جب کوئی شریف انسان اپنے شریک حیات سے اپنے خاص دنوں (جیسے شادی کی سالگرہ وغیرہ) میں فیس بک پر اظہار محبت کرتے ہوئے کچھ اس طرح لکھتا ہے، ’’جب سے تم میری زندگی میں آئے/آئی ہو میری زندگی جنت بن گئی ہے، میں تم سے شدید محبت کرتا/کرتی ہوں، میری جان تمھارا شکریہ‘‘ وغیرہ وغیرہ اور لوگ اس پر کامنٹ کرتے ہیں ’’آآآؤ‘‘ یا زبردست یا مبارک ہو وغیرہ تو میرے ناخواندہ ذہن میں خیال آتا ہے، یہ بیچارے اتنے مجبور ہیں کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے، اپنے خاص دن بھی ایک دوسرے سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار تک نہیں کر پاتے اور لوگ زبردست لکھ رہے ہیں، مبارک دے رہے ہیں جبکہ اُن کو تو ہمدردی کی ضرورت ہے-
میں یقیناً کہیں کوئی غلطی کر رہا ہوں -پھر وہ محبت کرنے والے والدین ۔ اُف، اس پر تو لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ بچارے کس طرح اپنی ہی اولاد سے آن لائیں محبت کا اظہار کرتے ہیں اور پھر کوئی بیچ میں ٹپک پڑتا ہے اور اس پر کامنٹ کرنا شروع کر دیتا ہے میں اپنی نادانی میں سوچتا ہوں کہوں، او بھائی/بہن، برائے مہربانی کم از کم والدین کو اُن کی اولاد سے ابھی تو اکیلے بات کرنے دو۔ شاید ان کے درمیان بس اتنا ہی تعلق بچا ہو-میں یقیناً کوئی بڑی غلطی کررہا ہوں-
سوچو ذرا، اگر کوئی اپنے شریک حیات یا بچے کو فون کرتا ہے، تو کیا ہم درمیان میں آکر اُن کو تنگ کرتے ہیں، جواب دیتے ہیں؟ نہیں نا، یہ اُن کے گھر کا معاملہ ہے ہم کیوں بیچ میں کودیں۔اور مجھے اتنی بھی سمجھ نہیں کہ میں کھانے اور ناشتے کی تصاویر لگانے کے پیچھے حکمت کو سمجھ سکوں۔ مجھے یقین ہے اس میں تو ضرور کوئی بہت اہم بات ہوگی۔ پھر کچھ افراد لکھتے ہیں، گھر والوں کے ساتھ بہترین وقت گزار رہا / رہی ہوں” یا “یہ میرا فیملی ٹائم ہے” وغیرہ ۔ میں نادان سوچتا ہوں لکھوں ’’نہیں یہ وقت آپ سوشل میڈیا پر دوسروں کو بتانے میں لگا رہے ہیں، اگر واقعتا آپ اپنی فیملی کے ساتھ ہوتے تو یہ پوسٹ نہیں کرتے‘‘
میں بار بار غلطی کرتا ہوں -پھر کچھ دوست نظر آتے ہیں جو اللہ تعالی سے دعا آن لائن مانگتے ہیں۔ میں اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں-مجھے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے تقریباً نو سال سیلز کا کام کیا تھا۔ اس وقت میں نے ایک چیز سیکھی۔ وہ یہ کہ، جب کوئی شخص بہت ڈینگیں مارتا ہو کہ اس کہ پاس کتنا زیادہ پیسہ ہے اور وہ کتنا امیر ہے تو اس سے بچو، وہ دراصل مالی طور پر بہت بری حالت میں ہے جس کے پاس واقعی ہوتا ہے وہ بتاتا نہیں پھرتا-۱۹۹۷ سے لوگوں کے ساتھ کوچنگ اور ٹریننگ کراتے کراتے میں نے اس بات کو بار بات سچ پایا۔جس کے پاس واقعی ہوتا ہے وہ شور نہیں کرتا، وہ اس کے کردار میں جھلکتا ہے۔ ’’وہ‘‘ جو بھی ہو پیسہ، سکوں، محبت کچھ بھی۔
خالی پیٹ شخص لوگوں کو پُکار پُکار کر اپنی بھوک کا کہتا پھرتا ہے؛ آپ نے کسی پیٹ بھرے کو بلاوجہ کہتا نہیں سنا ہوگا کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔
جذبات کی بھوک بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔
بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ مجھے اپنی پرانی دقیانوسی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور امید ہے میں بھی سوشل میڈیا پر کچھ ڈھنگ کی بات اور تصاویر لگا سکوں -
تب تک کے لئے، اگر آپ کی کسی محبت بھری پوسٹ پر میں نادانی میں کوئی کامنٹ کردوں تو معاف کر دیجئے گا-