دین و دانش
احادیث اور عصمت رسولﷺ
قاری حنیف ڈار
کامران کے والد رائل انڈین ائیر فورس میں کیپٹن تھے۔ جب بھی چھٹیاں ملتیں تو وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو لے کر کسی پر فضا مقام کی طرف نکل جاتے،اللہ کا دیا بہت تھا اور وہ اسے اولاد پر خرچ کرنا واجب بھی سمجھتے تھے۔
ہندوستان میں بھی کامران نے کئی دفعہ ہاتھیوں کو جنگلات میں کام کرتے دیکھا تھا،جہاں وہ نہ صرف بڑے بڑے درختوں کو اپنی سونڈ کی گرفت میں لے کر جھٹکے سے نکال لیتے،موٹی موٹی ٹہنیوں کو توڑ دیتے، بلکہ اپنے پیچھے لادے گئے منوں وزنی درختوں کو بڑے آرام کے ساتھ ادھر سے ادھر گھسیٹ کر لے جاتے ۔مگر ایک دفعہ جب کہ وہ کینیا میں ایک سیاحتی ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے، جس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک ہاتھی رسے کے ساتھ ایک ہلکے سے کھونٹے سے بندھا ہوا تھا،اور آرام سے چارہ کھا رہا تھا۔ کامران کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح لپکا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔بڑے بڑے درختوں کو اکھاڑ پھینکنے والے اس ھاتھی کو یہ ہلکا سا کھونٹا کھینچ لینے میں دیرہی کتنی لگے گی؟ اور اس کے بالکل سامنے ہمارا کیبن ہے ، سب سے پہلے تو یہ ہم کوہی نشانہ بنائے گا۔ ڈر کے مارے ساری رات اس کی آنکھ نہ لگی،وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھتا اور کھڑکی کے پردے کی جھری سے ہاتھی کی حرکات کو بغور دیکھتا کہ وہ غصے میں تو نہیں صبح کامران کی حالت نیند اور سر درد کی وجہ سے غیر تھی والد صاحب نے اسے پیناڈول کی دو گولیاں کھلا دیں اور سونے کا کہہ دیا۔ دوپہر کو کھانے کے لئے جب کامران کو جگایا گیا تو اس نے کھانے کے دوران اپنے ابا سے مطالبہ کر دیا کہ وہ یہاں سے کہیں اور شفٹ ہو جائیں یا واپس ہندوستان چلیں ، وہ اب یہاں سو نہیں سکے گا۔کامران کے والد چونک گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ غالباً تم کل رات کو بھی نہیں سوئے تھے اسی وجہ سے صبح تمہاری یہ حالت تھی۔ کامران نے والد کی بات سنی اور کھانا چھوڑ کرہاتھ دھونے چلا گیا،واپس آ کر اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ تھوڑا کیبن کے باہر تک چلیں گے؟اکرام صاحب اٹھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ باہر چل دیئے۔ باہر نکل کر کامران انہیں سیدھا اس کھونٹے کے پاس لے آیا جس سے رات ہاتھی بندھا ہوا تھا، اور کہا ابا جان آپ نے دیکھا ہے ہاتھی دن بھر کتنے درخت ایک جھٹکے سے زمین سے اکھاڑ لیتا ہے اور کتنی موٹی موٹی ٹہنیاں گنے کی طرح توڑ لیتا ہے اگر وہ اس ہلکے سے کھونٹے کو معمولی سا جھٹکا بھی دے تو یہ کھونٹا فوراً باہر نکل آئے گا،پھر یہ ہاتھی اس کیبن اور اس کے مکینوں کا کیا حال کرے گا؟ کیا اس کے مالکوں کو اس کا احساس نہیں؟
بیٹے کی بات سن کر کیپٹن صاحب اسے لے کر کیبن میں واپس آ گئے اور پھر چائے پیتے ہوئے اس سے گویا ہوئے، دیکھو یہ جتنے کام کرنے والے ہاتھی ہیں وہ ہندوستان میں ہوں یا کینیا یا کسی اور ملک میں،یہ کوئی جنگل سے پکڑ کر کام پر نہیں لگائے گئے ، جنگلی ہاتھی سے مرضی کا کام لینا یا اسے کام پر مجبور کرنا ناممکن ہے۔ یہ شکل و صورت اور قوت میں تو ہاتھی ہیں مگر اصل میں نہیں۔ ان کو بچپن میں جبکہ وہ چند دنوں کا ہوتا ہے،پکڑ کر اس کمزور سے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے،وہ بہت زور لگاتا ہے، مگر وہ اس کلے کو نہیں اکھاڑ سکتا۔اسے تین دن تک نہ تو کھانے کو کچھ دیا جاتا ہے اور نہ پینے کو۔ وہ گڑگڑاتا ہے،دردناک آوازیں نکالتا ہے، مجبورہو کر اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے۔ اپنے دماغ میں آنے والاہر آئیڈیا آزماتا ہے مگر یہ کھونٹا اس سے ہلتا تک نہیں بے بسی کے ان تین دنوں کے دوران اس بے بس اور کمزور بچے کے دل و دماغ میں یہ خیال بڑی شدت کے ساتھ جم جاتا ہے کہ یہ کھونٹا مجھ سے طاقتور ہے اور اسے توڑنا ناممکن ہے۔اس سے صرف میرا مالک ہی میری جان چھڑا سکتا ہے ۔بس یہ ہاتھی اس دن سے اپنے اس خیال کے ساتھ بندھاہوا ہے ۔یہ اس رسی کو توڑ سکتا ہے مگر خیال کی اس قوی زنجیر کو زندگی بھر نہیں توڑ سکتا جس کے ساتھ وہ حقیقت میں بندھا ہے۔ جب اسے کھونٹے سے باندھا جاتا ہے تو طاقتور ہاتھی کے اندر سے وہی کمزور اور بے بس بچہ نکل کر اس کھونٹے سے بند جاتا ہے۔ بات کامران کی سمجھ میں آگئی اور چھٹیاں گزارنے کے بعد حسب معمول ساری فیملی ہندوستان واپس آگئی ۔تھوڑے ہی عرصے بعد برطانیہ نے ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ائیر فورس نے اپنے افسروں اور جوانوں کو اختیار دیا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ملک کی سروس جائن کر سکتے ہیں۔ کیپٹن اکرام نے پاکستان کو ترجیح دی اور ایک دن ساری فیملی ائیر فورس کے طیارے میں کراچی منتقل ھو گئی۔ اکرام صاحب نے پاک ائیرفورس میں سروس مکمل کی،انہیں چار کنال پر محیط ایک کوٹھی راولپنڈی میں الاٹ ہوئی اور دو مربع زمین بہاولپور میں الاٹ ہوئی۔ کامران اپنے بھائی کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے امریکہ چلا گیا جبکہ اکرام نے مزید سروس کے لئے سعودی ائیر فورس جوائن کر لی۔دونوں بیٹوں کی تعلیم مکمل ہوئی،دونوں کی شادیاں ہو گئیں اور دونوں بیٹے بھی سعودی عرب منتقل ہو گئے۔ اللہ نے کامران کو دو بیٹوں سے نوازا چونکہ بچوں کی والدہ اور والد دونوں امریکن پاسپورٹ ہولڈر تھے، دونوں بچوں کو بھی امریکن شہریت مل گئی۔ جن میں سے ایک کوانگلش میڈیم اسکول سے او لیول کے بعد ایک دینی مدرسے میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسرا اے لیول کے بعد امریکن یونیوسٹی میں انجئیرنگ کے لئے داخل عو گیا، آٹھ سال کے بعد بڑا بیٹا عالم بن کر گھر آ گیا،جبکہ دوسرا انجینئر بن کر فارغ ھو چکا تھا۔
ایک بیٹا جو امریکن یونیورسٹی میں سے فارغ ہو کر آیا،اسے وہاں کسی امریکن کلاس فیلو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو اور ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ ایسا مواد ہاتھ لگا جس پر عقل اور منطق کے لحاظ سے کچھ اعتراضات اٹھتے تھے،جو اس نے بڑے ہلکے انداز میں اپنے بڑے بھائی سے ڈسکس کیئے،کہ آپ عالم بن کر آئے ہو تو ان کا کوئی جواب دو جو میں اس ساتھی کو دے کر مطمئن کروں اور خود بھی مطمئن ہوں چھوٹے بھائی نے یہ بات نہ تو بدنیتی سے کی تھی نہ وہ اپنے نبی کے بارے میں کوئی شک رکھتا تھا۔اسے شک یہ تھا کہ بیان میں غلطی کی گئی ہے۔ میرا بھائی مجھ سے بڑا اور زیادہ سمجھدار بھی ہے نیز وہ اس فیلڈ کا عالم بھی ہے تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔مگر بڑے اور عالم بھائی نے اسے ضرورت سے بھی زیادہ سیریس لے لیا اور والدین کو بتایا کہ چھوٹا بھائی مرتدہو گیا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتا ہے اور منکرِ حدیث ہو گیا ہے۔ بات بڑھ گئی بڑے بھائی نے کہا کہ اگر یہ اس گھر میں رہے گا تو پھر میں نہیں رہوں گا،وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹا حیران تھا کہ یہ ایک علمی بحث تھی،اس کو بھائی نے فتوی کیوں بنا دیا؟ کامران اپنے والد سے ملنے گیا جو اس کے سامنے کی سڑک پر اس کے بالمقابل بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رھائش پذیر تھے۔ اور تازہ تازہ ریٹائرڈ ہوئے تھے،ان کی طبیعت ناساز تھی اور یہی سن کر کامران ان کا پتہ کرنے گیا تھا۔تجربہ کار باپ نے بیٹے کے چہرے پر چھائی پریشانی کو بھانپ لیا اور پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ کامران نے ساری صورتحال ان کے گوش گزار کر کے کہا کہ سوچ رہا ہوں کہ کراچی کسی بڑی جامعہ میں چھوٹے کو لے جاؤں، شاید وہ اس کو مطمئن کر دیں۔ کیپٹن اکرام مسکرائے اور بولے،وہ مسئلے کا جزو ہیں، مسئلے کا حل نہیں۔ یادہے کینیا کی وہ رات جب تم ہاتھی کے ڈر سے ساری رات نہیں سوئے تھے کہ وہ کمزور سا کھونٹا توڑ کر ہمارے کیبن کو روند ڈالے گا؟ میں نے تمہیں کیا بتایا تھا؟وہی واردات ان علماء کے ساتھ ہوئی ہے،ان کو بچپن میں سارا زور لگا کر اس خیال کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا ہے کہ راوی کا کھونٹا اتنا قوی ہے کہ اس کو کوئی مائی کا لعل نہیں ہلا سکتا۔ ان کے القابات اور ڈیل ڈول مت دیکھو، ان کے جج ہونے اور مفتی ہونے کو مت دیکھو، یہ جب بھی راوی دیکھتے ہیں تو ان کے اندر کا بچہ نکل کر راوی کے کھونٹے سے بندھ جاتا ہے۔ یہ لوگ خیال کی زنجیر سے بندھے ہیں،علم ان کا کچھ نہیں بگاڑتا۔یہ راوی کے زور پر قرآن میں تبدیلی کر سکتے ہیں ، موجود کو معطل کر سکتے ہیں ناموجود کو موجود کر سکتے ہیں، نبییوں کے بارے میں یہود سے بھی بڑھ کر گند بیان کر سکتے ہیں۔ملک کے کروڑوں شہریوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے سکتے ہیں،ریاست کے خلاف خروج کو جہاد قرار دے سکتے ہیں،نہیں کر سکتے تو صرف راوی کو'' نہ '' نہیں کر سکتے کیونکہ راوی کا کلہ قرآن سے بھی مضبوط ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ چھوٹے کوبات سمجھنے میں ان سے کوئی مدد مل سکتی ہے،بلکہ مجھے خدشہ یہ ہے کہ وہ اس کو مایوس کر کے ارتداد کے رستے پر ڈال دیں گے۔اس کے لئے جنگل کا اصلی ہاتھی چاہئے،جسے کھونٹے پہ زور نہ لگوایا گیا ہو،اور وہ ہر معاملے کو راوی کی بجائے قرآن حکیم کی نظر سے دیکھ سکتا ہو
اس زمانے میں نیٹ ابھی عام نہیں تھا، اور پاکستان میں تو اس کا تصور تک نہیں تھا۔کامران نے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیا اور عازمِ پاکستان ہوا،پاکستان میں اس کی ملاقات ایک عالم سے ہوئی،جس نے دونوں باپ بیٹے کو دو دن اپنے یہاں رکھا اور بہت مدلل انداز میں بات سمجھائی، الحمد للہ وہ لڑکا آج بھی ایک باعمل مسلمان ہے اس عالم کے کہے کو مختصر کر کے بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہے۔
تبلیغِ شریعت نبیﷺ کی ذمہ داری تھی،اور دین چونکہ عامۃ الناس کی امانت ہے لہذا تبلیغ میں عموم کا اعتبار ہے،یعنی جو بات دین یا شریعت سے متعلق ہو گی وہ لازماً نبیﷺ نے مجمع عام میں بیان کی ہوگی۔ کسی خاص بندے سے کی گئی بات ترغیب و ترہیب تو ہو سکتی ہے یا اس متعلقہ راوی کی کسی نفسیاتی گرہ کو سامنے رکھ کر اس کو کی گئی نصیحت تو ہو سکتی ہے مگر وہ شریعت نہیں ہو سکتی۔ جو صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے،انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ اپنی پرائیویٹ گفتگو کبھی لوگوں سے شیئر ہی نہیں کی،یہی وجہ ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو نبیﷺ کے ساتھ کئی دن غار میں رھے اور ایک ماہ کے لگ بھگ سفر ہجرت میں ساتھ رہے،اور اس سارے عرصے کی گفتگو کا ایک لفظ امت سے بیان نہیں کیا۔کیا اس سارے عرصے میں نبیﷺ نے اپنے ساتھی سے کوئی بات نہیں کی تھی؟ اس کے علاوہ ایمان لانے کے بعد دن رات نبیﷺ کے ساتھ سایہ بن کر رھنے والی ہستی اگر پچاس حدیثیں بیان کرتی ہے تو اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ تبلیغ کی اصل قرآن ہے جو نبیﷺ کی دعوت اور انذار اور تبشیر کا اصلی نصاب ہے نیز یہی حال عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا ہے کہ ان سے بھی پچاس سے بھی کم روایات مروی ہیں۔ اس کے علاوہ اگلا اصول جسے سب سے پہلے خلیفہ اول نے اپنایا اور میراث کے معاملے میں مغیرہ ابن شعبہ کو حدیث بیان کرنے پر دوسرا گواہ لانے کو کہا
جب کہ یہی اصول خلیفہ ثانی نے مسئلہ استیئذان میں ابو موسی الاشعری کے ساتھ اپنایا کہ انہیں دھمکی دی کہ دوسرا گواہ پیش کرو ورنہ تم پر جھوٹ کی سزا نافذ کروں گا۔ اگر اسی اصول کو اپنایا جاتا اور ہر صحابیؓ سے اپنی بات کی صداقت کے لئے دوسرا صحابی مانگا جاتا، پھر جب صحابی کی بات دوسرے صحابی کی گواھی پر قبول کی جائے گی،تو تابعی کی حدیث بھی دوسرے تابعی کی گواھی سے ہی قبول کی جائے گی کیونکہ صحابی ان سے عادل تھے اور عادل اکیلے کی حدیث خلفاء نے قبول نہیں کی،تو تابعی اکیلے کی کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟اور اسی طرح تبع تابعی بھی ثقہ تبع تابعی کی گواہی لائے گا، تو حدیثوں کی تعداد بھی کم ہوتی اور جوہوتیں وہ شریعت سے متعلق ہوتیں۔ جونہی خلافت کی گرفت کمزور ہوئی،اور ابوبکرؓ و عمرؓ کی اختیار کردہ پالیسی کو نرم کیا گیا، احادیث کا سیلاب آ گیا حضرت ابوھریرہؓ کے یہاں ہی رش نہیں ٹوٹتا تھا،جبکہ پہلے دو خلفاء کے زمانے میں یہی ابوھریرہؓ دائیں بائیں دیکھ کر حدیث سنایا کرتے تھے کیونکہ انہیں عمر فاروقؓ نے دھمکی دی ہوئی تھی کہ اگر آپ نے یہ مجمع لگانے کا سلسلہ بند نہ کیا تو ایک توآ پ کو سزا دی جائے گی دوسرا آپ کو مدینہ بدر کر دیا جائیگا
حضرت عثمانؓ کی نرم پالیسی سے خود ان کے زمانے میں وہ احادیث وجود پا گئیں جو خود ان کے خلاف بغاوت کا سبب بن گئیں جس قدر تضاد ان احادیث میں نبیﷺ کی زندگی کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ تو عام آدمی کی زندگی میں بھی پایا جائے تو انسان مشکوک ہو جاتا ہے۔ جیسی جیسی باتیں نبی ﷺ سے منسوب ہیں، ان پہ تو نہ راویوں نے عمل کرنا مناسب سمجھا نہ آج ان کو پڑھانے والے عمل کرنا گورا کرتے ہیں۔
نبیﷺ اور آپ کے گھرانے (سلام اللہ علیہم اجمعین) والوں کے لئے اللہ پاک نے قرآن میں ایک خاص اصول بیان فرمایا ہے جو سورہ نور میں واقعہ افک کے بعد بنایا گیا۔سب سے پہلے تو چار گواھوں کا مطالبہ کیا گیا جو کہ عام مسلمانوں کے لئے ایک شرط ہے،مگر پھر اس کے بعد فرمایا کہ جب بات نبی اور ان کے گھر والوں کی آئے تو راوی اور ان کی ثقاہت سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، ان سے منسوب کسی بھی برائی کے لئے ایک ہی کلمہ امت کو سکھایا گیا جو جواباً کہنا ہے '' سبحانک ھذا بہتان عظیم '' نہ کہ راویوں کی تحقیق شروع کی جائے۔ یہ وہ اصول تھا جسے محدثین نے نظر انداز کیا اور امت کو فتنے میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔احادیث پر نظرثانی ہونی چاہئے،جس کے لئے نئے اصول وضع کیئے جائیں اور دو خلفاء ابوبکرؓ و عمرؓ کا اختیار کردہ اصول اپنایا جائے۔ وہی حدیث شریعت قرار دی جائے جسے مجمع عام کے سامنے بطورِ شریعت بیان کیا گیا ہو ۔ وہی حدیث قبول کی جائے جس میں دوسرا صحابی راوی کی گواہی دے۔ وہ احادیث مکمل طور پر رد کی جائیں جن میں نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی سے ایسے عمل کو منسوب کیا گیا ہو جسے
عام آدمی کا ضمیر بھی کرنے سے حیا کرے۔
ایسی احادیث کو قطعی رد کر دیا جائے جو قرآن کے خلاف ہوں، اور قرآن کے خلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے خود قرآن کو تختہ مشق نہ بنایا جائے اور نہ اس کی تاویلیں کر کے حدیث کے سامنے جھکایا جائے،بلکہ
حد یث کوہی مندرجہ بالا اصولوں پر چیک کیا جائے۔ اگر علماء اس ذمہ داری سے کوتاہی برتتے ہیں، تو عوام الناس کا ضمیر جس حدیث کا بوجھ نہیں اٹھاتا، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے نبیﷺ اس کردار کے حامل نہیں ہو سکتے تو وہ ان احادیث کو ایک لمحہ بھی برداشت نہ کریں اور اسے رد کر دیں، اس لئے کہ دین کی تبلیغ میں مصطفیﷺ کا کردار ایک جوھری حیثیت رکھتا ہے، ان کو عیب دار کر کے،ان کے امیج کو نقصان پہنچا کر کبھی بھی دین کی تبلیغ یا ترویج نہیں کی جا سکتی۔
***
دین اور لباس
لباس کا اصل تعلق موسم سے ہوتا ہے موسم کے لحاظ سے کسی علاقے کے لوگ جو لباس پہننے لگ جاتے ہیں، وہ وہاں کا کلچر ہو جاتا ہے ۔پھر ہر علاقے میں کچھ لباس روز مرہ اور کام کاج کے مطابق ہوتے ہیں، کچھ لباس تقریبات، جرگے اور پنچایت کے لیے مختص ہوتے ہیں۔عرب اپنے موسم کے لحاظ سے تہمد پہنتے تھے، جیسا کہ ہمارے ہاں پنجاب اور سندھ میں یہی لباس مقبول ہے جس کی بڑی وجہ اس کا ہوادار ہونا ہے ۔عربوں نے دوسری اقوام سے اختلاط کے باعث اور جنگوں میں تہمد کی خوش مزاجی کے باعث شلوار اور پائجامہ پہننا شروع کر دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جنگی لباس کے طور پر پائجامہ متعارف کروایا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یورپی چغہ زیب تن فرمایا۔ ہمارے ہاں علماء کرام اور عرب میں شیوخ مساجدمیں جو گاؤن پہنتے ہیں یہ یورپ کے پادریوں کا لباس تھا، وہاں سے مسلم مشائخ نے لیا۔اسلام جب سنٹرل ایشیا کے یخ بستہ کرے میں داخل ہوا تو یہاں تہمد باندھنا خود کشی کے مترادف تھا۔موسمی ضرورت کے تحت لوگ گرم لباس پہنتے تھے ۔آج بھی روس کے صدر اور وہاں کی کسی بھی مسلم ریاست کے شیخ الاسلام کا ایک ہی لباس ہے ۔جو لوگ صلیب کی حقیقت سے واقف نہیں وہ نکٹائی کو صلیب کی علامت قرار دے کر حرمت کا فتوی دینے میں کوتاہی نہیں کرتے حالانکہ مولانا کے گلے کا رومال اور مری ایبٹ آباد والوں کے گلے کا مفلر اور کسی بھی شخص کے گلے کی ٹائی ایک ہی شے ہے بس سلیقے کا فرق ہے۔ مغربی لباس درحقیقت محنت کش طبقے کا لباس ہے جس میں نقل و حرکت آسان ہوتی ہے اور صلحاء کا لباس نئی نویلی دلہنوں کی طرح بھاری بھر کم ہوتا ہے جس میں حرکت آسان نہیں ہوتی۔(طفیل ہاشمی )
24Mohammad Iftikhar Tabassum, Nasir Ali and 22 others
5 comments