میرے والدین کے لیے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ اجنبی نہ تھا۔ میں نہیں جانتی کہ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کے بارے میں امریکہ کا رویہ بلا تفریق رنگ و نسل کیوں معاندانہ اور مخالفانہ ہے۔ میری زبان سے یہ سننے کے بعد کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں، میرے والدین کو بے حد تعجب ہوا، خاص طور پر میری ماں کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ میرے لیے اس کا یہ ردعمل بہت پریشان کن تھا۔ میں اسے ایک مظلوم عورت سمجھتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے مسلمان ہونے پر زیادہ واویلا نہ کرے گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔ میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزا کے ساتھ ساتھ لاپروائی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی اورمیری ماں مسلسل بولتی جا رہی تھی۔ آج جب وہ منظر مجھے یاد آتا ہے تو میں بے اختیار مسکرا دیتی ہوں، لیکن اس وقت میرا رد عمل کچھ مختلف تھا۔ میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کچھ جلدی کر دیا ہے، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے ایمان میں کوئی کمی تھی، بلکہ یہ کہ میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک میں مسلمانوں کے پورے طور و اطوار باطنی و ظاہری طور پر اپنا نہیں لیتی، تب تک اسلام لانے کا اعلان نہ کروں گی۔ اس لمحے میں خاصی جذباتی ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے مسلمان ہونے کا ذکر بڑے جوش اور جذبے سے کر دیا۔ میرے والد بڑبڑاتے ہوئے باہر چلے گئے۔ میری والدہ مجھے سمجھانے لگیں۔’’ممی!‘‘ میں نے کہا: ’’جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔ میں جو قدم آگے بڑھا چکی ہوں، وہ پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔‘‘ میری ماں نے اور زیادہ شدت سے مجھے سمجھانا بجھانا شروع کر دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت بلاوجہ ضائع کر رہی ہیں، میں مسلمان ہو چکی ہوں اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ میری والدہ نے سوچا شاید میں ضد کر رہی ہوں یا جذباتی ہو گئی ہوں۔ انھوں نے اپنا طویل لیکچر ادھورا چھوڑا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔
میں مسلمان کیوں ہوئی؟
یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے پوچھی ہے اور میں کئی بار جواب دے چکی ہوں۔ اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب بڑے سکون اور اطمینان سے دینا چاہیے۔ میرے گھریلو حالات، امریکہ میں کالوں کی مجموعی حالت اور اس سے بھی زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا۔ اس کی تفصیل بھی سن لیں۔ ایک اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی۔ چونکہ پولیو کی وجہ سے میں معذور اور اپاہج ہو چکی تھی اور سوائے مطالعے کے میرا کوئی شغل نہ تھا، اس لیے مجھے غور و فکر کی عادت پڑ گئی تھی۔ جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور رضاکار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی۔ میں سمجھتی یہ صرف ایک خبر ہے، جس میں صداقت نہیں ہے، لیکن پھر میں سوچتی کہ یہ خبر کس طرح جھوٹی ہو سکتی ہے اور کس حد تک جھوٹی ہو سکتی ہے؟میرے پاس میرے اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا، مگر اس زمانے میں میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہیے۔ میں نے کچھ کتابیں حاصل کیں اور پڑھنے لگی۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا۔ جب میں نے یہ کتابیں پڑھ لیں تو میرے دل میں قرآن پڑھنے کا خیال پیدا ہوا اور میں نے انگریزی میں ترجمۂ قرآن کا ایک نسخہ حاصل کر لیا۔ قرآن پاک کے اس ترجمے نے مجھے عجیب طرح کا روحانی سرور بخشا، جسے میں بیان نہیں کر سکتی۔ آج میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی شخص دلچسپی، انہماک اور لگن سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآن پاک کے مطالعے نے مجھے کئی دن بے چین رکھا۔ میرے دل میں ایک عجیب طرح کا جذباتی مد و جز پیدا ہو گیا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ اب میلکم ایکس سے ملوں، مگر وہ اس شہر سے بہت دور تھے۔ میں نے اخبار کے ذریعے یہ پتا چلایا کہ یہاں ہمارے شہر میں کون ایسا شخص ہے، جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے، اس کا پتا مجھے مل ہی گیا۔ میں نے اس شخص، محمد یوسف کو فون کیا اور ان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ دوسری طرف مجھے بڑی ہمدرد اورنرم آواز سنائی دی۔ محمد یوسف نے مجھ سے کہا کہ میں جس وقت چاہوں، ان سے مل سکتی ہوں۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں کل بعد دوپہر ان سے ملوں گی۔ وقت طے ہو جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔جب میں اگلے دن محمد یوسف سے ملنے گئی تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئے۔ میں نے ان کی پریشانی کے سبب کو بھانپ لیا۔ وہ کسی صحت مند اور توانا لڑکی سے ملنے کی توقع رکھتے تھے۔ جب انھیں وہیل چیئر میں بیٹھی ، حرکت سے معذور مجھ جیسی لڑکی دکھائی دی تو وہ کچھ پریشان ہو گئے، مگر میری مسکراہٹ اور خوش دلی نے ان کی پریشانی کو جلد ہی ختم کر دیا۔محمد یوسف میری ہی طرح تھے، حبشی۔ کبھی ان کا نام جان بلیگڈن تھا۔ اب وہ محمد یوسف جیسے خوب صورت نام کے مالک تھے۔ وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے۔ وہی مسجد میں نماز پڑھاتے اور وہی قرآنی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔ وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں بڑے غیر محسوس انداز میں انھوں نے مجھ سے میرے اور میرے کنبے کے بارے میں سب معلومات حاصل کر لیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے؟محمد یوسف مسکرا دیے، پھر انھوں نے دھیمے سے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا: ’’میں اس لیے مسلمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘ ان کا یہ جواب میں آج تک نہیں بھولی ہوں اور زندگی بھر نہ بھول سکوں گی۔ کیونکہ میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو سیدھے راستے پر لانا چاہتا ہے، اس کے دل میں اسلام کے لیے محبت پیدا کر دیتا ہے۔محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حبشیوں کے غریب اور نادار علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بچپن غربت اور افلاس میں گزارا۔ بڑے ہوئے تو وہ ایک ایسے ہوٹل میں ملازم ہو گئے، جہاں انھیں برتن مانجھنے کے لیے رکھا گیا تھا ، مگر ان سے ضروری کام اور بھی لیا جاتا تھا۔ انھیں کچھ پیکٹ دے دیے جاتے کہ وہ انھیں کسی جگہ پہنچا آئیں۔ اس کام کے عوض انھیں انعام میں ایک آدھ ڈالر مل جایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے جی میں آئی کہ اس پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہیے۔ جب انھوں نے کھول کر دیکھا تو اس میں انھیں حشیش ملی۔ انھوں نے حشیش مہنگے داموں میں بیچ دی اور ہوٹل واپس نہ گئے۔ مگر ہوٹل کی انتظامیہ نے انھیں ڈھونڈ نکالا۔ پیکٹ مانگا او رجب پیکٹ نہ ملا تو ان کی خوب پٹائی کی۔ وہ کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکے۔ اس واقعے کے بعد وہ گناہوں کی دنیا میں پہنچ گئے۔ تیس برس کی عمر تک انھوں نے ہر برا کام کیا۔ وہ عورتوں کی دلالی کرتے، قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے۔ ہیروئن اور دوسری منشیات کا خفیہ دھندہ کرتے کرتے خود بھی ان منشیات کے عادی ہو گئے۔ انھیں کئی بار سزا ہو چکی تھی، مگر وہ سزا کے خوف سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ ایک بار جب وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے۔ یہ رضا کار مسلمان تھے، جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ان کی تبلیغ سے محمد یوسف بے حد متاثر ہوئے اور ان کا جی چاہنے لگا کہ وہ باعزت اور بے فکر زندگی بسر کریں۔ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو خاصے بدل چکے تھے، مگر انھیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اس لیے انھوں نے یہی سوچا کہ اب پھر انھیں جرم کی زندگی بسر کر کے ہی اپنا پیٹ پالنا پڑے گا۔ وہی رضا کار جنھوں نے جیل میں ان کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ان سے ملے۔ انھوں نے ان کے لیے روزگار کا بندوبست کیا۔ کچھ نقد رقم دی، تاکہ جب تک انھیں تنخواہ نہیں ملتی، وہ اس رقم سے گزر اوقات کریں اور انھیں اپنے ساتھ رکھتے، یوں محمد یوسف جو کبھی جانی بلیگڈن تھے، مسلمان ہو گئے۔
اسلام کے ساتھ ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ایک برس میں انھوں نے کلام مجید عربی میں پڑھ لیا۔ اس راہ میں انھیں بہت سی دقتیں اور پریشانیاں آئیں، مگر وہ کسی پریشانی سے نہ گھبرائے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے بعد وہ اسلامی قواعد اور طرز زیست کو اپنانے میں کامیاب ہو گئے۔ چار سال کے بعد انھیں اس علاقے میں مسلمانوں کا امام مقرر کر دیا گیا۔ امام بننے کے بعد انھوں نے اپنی تگ و دو سے زمین کے لیے چندہ جمع کیا اور وہاں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرا دی۔ اس مسجد کی تعمیر میں خود انھوں نے او ردوسرے مسلمانوں نے حصہ لیا تھا۔ وہ خود مزدوری کرتے اور اس کا معاوضہ نہ لیتے تھے۔
میں محمد یوسف کی زندگی اور ان کی باتوں سے سے بے حد متاثر ہوئی اور ان سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ محمد یوسف صاحب نے پہلی بار مجھے بھرپور نظروں سے دیکھا اور بولے: ’’اللہ مبارک کرے، مگر مسلمان ہونا بہت مشکل ہے۔‘‘’’میں ہر مشکل پر قابو پا لوں گی۔‘‘’’الحمد للہ‘‘ انھوں نے کہا: ’’کیا تمھیں کلمہ اور نماز آتی ہے۔‘‘ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ انھوں نے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب دی۔ اس میں رومن حروف میں کلمہ اور نماز لکھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے: ’’ اسے یاد کر لو اور اگر ہو سکے تو سہ پہر کو میرے پاس تھوڑی دیر کے لیے آ جایا کرو۔ میں نے چند دنوں میں نہ صرف کلمہ اور نماز ازبر کر لی، بلکہ ان کے معنی بھی سمجھ لیے ۔ اس دوران میں محمد یوسف سے بھی ملتی رہی اور ان سے دین ِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی۔
جمعہ کا دن تھا، مسجد میں تمام مسلمانوں کے سامنے میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئی۔ میرا نام آمنہ رکھ دیا گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ کھانے کے ساتھ تھوڑی بہت شراب پینے کی جو عادت تھی، اس کو ترک کر دیا۔ میں سگریٹ بھی پی لیا کرتی تھی، اس کو بھی چھوڑ دیا اور مسلمان عورتوں جیسا لباس سلنے کے لیے دے دیا۔ میں سمجھتی تھی کہ جب میں مسلمان عورتوں کی طرح لمبے چغے میں اپنا جسم چھپاؤں گی اور سر کو بھی ڈھانپوں گی تو وہیل چیئر میں بیٹھی ہوئی خاصی مضحکہ خیز دکھائی دوں گی۔ میں نے ہر طنز اور مذاق کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب میں پہلی بار مسلمان عورتوں کا لباس پہن کر گھر سے نکلنے لگی تو میری ماں نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ ’’سنتھیا! یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟‘‘ ان کے چہرے پر طنز تھا۔ میرے والد نے بھی جو رات بھر شراب پینے کے بعد اب کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے، اپنی سرخ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور قہقہہ لگایا۔’’ممی‘‘ میں نے کہا: ’’یاد رکھیے میرا نام آمنہ ہے، سنتھیا نہیں۔‘‘ ’’آمنہ کیا نام ہوا یہ بھلا‘‘ ماں نے کہا: ’’لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔‘‘میں نے اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں انھیں بتا چکی ہوں اور اب میں مسلمان کی طرح باقاعدہ زندگی کا آغاز کررہی ہوں۔ ’’تمھاری جگہ جہنم میں ہے، تم ۔۔۔۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں، میں نے ان کی بات کاٹ کر کہا: ’’ممی! آپ کو میرے معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بات کرنی ہے تو جب میں دفتر سے آؤں گی تو کر لینا، اس وقت مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ میں وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ حبشیوں کی اس گندی بستی میں جس کسی نے مجھے اس لباس میں دیکھا، وہ پہلے تو حیران ہوا، پھر مذاق اڑانے لگا، مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنی راہ چلتی رہی۔ جب میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچی تو وہاں بھی شدید رد عمل پیدا ہوا۔ بہت سے لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے، جب میں نے انھیں بتایا کہ میں مسلمان ہو گئی ہوں اور مسلمان عورتیں ایسا ہی لباس پہنتی ہیں تو بعض لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی اور بعض لوگ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ اتفاق سے اس روز تنخواہ کا دن تھا۔ تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرا دیا۔ جب میں گھر لوٹی تو میری والدہ میرا انتظار کر رہی تھیں۔ میرے والد بھی گھر پر موجود تھے۔ میں تنخواہ کا نصف حصہ اپنی والدہ کو دے دیا کرتی تھی۔ اس رقم سے میرے والد اپنے نشے کے لیے کچھ پیسے اینٹھ لیا کرتے تھے۔ میں نے جب اپنی تنخواہ کی کچھ رقم ماں کو دی تو انھوں نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا: ’’تم نے اس بار دس ڈالر کم کر دیے ہیں۔‘‘ ’’ہاں! اب ہر ماہ آپ کو اتنی رقم ہی ملے گی۔ میں نے اپنی تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ میری یہ بات سنتے ہی وہ مجھے ، مسلمانوں اور مسجد کو کوسنے لگیں۔ میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں بہت دیر تک اپنی والدہ کو بکتے جھکتے سنتی رہی۔ بیچ بیچ میں میرے والد کی آواز بھی سنائی دیتی تھی: ’’اب سنتھیا ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ۔ مسلمانوں نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ ہم نے توکبھی گرجے کو چندہ نہیں دیا۔ یہ تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے لگی ہے۔‘‘ میرے والد اور والدہ کے نزدیک مسلمان لٹیروں سے کم نہ تھے، جو ان کی بیٹی کی کمائی لوٹ کر لے گئے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی زندگی اسلام کے قوانین و ضوابط کے مطابق ڈھال لی۔ وہ لوگ جو پہلے مجھ پر انگلیاں اٹھاتے تھے، مجھ سے بھی لاپروا ہو گئے اور میرے اور اسلام کے خلاف زہر اگلنے سے بھی، اور پھر کرسمس کا تہوار آ گیا۔ ہم خواہ کتنے ہی غریب اور بدحال کیوں نہ ہوں، کرسمس کو ٹھاٹ باٹ سے منانے کااہتمام ضرور کرتے ہیں۔ کرسمس کے روز شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔ جب میں نے مہمانوں کے ساتھ شراب کے جام کو چھونے سے ہی انکار کر دیا تو ہمارے گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔ والد تو صبح سے نشے میں دھت تھے، والدہ بھی دو ایک بار مہمانوں کے ساتھ پی چکی تھیں۔ نشے کی حالت میں وہ سب مجھ پر برسنے لگے، مہمان بھی نشے میں تھے۔ وہ بھی جو ان کے منہ میں آیا بکنے لگے۔ ان سب کی حالت قابل رحم تھی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس کمرے سے چلے جانا چاہیے، مگر جب میں اپنی وہیل چیئر کو دھکیل کر جا رہی تھی تو ایک مہمان لڑکا اور میرے والد میرے پیچھے لپکے اور وہیل چیئر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہا راستہ چھوڑ دیں، مجھے جانے دیں۔’’یہ پی لو، پھر چلی جانا۔‘‘ لڑکے نے میرے راستے سے ہٹے بغیر شراب کا جام میرے آگے کیا۔ ’’میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر۔‘‘میرے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگا، جومیرے والد نے مارا تھا۔ میرا سر چکرا گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر میرے والد اور اس لڑکے میں تو جیسے شیطان کی روح حلول کر گئی تھی۔ وہ مجھے پیٹنے لگے۔ انھوں نے مجھے روئی کی طرح دھنک دیا۔ میں خاموشی سے یہ ظلم برداشت کرتی رہی۔ وہ گالیاں بک رہے تھے، نشے میں ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ جب وہ تھک کر بیٹھ گئے تو میں کسی نہ کسی طرح اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔
میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ اپنے امام مسجد محمد یوسف کو ساری بپتا سنانی چاہیے اور پھر یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے، لیکن جوں جوں میرا غصہ اور جوش ٹھنڈا ہوتا گیا، میری سوچ بدلتی گئی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی پریشانیاں لے کر محمد یوسف کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ ان کا حل ضرور تلاش کرنا چاہیے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ ان کا مجھ پر حق ہے اور میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کروں، چنانچہ اس روز میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اگلے روز میں نے اپنے اس فیصلے سے امام مسجد محمد یوسف کو مطلع کر دیا۔
میں نے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور رضا کار بن گئی۔ مجھے معمولی سا گزارہ الاؤنس ملنے لگا۔ جب میرے والدین کو میرے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ بہت سٹپٹائے ۔ وہ یہ سوچ ہی نہ سکتے تھے کہ میں اچھی بھلی ملازمت چھوڑ دوں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں، ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا۔ میں اخبار کے لیے دن میں لکھوں گی اور جو معاوضہ مجھے وہاں سے ملے گا، وہ میں ان کو دے دیا کروں گی۔ میری اس عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا، جب میں مسلمان رضا کار بن گئی۔
محمد یوسف نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور جس کام کے لیے مجھے چنا گیا، اس راہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ مجھے خود بھی اندازہ تھا کہ یہ راستہ پر خطرہے، مگر اسلام نے مجھے حوصلہ بخشا۔ اس کی وجہ سے میں کسی خطرے کو خاطر میں نہ لا رہی تھی۔ میں جیلوں میں جانے لگی۔ وہاں میں قیدیوں سے ملتی، ان کے سامنے اسلام کی عظمت بیان کرتی، ان کو ان کی زندگی کے گھناؤنے پہلو دکھا کر ان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتی۔ کچھ قیدی وقت کاٹنے کے لیے میری باتوں کو توجہ سے سنتے۔ کچھ میرا مذاق اڑاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے میری جسمانی معذوری پر بھی قہقہے لگائے، مگر میں مطلق ہراساں نہ ہوئی، نہ میری ہمت نے جواب دیا۔ان قیدیوں میں سے ایک حبشی قیدی اربنٹو بھی تھا، اس نے میری باتوں سے خاصا اثر قبول کیا اور ایک دن کہنے لگا: ’’تم بڑی ہمت والی لڑکی ہو۔ اگر تم واقعی چاہتی ہو کہ برائی کا خاتمہ ہو جائے تو برنارڈو کا خاتمہ کر دو؟‘‘’’برنارڈو کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’برنارڈو اس شہر میں ایک بڑی مافیا فیملی کا سربراہ ہے۔ وہی شخص ہے، جو اس شہر میں منشیات کا اجارہ دار ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو منشیات نہ ملیں اور نہ ہی لوگ ان کے عادی ہوں۔ وہ بڑا خطرناک آدمی ہے۔ آج میں جس حالت کو پہنچا ہوں، اس کا ذمہ دار بھی برنارڈو ہے۔‘‘’’میں برنارڈو سے کیسے مل سکتی ہوں؟‘‘اس نے میرے کان میں مجھے برنارڈو کا پتا بتا دیا۔ جب میں جانے لگی تو اربنٹو کا لہجہ یک سر بدل گیا تھا۔ وہ ندامت کے ساتھ کہنے لگا: ’’مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے تم سے برنارڈو کا ذکر کیا۔ تم اس سارے واقعے کو بھول جاؤ۔ تم اندازہ نہیں کر سکتی ہو کہ برنارڈو کتنا خطرناک آدمی ہے۔‘‘’’مگر میں اس سے ملنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔‘‘ میں نے عزم سے کہا۔ ’’تم اس سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’اس کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کروں گی۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔ اس کے قہقہے دور تک میرا پیچھا کرتے رہے۔
صبح کا وقت تھا، جب میں وقت طے کیے بغیر برنارڈو کے عالی شان گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس گھر کو دیکھ کر کوئی شخص اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ اس گھر میں رہنے والا شخص کوئی بہت بڑا مجرم ہے۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ایک ملازم نے مجھے روک کر پوچھا۔ وہ میرے لباس اور میری وہیل چیئر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔’’مجھے مسٹر برنارڈو سے ملنا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔’’نہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’مسٹر برنارڈو سے ملنا اتنا آسان نہیں۔‘‘’’آخر کیوں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’وہ بھی انسان ہے اور انسان انسانوں سے ملا جلا کرتے ہیں۔‘‘ ہم دونوں میں تو تکرار ہونے لگی، اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا مضبوط جثے والا آدمی ایک کمرے سے باہر نکلا اور غصے سے بولا: ’’یہ کیا ہو رہا ہے ؟ شور کیوں مچا رکھا ہے؟‘‘ ملازم نے اس شخص کے سامنے سر جھکا کر کہا: ’’یہ لڑکی آپ سے ملنے پر اصرار کر رہی ہے۔‘‘’’مجھ سے؟‘‘ اس نے پوچھا: ’’کیا کام ہے؟‘‘ میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا ۔ پھر ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ جب ملازم چلا گیا تو برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا: ’’میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا ہوں۔ تم معذور ہو اس لیے رک گیا ہوں۔ کہو، میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ’’مسٹر برنارڈو! کیا واقعی آپ اس معذور لڑکی کے کسی کام آنا چاہتے ہیں؟‘‘اس نے جواب دینے سے پہلے کچھ سوچا، پھر مسکرا کر کہا:’’ہاں، کہو میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘میں نے پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر برنارڈو کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ وہ مجھ سے نظریں چرا رہا تھا۔’’مسٹر برنارڈو!‘‘ میں نے کہا: ’’اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے، اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے، سچی ہدایت کی۔‘‘’’لڑکی! میں نہیں جانتا تم کون ہو۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ دو منٹ میں اپنی بات ختم کرو۔‘‘ میں نے جب بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ طیش اور غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے غصے کو دبا کر کہا: ’’تم پاگل ہو، نکل جاؤ یہاں سے ۔ تمھیں کس نے بتایا کہ میں یہ کام کرتا ہوں؟ میں تمھیں اور تم کو یہ بتانے والے کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔‘‘ میں نے بڑے اطمینان سے کہا: ’’آپ کے اس غصے اور جوش ہی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جو اطلاع ملی ہے، وہ درست ہے۔‘‘’’تم بکتی رہو، چلی جاؤ یہاں سے ، مجھے تمھارے اپاہج پن کا خیال آ رہا ہے ورنہ۔۔‘‘ ’’میں جانتی ہوں مسٹر برنارڈو! آپ بہت طاقت ور ہیں، سارا شہر آپ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘’’آخر تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ برنارڈو نے گرج کر کہا۔میں چاہتی ہوں کہ آپ خلق خدا کے فائدے کے لیے اپنا یہ دھندا چھوڑ کر کوئی اور کام کریں اور اگر آپ سے یہ ممکن نہیں تو پھر مجھ معذور لڑکی پر کرم کریں۔ مجھے ہر روز پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں۔‘‘وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا، پھر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا: تم ضد کی پکی ہو، تم کل پھر آ سکتی ہو اسی وقت۔میں وہاں سے نکلی تو بے حد مطمئن تھی۔
برنارڈو اطالوی نژاد تھا۔ دل کا کھلا ۔ اس کی زندگی میں شاید ہی مجھ جیسا کوئی انسان ملا ہو۔ وہ میری ذات میں دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن۔۔۔ وہ مجھے ہر روز بلاتا۔ مجھ سے باتیں کرتا۔ پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا۔ میں اس کے سامنے انسانوں کی بدحالی کا ذکر کرتی۔ منشیات کی تباہ کاریاں بیان کرتی۔ اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی۔ آہستہ آہستہ اس کے خیالات میں کچھ لچک پیدا ہونے لگی۔’’آمنہ!‘‘ ۔۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا۔ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو؟ مسلمان کیا ہوتے ہیں؟ مگر میں ایک بات جان گیا ہوں کہ تم انسان کی نفسیات کو خوب سمجھتی ہو۔’’اسلام انسان کا مذہب ہے مکمل دین۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ اس لیے اسلام مسلمانوں کو انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘میں نے محسوس کیا کہ اب جب میں اس سے ملنے جاتی ہوں تو وہ کچھ بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا: ’’آمنہ! واقعی انسان کی زندگی فانی ہے اور انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہییں، دوسروں کا بھلا سوچنا چاہیے۔‘‘ ’’الحمد للہ۔۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا۔۔۔ ’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بات آپ ذہن میں سما گئی ہے۔‘‘
چند دنوں بعد برنارڈو نے اپنا دھندا چھوڑ دیا۔ وہ راہ راست پر آ گیا۔ اس نے بلا ہچکچاہٹ قبول کر لیا کہ وہ مافیا کا رکن ہے۔ اس نے مافیا کے سربستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ صدر فورڈ کے عہد صدارت میں برنارڈو کے اس عمل سے امریکہ میں کتنا تہلکہ مچا تھا! برنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا: ’’ایک اپاہج اور چلنے پھرنے سے معذور لڑکی نے مجھے یہ طاقت پرواز بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور کھلی آزاد فضا میں اڑنے کی ہمت اپنے اندر محسوس کر رہا ہوں۔‘‘اس روز میں بہت روئی تھی، جب مجھے خبر ملی کہ برنارڈو کو جیل میں گولی مار دی گئی ہے۔ اس کو مافیا کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ اس کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرنا ک ثابت ہو سکتا تھا۔ وہ ایک ایسا انسان تھا، جو راستی کی راہ پر چل نکلا تھا۔ وہ زندہ رہتا تو بڑا مصلح ثابت ہو سکتا تھا۔برنارڈو کے تائب ہونے کی وجہ سے مجھے پریس نے بڑی شہرت دی۔ میری تقریریں شائع ہونے لگیں۔ اخباروں اور رسالوں میں میرے انٹرویو شائع ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مجھے بلایا گیا اور میری خدمات کو بے حد سراہا گیا۔عالمی ہیوی ویٹ چمپین محمد علی مجھ سے ملنے آئے۔ انھوں نے میری بڑی تعریف کی۔ صدر فورڈ نے مجھے وہائٹ ہاؤس میں بلایا اور میری تعریف کی۔ اس شہرت اور عزت کے باوجود مجھ میں تکبر پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔
اسلام نے میری زندگی میں جو انقلاب پیدا کیا، میں ساری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہوں اور اگر یہ میرے بس میں نہیں تو میرے دل میں یہ خواہش ضرور ہے کہ اسلام کی برکات اور فیوض سے امریکہ کے سیاہ فام ضرور فیض یاب ہوں۔
میرے والد شراب سے توبہ کر چکے ہیں اور وہ ہر نشہ چھوڑ چکے ہیں۔ میری والدہ میری عزت کرتی ہیں، اگرچہ انھوں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا، مگر ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں میری کوشش کی وجہ سے ساڑھے تین سو افراد نے منشیات سے توبہ کر لی ہے اور اکیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
میںایک اپاہج عورت ہوں، مگر میں اپنے آپ کو اپاہج نہیں سمجھتی، کیونکہ میرا ایمان ہے کہ جو شخص مسلمان ہو جائے، وہ کبھی اپاہج نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ اس کا سہارا بن جاتا ہے۔ میری زندگی اسلام کے لیے وقف ہو چکی ہے۔ میں اسلام کے لیے کام کروں گی اور اسلام کی روح انسانوں میں پھونک دینا چاہتی ہوں۔
جب بھی کوئی انسان برائی کا راستہ ترک کرتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کی فتح ہوئی ہے۔ تو یہ ہے میری کہانی۔۔۔ سنتھیا سے آمنہ بننے کی!!