ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کا برگزیدہ رسول مانتے ہیںان کی تکریم کرتے ہیں، ان پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں. یہ سب ہمارے ایمان کا حصہ ہے. نہ کریں تو مسلمان ہونے کا دعوئ خام ٹھہرتا ہے.لیکن کیا یہ سب کرنے سے ہم عیسائی بن جاتے ہیں ؟ ایسا نہیں ہےکیونکہ عیسائی بننے کے لیے چند دیگر عقائد کی ضرورت ہے جن کے ہم مکلف نہیں-بالکل اسی طرح محرم کی دس تاریخ کو واقع ہونے والے سانحہ کے متعلق دو ٹوک رویہ اور خود کو کو خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بلا کم و کاست کھڑے رکھنا نہایت اہم ہے-محض اس لیے نہیں کہ نواسہ رسول اور ان کے خاندان والوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا بلکہ اس لیے بھی کہ جانبین میں کوئی تقابل ہی نہیں، نہ کردار کا، نہ بصیرت کا اور نہ ہی نسب کا-
جو دوست یزید کو کچھ رعایت دینا چاہتے ہیں وہ یہ ضرور دیکھیں کہ یزید نے رعایت کے لیے کوئی ابہام باقی رہنے دیا ؟ بالفرض کربلا کا اسے علم نہیں تھا تو جنہوں نے مکہ اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی وہ لشکر بھی اس کی لاعلمی میں روانہ کر دیے گئے؟ جو قتل و غارت حرمین کی حدود میں ہوا وہ کیا شبہ باقی رکھتا ہے کہ کربلا کے صحرا میں کیا کچھ نہ ہؤا ہو گا- جنہیں خدا کے گھر اور نبی کی مسجد کی حیا نہ آئی انہیں لق و دق میدان میں کس بات کا پاس ہو سکتا تھا ؟اس میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ جو کسی بھی مصلحت کی وجہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ نہیں گئے ان کی کربلا خود چل کر مکہ و مدینہ پہنچ گئی- امام حسین اپنی ذات کے لیے یزید کے خلاف نہیں نکلے تھے‘ دین میں فتنہ کی سرکوبی کے لیے گھر سے باہر آئے- تنہا رہ گئے تو صرف ان کے قافلے والے ہی نہیں مارے گئے، وہ وبال ان پر بھی آ کر رہا جو پیچھے رہ گئے- وہ تو خدا نے ہی یزید کا ہاتھ روک لیا ورنہ وہ تو معلوم نہیں اسلامی تاریخ میں لہو کے اور کتنے باب بڑھا دیتا-حضرت امام حسین اور یزید کے متعلق ہمیں
قطعیت کے ساتھ غیر متزلزل ہونا چاہیے. یہ بحیثیت مسلمان اور نبی کریم کے امتی ہمارا فرض ہے- اہل بیت اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بے لاگ حمایت سے کوئی شیعہ نہیں بن جاتا اور نہ ہی ان کی حمایت صرف شیعہ کی ذمہ داری ہے-شیعہ ہونے کے لیے کچھ دیگر عقائد بھی ہیں، باقی مسلمان جن کے مکلف نہیں. اس لیے ایسا کوئی "خدشہ" درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے سے نہ روک دے !