میرا پرانا نام رام کرشن لاکڑا ہے۔ میں دہلی نجف گڑھ کے علاقے کی ہندو جاٹ فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے بابا جی ہمارے گاؤں کے پردھان اور زمیں داروں میں سے ہیں۔ ہمارا گاؤں کچھ زمانہ پہلے روہتک ضلع ہریانہ میں تھا۔ میں آج کل دہلی میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ہوں۔ یوں تو میں اس سنسار (دنیا) میں ۲۷ ستمبر ۱۹۵۹ء کو آگیا تھا، مگر دوسرا جنم ٹھیک ۴۵ سال بعد ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء کو ہوا ہے۔
میں اپنے پڑوس کی مسجد کے مولوی صاحب سے بھی کہہ رہا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ پہلے جنم کے ٹھیک ۴۵ سال بعد میں نے نیا جنم لیا اور دوبارہ جنم کے عقیدے سے توبہ کی۔ میں نے ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء پیر کے دن ساڑھے سات بجے دن چھپنے کے بعد مولوی کلیم صدیقی صاحب کے ہاتھ پر پھلت ضلع مظفر نگر، یوپی میں ان کے گھر کے اوپر والے کمرے میں کلمہ پڑھ کر اپنی نئی اسلامی زندگی شروع کی۔
میں نے ۱۹۷۶ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور آگے پڑھنے سے منع کر دیا۔ دو سال تک چھٹی کرتا رہا۔ میرے تاؤ اور ایک موسا (پھوپھا) فوج میں بڑے کرنل ہیں۔ وہ گھر آئے۔ انھوں نے مجھے دھمکایا: اگر تو پڑھنے نہیں جاتا تو تجھے فوج میں بھرتی کر دیں گے اور تجھے لام پر جانا پڑے گا۔ میں نے داخلہ لے لیا اور انٹر کر لیا، مگر پھر پڑھنے کو دل نہ چاہا۔ میری ماں نے بابا سے کہہ کر میری شادی کرا دی اور ماں کی خوشی کے لیے میں نے پرائیویٹ بی اے بھی کر لیا۔ شادی کے دو سال بعد میرے پھوپھا نے ایک ضروری کام کے بہانے دھوکے سے بریلی بلایا اور مجھے بیرک میں لے جا کر میرے بال کٹوائے۔ وہ فوج میں کرنل تھے۔ سارے کاغذت اور میڈیکل کرا کے مجھے بھرتی کر لیا اور مجھ سے کہا کہ تیری بھرتی ہو گئی ہے۔ اب اگر تو بھاگے گا تو فوجی تجھے پکڑ کر لائیں گے اور بھگوڑا قرار دے کر گولی مار دیں گے یا جیل میں ڈال دیں گے۔ مجھے ڈر سے ٹریننگ میں جانا پڑا۔ میرا دل نہیں لگتا تھا اور گھر یاد آتا تھا، اور گھر سے زیادہ گھر والی ۔ بے چاری بڑی محبت کرنے والی شریف عورت ہے۔ میں نے ٹریننگ میں ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس فوج سے جان چھوٹنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ اگر افسر اَن فٹ (unfit) کر دے تو کام آسان ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ بہت آسان ہے۔ میں نے پاگل پن کا بہانہ کیا۔ بہکی بہکی باتیں کرتا۔ کبھی ہنستا تو ہنستا رہتا۔ کبھی چیختا تو چیختا رہتا۔ مجھے اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور میڈیکل چیک اپ ہوا۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ بہانہ ہے۔ مجھے افسر نے بہت گالیاں دیں اور سخت سزا کی دھمکی دی۔ ناچار پھر ٹریننگ شروع ہو گئی۔ ایک روز پریڈ میں صبح کے وقت جیسے ہی افسر آئے، میں نے رائفل کھڑی کی اور تمباکو کی پڑیا ہتھیلی پر ڈال کر اس میں چونا ملانا شروع کیا۔ جیسے ہی افسر سامنے آیا، میں نے دوسرے ہاتھ سے سلوٹ ماری او ر جے ہند بولا۔ میرے ہاتھ میں تمباکو کو دیکھ کر اس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے ہاتھ آگے کر کے کہا: سر! یہ تمباکو ہے، لو آپ بھی کھا لو۔ وہ دھمکا کر بولے: نالائق! تیرا بیلٹ نمبر کیا ہے؟ میں نے نمبر بتا دیا۔ دوپہر کے بعد انھوں نے مجھے دفتر میں بلا لیا اور مجھ سے کہا: جب جنگ میں دشمن کے سامنے ہو تو تمباکو کھائے گا یا گولی چلائے گا؟ میں نے عرض کیا: سر! تمباکو کو کھا کر گولی چلانے میں تو مزہ ہی آ جائے گا۔ بہت غصہ ہوئے، میری فائل نکالی اور اس پر لال قلم سے ان (unfit) لکھ دیا۔ میں نے جے ہند کہہ کر خوشی سے سلام کیا اور رات کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر دلی آ گیا۔ میرے پھوپھا کو معلوم ہوا تو انھوں نے گھر فون کر دیا کہ بھگوڑا ، غدار فوج سے جان بچا کر بھاگ آیا ہے۔ میری بیوی مجھ سے بات نہیں کرتی تھی کہ تو غدار، بھگوڑا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ بھاگیہ وان! (خوش قسمت) اگر وہ جنگ میں بھیج دیتے تو تو ودھوا (بیوہ) ہو جاتی۔ اب موج سے ساتھ رہیں گے ۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں آیا اور وہ راضی ہو گئی۔ میں نے ماں کو بھی بہت سمجھایا، کچھ روز یار دوستوں میں آوارہ پھر کر اپنے بابا کے ڈر سے پراپرٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کر دیا۔ میری دوستی کچھ غلط لوگوں سے ہو گئی۔ جھگڑے کی زمین خریدی۔ مارپیٹ کر، دھمکا کر قبضہ کیا اور بیچ دی۔ نہ جانے کتنے لوگوں کوستایا۔ کتنوں کا مال مارا۔ مار دھاڑ اور پراپرٹی کے ۱۹ مقدمے میرے ذمے لگ گئے۔ میں جیل چلا گیا، کسی طرح ضمانت ہوئی۔ میں پہلے جیل سے بہت ڈرتا تھا۔ ڈھائی مہینے کی جیل سے اور بھی دہشت بڑھ گئی۔
دو باتیں مجھ میں پہلے سے ہی مسلمانوں جیسی تھیں۔ جب ہوش سنبھالا، کسی مورتی، کسی دیوی کی پوجا نہیںکی۔ اور دوسری یہ کہ نجف گڑھ سے آگے ایک جگہ سؤر کے گوشت کی دکانیں تھیں، مگر جوانی کے دنوں میں مرغا وغیرہ کھانے کے باوجود اول تواس راستے سے گزرنا مشکل تھا، اگر جلدی میں گزر جاتا تو سانس روک کر نیچی نگاہ کرکے گزرتا۔ سؤر کے گوشت کودیکھ ہی مجھے الٹی سی آتی تھی۔ جیل سے ضمانت پر واپس آیا تومیری ماں نے جو بہت دھارمک (مذہبی) ہیں، ہر شکر وار (جمعہ) برت (روزہ) رکھتی ہیں، مجھ سے کہا کہ تو ناستک (ملحد) ہے۔ دیوتاؤں کو مانتا نہیں، بلکہ ان کا انادر (بے ادبی) کرتا ہے، اس لیے تیرے اوپر اتنی آفت ہے۔ مجھے ایک ہنومان کی مورتی اور ہنومان چالیسا دیا کہ اس کا جاپ (ورد) کر۔ میں اندر کمرے میں ماں کی ضد اور کچھ ڈر کی وجہ سے روز ہنومان چالیسا کا جاپ (ورد) کرتا رہا۔ مقدمے کی آخری تاریخ آئی۔ ایک عورت کی گواہی تھی۔ میں نے صبح تڑکے اٹھ کر ہنومان چالیسا کا جاپ (ورد) کیا اور پرارتھنا (دعا) کی ، حالانکہ دل میں وشواس (یقین) یہی تھا کہ یہ بے جان مورتی ہے اس میں کیا رکھا ہے۔ ڈھل مل یقین کے ساتھ یاشاید لالچ میں دیر تک میں نے جاپ (ورد) کیا اور پرارتھنا (دعا) کی کہ گواہی ٹوٹ جائے۔ عدالت گیا تو اس عورت نے ایسی ڈٹ کر گواہی دی کہ جج سمجھ گیا کہ بات سچ ہے۔ مجھے غصہ آ گیا۔ یہ خیال بھی نہ رہا کہ عدالت ہے۔ میں نے غصے میں اس عورت سے کہا کہ تجھے باہر نہیں نکلنا ہے کیا؟ جج نے سن لیا اور برہم ہوا اور ضمانت کینسل کر کے جیل بھیجنے کا حکم کر دیا۔ دو مہینے پھر جیل میں رہا۔ باباجی نے ہائی کورٹ سے ضمانت کرائی۔ جیل سے گھر آیا تو پہلے کمرہ بند کر کے ہنومان کی مورتی پر جوتا گیلا کر کے بجایا۔ ہنومان چالیسا کو جلایا او رخوب گالیاں دیں۔ ماں نے جوتے کی آواز سنی تو باہر سے بہت چیخیں ۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو مار رہا ہوں، مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ باہر ہے تو ان کی جان میں جان آئی۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ روز روز مقدموں کی تاریخوں سے میں کتنا پریشان تھا۔ ہمارے علاقے میں ایک ملا جی پھلوں کی ٹھیلی لگاتے تھے۔ میں نے ان سے بات کی کہ کوئی تعویذ والا بتاؤ۔ میں بہت پریشان ہوں۔ انھوں نے کہا کہ کسی تعویذ والے کو نہ تو میں جانتا ہوں نہ مجھے اس پر اعتقاد ہے۔ ہاں، تمھیں ایک چیز بتاتا ہوں، روزانہ سو بار صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ لیا کرو۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ میں پریشان تھا ہی، اس لیے میں نے صبح شام پانچ پانچ سو بار پڑھا۔ اصل میں مالک کو مجھ پر دیا (رحم) آ رہی تھی۔ پہلی ہی تاریخ میں میں بری ہو گیا۔ ایک سال میں گیارہ مقدمے حق میں فیصل ہوئے۔ میں ملا جی کے پاس آنے جانے لگا، او ران سے کہا کہ اور کچھ بتاؤ، تاکہ سارے مقدموں سے میری جان بچے۔ انھوں نے خود کچھ بتانے کے بجائے مجھے ہندی زبان میں ایک کتاب ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ دی۔ میں نے اس کو غور سے پڑھا۔ دوزخ کی سزاؤں کو پڑھ کر میرے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ رات کو ڈراؤنے خواب بھی دکھائی دیتے۔ مجھے بار بار خیال آتا کہ میں نے کتنے لوگوں کی زمینیں دبائیں، کتنے لوگوں کو مارا،میرا اب کیا ہو گا؟ مجھے اس کتاب نے بے چین کر دیا۔ مقدموں سے زیادہ رات دن موت اور دوزخ کا خوف سوار رہتا۔ میں سوچتا اس سنسار (دنیا) کی عدالت کے انیس مقدموں سے زندگی خراب ہے تو اس مالک کے سامنے ان گنت مقدموں سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟ میں نے ملاجی سے مشورہ کیا۔ انھوں نے مسلمان ہو جانے کو کہا۔ میں نے اسلام کے بارے میں کسی کتاب کے لیے کہا تو انھوں نے ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ لا کر دی۔ میری سمجھ میں اسلام آ گیا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ میرا فوج میں دل کیوں نہیں لگا۔ اگر میں فوج میں رہتا تویہ ظلم، مار پیٹ نہ کرتا، اور مرنے کا خیال بھی نہ آتا۔ میرے مالک نے میری ہدایت کے لیے مجھے فوج سے بھگا دیا اور الٹ پلٹ کام کرائے۔
اسلام قبول کرنے کے لیے میں امام بخاری کے پاس جامع مسجد دہلی گیا۔ پہلے تو ان تک پہنچنا ہی مشکل ہے۔ میں کسی طرح ترکیب سے پہنچ گیا۔ امام صاحب نے کہا: اپنے یہاں کے ذمے دار لوگوں کو لے کر آنا، جو تمھیں جانتے ہوں۔ میں دو چار روز کی کوشش سے دو مسلمانوں کو لے کر گیا تو وہ کہنے لگے: شناخی کارڈ لاؤ۔ میں نے کہا: آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ بار بار کیوں پریشان کرتے ہیں! وہ ناراض ہو گئے اور بولے: بات کرنے کی تمیز نہیں۔ میں نے کہا: تمھیں تمیز نہیں، مجھے تو ہے اور میں چلا آیا۔
اس کے بعد ایک صاحب نے دہلی کی فتح پوری مسجد جانے کو کہا۔ میں وہاں پہنچا تو مفتی صاحب نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد تمھارا نکاح ختم ہو جائے گا۔ تمھیں اپنی بیوی چھوڑنا پڑے گی۔ میں نے کہا: وہ ۲۵ سال سے میرے ساتھ رہ رہی ہے، ایسی بھلی عورت ہے کہ آج تک مجھے اس سے شکایت نہیں ہوئی، میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: پھر تمھیں کلمہ نہیں پڑھوایا جا سکتا اور نہ تم مسلمان ہو سکتے ہو۔ وہاں سے مایوس ہو کر میں نے تلاش جاری رکھی۔ ایک صاحب نے مجھے ایک مزار پر بھیج دیا۔ وہاں ایک میاں جی لمبے لمبے بال، ڈھیر ساری مالائیں گلے میں ڈالے، ہرے رنگ کا لمبا کرتا اوربہت اونچی ٹوپی پہنے ملے۔ میں ایک جاننے والے کو وہاں لے کر گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھیں کلمہ پڑھواتا ہوں۔ میرے قریب بیٹھو۔ گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر ادب سے بٹھایا۔ اپنے داہنے ہاتھ میں میرا بایاں انگوٹھا اور بائیں ہاتھ میں دایاں انگوٹھا لے لیا اور بولے: مرید ہونے کی نیت کرو۔ اور میرے پیروں پر ادب سے نگاہ رکھو۔ مجھے بچپن کے کھیل کا دھیان آ گیا۔ ہم بچے ایک دوسرے کو اسی طرح گھمایا کرتے تھے۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ وہ غرائے کہ ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا: مجھے بچپن کا ایک کھیل یا د آ گیا ہے۔ اگر بچوں کی طرح آپ کو بھی سر کے اوپر گھما کر پھینک دوں تو؟ انھوں نے پھر دھمکایا۔ نہ جانے کیا کیا کہلوایا: قادریہ، غوثیہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر بولے: میرے پاؤں کے بیچ سر رکھو۔ میں نے منع کیا تو دھمکا کر بولے: مرید ہو کر بات نہیں مانتا۔ میں نے سرٹیکا اور جلدی سے اٹھا لیا۔ وہ دوبارہ بولے: ادب سے قدموں میں سر رکھو اور یہ سوچو کہ مجھ میں خدا کا نور ہے۔ جس طرح خدا کو سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح کرو۔ مجھے غصہ آ گیا۔ میں اسلام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ لیا تھا۔ میں نے اس نالائق سے کہا کہ اگر میں تجھے اٹھا کر دے ماروں تو خدا تومیں ہوں گا، اس لیے کہ جو طاقت ور ہوتا ہے ، وہ خدا ہوتا ہے۔ میں نے دو چار گالیاں دیں اور چلا آیا۔
مجھے مسلمان ہونے کی بے چینی تھی اور موت کا کھٹکا تھا۔ میں نے ایک ملاجی سے ذکر کیا، وہ مجھے ایک قاضی جی کے یہاں لے گئے۔ قاضی جی نے کہا: مسلمان تو ہم تمھیں کر لیں لے، مگر دو ہزار روپے فیس ہو گی۔ میں نے کہا مجھے مسلمانوں کا اسلام نہیں چاہیے، میں تو محمد صاحب والا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اگر محمد صاحب نے کسی کو مسلمان کرنے کے لیے پیسے لیے ہوں تو آپ بھی لے لیں۔ جب انھوں نے کبھی ایک پیسہ نہیں لیا تو آپ کیسے پیسے لیتے ہیں؟ دو ہزار کی بات بڑی نہیں تھی، مگر مجھے وشواس (یقین) نہیں ہوا۔ میں وہاں سے بھی واپس آ گیا۔
اگلے روز ایک مسجد کے سامنے سے جا رہا تھا تو ذرا صاف ستھرے کپڑوں میں ایک مولوی صاحب مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ بعد میں ان سے تعارف ہوا۔ ان کا نام مولوی عبد السمیع قاسمی تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے اسلام کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں۔ پہلے تو وہ ٹھٹکے، بعد میں وہ تیار ہو گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسلام کے بارے میں میں نے ۵۰ سے زیادہ کتابیں پڑھی ہیں۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج کو گئے تو ان کے ساتھ سوا لاکھ ساتھی تھے۔ آپ نے سب کو اکٹھا کر کے ان سے سوال کیا کہ میں نے اسلام تم تک پہنچا دیا؟ سب نے کہا کہ بالکل پہنچا دیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب جو یہاں سے غائب ہیں، یہاں موجود نہیں ہیں، یہ اسلام تمہیں ان تک پہنچانا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جن مسلمانوں تک اسلام پہنچ چکا ہے وہ دوسرے انسانوں تک اسلام پہنچائیں؟ مولوی قاسمی نے کہا کہ ہاں ضرور پہنچانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ مجھے ایسے دوچار لوگوں سے ملوائیں ، جو دین کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کررہے ہوں۔ مولوی صاحب بولے: ایسے لوگ بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ کام تو سارے مسلمانوں کو کرناچاہیے، مگر مجھے ایک مسلمان بھی نہیں ملا۔ میں خود اسلام لانا چاہتا ہوں، چار بڑے مولویوں نے مجھے دھکے دیے۔ مولوی قاسمی نے کہا کہ میں آپ کو ایک صاحب کا پتا بتاتا ہوں۔ آپ پھلت (ضلع مفظر نگر، یوپی) چلے جاؤ۔ میں نے ان کا پورا پتا اور فون نمبر مانگا۔ انھوں نے کہا: فون نمبر معلوم کر کے دیتا ہوں۔ ناگلوئی (دہلی) کے کسی مولوی صاحب کو انھوں نے فون کیا، اور مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کا فون نمبر مل گیا۔ انھوں نے فون ملایا۔ مولوی صاحب دلی سے پھلت جا رہے تھے۔ مولوی قاسمی نے کہا کہ ہمارے ایک چودھری صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا: ان کو آج شام تک پھلت بھیج دیں۔ میں نے کہا: فون پر مجھ سے بات کروا دو۔ انھوں نے مجھے فون دے دیا۔ میں نے بات کی۔ مولوی صاحب نے کہا: آپ جب بھی آئیں، ہمارے اتتھی (مہمان) بلکہ آدرنیہ اتتھی (معزز مہمان) ہوں گے۔ میں سیوا (خدمت) کے لیے ہر سمے (وقت) حاضر ہوں۔ میں نے کہا: بہت بہت شکریہ، مجھے بڑا عجیب لگا۔ ایک آدمی سو ڈیڑھ سو کلو میٹر دور میرا ایسا سواگت (استقبال) کر رہا ہے۔
مجھے تو ایک ایک منٹ مشکل ہو رہا تھا۔ میں اسی روز ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء کو دن چھپنے تک پھلت پہنچ گیا۔ مولوی کلیم صاحب نماز پڑھنے گئے تھے۔ میں بیٹھک میں کرسی پر بیٹھ لیا۔ مولوی صاحب آئے تو میں نے ملاقات کی۔ مولوی صاحب بہت خوشی سے ملے۔ ان کے یہاں باہر کے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے، جو مکان کے اوپر والے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب نے مجھے بھی وہیں بلا لیا۔ مجھ سے پیار سے سوال کیا: میرے لیے سیوا (خدمت) بتائیے۔ میں نے کہا: میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا: بہت مبارک ہو، جو سانس اندر چلا گیا، اس کے باہر آنے کا اطمینان نہیں اور جو باہر گیا اس کے اندر جانے کا بھروسا نہیں۔ اصل میں تو ایمان دل کے وشواس (یقین) کا نام ہے۔ آپ نے ارادہ کر لیا، دل سے طے کر لیا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے تو یہ کافی ہے، مگر اس سنسار (دنیا) میں ہم لوگ دل کے حال کو جان نہیں سکتے، اس لیے زبان سے بھی کلمہ پڑھنا پڑتا ہے۔ آپ جلدی سے دو لائن جس کو کلمہ کہتے ہیں، پڑھ لیجیے۔ میں نے کہا: مجھے ایک بات پہلے بتائیے کہ مسلمان ہو کر مجھے بیوی کو چھوڑنا پڑے گا۔ مولوی صاحب نے کہا: واہ صاحب! آپ کیسے مسلمان ہوں گے، جو آپ اپنے جیون ساتھی (شریک حیات) کو چھوڑیں گے۔ آپ چھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر آپ سچے دل سے مسلمان ہیں تو آپ کو اپنی بیوی کو بھی سورگ (جنت) لے جانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ چلو، یہ اچھے آدمی ملے ہیں۔ مولوی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا۔ ہندی میں ارتھ (مطلب) کہلوایا اور بتایا کہ تین باتوں کا آپ کو خیال کرنا ہے۔ ایک یہ کہ ایمان اس مالک کے لیے قبول کیا ہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ لوگ مجھے نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، مگر میرا مالک جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اسلام وہ ہے ، جو دلوں کے بھید جاننے والے کو قبول ہو جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ایمان کی ضرورت ہے، اور وہ آدمی جو ایک مالک کو چھوڑ کر دوسرے کے آگے جھکے، کتے سے بھی زیادہ گزرا ہے، کیونکہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے مالک کے در پر پڑا رہتا ہے۔ وہ آدمی کتے سے بھی بد تر ہے، جو در در جھکے، مگر اصل ایمان کی ضرورت موت کے بعد پڑے گی۔ جہاں ہمیشہ رہنا ہے تو موت تک اس ایمان کو بچا کر لے جانا ہے۔
تیسری سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہ ایمان ہماری آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے پاس ہر اس انسان کی امانت ہے، جس تک ہم اسے پہنچا سکتے ہیں۔ اب اگر مالک نے ہمیں راستہ دکھا دیا ہے تو ہمیں سارے خاندان ، دوستوں اور جاننے والوں تک اس سچائی کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ میں نے کہا: مولوی صاحب! آپ سچ کہتے ہیں۔ میں اصل میں خوف اور لالچ سے مسلمان ہو رہا ہوں۔ ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘، ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ اور ’’جنت کی کنجی‘‘ کتابوں میں میں نے جو کچھ پڑھا، فلم کی طرح میرے دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ تو نے اتنے ظلم کیے ہیں، موت کے بعد کیا ہو گا۔ اب میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ اسلام میں مالک نے جن کاموں سے روکا ہے، پوری جان لگا کر ان کاموں سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ شاید میرے مالک کے سامنے جانے کا میرا منہ ہو جائے۔ میں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے اسلام کو پڑھ کر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں۔ آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر کون مسلمان ہو سکتا ہے؟ میرے چاروں طرف بہت سے مسلمان رہتے ہیں۔ ہمارا ایک کرائے دار ہے، جس کا نام سید غلام حیدر ہے۔ نماز بھی نہیں پڑھتا۔ میں نے اس سے ایک بار کہا: تم ہر مہینے میرے ماں باپ کو کرایہ دیتے ہو۔ اگر تم ان سے مسلمان ہونے کو کہو تو کیا خبر وہ مسلمان ہو جائیں۔ اور اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو پورا خاندان مسلمان ہو جائے گا۔ وہ بولے: تمھارے بابا علاقے کے پردھان ہیں۔ اگر میں نے ان سے کہہ دیا تو وہ ہمارا جینا مشکل کر دیں گے۔ میں نے کہا: تم اللہ سے نہیں ڈرتے، میرے بابا سے ڈرتے ہو۔ اس لیے یہ کعبہ کا فوٹو ہٹا کر میرے بابا کا فوٹو لگاؤ اور روزانہ اس کے نام کا جاپ (ورد) کر کے میرے بابا کو ڈنڈوت کرو (سر جھکاؤ)۔ میرے بابا نے کسی دن دیکھ لیا ، تو وہ تمھارا کرایہ معاف کر دیں گے۔ تمھارے مزے آ جائیں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اپنے آپ کو سید بتاتے ہو، اللہ کے یہاں تمھیں بھی جانا ہے۔ میںمالک کے سامنے ہی لٹھ ماروں گا کہ انھوں نے سید ہو کر ایک دن بھی ہمیں ایمان لانے کو نہیں کہا۔
میں نے مولوی صاحب کو اپنی روداد سنائی او رچار بڑے مولویوں کے پاس سے واپس آنے کی بات بھی سنائی۔ مولوی صاحب نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا اور مجھے تسلی دی۔
میرے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ بڑی لڑکی کی شادی میں نے کر دی ہے۔ ہمارا سماج اصل میں پٹھانوں سے بہت ملتا جلتا ہے۔ بہت شرم و حیا ہے۔ مردوں کا باہر رہنا اور عورتوں کا اندر رہنا، یہ ہمارے یہاں کا دستور ہے۔ میں اپنی ماں کے سامنے اپنی بیوی سے آج تک بات نہیں کر سکتا۔ ماں بیٹھی ہو گی تو میں اس کو ہی بتاؤں گا۔ وہ کبھی کہتی بھی ہے کہ یہ تیری پانچ ہاتھ کی بہو ہے تو اس سے کیوں نہیں کہتا۔ میں کہتا ہوں: ماں، جب تو مر جائے گی ، تب اس سے کہوں گا۔ ہمارے یہاں ابھی تک لڑکی کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے۔ پورے خاندان میں، میں نے بغاوت کر کے بڑی لڑکی کو پڑھایا ۔ ہائی اسکول پاس کیا تو اس نے مجھ سے کہا: پتا جی! (ابو جی) مجھے دو ہزار روپے چاہییں ۔ میں نے کہا : بیٹی! دوہزار کیا کرو گی؟ اس نے کہا: ایک ہزار کا موبائل مل رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا: موبائل کا کیا کرو گی؟ اس نے کہا کہ بات کیا کروں گی۔ میں نے پوچھا اور ایک ہزار کا کیا کرو گی؟ اس نے کہا: جینزلاؤں گی۔ میں نے اس سے کہا کہ دوہزار کی جگہ پانچ ہزار دوں گا، مگر ۱۵ دن کے بعد۔ میں نے لڑکے والوں کو بلوایا، جہاں اس کا رشتہ طے کر رکھا تھا اور کہا: آٹھ دن میں پھیرے پھروالو تو لڑکی تمھاری، ورنہ میں کسی دوسری جگہ شادی کر دوں گا۔ وہ تیار ہو گئے۔ بابا سے کہہ کر پنڈت بلوایا اور پھیرے پھروائے۔ میں نے لڑکی کو ڈھائی ہزار روپے دیے اور کہا کہ آدھے تو یہ لو اور آدھے اس دن دوں گا جس روز گود میں بٹھا کر رخصت کرنے کے لیے تجھے گاڑی میں ٹیکوں (بٹھاؤں) گا۔ آج ہائی اسکول کر کے موبائل او رجینز مانگ رہی ہے۔ اگر انٹر کر لیا تو کسی ایرے غیرے کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آئے گی کہ پتا جی (ابو جی) یہ تمھارا داماد ہے۔ میں نے عہد کر لیا کہ لڑکی کو پانچویں سے آگے ہر گز نہیں پڑھانا ہے۔ یہ بات میں نے مولوی صاحب سے بھی کہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ اب تم مسلمان ہو گئے ہو۔ تم کو اسلام کی ہر بات ماننا ہو گی۔ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کو فرض کہا ہے۔ اور لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانا ضروری ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اسلامی ماحول اور تربیت میں تعلیم ہونی چاہیے۔ میں نے وعدہ کر لیا: اب میرا پکا ارادہ ہے کہ اپنے تینوں بچوں کو اسلامی تعلیم کی جو سب سے بڑی ڈگری ہو گی، اس تک پڑھاؤں گا۔ آگے مالک کے ہاتھ میں ہے۔ اب میں نے بالکل اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں شراب کا بہت عادی تھا۔ جب میں ہندو تھا اور لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے پلائی، مگر خود نہیں پی، مگر جب سے میں نے کلمہ پڑھا ہے، اب زندگی بھر نہ پینی ہے اور نہ پلانی ہے۔ اور نہ پینے والوں کے پاس بیٹھنا ہے۔ اب تو مجھے شراب کا خیال بھی نہیں آتا۔ اور مالک کا کرم ہے کہ کسی دوست نے بھی میرے سامنے نہیں پی، حالانکہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے کہ میں نے چھوڑ دی ہے، یا اسلام قبول کر لیا ہے۔
میری بیوی میری ماں کی طرح بہت کٹر دھارمک (مذہبی) ہے۔ جب مولوی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اس کو اپنے ساتھ جنت میں لے جانا ہے تو میں نے بتایا کہ وہ تو بہت کٹر ہندو ہے۔ جس روز گوشت کھا کر آتا ہوں ، گھر میں گھسنا مشکل کر دیتی ہے۔ نہ جانے اس کو کیسے خوشبو آ جاتی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کٹر ہندو ہی سچی مسلمان ہوتی ہے۔ انسان اپنے مالک کو خوش کرنے کے لیے ہی دھرم (مذہب) کی پابندی کرتا ہے۔ اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ یہ راستہ غلط ہے اور سچا راستہ اسلام ہے تو اسلام پر بھی وہ بہت سختی سے عمل کرے گی۔ میں نے پھلت میں مولوی صاحب کے بھانجے کے موبائل سے اس کو بتا دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ بہت ناراض ہوئی۔ میں نے یہ کہہ کر بات بند کر دی کہ میں دوسرے کے موبائل سے فون کر رہا ہوں۔
اگلے روز صبح کو میرے مقدمے کی تاریخ تھی۔ مجھے صبح وکیل سے بھی ملنا تھا، اس لیے رات کو مولوی صاحب نے اپنی گاڑی سے کھتولی پہنچا دیا۔ رات کو بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر گھر پہنچا ۔ مہارانی جی غصے میں بھری بیٹھی تھیں۔ دھکے دینے لگی، بار بار گالیاں دیں۔ ۲۵ سال کا ادب بھول گئی۔ کہنے لگی کہ تو دھرم بھرشٹ (مذہب برباد) کر کے آیا ہے۔ تو میرا کیا لگتا ہے، بھاگ جا، نہ جانے کیا کیا کہا۔ صبح تک لڑائی ہوتی رہی۔ مولوی صاحب نے بیوی کو دعوت دینے کے لیے آخری ہتھیار کے طور پر ایک پوائنٹ بتا دیا تھا۔ صبح ہونے کو ہوئی تو اس ڈر سے کہ دن نکل آیا تو یہ سب کو بتا دے گی، اس لیے میں نے آخری تیر کے طور پر استعمال کیا۔ میں نے کہا کہ تو اصلی ہندو ہے یا نقلی؟ اس نے کہا کہ اصل ہوں، بالکل اصلی۔ میں نے کہا کہ اگر اصلی ہندو ہے اور میں اسلام کی چتا میں جل رہا ہوں تو تجھے بھی میرے ساتھ ستی ہو جانا چاہیے۔ تیر نشانے پر لگ گیا، وہ چپ ہو گئی۔ دیر تک ہچکیوں سے روتی رہی۔ میں اس کے قریب گیا۔ پیار کیا۔ اور دکھ سکھ اور جیون مرن (زندگی و موت) میں ساتھ دینے کے وعدوں کی دہائی دے کر مسلمان ہونے کے لیے کہا۔ وہ تیار ہو گئی۔ ٹوٹا پھوٹا کلمہ پڑھوایا اور صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے ساتھ پڑھی۔ بیوی کے مسلمان ہونے کی اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ خوشی ہوئی۔ مجھے مولوی صاحب کی ہر بات سچی لگنے لگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ بیوی کو چھوڑنے کی بات کا کیا مطلب؟ اس کو تو جنت میں ساتھ لے جانا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب مسجد میں امام ہیں۔ میں روزانہ رات کو ان کے پاس جاتا ہوں۔ مجھے جماعت میں جانا ہے، مگر مقدموں کی تاریخوں کی وجہ سے ابھی مجبور ہوں۔ میں نے اپنی بڑی لڑکی اور داماد کو بھی ’’مرنے کا بعد کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘ پڑھنے کے لیے دی ہے۔
مجھے مسلمانوں سے صرف یہ کہنا ہے کہ یہ دین جب امانت ہے، جیسا کہ مولوی صاحب نے ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں‘‘ کتاب میں لکھا ہے تو پھر اسے سارے سنسار (دنیا) تک پہنچانا چاہیے۔ آج کے دور میں اسلام پہنچانا بہت مشکل ہے۔ میں لاکڑ جاٹ ہوں۔ جاٹ قوم کی سائیکالوجی اچھی طرح جانتا ہوں۔ جاٹ بہت لالچی ہوتا ہے اور لالچی سے زیادہ ڈرپوک ہوتا ہے، خصوصاً جیل اور سزا سے جتنا ڈرتا ہے، شاید دوسرا نہیں ڈرتا۔ اگر ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ ہندی انوواد (ترجمہ) کر کے جاٹوں میں پہنچایا جائے اور قرآن مجید میں جنت و دوزخ کا جو ذکر ہے، ان کو سنایا جائے تو جاٹ سارے کے سارے مسلمان ہو جائیں گے۔ اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جب دین امانت ہے اور مالک کے سامنے حساب دینا ہے تو اس کا بھی حساب ہو گا کہ اس کو پہنچایا یا نہیں، اس لیے دین کو دوسروں تک پہنچانا نہ صرف یہ کہ دوسروں کے لیے ضروری ہے، مرنے کے بعد کے جواب سے بچنے کے لیے خود مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔