اس ضیافت میں ملک کی چند اہم دینی جماعتوں کے رہنما جمع تھے ۔ دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے اور پھل چنے تھے ۔جدید قسم کی کراکری اور ماڈرن قسم کی دعوت کے تمام لوازمات پورے تھے ، فرق صرف یہ تھا کہ لوگ کھڑا ہونے کے بجائے عربی تہذیب کے ساتھ ایرانی قالین میں دھنسے جا رہے تھے ۔ ’ خشوع و خضوع‘ کے ساتھ کھانوں کی اقسام او رطباخ کی مہارت پر بحث کی جارہی تھی کہ اسی اثنا میں میزبان نے کھانے کی درخواست کی ۔ لوگوں نے کھانے کے لیے چمچ کی طرف ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ ایک کونے سے ایک ثقہ عالم کی آواز آئی کہ بھائی ، چمچ کی کیا ضرورت ہے، ہاتھ سے کھانا سنت ہے ۔میں نے ہاتھ میں پکڑاچمچ رکھ تودیا لیکن میں یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ نبی کریم ﷺ کے دستر خوان پر ایک وقت میں کتنے کھانے جمع ہوتے تھے ؟ اورمیرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اور صاحب نے جو عالم دین نہ تھے میرے کان میں کہا کہ کھانے میں سادگی اختیار کرنا بھی تو سنت ہے ۔۔!میں نے کہا ، یقینا ً، اور بھوک سے ماروں کی مدد کرنا بھی تو سنت ہے ۔
مولوی صاحب کی کپڑے کی دکان تھی۔شدید گرمی میں ایک گاہک ململ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کی دکا ن پر آن پہنچا۔کپڑا خریدنے سے پہلے اس نے دکان میں رکھے کولرسے اپنی پیاس بجھاناچاہی اور وہیں کھڑے کھڑے پورا گلاس پی گیا۔مولوی صاحب نے اس کی طرف خونخوار نگاہوں سے دیکھااور اس سے کہا ، تمہیں معلوم نہیں کہ بیٹھ کر پانی پینا سنت ہے ؟وہ بیچارا،اس ناگہانی حملے سے اتناگھبرایا کہ کپڑا لیے بغیر ہی باہر بھاگ گیا اور میںجو دکان میں پہلے سے موجو د تھا یہ سوچتاہی رہ گیاکہ کسی کو پیار سے سمجھانا اور شرمندہ ہونے سے بچانا بھی تو سنت ہے ۔۔
وہ ایک صوفی بزر گ تھے ، ان کے گھر میں تین کاریں تھیں لیکن یہ کوئی اعتراض کی بات نہ تھی کہ ان کو واقعی ان کی ضرورت تھی ۔ایک چھوٹی کار تو اندرون شہر استعمال ہوتی تھی اور دوسری بیرون شہر، البتہ تیسری پہاڑی علاقوں کے لیے تھی کہ جہاں انکے مریدین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ ایک دن انہوں نے اخبار میں ہونڈا کے نئے ماڈل کا اشتہار دیکھاتو بیٹے سے کہا کہ یہ کار بک کروا دو، اب ہماری کار کا ماڈل پراناہوگیا ہے ۔بیٹے نے کہا ، ابا جی ہماری ضرور ت توپوری ہو رہی ہے ۔ صوفی صاحب نے کہا بیٹا کیا تم جانتے نہیں کہ اچھا ’گھوڑا ‘رکھنا سنت ہے ۔اور یہ سن کر میں یہ سوچتا ہی رہ گیاکہ اسراف اورنمایش سے بچنا بھی تو سنت ہے ۔
وہ ایک بڑے گھرانے کا اکلوتاچشم و چراغ تھا ۔ان کے ہاں چار کنال کابنگلہ ، ماں باپ کی الگ الگ گاڑی اور اس کے منہ میں ’سونے کا چمچ ‘تھا ۔ باپ نے تبلیغی جماعت سے متاثر ہو کر ایک مدرسے میں داخل کروا دیاجہاں سے وہ مفتی بن کر نکلا ۔ اس کی برکت سے گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔ باپ کاقیمتی لباس ٹخنوں سے اوپر ہو گیا اور ماں کی ولایتی اوڑھنی چہرے کے اوپر۔اوروہ سب بات بات میں الحمد للہ ، ماشا ء اللہ اور سبحان اللہ کہنے لگے۔ایک دن مفتی صاحب نے والد سے کہا ، بابا جان گھر کا نقشہ کچھ پرانا ہو گیا ہے ، نیا نہ بنو ا لیں۔والد نے کہا ،نیکی اور پوچھ پوچھ۔گھر کے لیے ایک
یو رپین آرکیٹیکٹ کی خدمات حاصل کی گئیں اور تعمیرکا ٹھیکہ ایک امریکن فرم کو دیا گیا۔تمام یورپی اور امریکی ماہرین کی تواضع ہمیشہ روح افزا سے کی جاتی کیونکہ پیپسی اور دیگر سافٹ ڈرنکس یہود ی مصنوعات تھیں اور ان کا بائیکاٹ عین غیرت ایمانی کا تقاضا تھا۔ انٹیریر ڈیکوریشن کا سامان فرانس سے درآمد کیا گیا اور کچن اورباتھ کا سامان اٹلی سے ۔ امپورٹڈ سامان اور غیر ملکی ماہرین کی مدد سے جب گھرایک سال کی قلیل مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچاتو یہ سب اس میں شفٹ ہونے کو پہنچے ۔ داخل ہونے لگے تو مفتی صاحب نے کہا ،گھر میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھناسنت ہے۔ اور میں یہ سن کر سوچتا ہی رہ گیا کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی پیروی میں سادہ تعمیر بھی تو سنت ہے ۔۔یہ تو مجھے کسی نے بعد میں بتا یا کہ جتنی رقم اس بنگلے پر لگی اس سے تو سیکڑوں بے گھروں کو چھت میسر آ سکتی تھی۔اور یہ سن کر میں ایک بار پھر سوچتا ہی رہ گیا کہ کیا سنت صرف داڑھی، ٹخنوں سے اوپر شلوار ،ہاتھ سے کھانے ، بیٹھ کر پانی پینے میں ہوتی ہے یا زندگی کے باقی شعبوں اور رویوں میں بھی ہوتی ہے ۔یہ سوچناتھا کہ غیب سے ندا آئی ، پگلے تیر ے آقا ؐکی سنتیں تو ہر گھڑی ، ہر ساعت ، ہر زماں ، ہر مکاں ،ہرعمل ، ہر سوچ ، ہر رویے اورہر شعبے کے لیے ہیں مگر تم نے اپنی سہولت کے لیے صرف ’’میٹھی میٹھی‘‘ سنتیں یاد رکھی ہوئی ہیں اور باقی سب بھلا رکھی ہیں۔ یاد رکھو تمہارے آقاؐ قیامت میں صرف اُسے یا د رکھیںگے جو ان کی ہر سنت کو یاد رکھے گا اور جو اُن کی اکثر سنتیں بھلا رکھے گا اور صرف’’ میٹھی میٹھی‘‘ سنتیں یاد رکھے گا تو یہ ڈر ہے کہ کہیں آقاؐ بھی قیامت میںاس کو بھلا نہ دیں اوروہ جسے آقاؐبھلا دیں تو پھرہے کوئی ۔۔۔جو اسے یاد رکھے ؟