اکثر لوگ تقدیر کے معاملے پر بڑے پریشان نظر آتے ہیں، چند باتیں اس حوالے سے معلوم ہوں تو معاملہ آسان ہوجائے۔لفظ تقدیر کی جڑ قدر ہے۔ یعنی اندازہ۔ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو انسان لگاتا ہے۔ مثلاً روز دفتر آنے جانے کی وجہ سے ایک شخص اندازہ لگاتا ہے کہ اگلے روز بھی وہ ۳۰ منٹ میں اپنے گھر سے دفتر پہنچ جائے گا۔ یہُ اندازہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہوگا۔ ممکن ہے ٹھیک ہو لیکن ممکن ہے جب وہ گھر سے نکلے تو کوئی حادثہ پیش آجائے، ٹریفک جام ہو، گاڑی خراب ہو جائے وغیرہ۔اب اس کا لگایا ہوا اندازہ غلط ہوجائے گا۔ مگر ایک وہ اندازہ ہے جو اللہ تعالی نے لگایا ہے جو اس کے کامل علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے، جس میں خطا ناممکن ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا کون سا بندہ کس راستے پر چلے گا اور اس کا انجام کیا ہوگا۔
ایک عالم دین سے ایک بہت عمدہ مثال سنی تھی۔ سوچو ایک بڑی شاہراہ پر تین گاڑیاں ایک ہی مقام سے ایک ہی دوسرے مقام کی طرف سفر کرتی ہیں۔ راستہ ۲ گھنٹے لمبا ہے۔
پہلی گاڑی ۱یک بجے دوسری دو بجے اور تیسری تین بجے روانہ ہوتی ہے۔یعنی جس وقت تیسری گاڑی نکلتی ہے، پہلی گاڑی اپنی منزل پر پہنچ چکی ہوگی اور دوسری گاڑی آدھے راستے پر ہوگی۔اب اس شاہراہ کا سفر پہلی گاڑی کے لئے ماضی ہے۔ دوسری گاڑی کے لئے آدھا ماضی ہے اور آدھا مستقبل جبکہ تیسری گاڑی کے لئے پورا راستہ مستقبل ہے۔لیکن ایک ہیلی کاپٹر جو شاہراہ کو اوپر سے دیکھ رہا ہے اس کے لئے اُن گاڑیوں کا ماضی حال اور مستقبل سب سامنے ہے۔ اگرشاہراہ پر ٹریفک جام دیکھ کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھا شخص کہتا ہے کہ دوسری گاڑی آدھے گھنٹے بعد ٹریفک میں پھنس جائے گی، (جبکہ اس دوسری گاڑی والے کو جام ابھی نظر بھی نہیں آرہا) تو یہ اس کا اندازہ ہے۔
اب سوچو جو رب اپنے عرش پر ہے اس کے لئے ہمارا ماضی، حال اور مستقبل کا درست اندازہ لگانا کتنا آسان ہے۔
بحثیت مسلمان ہم تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں، جو اللہ تعالی نے اپنے کامل علم کی بنا لکھ رکھا ہے وہ ہی ہوگا۔ اور اس میں جو بھی ہے، خیر اس ہی میں ہے۔ اس میں شر نہیں، گو کہ وہ ہماری خواہش کے مطابق نہیں؛ اللہ کی حکمت کے مطابق ہے۔ ایک اہم نقطہ یہ ہے، کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالی نے ہماری تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ کیا معلوم اگر اس نے لکھا ہو کہ اگر میرا بندہ فلاں کام کرے تو اسے کامیابی ہوگی اور اگر فلاں کام کرے گاتو ناکامی۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بندہ کام کیا کرے گا، مگر اس نے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بندے کو دے دیا ہے۔
قرآن مجید میں سورہ آلمائدہ کی آیت نمبر ۲۱ کے ترجمے کا مفہوم ہے۔موسی علیہ سلام نے کہا، ’’اے میری قوم اس پاک زمین میں داخل ہو جاؤ جو الله نے تمہارے لیے مقرر کر دی اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نقصان میں جا پڑو گے‘‘اس سے تو معلوم یہ ہی ہورہا ہے کہ تقدیر میں کیا مقرر ہے اس کا دارومدار بندے کے اعمال پر ہے۔ اگر بنی اسرائیل حکم مانتے تو ۱۰۰ فیصد کامیاب ہوتے مگر انہوںنے اپنے حصہ کا کام نہ کیا؛ اور اللہ کے غضب کے (اور اپنے نقصان کے) مستحق ہوگئے۔اب آپ کو اور مجھے تو یہ علم نہیں کہ ہماری تقدیر میں کیا ہے، البتہ ہم کو اللہ تعالی نے جو معمولی علم اور عقل دی ہے اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم تدبیر اور حتی الامکان عمل کرسکتے ہیں۔ جو بھی نتیجہ ہو اس کو تقدیر سمجھ سکتے ہیں۔ امید ہے بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔