من الظلمت الی النور
میں نے اسلام کیسے قبول کیا
پرمود کمار ( ماسٹر محمد اسلم)
سوال : السلام علیکم
جواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ برکاتہ‘
سوال : آپ کی تعریف ؟
جواب : میرا نام محمد اسلام ہے ، دیوبند کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں ، میرا پرانا نام پرمود کمار ہے ایک مذہبی جاٹ گھرانے کا فرد ہوں، اب سے ساڑھے سات سال قبل میں نے اسلام قبول کیا ، الحمد للہ میں نے بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے ۔
سوال : اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں ؟
جواب : میرے تین بھائی ایک بہن ہے ، والد ین حیات ہیں ۔جب میری عمر چھ سال کی تھی میرے والد نے سنیاس لے لیا تھا۔ وہ گنگا کے کنارے ایک بڑا آشرم چلاتے تھے۔ ہندو مذہب کے بڑے گیا نی اور عالم رہے ہیں ، اس کے علاوہ خاندان میں چچا تائے اور پھر بھیاّ وغیرہ ہیں ، ہمارا خاندان بڑا خاندان ہے ۔
سوال : آپ نے کہا کہ آپ کے والد ہندو مذہب کے بڑے گیانی رہے ہیں کیا اب نہیں ہیں ؟
جواب : الحمد للہ اب توانھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے ۔
سوال : اپنے قبول اسلام کا حال سنائیں ؟
جواب : حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے جیسا کہ ہمارے حضرت فرماتے ہیں کہ جس طرح انسان کے پیٹ کو بھوک و پیاس لگتی ہے اورپانی اور کھانے کے بغیرآدمی بے چین رہتا ہے اسی طرح انسان کی روح اس کی آتما کو دین اسلام خصوصاََ توحید خالص کی تلاش اور بے چینی رہتی ہے، مجھے بچپن ہی سے خیال آتا تھا کہ جس مالک نے اس دنیا کو بنایا ہے اس تک کس طرح پہنچا جائے۔ بہت سے دھرم گروؤں سے میں بات کرتا تھا مگر اطمینان نہ ہوتا تھا ، ایک حافظ صاحب سے میرا رابطہ ہوا میں نے ان سے بھی اس طرح کے سوالات کئے انھوں نے اسلام کے بارے میں مجھے بتایا جو مجھے اچھا لگا۔ سب سے زیادہ اسلام کی پاکی کا نظام مجھے بے حد پسند آیا ۔ مجھے خیال آتا تھا کہ پیشاب، پاخانہ ایسی گندی چیزیں ہیں کہ آدمی جہاں پر یہ ہوں وہاں کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا۔ جب یہ پیشاب انسان کے کپڑوں اور جسم کو لگے گاتو انسان کیسے (پوتر)پاک ہوسکتا ہے اور مالک تو بڑا (پوتر) پاک ہے وہ ناپاک انسان کو کیسے مل سکتا ہے ۔ پاکی کی اس چاہت اور پسند کے ذریعے میرے اللہ نے میرے دل کو کفر وشرک سے پاک کردیا اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ حافظ صاحب مجھے پھلت حضرت کے پاس لائے، پھر میں نے چار مہینے، جماعت میں لگائے اور خوب محنت سے دین سیکھا۔ پھر حضرت مولانا نے مجھے چانچک ضلع جمنا نگر بھیج دیا ، وہاں مدرسے میں میں نے قرآن شریف، تجوید اور دینیات پڑھی اور بچوں کو پڑھایا ، اس کے بعد دوسال سے پھلت میں ہوں ۔
سوال : قبول اسلام کے بعد آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟
جواب : ایک آدمی جب اپنا سب کچھ چھوڑ کر نئے ماحول میں آتا ہے تو اس کو پریشانی تو ہوتی ہی ہے مجھے بھی اس سے واسطہ پڑا، کئی بار کئی کئی روز تک فاقہ کرنا پڑا میرے لئے سب سے تکلیف کی بات مسلمان بھائیوں کے سوالات اور ہر آدمی کا انٹرویو لینا تھا ۔ مگر ان سب کے باوجود میں نے جس قیمتی ایمان کو قبول کیا تھا اس کے لئے یہ پریشانیاں کوئی زیادہ نہیں لگیں ۔
سوال : سنا ہے آپ ایک بار غصے میں آکر کہیں چلے گئے تھے پھر آپ کے دوبارہ آنے کا کیا ذریعہ بنا۔
جواب : اپنی نا سمجھی اور کچھ لوگوں کے مسلسل سوالات سے تنگ آکر میں گڑگاؤں ایک عیسائی مشن میں چلا گیا تھا۔ اصل میں میری غلطی یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے تو میرے مسائل کا حل کرنا مسلمانوں کے ذمہ ہے اور قبول اسلام کو میں شیطان کے بہکاوے میں مسلمانوں پر احسان سمجھنے لگا تھا ، مگر میرے اللہ کا کرم تھا کہ میرا عقیدہ ٹھیک رہا گو میں ظاہر میں عیسائی مشن سے جڑ گیا تھا وہاں کے حال کو دیکھ کر بھی مجھے اسلام کی قدر بڑھی اور سب سے زیادہ میرے حضرت کی ماں سے زیادہ ممتا اور شفقت بلکہ ان کی روحانی توجہ مجھے مقناطیس کی طرح کھینچتی رہی ۔ میں وہاں بے چین رہتا تھا اور پھر بلا اختیار مجھے پھلت آنا پڑاکھتولی آکر میں نے حضرت کو فون کیا ، حضرت نے پھلت بلایا ۔ میں نے اپنا حلیہ بدل لیا تھا مجھے شرم آرہی تھی مگر حضرت نے مسجد میں بلایا اور جامع مسجد میں گلے لگا کر خوب روئے اور مجھے سمجھایا، دوزخ کی آگ کا خوف دل میں بٹھایا اور مجھے کہا کہ تمہاری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ایمان کو تم مسلمانوں پر احسان سمجھ رہے ہو۔ حضرت نے کہا کہ اگر ایک انسان کسی ڈوبتے آدمی کو یا آگ میں جلتے آدمی کو اس پر ترس کھاکر ڈوبنے یا آگ سے میں جلنے سے بچالے اور اس کو وہاں سے نکال لے اور ڈوبنے اور جلنے سے بچنے والا آدمی اس سے یہ کہے کہ تم نے میری جان بچائی اسلئے اب میرے سارے مسائل آپ کو حل کرنے ہیں میری روٹی کپڑے اور ساری ضروریات کا انتظام آپ کو کرنا ہے ، تو اس آدمی کی کیسی غلط بات ہے ۔ الحمدللہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے صلوٰۃالتوبہ پڑھی ۔
سوال : اسلام میں آکر آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟
جواب : اسلام میں آکر میں اللہ کابڑا شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے جب بھی اپنے ایمان کا خیال آتا ہے تو مجھے اپنے اللہ کے سامنے سجدے میں گرنے کو جی چاہتا ہے اور اس خیال سے کہ کہیں مجھے میرے اللہ نے ہدایت نہ دی ہوتی اور حضرت کے پیار و محبت کی وجہ سے میں عیسائی مشن سے نہ نکلتا اور اس میں میری موت آجاتی تو کیا ہوتا ؟ اور میرا رواں رواں کھڑا ہوجاتا ہے ، جیسادیکھئے اس وقت ہورہا ہے ۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَاوَمَاکُنَّالِنَھْتَدِیَ لَوْلَااَنْ ھَدَانَا اللّٰہ
سوال : آپ نے فرمایا کہ آپ کے والد نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے ان کے قبول اسلام کا کچھ حال بھی سنایئے ؟
جواب : ہمارے حضرت نے میرے خاندان کے بارے میں معلوم کیا جب میں نے ان کے سنیاس لینے اور آشرم کا حال بتایا تو انھوں نے مجھ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کو کہا ، ہمارے حضرت کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر نو مسلموں کو کار دعوت پر نہ لگایا جائے تو ان کا پریشانیوں سے گھبرا کر مرتد ہونے کا خطرہ رہتا ہے انھوں نے مجھے والد صاحب کے پاس جانے کے لئے کہا اور مولانا عمران مظاہری کو میرے ساتھ بھیجا ۔ہم آشرم پہنچے، تو میرے والد نے پہچان لیا مگر وہاں کے ماحول کی وجہ سے اظہار نہیں کیا۔ ہم نے ان کے گرو کا حوالہ دیا جس کو بہانہ بنا کر شفقتِ پدری میں انھوں نے ہماری بہت خاطر کی چلتے وقت دونوں کو سو سو روپئے بھی دئے اور پھر آنے کو کہا ۔ ہم لوگ پھلت آئے تو حضرت نے کا رگزاری سنی اور اس پر افسوس کیا کہ آپ نے دعوت کیوں نہیں دی اور دوبارہ جانے کو کہا اور پھلت کی دعوت دینے کو کہا ۔ ہم دوبارہ گئے اور دعوت تو دینے کی ہمت نہ ہوئی پھلت کے لئے وعدہ لیا اور حضر ت کی کتا ب ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دے کر آگئے ، انھوں نے ایک ہفتے بعد آنے کا وعدہ کر لیا۔
ایک ہفتے بعد میں ان کو لینے گیا ، شروع میں ماحول سے مانوس کرنے کے لئے ان کو چانچک مدرسے میں رکھا دوروز بعد پھلت پہنچے، وہ آپ کی امانت کتاب سے بے حد متاثر تھے اور حضر ت سے ملنے کو بے چین تھے۔ رات کو ایک بجے حضرت سفر سے آئے، صبح آٹھ بجے حضرت سے ملاقات کی۔ میرے والد کو حضرت نے دیر تک گلے لگایا ، پھر تنہائی میں باتیں کیں اور تھوڑی دیر کے بعد خوشخبری ملی کہ میرے والد نے کلمہ پڑھ لیا ہے ۔ ہم لوگوں نے تفصیلات معلوم کیں، تو حضرت نے بتایا کہ میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے دعا کی اور پھر ان سے کہا کہ آپ ماسٹر اسلام کے والد ہونے کی وجہ سے میرے بھی والد کی طرح ہیں ۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ آپ انجانے میں ایک ایسے راستہ پر جارہے ہیں جہاں آگ کا الاؤ جل رہا ہے اور آپ اس میں کسی وقت بھی گر کر جل جائیں گے تو میرا کیا حال ہوگا انھوں نے کہا کہ آپ بڑے دکھ میں رہیں گے۔ تو میں نے عرض کیا کہ جب مجھے یقین ہے کہ ایمان کے بغیر (مکُتی )نجات نہیں اور موت کا کچھ پتا نہیں کون سا سانس آخری ہوتو مجھے کس قدر تکلیف ہوگی ۔ انھوں نے کہا بے شک بہت تکلیف ہوگی ، میں عرض کیا کہ بس آپ کے اختیار میں ہے یا تو ایمان قبول کر کے ہمیں چین دلادیں یا اس طرح تڑپتا چھوڑ دیں۔ انھوں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا ، میں نے تو آپ کی امانت پڑھ کر طے کر لیا تھا کہ مجھے ایمان لانا ہے ، مجھے بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جب ان کی کتاب پڑھنے میں ایسا آنند (مزہ ) اور پریم ملا ہے توان سے ملنے میں کیا آنند ( مزہ ) ہوگا۔
میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی مہان آتما ہے جو ایشور نے دھرتی والوں کے اودّھار کے لئے بھیجی ہے ، اب اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ مجھے مسلمان کرلیں اور میں بھی مسجد میں اللہ اللہ کروں ، دوسری صورت یہ ہے کہ میرے ساتھ بہت سے لوگ میرے شاگرد ہیں جو مجھ سے اس لئے جڑے ہیں کہ ان کو شانتی کا سچا راستہ بتاؤں گا ان کا بھی حق ہے میں مسلمان ہوجاؤں مگر ابھی ظاہر نہ کروں اور وہاں جاکر اپنے لوگوں سے کہوں کہ گنگا کی ترائی میں ہماری صحت اچھی نہیں ہے اب ہم پہاڑوں کے پاس اچھی آب و ہوا میں آشرم بنائیں گے ،پھر ان کو بھی ساتھ لائیں اور ان کو سچائی بتائیں۔
آپ جیسا کہیں ویسا ہوگا، میں نے ان سے کہا یہ صورت بہت اچھی ہے ، پہلے آپ کلمہ پڑھ لیں انھوں نے کلمہ پڑھا اور عبداللہ نام تجویزہوا ۔ الحمدللہ ۔
سوال : پھر اس کے بعد ان کا کیا ہوا؟
جواب : حضرت کے درد نے ان کو شکار کرلیا۔بار باروہ حضرت کے گلے لگتے تھے ، انھوں نے حضرت سے کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ہندی کا قرآن دلوادیں، میں نے قرآن پڑھا ہے مگر اس وقت میں نے مسلمانوں کا دھرم گرنتھ سمجھ کر پڑھا تھا، اب میں اس لئے پڑھنا چاہتا ہوں کہ میرے مالک مجھ سے کیا کہتے ہیں ، اس کے بعد وہ آشرم چلے گئے ۔ اپنے دوچیلوں کے ساتھ وہاں پر کچھ دن جمنا نگر کے مدرسہ میں رہے۔
ان کے دونوں چیلوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، ایک چیلے کی بات آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ ساڈھورہ میں ایک ہندو نائی کے یہاں اپنی جٹائیں (بال)کٹوانے کیلئے پہنچا، تونائی نے کہا کہ کیا تمہارے سر میں جوں ہوگئی ہیں ، اس نے کہا نہیں ، نائی نے معلوم کیا تو پھر بال کیوں کٹوارہے ہو اس نے بغیر جھجک کے کہا کہ اصل میں میں مسلمان ہوگیا ہوں اور شرک اور کفر کی ہر چیز کو میں ختم کرنا چاہتا ہوں اس لئے جٹائیں (بال) کٹوارہا ہوں ۔
افسوس ہے کہ ابھی میرے والد کے لئے کسی جگہ کا نظم نہیں ہوسکا ، مگر الحمد للہ وہ بہت مضبوط ہیں اور بے چین ہیں ، قرآن شریف پڑھتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں ۔
سوال : جزاکم اللہ آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں پر کام کیا اور اس کے کیسے اچھے اثرات ہوئے ۔
جواب : میرے حضرت نے مجھے متوجہ کیا، شروع میں میرے گھر والے مجھ سے نفرت کرتے تھے، مگر جب میں نے ان کے لئے دل سے ہدایت کی دعا کی اور ہمدردی میں دعوت کی نیت کی تو حالات بدل گئے ، اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی داعی کے ساتھ غیبی مدد آتی ہے اور اللہ راستے کھولتے ہیں ہم فضول میں ڈرتے ہیں ۔اب سب رشتے داروں کے یہاں میرا آنا جانا ہے، وہ میرا بہت احترام کرتے ہیں، غور سے بات سنتے ہیں بلکہ ایک طرح کی عقیدت سے ملتے ہیں، اپنے دنیوی مسائل میں دعا کو کہتے ہیں۔ میں نے حضرت کی کتاب آپ کی امانت ان کو دی کچھ لوگ بہت قریب ہوگئے ہیں مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ان میں سے بہت لوگ اسلام قبول کرلیں گے ، ان میں بعض لوگ بہت پڑھے لکھے اور بڑے عہدوں پر ہیں ۔
سوال : آپ پھلت میں دن رات مسجد اور دعوت سے جڑے رہتے ہیں یہ جذبہ آپ میں کس طرح پیدا ہوا؟
جواب : میرے حضرت کا صدقہ ہے، انھوں نے ہمارے دل میں یہ بات بٹھائی کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد دعوت اور دین کی خدمت ہے، روز گار اور دوسری چیزیں زندگی کی ضروریات ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ بزرگوں کی بستی پھلت ایک اسلامی بستی بن جائے، تاکہ لوگ یہاں آکر ہی اسلام کو جان لیں اور قبول کریں ۔
سوال : آپ مسلمانوں کے لئے کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب : میں حقیر آدمی پیغام تو کیا دے سکتا ہوں،بس میں اپنے بھائیوں سے درخواست کرسکتا ہوں ، ایک درخواست یہ ہے کہ پیارے نبی ﷺ آخری حج کے موقع پر سب کو وصیت کرکے گئے کہ فَلْیُبَلِّغْ اَلشَّا ھِدُ الْغَاءِبْ یہ دین ہر غائب شخص تک پہنچادیا جائے۔
ختم نبوت کے بعد یہ کارِدعوت اسلام کی سب سے بڑی شان کے طور پر ہمیں ملا ہے اور اس کام میں غفلت اور ایمان کو لوگوں تک نہ پہنچانے کی وجہ سے ہمارے حضرت کے بقول ہر منٹ میں تین سو تیرہ ہمارے بھائی کفر اور شرک پر مرکر ہمیشہ کی آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اگر نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ ہم سے دشمنی کرتے ہیں تو اس سے ان کا حق ختم نہیں ہوتا ۔ ہماری ترقی اور نجات کا واحد راستہ دعوت ہے ۔ ہمارے نبی ﷺ سے عشق کا دعویٰ اور آپ کی ایک پیار بھری وصیت اور آخری نصیحت اور خواہش کا ہم نے خیال نہ رکھا یہ بہت دکھ کی بات ہے
دوسری درخواست یہ ہے انسان ایک سماجی جاندار ہے اسے جینے کے لئے ایک سماج کی ضرورت ہے ، ایک نو مسلم کو اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت کرکے اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے ، اس کو بڑے سہارے اور گلے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگل بیابان میں وہ لوگوں اور مسلمان بھائیوں کا سہارا تکتا ہے ہر نئے آنے والے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ وقتی طور پر کچھ مدد کرکے کچھ صدقہ خیرات دیکر اس کو بھکاری بنانا یا اس کی عادت بگاڑنا ٹھیک نہیں اگر ایک مسلمان بھائی مدینے کی مواخاۃ کا نمونہ بن کر ایک مہاجر بھائی کی فکر کو اوڑھ لے اس کو قرض دے کر یا شرکت کرکے اس کو پیروں پر کھڑا کرانے کی کوشش کر ے تو اس کے خاندان کو دعوت دینا آسان ہوجائے ۔ اس کو تسلّی بھی ہوگی اس کے لئے کچھ روز ہمارے حضرت کے ساتھ آکر محبت اور مامتا سیکھنی چاہئے۔
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان فروری ۲۰۰۳ ء