یہ سوال میرے ذہن میں ہر وقت رہتا تھا کہ وہ اللہ جو ان بچوں کو ٹھیک بھی پیدا کر سکتا تھا اس نے ان کو کیوں معذور پیدا کیا۔ کئی علما سے بات کی مگر وہ اس کا کوئی ایسا جواب نہیں دے سکے جو مجھے مطمئن کر سکے۔ ایک دن ڈاکٹر رضوان صاحب نے لکھا کہ گمان ہے ان بچوں نے عالم ارواح میں اللہ سے جنت مانگی ہوگی اور جنت اتنی سستی تو نہیں۔ اسکی قیمت میں یہ اس مسلسل تکلیف سے گزر رہے ہوں گے کہ اس کے عوض ابدی جنت کی بادشاہی لے سکیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر جب وہاں جائیں گے تو ہی دیکھیں گے کہ راز یہاں تو کھل نہیں سکتے۔
اب والدین کی طرف آتے ہیں کہ وہ بھی تو ان بچوں سے ڈبل تکلیف میں ہوتے ہیں ان کا دل ہر لمحہ کٹ رہا ہوتا ہے۔ اکثر والدین کے ہاں کوئی خوشی ، خوشی نہیں رہتی، زندگی میں کوئی رونق نہیں رہتی۔ جو بظاہر مضبوط ہوں دل میں کہیں نہ کہیں تو درد ہوتا ہی ہے۔ سب کے سامنے نہ سہی اکیلے میں آنکھیں تو وہ بھی نم کرتے ہی ہونگے۔ اس دنیا میں اولاد کے دکھ سے بڑا شاید ہی کوئی دکھ ہو۔ اور جب ایک بچہ آپ کے سامنے بستر مرگ پر پڑا زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا ہو تو آپ جتنے بھی بہادر ہوں ٹوٹ جاتے ہیں۔ کہ ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے ۔ دس ایسے بچوں کی اسی 2021 میں وفات ہوئی ہے جن سے میں رابطے میں تھا یا جن سے ابھی میری بات یا ملاقات ہونا تھی۔ اور کئی ابھی اسی لائن میں لگے ہیں کہ آج گئے یا کل۔
دیکھیں میری محدود عقل و شعور کے مطابق آزمائش صرف تکلیف نہیں ہوتی۔ آسانی بھی آزمائش ہوتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ بچے والدین کی آزمائش ہیں۔ ہم ایسا کہہ کر وقتی مطمئن ضرور ہوجاتے ہیں۔ مگر والدین کو اس جان لیوا تکلیف سے کیوں گزارا جا رہا ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ میں بڑا اکھڑ مزاج سا زمیندار تھا۔ بیوی سے کبھی ہنس کر بات نہیں کی تھی ہر وقت غصے میں رہنا اور اسے ڈانٹ دینا۔ جب اللہ نے سپیشل بچہ دیا تو مزاج ہی بدل گیا۔ ہم میاں بیوی دوست بن گئے جو میرے اپنے لیے اس دنیا کا آٹھواں عجوبہ تھا۔ اللہ نے مال و دولت کی بھی فراوانی کر دی۔ گاڑیاں نوکر چاکر عام ہوگئے کہ میں نے سوچا مجھے اس بچے کے لیے اور اس جیسے دیگر بچوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ان بچوں کا ہمارے گھر پیدا ہونا ہمیں ان چیزوں سے بچا رہا ہوتا ہے جو شاید ہم ان کے نہ ہونے سے کر رہے ہوتے۔ یعنی غیب تو وہی ذات جانتی ہے اور وہ ہمیں ہم سے زیادہ جانتی ہے تو اس نے کسی مصلحت کے تحت ہی مخصوص معذوری کے بچے ہمیں دیے۔ میرے مطابق یہ کوئی آزمائش نہیں بلکہ ایسا کرکے ہمیں کسی بڑی آزمائش و مشکل سے بچا لیا گیا ہے۔ یہ نہ ہوتے تو ہم شاید سرکش ہوجاتے، خدا کا انکار اس دنیا میں سب سے زیادہ لوگ کرنے لگے ہیں۔ ہم شاید وہ نہ کرتے مگر اسکی نعمتوں کا انکار کر کے ناشکری سے اسے ناراض کر لیتے۔ دل میں جو ایک چنگاری ہر وقت سلگتی رہتی ہے وہ تو ولیوں کے دل میں زندگیاں لگا دینے کے بعد سلگا کرتا تھی۔ اس سے ہی تو ہم روشنی کر سکتے ہیں اپنی زندگی میں اور اس دنیا کے اندھیروں کو ختم کرنے میں۔
ان دیکھی دنیا میں ان بچوں کی پرورش پر اجر ہوگا ہی۔ اس دنیا میں بھی اجر ہے جو ہم شاید دیکھ نہیں پا رہے۔ یا اسے حاصل نہیں کر پا رہے۔ یا ہماری سوچ اس زاویے پر جا کر سوچتی نہیں۔
پوری دنیا میں سپیشل بچوں پر کام کرنے والے سب سے زیادہ لوگ دیگر سپیشل بچوں کے والدین ہی ہیں کہ وہ اس راز کو پا چکے ہیں اپنے بچے کے ساتھ دوسرے ایسے لوگوں کے بچوں کی بھی مدد کرنا ہے جو مالی و جذباتی طور پر ہم جیسے نہیں ہیں۔ یعنی یہ بچے ہمیں اس دنیا میں آنے کا ایک مثبت و تعمیری مقصد دینے کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ ان کو ایک مشکل یا آزمائش سمجھنا اور آزمائش کے ختم ہوجانے کی دعا کرنا میرے نزدیک تو مناسب نہیں ہے۔ یہ خدا کی کائنات ہے وہ کوئی شے بھی بلا مقصد نہیں پیدا کرتا۔ اپنے تئیں غور کیجیے کہ اسنے آپ کو سپیشل بچہ کیوں دیا؟ آپ سے کیا اور کونسا بڑا کام وہ ذات لینا چاہتی ہے؟ آپ اس پوشیدہ راز کو جیسے ہی سمجھ گئے تو آپ کے دل کو سکون مل جائے گا۔ ان بچوں کو مصیبت نہ سمجھیں روئیں دھوئیں نہیں بلکہ اس خدا کی منشا کو سمجھیں۔ جو تھوڑا سا غور کرکے آپ یقیناً سمجھ جائیں گے۔ پھر یہ بچہ آزمائش نہیں لگے گا۔ بلکہ اللہ کی رحمت لگے گا۔ یہ تو میری رائے ہے۔