بھونچال

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2021

ایک صاحب سے بات ہورہی تھی۔ ۲۰ سال پہلے وہ معمولی مکینک تھے۔ اب وہ تقریبا دو درجن مشینوں کے مالک ہیں۔ ان کے کئی کارخانے چل رہے ہیں۔ میں نے ایک ملاقات میں کہا: آپ نے ماشاء اللہ اپنے کاروبار میں کافی ترقی کی ہے۔ انھوں نے خوشی اور اعتماد کے لہجہ میں جواب دیا: اتنی کمائی کرلی ہے کہ بچے کچھ نہ کریں تب بھی وہ سو سال تک آرام سے کھاتے رہیں گے۔یہ ایک انتہائی مثال ہے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں ہر آدمی کا یہی حال ہو رہا ہے۔ ہر آدمی اپنے اپنے دائرہ میں یہی یقین لئے ہوئے ہے کہ اس نے اپنے معاملات کو درست کرلیا ہے۔ اسے اب کسی خطرہ کی ضرورت نہیں۔ کم ازکم "سو سال" تک کو بالکل نہیں۔
کوئی اپنے بڑوں کو خوش کر کے مطمئن ہے۔ کسی کو یہ فخر ہے کہ اس نے اپنے قانونی کاغذات کو پکا کر لیا ہے۔ کسی کو اپنے قابل اعتماد ذریعہ معاش اور اپنے بنک بیلنس پر ناز ہے۔ کوئی اپنے بازوؤں کی قوت اور اپنی داداگیری پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ کسی کے پاس کچھ نہیں تو جس کے پاس ہے وہ اس سے خوشامد اور مصلحت کا تعلق قائم کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے بھی ایک چھتری حاصل کرلی ہے، اب اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔مگر بھونچال جب آتا ہے تو اس قسم کے تمام بھروسوں کو باطل ثابت کر دیتا ہے بھونچال کے لئے پکے محل اور کچی جھونپڑیوں میں کوئی فرق نہیں۔ طاقت ور اور کمزور دونوں اس کے نزدیک یکساں ہیں وہ بے سہارا لوگوں کو بھی اسی طرح تہس نہس  کردیتا ہے جس طرح ان لوگوں کو جو مضبوط سہارا پکڑے ہوئے ہیں۔ بھونچال یہ یاد دلاتا ہے کہ اس دنیا میں آدمی کس قدر بے بس ہے۔
یہ بھونچال خدا کی ایک پیشگی نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ ہر ایک کے لئے بالآخر کیا ہونے والا ہے۔ بھونچال ایک قسم کی چھوٹی قیامت ہے جو بڑی قیامت کا پتہ دیتی ہے۔ جب ہولناک گڑگڑاہٹ لوگوں کے اوسان خطا کر دیتی ہے۔ جب مکانات تاش کے پتوں کی طرح گرنے لگتے ہیں۔ جب زمین کا نچلا حصہ اوپر آجاتا ہے اور جو اوپر تھا وہ نیچے دفن ہو جاتا ہے۔ اس وقت انسان جان لیتا ہے کہ وہ قدرت کی طاقتوں کے آگے بالکل عاجز ہے۔ اس کے لئے صرف یہ مقدر ہےکہ بےبسی کے ساتھ اپنی بربادی کا تماشہ دیکھے اور اس کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکے قیامت کا بھونچال موجودہ بھونچال سے اربوں اور کھربوں گنا زیادہ سخت ہو گا۔ اس وقت سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے۔ ہر آدمی اپنی ہوشیاری بھول جائے گا۔ عظمت کے تمام منارے اس طرح گر چکے ہوں گے کہ ان کا کہیں وجود نہ ہو گا۔ اس دن وہی سہارے والا ہوگا جس نے موجودہ چیزوں کو بے سہارا سمجھا تھا۔ اس دن وہی کامیاب ہوگا جس نے اس وقت خدا کو اپنایا تھا جب سارے لوگ خدا کو بھول کر دوسری دوسری چھتریوں کی پناہ لئے ہوئے تھے۔