کیا آپ چالیس برس کے ہوگئے؟ یا ہونے والے ہیں؟اگر ہاں تو دیکھیے قرآن آپ کو ایک دعا کی تلقین کررہا ہے-
اس برس ہم اور ہمارے کئی ساتھی شمسی اعتبار سے چالیس برس کے ہوئے- یقین ہے کہ یہاں موجود ہمارے متعدد قارئین بھی اس برس چالیس برس کے ہوئے ہوں گے- کچھ ایک دو برس پہلے ہوچکے ہوں گے اور کچھ ہوا چاہتے ہوں گے- ایسے حضرات کی خدمت میں ایک قرآنی دعا حاضر ہے جو قرآن نے چالیس برس کے انسانوں کے لیے تعلیم فرمائی ہے اور وہ یہ ہے:
رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْکرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَی وَعَلَی وَالِدَی وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَا وَأَصْلِحْ لِی فِی ذُرِّيَّتِی إِنِّی تُبْتُ إِلَيْکَ وَإِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
یا رب! مجھے تو فیق دیجئے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی اور ایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہو جائیں، اور میرے لئے میری اولاد کو بھی صالح بنادیجئے۔ میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں، اور میں فرماں برداروں میں شامل ہوں ۔
سورۂ احقاف کی آیت نمبر 15 میں اللہ تعالی نے راہنمائی فرمائی ہے کہ جب بندہ کی عمر چالیس برس ہوجائے تو وہ اس دعا کا اہتمام کرے.ظاہر ہے کہ اس دعا کا اہتمام بھی کرنا ہے اور اس دعا پر تدبر کریں تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمر میں پہنچ کر انسان کو اپنی زندگی میں ان چند کاموں کو نہایت اہمیت کے ساتھ شامل کرلینا چاہیے جن کو اللہ تعالی سے مانگنے کی تعلیم اس دعا میں دی گئی ہے یہ ذیل میں درج چند کام ہیں:
1. اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا شکر جن سے اللہ نے اس کو اور اس کے والدین کو نوازا ہے.
2. اللہ کو خوش کرنے والے نیک اعمال کی زیادہ سے زیادہ کرنے کی فکر.
3. اولاد کے نیک وصالح ہونے کی فکر.
4. اپنے گناہوں کی توبہ واستغفار کا معمول.
5. بقیہ زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارنے کا عزم اور فیصلہ.
اب جب کہ جوانی رخصت ہورہی ہے داڑھی اور سر کے بالوں پر بڑھاپے نے دستک دے دی ہے یہ دعا بھی بکثرت مانگنی
ہے اور ایسی زندگی گزارنے کی کوشش بھی کرنی ہے جس میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ہو نیک اعمال کی کثرت ہواولاد کو نیک وصالح بنانے کی فکر ہو اور جو توبہ واستغفار سے آباد ہو.
اللہ توفیق عطا فرمائے تو یہ کچھ مشکل نہیں. اور اس کے بعد اللہ کی تیار کردہ وہ جنتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں ہی کے لیے تیار کی ہیں۔