زندگی دیتا ہے جینے کی ادا دیتا ہے
نکتہ سنجوں کو وہی ذہن رسا دیتا ہے
کینوس اس کی زمین اور فلک دونوں ہیں
وہ کہیں رنگ کہیں نور سجا دیتا ہے
اس کو معلوم ہیں تخلیق کے اسرار و رموز
قطرۂ آب پہ تصویر بنا دیتا ہے
پر طاؤس کو رنگوں سے مزین کر کے
رقص کا شوق بھی اس کے دل میں جگا دیتا ہے
اس کو زیبا ہے کہ ہر شہ میں ہو جلوہ اس کا
چشم پر آب کو آ ئینہ بنا دیتا ہے
میں تو وقف نہیں اس دشت کی بستی سے ابھی
دور سے کون بھلا مجھ کو صدا دیتا ہے
شمع نے ہاتھ اٹھائے ہیں اٹھائے رکھئے
مانگنے والوں کو حد سے سوا دیتا ہے