ارُندھتی رائے -- ترجمہ: اجمل کمال
کسی جانور کو اپاہج کرنے کے لیے اس کے پیر توڑ دیے جاتے ہیں۔ کسی قوم کو اپاہج کرنے کے لیے اس کے لوگوں کو توڑا جاتا ہے۔ ان سے ان کی قوتِ ارادی چھین لی جاتی ہے۔ ان کی تقدیر پر اپنے مکمل کنٹرول کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ان پر یہ بات واضح کر دی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ کسے زندہ رہنا ہے، کسے مر جانا ہے، کسے خوشحال ہونا ہے، کسے بدحال رہنا ہے۔ اپنی صلاحیت کی نمائش کرنے کے لیے ان کو دکھایا جاتا ہے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں اور کس آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم صرف بٹن دبا کر پوری زمین کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ کیسے جنگ شروع کر سکتے ہیں اور امن قائم کر سکتے ہیں۔ کس طرح ایک شخص سے اس کی ندی چھین کر دوسرے شخص کو دے سکتے ہیں۔ کس طرح ایک صحرا کو سرسبز کر سکتے ہیں یا جنگل کو اکھاڑ کر اسے دوسری جگہ اگا سکتے ہیں۔ اپنی من مانی کر کے قدیم چیزوں.. زمین، جنگل، پانی، ہوا..پر لوگوں کے بڑے بڑے گروہوں کے یقین کو مجروح کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ صرف ہم! وہ ہمارے پاس آئیں گے، کیونکہ ہمارے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ وہ ہم سے نفرت کرنے کے باوجود ہم سے محبت کریں گے وہ ہمیں اچھی طرح جاننے کے باوجود ہم پر بھروسا کریں گے۔ وہ ہمیں ووٹ دیں گے حالانکہ ہم نے ان کے جسموں سے زندگی کی آخری رمق تک نچوڑ لی ہوگی۔ ہم انہیں جو کچھ پینے کو دیں گے انہیں وہی پینا ہو گا۔ ہم انہیں جیسی ہوا مہیا کریں گے انہیں اسی میں سانس لینا ہو گا۔ ہم جہاں ان کا سامان دھر دیں گے انہیں اسی جگہ رہنا ہو گا۔ اس کے سوا وہ کر کیا سکتے ہیں؟ ان کے لیے اس سے اونچی کوئی عدالت نہیں ہے۔ ہم ان کے مائی باپ ہیں۔ ہم جج بھی ہیں اور جیوری بھی۔ ہم پوری دنیا ہیں۔ ہم خدا ہیں۔
طاقت صرف اُس چیز سے مضبوط نہیں ہوتی جسے وہ تباہ کرتی ہے، وہ اُس چیز سے بھی مضبوطی حاصل کرتی ہے جسے اس نے تخلیق کیا ہو؛ صرف اس چیز سے نہیں جو وہ لیتی ہے بلکہ اس چیز سے بھی جو وہ دیتی ہے۔ اور ناطاقتی بھی صرف اُس چیز سے گہری نہیں ہوتی جس سے کسی کو محروم کر دیا گیا ہو، بلکہ ان لوگوں کی شکر گذاری سے بھی جنہوں نے اس سے کچھ فائدہ حاصل کیا ہو (یا انہیں گمان ہو کہ انہیں فائدہ حاصل ہوا ہے۔)
موجودہ زمانے کا، سرد سانچے میں ڈھلا اقتدار بظاہر جمہوری دستوروں کی بظاہر محترم شقوں کے درمیان حفاظت سے بیٹھا ہے۔ اسے استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں بظاہر آزاد شہریوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے انسانی تہذیب کی تاریخ کے کسی زمانے کے کسی بادشاہ، کسی مطلق فرمانروا، کسی آمر کے پاس ایسے ہتھیار نہیں تھے جیسے ان کے پاس ہیں۔
ایک ایک دن، ایک ایک ندی، ایک ایک جنگل، ایک ایک پہاڑ، ایک ایک میزائل، ایک ایک بم کے ذریعے سے ہمیں غیر محسوس طور پر مسلسل توڑا جا رہا ہے۔
( مضمون ’’ عظیم تر اجتماعی مفاد‘‘ سے اقتباس)