میں سائکاٹرسٹ کے پاس بیٹھا تھا ۔ بیگم کے کہنے پہ کئی دن سے ٹائم لیا ہوا تھا ،اس لئے انہیںملنے چلے آیا ،کیا مسئلہ ہے آپ کو .. ؟تفصیل سے ذرا بتائیں ..میں آنکھیں بند کئے چت لیٹا ماضی کی طرف سفر کرنے لگا اور میری زبان سے الفاظ پھوٹنے لگے۔
سب ٹھیک تھامیں اپنے آفس میں مصروف رہتا اور نوشین یونیورسٹی میں لیکچرار تھی ۔بچے سکول کالج سے آکر اکیڈمی چلے جاتے اور پیچھے گھر میں صرف اماں اور نوکرانی ہوتی تھی
اماں کافی بیمار رہنے لگیں تھیں ، اکثر ایسا ہوتا کہ اماں کی رات کو طبیعت خراب ہو جاتی اور ہم انہیں لیکر ہسپتال چلے جاتے جہاں چار پانچ گھنٹے کے ٹریٹمنٹ کے بعد ہمیں فارغ کر دیا جاتا ۔ جب یہ اکثر ہونے لگا تو میری اور نوشی کی ورک روٹین خراب ہونے لگی ۔ راتوں کو دیر سے جاگنے کی وجہ سے ہم دونوں متاثر ہو رہے تھے ۔ ان ہی دنوں ایک دن نوشی نے مجھے کہا ...سنئے اماں کی وجہ سے ہم دونوں کو خاصی ڈسٹربنس ہو رہی ہے ۔ کیوں نا ہم انہیں اولڈ ایج ہوم چھوڑ آئیں۔یہ سننا تھا کہ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غراتے ہوئے میں نے پوچھا کہ تم نے یہ سوچا بھی کیسے ۔ جانتی بھی ہو ابو کی ڈیتھ کے بعد اماں نے مجھے کیسے پال پوس کر بڑا کیا۔آپ بھی نا جذباتی ہو جاتے ہیں ۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ شہر میں بیسیوں اولڈ ایج ہوم ہیں ۔ ہم کسی اچھے سے پرائیویٹ اولڈ ہوم کا انتخاب کریں گے جہاں میڈیکل کی بھی سہولیات ہوں تاکہ خدانخواستہ رات کو تو ہم یہاں ہوتے ہیں اگر دن میں اماں کی طبیعت بگڑ گئی تو کیا کرے گی کام والی نجمہ ، آپ ایک دفعہ مسز عباسی نے جو اولڈ ہوم پروجیکٹ شروع کیا ہے وہ دیکھ آئیں ۔اچھا فی الحال اپنی بکواس بند کرو اور مجھے پڑھنے دو ۔ میں نے عینک سیدھی کی اور پھر کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا لیکن میرا دماغ بار بار مسز عباسی کے بنائے اولڈ ایج ہوم کی طرح جا رہا تھا۔اگلے دن اتوار تھی اور صبح ہی صبح میں گاڑی لے کر شہر کے اس پوش علاقے کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ اولڈ ایج ہوم تھا ۔ گاڑی پارک کر کے میں اس شاندار اور پرشکوہ بنگلے کی طرز پہ بنی عمارت میں داخل ہو گیا ۔ جہاں میرا استقبال پودوں کو پانی دیتی مسز عباسی نے خود کیا ۔ اس دن میں نے وہ ساری عمارت گھوم پھر کر دیکھی جہاں میرے ذہن کے مطابق واقعی ہی بوڑھے لوگوں کے لئے جنت تعمیر کی گئی تھی ۔ صاف ستھرا ماحول ، بڑا سا سرسبز لان ، پرشکوہ ڈسپنسری جہاں ہر وقت ایک ڈاکٹر تعینات رہتا تھا ۔ اور اولڈ ایج ہوم کی اپنی دو اینمبولینسز کے علاوہ وہاں زندگی کی ہر سہولت فراہم کی گئی تھی۔مسز عباسی سے فیس وغیرہ پوچھی تو چودہ طبق روشن ہو گئے ۔ لیکن اماں کے آرام کے لئے مجھے وہ مناسب لگے ۔ اب صرف اماں سے پوچھنا باقی رہ گیا تھا ۔رات کو اماں کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا وہ بیٹھیں بڑے بڑے لفظوں والا قرآن پڑھ رہیں تھیں ۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور مسکرائیں ۔میں چپ چاپ پہلو میں آکر بیٹھ گیا , اماں کا حال احوال پوچھا اور پھر چْپ .. سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ بات کو کیسے شروع کروں۔یہ مشکل اماں نے خود ہی آسان کر دی ۔کیا ہوا بیٹا پریشان لگ رہے ہو !جی بس آپ کی وجہ سے ہی پریشانی تھی ۔ کیسی طبیعت ہے اب میں ٹھیک ٹھاک تو ہوں ۔ مجھے کیا ہونا ، بس یہ کمبخت مارا بلڈ پریشر اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ۔اماں ایک مشورہ کرنا تھا آپ سے۔۔بولو بیٹا !!!
اماں میں ایک جگہ دیکھ کر آیا ہوں میں نے ہکلاتے ہوے بولنا شروع کیا ۔ وہ آپ کی رہائش کے لئے بہت مناسب ہے ۔ وہاں مجھے یہ پریشانی نہیں ہوگی کہ آپ گھر میں اکیلی ہیں ۔ یا آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔ وہاں ڈاکٹر چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے ۔ ماحول بھی صاف ستھرا ہے ۔اماں کے چہرے پہ رقصاں مسکراہٹ تھم گئی تھی ۔ ایک دفعہ ماتھے پہ بل پڑے اور پھر مسکرا دیں ، بیٹا مجھے بھی کافی دن سے محسوس ہو رہا تھا کہ تم لوگوں کو کافی ڈسٹرب کر رہی ہوں ۔ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں ۔ جیسے میرا لعل خوش ویسے میں خوش ۔ اماں نے مسکراتے ہوے میرا ماتھا چوما اور میں کمرے سے نکل آیا۔میرا ضمیر اس بے غیرتی پہ آمادہ نہیں تھا مگر میرے حالات کچھ اور کہتے تھے ۔ یا شاید میں حالات کا صحیح مقابلہ نہ کر سکا اور اماں کو میں اولڈ ایج ہوم چھوڑ آیا۔
شروع شروع میں دو تین دن بعد میں چکر لگا لیتا تھا کبھی کبھی اماں کو گھر بھی لے آتا تھا اور اگلے دن پھر چھوڑ آتا ۔پھر میرے چکر کم ہوتے گئے بس اتوار کی اتوار جانے لگا ۔ اور پھر کچھ عرصہ پہلے تو حد ہو گئی ، کاروبار کے چند مسائل کی وجہ سے میں قریبا ایک مہینا نہ جا سکا ، اسی دوران وہ منحوس دن آ گیا ..
اتوار کا دن تھا ، مجھے آج ایک آدمی کے ساتھ ضروری کاروباری ملاقات کرنی تھی ۔ ناشتہ کیا اور گاڑی میں آبیٹھا ابھی سلف لگایا ہی تھا کہ اٹھارہ سالہ ایان بھی دروازہ کھول کر ساتھ بیٹھ گیا ۔ٍڈیڈ آپ کو پتا ہے میں گاڑی چلانا مکمل سیکھ گیا ہوں۔اچھا … ؟ واہ شاباش میرا بیٹا بڑا ہوگیا ۔ڈیڈ آپ ہمیشہ ہمیں سکول چھوڑ کر آتے ہیں آج میں آپ کو چھوڑ کر آؤں گا۔میں نے ہنستے ہوئے ایان سے پوچھا ،اچھا کہاں چھوڑنے کا ارادہ ہے اپنے پاپا کو !اولڈ ایج ہوم …اس نے کہا …اور میں ساکت ہوگیا ۔ میرے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی اور ہاتھ سٹیرنگ پہ مضبوطی سے جم گئے۔وہ اپنی دھن میں بولتا جا رہا تھا ۔ آج سنڈے ہے مجھے پتا ہے کہ آپ گرینی سے ملنے جا رہے ہیں ۔ میں بھی چلتا ہوں ساتھ میں آپ کو ڈرائیونگ بھی دکھاتا ہوں اپنی …مگر میں بس ایان کے پہلے جملے پہ ہی ساکت ہو چکا تھا ۔ اسکے معصوم جملے میں میرا مستقبل چھپا تھا ۔میری وہ فصل جو مجھے کاٹنی ہی تھی ۔ بچپن میں پڑھی کہانیوں اور واقعات کی طرح مجھے بھی اسی سلوک کا شکار ہونا تھا … میری آنکھوں سے آنسو ابل ابل کر آ رہے تھے اور میں اپنی اماں سے اپنے اس گھٹیا سلوک سے سخت شرمندہ تھا ۔ایان کو بلاوجہ ڈانٹ کر میں نے گاڑی سے نکالا اور تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا ، اماں کو لینے اولڈ ایج ہوم جانے لگا
اولڈ ایج ہوم پہنچا تو دوسری بجلی گری کہ کچھ دیر قبل ہی اماں ہارٹ اٹیک سے فوت ہو چکی تھیں اور میری معافی و توبہ کے سارے دروازے بند ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب تب سے میں انتہائی چڑچڑا ہو چکا ہوں ۔کاروبار میں دل نہیں لگتا۔ بلاوجہ بچوں اور ملازموں کو ڈانٹتا رہتا ہوں
اکثر چھٹی والے دن سارا سارا دن قبرستان میں اماں کے سرہانے بیٹھ کر ان سے معافی مانگتا رہتا ہوں ۔نہ گھر میں دلچسپی رہی نہ کاروبار میں اب بتائیں کیا اس بے سکونی بے آرامی اور اس ضمیر کا کوئی علاج ہے جو جاگا بھی تو بے فیض ۔کافی دیر تک میں چپ رہا لیکن ڈاکٹر کی آواز نہ آئی آنکھیں کھولیں اٹھ کر ڈاکٹر کو دیکھا تو وہ سر نیچے کئے بیٹھا رو رہا تھا ۔ڈاکٹر صاحب ... میں دوبارہ بولا تو اس نے سر اٹھایا اور آنکھیں صاف کرکے بولااسکے علاوہ اس بے سکونی کا کوئی علاج نہیں کہ اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہا کرو نیک کام کرو تاکہ وہ تمہارے ماں باپ کے کام آئیں اور شاید تمہیں سکون مل جائے۔
یہ کہتے ہوئی اسکی ہچکیاں بندھ گئیں اور گلوگیر آواز میں پھر بولا۔میں نے ایک ضروری کام سے جانا ہے آپ چلے جائیں ، یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور ملازم کو بلا کر کلینک بند کرنے کا کہنے لگا۔ارے ڈاکٹر صاحب اتنی ایمرجنسی میں آپ جا کہاں رہے ہیں ؟ میں نے پوچھا تو اس نے مْڑ کر جواب دیا۔اولڈ ایج ہوم !۔بابا کو لینے …یہ کہا اور گھوم کر راہداری میں غائب ہو گیا۔٭٭٭