پڑا تھا جب وہ ایک ہسپتال میں دل کے سٹریس ٹیسٹ کے لیے گیا تھا- اس ٹیسٹ میں چونکہ مشین پر ایک خاص وقت کے لیے دوڑنا پڑتا ہے اور ویسے بھی اس ٹیسٹ سے وہ پہلی بار گزر رہا تھا اس لیے اسے بہت ٹینشن ہو رہی تھی- لیکن مشین روم میں موجود فلپائنی نرس بہت ہی مہربان ثابت ہوئی وہ مسلسل باتیں کرتی جارہی تھی اور اسے ہمت دلا رہی تھی تا کہ وہ مقررہ وقت تک دوڑ جاری رکھ سکے اور ٹیسٹ مکمل ہو جائے-وہ کہہ رہی تھی کہ آپ میرے فادر کی طرح ہیں -وہ بھی دل کے مریض ہیں اور فلپائن میں اکیلے ہی ہوتے ہیں- میں روزگار کی مجبوری سے یہاں ہوں جب بھی ان کی عمر کےکسی مریض کودیکھتی ہوں تو مجھے ابا یاد آ جاتے ہیں- وہ کہہ رہی تھی کہ اگر میں یہاں مریضوںسے اچھا سلوک کروں گی تو گاڈ میرےاباکے لیے وہاں کوئی اچھا بندوبست کر دیں گے-کیسی ہی اچھی نیت تھی اس نرس کی - اس نے سوچا کہ اگر ساری نرسیں پروفیشنلزم کے ساتھ ساتھ اصلاح نیت کا کام بھی کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ آخرت میں وہ بھی رفیدہ اسلمیہ کی ساتھی بن جائیں جن کے ٹینٹ میں حضورﷺ نے سعد ابن معاذ جیسے جلیل القدر صحابی کو مرہم پٹی کے لیے بھیجا تھا-
آج بھی ‘وہ جب کسی نرس کو دیکھتا ہے تو اسے رحبہ کے وہ دن یا د آ جاتے ہیںاوروہ دل ہی دل میں ان نرسوں کے لیے دعا کیا کرتا ہے اور یہ بھی سوچتا ہے کہ کیسا مقدس پیشہ ہے ان کاجس میں ان کوبے لوث دعائیں ملاکرتی ہیں- لوگ چل کر نیک لو گوںکےپاس دعا کروانے جاتے ہیں جبکہان کی دعائیں خود چل کر ان کے پاس آجاتی ہیں-