خطبہ عرفات:
زوال ہو چکا تھا۔کمپنی والوں نے خیمے میں ریڈیو اور مائک کا بندوبست کر لیا تھا۔ طواف گروپ کے سارے زائرین ، اندازاً ًپانچ چھ صد تعدادتو ہوگی اِن کی،ایک ہی خیمے میں جمع تھے۔امتیاز صاحب نے مائک سنبھالا اور کہا کہ ابھی امام حج کا خطبہ شروع ہوگا ،وہ ہم آپ کو ریڈیو کے ذریعے سنوائیں گے اور بعد میں اِس کا ،اُردو زبان میں ترجمہ و تشریح بھی پیش کی جائے گی۔ہم ہمہ تن گوش تھے اور ٹھیک ساڑھے بارہ بجے امام صاحب کی آواز گونجی اور الحمد للہ ،نحمدہ ،و نستعینہ سے آغاز کرکے انھوں نے حجاج کرام کو خطاب کرنا شروع کیا۔ بڑی شستہ عربی،آسان فہم زبان ، قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے مزین ،خوب صورت اورگرجدار آواز میں انھوں نے ہم سے خطاب کیا۔خطاب کا موضوع ،رحم ،رحمت اور رحیم تھا۔تقریباً چالیس پینتالیس منٹ یہ تقریر جاری رہی الحمد للہ ،کہ اِس تقریر کا اسی نوے فیصد حصہ ، اِس خاکسار کو بخوبی سمجھ آیا۔خطاب ختم ہوا تو کیمپ میں ہی ، ہم نے نماز ظہر اور نماز عصرکو جمع اور قصرکر کے ادا کیں،جس کی امامت کی سعادت ،اتفاقی طور پر اِس خاکسار کو حاصل ہوئی۔یہ لمحہ بھی عجیب لمحہ تھا۔میرے ایسا خطاکار و گناہ گار انسان اور عرفات میں نمازوں کی امامت کی سعادت!نہایت سرور انگیز لمحات تھے۔یہ سارا کرم ہے میرے مالک کا،میں تو اِس قابل نہ تھا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد،محترم حاجی امتیاز صاحب نے اِس خطبے کی بہترین ترجمانی و تشریح کی۔اپنی تقریر کے آخر میں ،محترم حاجی صاحب نے بڑے ہی پُر سوز طریقے سے حاضرین کرام کو ترغیب دِلائی کہ اب وقت ہے ،آپ لوگ اکیلے اکیلے ہوکر،یہ سارا میدان عرفات ہے ،اِس میں کہیں بھی کھڑے ہوکر اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں کریں۔اپنے رب کو آج منا ہی لو۔رو رو کر اُسے راضی کر لو۔اپنے گناہوں کی معافی مانگو،اُس کریم آقا سے اپنی بخشش طلب کرو ، یہی وہ وقت ہے جس کی ہم آرزو کرتے تھے۔یہی وہ لمحہ ہے جسے وقوف عرفات کہتے ہیں۔حاجی صاحب نے آخر میں یہ اعلان فرمایا کہ ابھی آپ لوگ جائیں اور انفرادی طور پر اللہ پاک سے دعائیں کریں ، ٹھیک ساڑھے چار بجے ،اِسی جگہ واپس تشریف لائیں ہم سب مل کر اپنے مالک کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔کیمپ میں اجتماعی دُعا ہوگی۔اِس کے ساتھ ہی یہ اِجتماع منتشر ہو گیااور ہم اِس خیمے سے باہر آنے لگے تونکلتے ہوئے شکیل بھائی کہنے لگے،’’ڈاکٹر صاحب ! کیوں نہ جبل ِ رحمت کی طرف چلیں اور وہاں جا کروقوف کریں۔‘‘ میںنے کہا،’’کیوں نہیں، اچھی تجویز ہے ،آپ یہاں ٹھیریئے ، میں اپنے خیمہ سے چھتری پکڑ لاتاہوں ، دھوپ بہت تیز ہے،پھر چلتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر میں اپنے خیمہ میں چلا آیا جو کہ اجتماع والے خیمے سے متصل ہی تھا،وہاں گیا تو میری چھتری نہ تھی اور اُس جگہ پر واپس آیا جہاں شکیل کو چھوڑا تھا ،وہاں شکیل نہ تھا۔
اب اِس خاکسار ، عاجز و درماندہ کو،تنہا ہی، تنہائی کی تلاش میں باہر نکلنا پڑ گیا۔
آہیں اور سرگوشیاں:
شدت کی دھوپ اور گرمی سر کو جلائے دیتی تھی۔ہمارا کیمپ دو بڑی شاہراہوں کے بیچ میں تھا۔دونو ںطرف بڑی بڑی بسیں رکی ہوئی تھیں اور اُن کے انجن اسٹارٹ تھے اور اُن کے اندر ڈرائیور حضرات سو رہے تھے۔انجنوں کا بے تحاشا شور تھا۔ میں دُور دُور تک چلتا چلا گیا لیکن کوئی مناسب گوشہ نہ ملاجہاں میں تن تنہا اپنے رب سے لو لگا سکوں۔ایک آدھ دفعہ کسی درخت کے سائے میں پناہ لی اور دعائیں مانگنا شروع کیں لیکن کوئی لطف نہ آیا تووہ جگہ چھوڑ دی اور کسی اور طرف کو نکل گیا۔
عجیب صورت تھی ،میں تنہا تھا اور تنہائی کو تلاش کر رہا تھا۔ایک میرا ہی کیا،میرے بھائی ،یہاں سب تنہا تنہا تھے۔کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔اِ س غضب کے رش میں ،سبھی اکیلے اکیلے تھے ،تنہا تنہا تھے اور’’ایک اکیلے رب‘‘ کو منانے پہ لگے تھے۔
سب نے اپنی اپنی تاریں ایک جگہ فٹ کی ہوئی تھیں۔سب نے اپنی اپنی نظریں ایک ہی جگہ گاڑی ہوئی تھیں۔لاکھوں کا مجمع تھالیکن کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔سب اپنے اپنے گناہوں کی گٹھڑی کھولے، اپنے اپنے انداز میں ،اپنے اللہ سے معافی طلب کر رہے تھے۔کوئی کسی کونے میں ،کوئی کسی درخت کے نیچے ،کوئی کسی خیمے میں،کوئی دھوپ میں،کوئی سائے میں ،کوئی بیٹھا ہے اور کوئی چل رہا ہے ،بس ہر ایک روئے جا رہا ہے اور آنسووںکے موتی پروئے جا رہا ہے۔ہر طرف آہیں تھیں ،سسکیاں تھیں، آنسو تھے اور سرگوشیاں تھیں۔ میں تنہا ہی رہا ،اور تلاش بسیار کے باوجود مجھے تنہائی نہ ملی ، تو،میں کیمپ میں ہی واپس پلٹ آیا۔
کیمپ میں بھی وہی عالم تھا جو کیمپ کے باہر تھا۔یہاں بھی ،سب ہی ، مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہے تھے۔
باران رحمت:
میں بھی ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ کعبہ کی طرف منہ کیے ،رب کعبہ کو راضی کرنے لگا۔
خیمے کے اندر کا موسم تو خوشگوار تھا لیکن باہر کی حدت کااحساس ضرور ہوتا تھا۔میں وقوف عرفات میں تھا۔ساکت کھڑا تھا گرچہ میرے اندر طوفان برپا تھا۔آج میں اپنے باسٹھ سالہ زندگی کے ایک ایک گناہ کو یاد کر رہا تھا اور اپنے اللہ کریم سے معافی مانگ رہا تھا۔اُس کی رحمت کا اُمیدوار تھا۔سارے عزیز ،رشتہ دار،دوست ،احباب ایک ایک کر کے یاد آ رہے تھے اور خاکسار اُن کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرتا جا رہا تھا۔ کشمیری بھائی بھی یاد تھے۔وطن عزیز اور اُمت یاد بھی رہی۔آج اِمام عرفات نے جو تقریر فرمائی تھی اُس میں اللہ کی رحمت کا بار بار تذکرہ کیا تھا۔عرفہ کا دِن اللہ کی رحمت کا دِن ہے۔یہ اُس کی رحمت تھی کہ یہ عاجز و درماندہ آج میدان عرفات میں کھڑا تھا اور اُس کی رحمت کا اُمیدوار تھا۔یہاں اِس میدان میں یوں کھڑے ہونا ہی وقوف عرفات ہے جو حج کا رکن اعظم ہے۔یہ سراسر اُس کی رحمت تھی کہ میں حج کا رکن اعظم اد ا کر رہا تھا۔حاجی بن رہا تھا۔تزکیہ نفس کر رہا تھا۔اپنے آپ کو دھو رہا تھا۔
اِس وقت میدان عرفات میں لاکھوں ،اللہ کے نیک بندے موجود تھے ،اُن میں یہ خاکسار بھی ،ایک ذرہ ناچیز کی مانند موجود تھا۔اللہ پاک کے یہ لاکھوں بندے ،اُس کی رحمت کو پکار رہے تھے۔اُس سے معافیاں طلب کر رہے تھے۔اپنے گناہوں کو دھلوانا چاہ رہے تھے۔اُمید رکھتا تھا اور قوی اُمید رکھتا تھاکہ اِن لاکھوں نیک لوگوں کے ساتھ ،شاید میں بھی بخشا جاؤں۔
آسمان سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر!
یکایک آسمان عرفات سے مینہ برسنے لگا ۔ پتہ نہیں کہاں سے بادل آئے ،کب وہ گرجے ،ہمیں نہیں خبر،وہ تو جب ٹپ ٹپ پانی گرنے لگا،پانی کے قطرے ،دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھوں پر پڑنے لگے،پھر پتہ چلا کہ رب کی رحمت جوش میں آچکی ہے ۔ دعائیں رنگ لاچکی ہیں۔ میدان عرفات کی شدت کی گرمی اور لاکھوں مسلمانوں کی اِس تپتے میدان میں آہ و پکار،یہاں اپنا رنگ لا رہی تھی۔ یہ بارش صرف بارش نہ تھی بلکہ ہمارے گناہوں کے دُھل جانے کی خوش خبری تھی۔واہ میرے مالک کا کرم!یا تو سخت دھوپ تھی یا پھر اب بارش برس رہی تھی۔بادل برسے اور خوب برسے،پل بھر میں جل تھل ہوگیا۔خیمے ٹپکنے لگے،قالین اوراُس کے اُوپر رکھا زائرین کا تھوڑا بہت سامان بھیگنے لگا۔درخت دُھلنے لگے،گلیاں اور شاہراہیں بہنے لگیں۔پیاسی روحیں سیراب ہونے لگیں۔ گناہ گاروں کے چہرے چمک اُٹھے اور وہ حمد وتشکر کے ترانے گانے لگے۔ میدان عرفات میں ، اِس بارش کا نظارہ کرنے کے باعث ، دعا مانگنے کا وہ سلسلہ تو ختم ہوگیا تھاجس کا ذکر اوپر کیا ہے،البتہ زیر لب ذکر مالک جاری رہا بلکہ ذکر ربانی میں شدت آچکی تھی۔آدھ پون گھنٹہ بارش برسی،خوب جم کر برسی، پھر تھم گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے آسمان صاف ہوگیا۔بھیگے بھیگے احراموں کے ساتھ اوربارش میں نہائے ہوئے ،من اُجلے کیئے ، ہمارے گروپ کے دیگرزائرین کرام بھی،جو باہر رہ گئے تھے، آہستہ آہستہ کیمپ میں آنے لگے۔سب خوشی سے نہال تھے۔سراپا شکر گزار تھے۔
ہمارے شکیل بھائی بھی،اِس حال میں تشریف لے آئے کہ سار ااحرام پانی سے اشنان کیئے ہوئے اور خود بھی سر سے پاؤں تک بھیگے ہوئے ،لیکن نہایت خوش و خرم،کہنے لگے،’’میں تو پوچھتے پوچھتے، جبل رحمت پر پہنچ گیا تھا اور وہاں جو نظارے دیکھے ،لوگوں کی جوآہ و فغاں دیکھی اور سنی،اور اِس سے اپنی جو کیفیت بنی ،بس کیا کہوں ،اُسے بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ اب اجتماعی دُعا کی وقت ہو رہا تھا۔فوری طور پر شکیل بھائی کا احرام تبدیل کرایا اور ہم اجتماع والے خیمے میں آگئے۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے توکیمپ میں نہایت رقت آمیز اجتماعی دُعا ہوئی۔بڑاہی پیارا ماحول بن گیا۔دعا کروانے والے صاحب خود بھی روئے اور ہمیں بھی رُلاتے رہے۔اجتماعی دعا سے پہلے ،ہمارے گروپ لیڈر،جناب حاجی امتیاز صاحب نے اگلے پروگرام کا اعلان کر دیا تھاجس کے مطابق،دعا کے بعد ہی، فوراً ہم نے اکٹھے ہی بس اسٹاپ پر چلے جانا ہے۔وہاں بسوں میں سوار ہو جانا ہے۔جوں ہی سورج غروب ہوگا اور یہاں سے اِذن روانگی ملے گا،بسیں مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائیں گی اور کسی مناسب مقام پر رک کر،مزدلفہ میں ،بستر ارض پر ہی رات گزارنے کا اہتمام ہوگا اور صبح ہوتے ہی بسیں ہمیں منیٰ ہمارے کیمپ میں پہنچا دیں گی اور اُس کے بعد پھر اگلے مراحل طے ہوں گے۔
انتہائی قیمتی رات
شب مزدلفہ
۹ اور ۱۰۔ ذوالحج کی درمیانی رات
فاذا افضتم من عرفات ،فاذکروا اللہ عند المشعرالحرام
’’جب تم عرفات سے روانہ ہو جاؤتو مشعر ِ حرام (مشعر حرام مزدلفہ کو کہتے ہیں)کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔‘‘
نو ذوالحج کا سورج اپنی منزل غروب کی طرف رواں دواں تھا،بلکہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے رواں دواں تھا۔ابھی تو ہم اپنے رب سے پوری طرح مانگنے بھی نہ پائے تھے کہ ساتھیوں نے کہا،چلو چلو بسوں کی طرف چلو،وقت کم ہورہا ہے۔مزدلفہ چلنا ہے۔آفتاب کے غروب ہوتے ہی یہاں سے نکلنا ہے ۔ہر طرف چلو چلو کی آوازیں آنے لگیں۔ہم بھی چل پڑے ۔وقت کی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور قوانین و ضوابط کا خیال کرتے ہوئے ،ہم چاروں ساتھی بھی ، گروپ کے دیگر لوگوں کے ساتھ، بس اسٹاپ کی طرف چل پڑے جو کہ قریب ہی تھا لیکن سینکڑوں بسوں میں سے اپنی بس ڈھونڈھناایک جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ہم ابھی احرام میں تھے۔تلبیہ پڑھ رہے تھے۔ذکر الٰہی میں رطب اللسان،چل رہے تھے۔ موسم عمدہ ہو چکا تھا۔سورج کے غروب ہونے میں ابھی کافی وقت تھا لیکن بدلیوں کے باعث سورج ہم سے اپنا آپ چھپا رہا تھا،کبھی نظر آجاتا ،اکثر غائب رہتا۔دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی بسوں کی طرف لپک رہے تھے۔ اور ہم بھی چل رہے تھے۔سڑکیں گیلی تھیں ،کہیں کہیں پانی بھی رکا تھا اور کیچڑ بھی تھا۔بچتے بچاتے ہم چل رہے تھے۔آخر ہمیں ایک بس میں سوار کرا دیاگیا۔بس رُکی ہوئی تھی،انجن چل رہا تھا،ڈرائیور سیٹ پر براجمان،تیاربیٹھا تھا۔گاڑی کا اے سی خوب کام کر رہا تھا،اندر اتنی ٹھندک تھی کہ ہمیں سردی محسوس ہونے لگی،خاص کر ہمارے بھائی شکیل کو تو زیادہ سردی محسوس ہونے لگی کیونکہ وہ دِن میں کافی دیرتک بارش میں بھیگتے رہے تھے۔بس میں بیٹھے بیٹھے ،کافی دیر تو اِدھر اُدھر دیکھتے گزر گئی تو مجھے اچانک یاد آیا میںتو کسی عام سے بس اڈے پر، کسی عام سی بس میں سوار نہیں بیٹھا ہوا اور نہ ہی یہ کوئی عام دِن ہے۔ہم تو وادی عرفات میں ہیں۔یہ تو یوم عرفہ ہے۔یہ تو مانگنے کا دِن ہے۔یوم عرفہ کے جاتے لمحات کو قیمتی بنا لو،اور مانگو ،اور مانگو۔پھرہم نے ایک بار پھر اپنے رب کریم سے سلسلہ مناجات جوڑ لیا۔تسبیح و تہلیل میں مصروف ہوگیا۔ توبہ و استغفار میں لگ گیا۔
سنتے تھے کہ سورج کے غروب ہونے پر ، اِس دِن میدان عرفات میں، کوئی گولا وولا چھوٹتا ہے اور لوگ مزدلفہ کی طرف منہ کرکے بھاگ پڑتے ہیں لیکن ہماری دفعہ توایساکوئی کچھ نہ ہوا۔کوئی دھماکا ہم نے نہیں سنا اور نہ کسی گولا چھوٹنے کی آواز آئی۔بس اچانک ہی ساری گاڑیاں ، جنھوں نے مزدلفہ کی طرف منہ کر رکھا تھا ، اپنی منزل کو روانہ ہوگئیں۔ہماری بس بھی دھیرے دھیرے ،اپنے سے آگے والی بس کے پیچھے پیچھے ،رینگنے لگی۔بس رینگتی رہی ، سرکتی رہی،کھسکتی رہی اور چیونٹی چال چلتی رہی اور وقت گزرتا رہا۔
ہمیں مزدلفہ پہنچنا تھا۔ہمیں کوئی جلدی نہ تھی۔عام طور پر یہ پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ ہے ،اب چونکہ رش بہت زیادہ ہے تو اندازہ تھا کہ ایک گھنٹے میں پہنچ جائیں گے لیکن گھنٹہ تو گزر گیا،منزل کا کوئی پتہ نہیں ۔ بس ہم چلے جا رہے ہیں۔کاش ہم چلے ہی جا رہے ہوتے ،ہم تو گاڑی میں تھے اور اُدھردُور، ہزاروں لوگ پیدل چلتے نظرآ رہے تھے۔مجھے اُن پیدل چلنے والوں پر رشک آرہا تھا،ہم ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی تھک رہے تھے اور وہ پیدل چلتے چلتے بھی چست و توانا لگ رہے تھے ۔ پانی کے پھوارے بھی چل رہے تھے۔ پھوار وہاں پڑ رہی تھی ٹھنڈک کا خواب ناک احساس مجھے ہورہا تھا۔پیدل والوں کی سڑکیں خوب روشن تھیں جن میں یہ پانی کے چلتے ہوئے پھوارے، عجیب سماں باندھ رہے تھے۔ سڑکیں روشنی سے نہائی ہوئی تھیں۔ہر طرف چراغاں ہورہاتھا ۔ روشنیاں ہی روشنیاں تھیں،لیکن چونکہ راستے ہمارے جانے پہچانے نہیں تھے ، اِس لیے ہمیں کوئی خبر نہ ہو سکی کہ ہم کہاں ہیں اور منزل کتنی دُور ہے۔شاہراہوں پر ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ہر کسی کا منہ مزدلفہ کی طرف تھا۔کل رات میدان عرفات کی طرف آنے کی جو رغبت اور چاہت تھی ،اُتنی ہی اب مزدلفہ میں جاکر رات ٹھیرنے کی ،اُمنگ اور تڑپ ہے۔
کل رات اور آج صبح تک سب کو،عرفات میں پہنچنے کی جلدی تھی اور اب شام پڑے ، سب کو، مزدلفہ پہنچنے کی جلدی ہے،جیسے کوئی آفت ہے اِن کے پیچھے لگی ہوئی ،جو اِن سے عرفات خالی کروانا چاہتی ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے ؟ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ابھی تو صحیح طرح سے آ بھی نہیں پائے تھے کہ واپسی بھی شروع کروا دی گئی۔ پتہ چلا،بات عرفات و مزدلفہ کی پسند ونا پسند کی نہیں،بات وادیوں اور پہاڑوں کی نہیں۔
بات کسی جگہ کے لیے چاہت و رغبت کی نہیں،نہ ہی زمین کے کسی ٹکڑے سے محبت و نفرت کا کوئی معاملہ ہے۔ کل رات اور آج دِن تک ،نہ کسی نے عرفات میں آنے پر مجبور کیا تھا اور نہ ہی اب کوئی ایسی قوت ہے جو عرفات خالی کروانا چاہتی ہے۔ اور نہ ہی اِس سے آگے کے مناسک پر کوئی حکومت مجبور کر رہی ہے۔یہ سب لوگ اللہ کے بندے ہیں۔اُس کے غلام ہیں ۔اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔اُ س اللہ نے بلایا ،یہ آگئے ،اُس نے ایک کالا لباس اوڑھے کمرے کے چکرلگانے کو کہا،یہ،یہ لگاتے رہے،اُسی اللہ نے آج دِن تک ،عرفات میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا یہ لبیک کہتے پہنچ گئے،اور اب وہی اللہ حکم دے رہا ہے کہ عرفات خالی کرو، رات مزدلفہ میں زمین پر گزارو اور پھر کل صبح منیٰ جانا ہوگا۔یہ سب اللہ کے غلام ہیں،یہ سب اُس کے اطاعت گزاربندے ہیں۔یہ اُسی کے حکم سے ،عرفات آئے تھے اور اب اُسی کے آرڈرز پر عرفات خالی کر آئے ہیںاور اب مزدلفہ میں رات گزارنے کے لیے چھ فٹ زمین کے ٹکرے کی تلاش میں ہیں۔یہ سب کچھ کر لینے کے بعد بھی ،اپنے مالک سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ اِس دوڑ دھوپ کو قبول بھی فرمائے۔ اِس آنے جانے کو قبول فرمائے۔آمین۔
ہماری بس رواں دواں تھی۔ہمارے حاجی محمد یونس صاحب کی بدن بولی سے اندازہ ہوتا تھا کہ اُن کے پاس کوئی خاص بات ہے لیکن وہ ہمیں بتا نہیں پا رہے یا ابھی بتانا نہیں چاہ رہے۔دِن کو اجتماعی دُعا سے پہلے ، طواف گروپ کے ڈائریکٹر،حاجی امتیاز صاحب نے یہ بتایا تھا کہ،’’ یہ بس ،جس پر اب ہم سوار تھے،مزدلفہ اسٹاپ کرے گی،اِس کے آس پاس رہ کر ہی آپ مزدلفہ کی سرزمین پر شب بسری کریں گے،صبح پھر یہ بس آپ کو لے گی اور منیٰ میں اپنے کیمپ میں چھوڑے گی۔یہ دس ذوالحج کی صبح ہوگی،اُس دِن آپ بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور اگلے دِن ہم آپ کو طواف زیارت کے لیے سواری مہیا کریں گے۔‘‘اِس پروگرام پرہم ’’اصحاب ِاربعہ‘‘مطمن تھے سوائے آخری جزو کے ،وہ یہ کہ ہم چاہتے تھے کہ دس کو ہی طواف زیارت کر لیں،کیونکہ پیارے حضور ﷺ کی سنت یہی تھی،لیکن کمپنی والے ہمیں اُس سے اگلے دِن طواف کے لیے لے جانا چاہتے تھے۔ہم نے یہی فیصلہ کر لیا کہ ہم حاجی یونس صاحب کی قیادت میں ،طواف زیارت ،جو کہ حج کا دوسرا بڑا رکن ہے،سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق،دس ذوالحجہ کو ہی کریں گے۔اِس فیصلے میں اہم معاون چیز یہ تھی کہ،امتیاز صاحب کے اعلان کے مطابق، کمپنی والے ہمیں گاڑیوں پر مزدلفہ سے منیٰ پہنچائیں گے،اُس سے آگے ہم اپنے طور چلے جائیں گے۔اب لگتا تھا کہ اِس پروگرام میں کوئی پرابلم آ چکی ہے ،حاجی صاحب جان گئے ہیںلیکن ہمیں بتا نہیں پا رہے۔
مزدلفہ کی حدود شروع ہوگئیں۔ہماری بس مناسب پارکنگ کی تلاش میں،ابھی چل رہی تھی۔باہر سڑکوں پر رونق تھی۔کچھ لوگ ابھی چل رہے تھے،کچھ بسیں بھی رکی کھڑی تھیں۔بعض لوگ مزدلفہ کی سرزمین پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔کئی لوگ ، مختلف مقامات پر صفیں باندھے،اللہ کریم کے حضورر جھکے ہوئے تھے۔وہ نماز مغرب اور نماز عشاء کی ادائیگی کر رہے تھے۔
ہماری بس والوں نے بھی ایک مناسب جگہ کا تعین کر لیا اور رک گئے۔ہم سب شاداں و فرحان بس سے اُتر آئے۔ سب سواریوں کو اُتار کر بس والا آگے جانے لگا تو ایک دو حضرات بول پڑے کہ یہ کدھر جا رہا ہے ،اِس نے تو ہمارے پاس ہی رکنا تھا۔ انتظامیہ کے ایک دو آدمی ساتھ تھے،وہ کہنے لگے کہ یہ صبح ہمیں لینے آجائے گا۔ ہم اصحاب اربعہ بھی اکٹھے ہو چکے تھے،حاجی محمد یونس صاحب نے آہستگی سے ہمیں بتایا کہ اِس کے ساتھ یہاں تک کی بات تھی،کل کوئی بس شس نہیں آنی ،ہمیں پیدل ہی منیٰ کی طرف جانا ہوگا۔کمپنی والوں نے ہمارے ساتھ صریحاً دھوکہ کیا تھا یہی وہ بات تھی جو حاجی صاحب کو پتہ چل چکی تھی اور وہ ہمیں بتانا چاہ رہے تھے لیکن بتا نہیں پا رہے تھے۔اِس خبر سے ہماری اُمیدوں پر اوس پڑ گئی،ہم سب قدرے مرجھا سے گئے،لیکن اگلے ہی لمحے ہم حوصلے میں آگئے اور میں نے عرض کی ،صبح کی صبح دیکھیں گے،آیئے پہلے نماز مغرب و عشاء تو ادا کر لیں،یہ کہتے ہی ،سڑک کنارے ایک خالی جگہ دیکھ کر میں نے اپنا مصلیٰ بچھایا اور ساتھیوں سے کہا آیئے نماز مغرب پڑھتے ہیں۔رات کے دس بج چکے تھے۔عام دنوں کے حساب سے تو مغرب قضا ہو چکی تھی اور عشاء کا وقت بھی نکلا جارہا تھا،لیکن آج کے دِن کا یہ حکم رسالت تھا کہ اگرچہ مغرب کا وقت عرفات میں ہی ہو چکا تھالیکن وہاں نماز مغرب کی ادائیگی نہیں کر سکتے تھے،لہٰذا وہاںنہیں پڑھی۔حکم یہ تھا ،جس وقت بھی مزدلفہ پہنچیں،چاہے آدھی رات گزر چکی ہو،نماز مغرب وہاں ادا کرنی ہے اور اُس کے ساتھ ملا کر نماز عشاء بھی ادا کرنی ہے۔یہ رعایت صرف شب مزدلفہ کے لیے ہے،یہ فرمان نبوی ﷺ بچپن سے سنتے پڑھتے آرہے تھے اور آرزو کرتے تھے کہ مالک کبھی ہم ایسے بے کسوں کو بھی ایسا موقع عنایت فرمائیں گے،ہم بھی کبھی شب مزدلفہ کے مزے لوٹیں گے۔اور آج وہ شب آگئی تھی،ہم رات دس بجے نماز مغرب ادا کر رہے تھے اور یہ ہماری ادا نماز تھی قضا نہیں کیونکہ ہم مزدلفہ میں ہیں۔ہم شب مزدلفہ میں ہیں۔یہ سرزمین ِمزدلفہ کا اعزاز ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے معمول کے قانون میں یہاں ،ہاں صرف یہاں ،یہ استثنیٰ رکھ دیا، یوم عرفہ کو ،نماز مغرب کا وقت ،غروب آفتاب کے فوری بعد نہیں بلکہ مزدلفہ پہنچنے پر ہے چاہے دس منٹ میں پہنچو یا دس گھنٹے میں۔ نماز ادا کر کے ،ایک جگہ پر اپنا ’’بوریا بستر‘‘ بچھا کر،ارض مزدلفہ میںتھوڑاسا چلا پھرا ہوں تاکہ ماحول کا جائزہ لے سکوں ۔ رات کا وقت ہے۔گو ہر طرف روشنیوں کا سیلاب ہے پھر بھی رات ،رات ہی ہوتی ہے ،اِس لیئے مزدلفہ کے زمینی خدو خال یا قدرتی مناظر یا موجودہ ماحول کی کوئی اعلیٰ تصویر کشی تونہیں کر سکتاالبتہ جو کچھ دیکھااور محسوس کیا اُسے آپ کے ساتھ شیئر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب سے اعلیٰ چیز جو میں نے یہاں محسوس کی وہ اطمینان و سکون کی چادر تھی جو یہاں،ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔کوئی غریب ہے ،کوئی امیر ہے،کالا ہے کہ گورا ہے ،عورت ہے کہ مرد ہے ،جوان ہے کہ بوڑھا ہے،ارض مزدلفہ کے فرش پر سویا پڑا ہے یا سونے کی تیاری کر رہا ہے۔بڑے اطمینان سے سویا ہے ،نیچے نہ کوئی بیڈ ہے ،نہ فوم کا گدا ہے ،نہ چارپائی ہے نہ چٹائی ہے،نہ کوئی قالین ہے اور نہ ہی کوئی منقش بیڈ شیٹ ہے،بس خالی زمین ہی زمین ہے۔ زمین بھی ایسی کہ جہاں نہ کوئی سبزہ ہے نہ کوئی سبزہ زار۔بس پتھریلی زمین،بدن کو چھبتی کنکریاں اور اُن پر سویا اللہ کا عاجز بندہ۔بڑے اطمینان سے سویا ہے ۔ بڑے فخرو وقار سے سویا ہے ۔آج یہاں سب اعزازو امتیاز ختم ہوگئے۔نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔آج کے دِن کا صرف ایک ہی اعزاز ہے،اور وہ ہے اللہ کا بندہ ہونا۔رنگ ونسل کے سب تفاخر مٹ گئے۔
غربت و امارت کے سب فرق ختم ہوگئے ۔ زبان و بیان کے سارے ارمان ختم ہوئے۔شان و شہرت کے سب غلغلے ختم ہوئے۔اعلیٰ سے اعلیٰ پوشاک پہننے والے، یہاں شب مزدلفہ میں صرف ایک سفید کفن میں ملبوس پڑے ہیں۔اعلیٰ سے اعلیٰ بیڈ پر لیٹنے والے ،یہاں زمین پر ،بے کسوں کی طرح پڑے ہیں۔ کہاں گئی وہ دنیا داری،کہاں گئے ناز نخرے،کہاں گئے وہ فخر و غرور کے نظارے؟؟ارض مزدلفہ نے ،اِس شب مزدلفہ نے، سب کچھ چھین لیا،صرف ایک اعزاز رہنے دیا اور وہ ہے اللہ کا بندہ ہونا!میرے من میں بھی سکون ہی سکون ہے۔اِس’’ مطالعاتی دورے ‘‘سے واپس آتا ہوں اور بستر ارض پر لیٹ جاتا ہوں۔میرے آس پاس کون سویا ہے کوئی خبر نہیں۔بس ہم سب ایک ہیں۔شب مزدلفہ کے باسی!اِس بستر ارض پر گہری نیند سویا،ایسی نیند جو ایک یاد گار نیند ہے۔
خواب مزدلفہ سے جب جگایا گیا تو دیکھا کہ صبح کے پونے چار بج چکے تھے۔گروپ کے کسی ساتھی کو یہ کہتے سنا کہ، ’’ اُٹھو ساتھیو،تیاری کر لو،حوائج ضروریہ سے فارغ ہولو،وضو بنا لو،ہم یہاں سے،منیٰ کی طرف پیدل ہی کوچ کریں گے اور راستے میں ہی نماز فجر بھی ادا کریں گے۔‘‘
ہم مزدلفہ میں تھے۔ہمیں یہاں سے کنکریاں بھی چننی تھیں جو اگلے تین دنوں میں ہم نے شیطانوں پر برسانی تھیں کچھ کنکریاں تو میں رات ہی چن لایا تھا اور کچھ ابھی چنتا جا رہا تھا جب میں طہارت خانوں کی طرف جا رہا تھا۔ طہارت خانوں والی عمارت میں پہنچا تو وہاں پر ،خلاف توقع،کوئی رش نہیں تھا۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر وضو کیا اور تازہ دم ہو گیا۔ایسے جیسے بجلیاں بھر گئیں ہوں۔رات کو کمپنی والوں کے نام نہاد دھوکہ بازی کا ،طبیعت پراب کوئی بوجھ یا کوئی برا اثرباقی نہیں رہا تھا ،اب میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو بخوبی تیار ہو گیا تھا۔
الحمد للہ علیٰ ذالک۔
ہمارے گروپ کے تمام ساتھی جلد ہی تیار ہوکر آگئے۔کسی سواری کے آنے کا تو اب کوئی امکان ہی باقی نہیںرہا تھا،بعض ساتھی جو نسبتاًضعیف اور کمزور تھے یا جن کے ساتھ معزز خواتین ہمراہ تھیں ،وہ کمپنی کے اِس سلوک پر قدرے جز بز ہوئے لیکن الحمد للہ ،تھوڑی دیر میں ہی سب ہی نارمل ہوگئے اور اگلے سفر کے لیے یکدم ہموار و تیار ہو گئے ۔ راستوں کی ہم میں سے کسی کو خبر نہیں تھی۔گوکمپنی کا ایک نوجوان نمائندہ ہمارے ساتھ تھا لیکن وہ بھی نا تجربہ کار اور راستوں سے مکمل طور پر نا واقف تھا۔بہر حال ،موبائل فون پر ،اپنی کمپنی کے کار پردازوں کے ساتھ ،اُس کا رابطہ قائم تھا اور ہمارے’’ انکل گوگل ‘‘ بھی موجود تھے ہماری رہنمائی کے لیے،لہٰذااُس نوجوان کی قیادت او ر ’’انکل گوگل‘‘ کی رہنمائی میں ، ہم نے منیٰ کی طرف اپنا پیدل مارچ شروع کر دیا۔
تلبیہ جاری تھا،افرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ہم الطریق الجوھرہ پر تھے۔ کافی کشادہ اور شاندار روڈ تھی۔منیٰ ،مزدلفہ اور عرفات میں شاہراہوں کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے۔سب سڑکیں اِسی طرح کشادہ اور شاندار ہیں۔پیدل چلنے والوں کے لیے الگ سے ایک نہایت عظیم الشان اور مختصر ترین راستہ تیار کیا گیا ہے جسے’’ الطریق المشاۃ‘‘ کہا جاتاہے۔اگرچہ ہم لوگ اُس سے دُور تھے لیکن ،اُس پر چلتے ہوئے قافلے رات سے ہی دیکھتے آرہے تھے اور اب بھی نظر نواز تھے۔میں خوش تھاکیونکہ رات کو،پیدل چلنے والے زائرین کودیکھ کر جو حسرت اُٹھی تھی وہ کمپنی والوں نے،اِس وقت پوری کر دی تھی۔ہم شاداں و فرحان منیٰ کی طرف ،پیدل رواں دواں تھے۔ ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد،شاہراہ پر ایک بورڈ آویزاں نظر آیا جس سے ظاہر ہوا کہ منیٰ یہاں سے دو کلو میٹر دور ہے۔اگرچہ ہمیں یہ تو علم نہیں تھا کہ منیٰ کا نقطہ صفر کونسا ہے اوریہ دو کلو میٹر کہاں تک ہے اور یہ کہ منیٰ کے اندر ہمارا کیمپ ،اس نقطہ صفر سے کتنی دُور ہوگا،لیکن پھر بھی یہ پڑھ کر تسلی ہورہی تھی کہ منیٰ صرف دو کلو میٹر رہ گیا ہے۔
اب مختلف اطراف سے نماز فجر کے لیے آذانیں بلند ہونے لگیں۔چلتے چلتے ہمارے قافلہ کے لوگوں نے بھی کسی جگہ رک کر نماز پڑھنے اور وقوف مزدلفہ کرنے کا مشورہ کیا۔مزدلفہ میں زندگی رواں دواں تھی۔قافلے چل رہے تھے۔سوئے ہوئے جاگ رہے تھے۔جاگے ہوئے نماز کی تیاری کر رہے تھے اور تیاری کر چکنے والے ،مختلف گروپس کی شکل میں،اپنی اپنی جماعتیں کروا رہے تھے۔موسم سہانا ہو چکا تھا،گرمی تو تھی لیکن تکلیف دہ نہ تھی ۔ ہمارے گروپ کے احباب قیادت نے ایک مقام پر فیصلہ کیا کہ یہاں ہم اپنی جماعت کرواتے ہیں،سو ہم نے وہیں سڑک پر ہی ،اپنے اپنے کپڑے ، چادریں،مصلے اور چٹائیاں بچھا لیں۔ جس جگہ ہم نماز پڑھ رہے تھے،آس پاس رہائشی خیمے تھے جو منیٰ والے خیموں کے مشابہ تھے۔ میرے سمیت کچھ لوگوں کو شک پڑ گیا کہ ہم اَن جانے میں مزدلفہ سے نکل کر منیٰ میں آ چکے ہیں ،جب کی سنت یہ تھی کہ ہمیں یہ نماز مزدلفہ میں ادا کرنی تھی اور نماز کے کچھ دیر بعدوقوف بھی کرنا تھا۔
اِس شک کا صاف ہونا ضروری تھا سو ہمارے کچھ نوجوان ،قریب ہی موجود، ٹریفک پولیس والوں کے پاس چلے گئے اور اپنا شک بیان کیا۔پولیس والوں نے تسلی دی اور بتایا کہ،’’ نہیں ،پریشان نہ ہوں،آپ لوگ مزدلفہ کی حدود میں ہی ہیں۔بلاتردّدو ریب نماز ادا کریں اور وقوف کریں،کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ یہ خیمے ،منیٰ میں جگہ کی تنگی کے باعث بنا لیے گئے ہیں اور اِنھیں نیو منیٰ کا نام دے دیا گیا ہے۔‘‘الحمد للہ ،پولیس کے اِس بیان سے سب دوستوںکا شک رفع ہوگیا اور پھر ہم نے وہاں،اطمینان سے نماز فجر ادا کی اورکافی دیروہاں کھڑے ،اللہ کریم سے دُعائیں مانگتے رہے۔ نماز پڑھ لینے کے بعد،گوگل کی رہنمائی میں ہم آگے بڑھے۔ایک دو مقام پر گوگل کا بتایا ہواراستہ پولیس نے بند کر رکھا تھا تو ہمیں متبادل راستہ لینا پڑاجویقیناً طویل ہو جاتا تھا۔
حدود منیٰ بھی شروع ہوگئی۔ہر طرف خیمے ہی خیمے ایستادہ تھے۔ابھی تومنیٰ خالی خالی لگ رہا تھاکیونکہ تمام زائرین کرام تو کل سے عرفات اور مزدلفہ میں تھے اور مزدلفہ سے واپسی آج ہونی تھی۔لوگ مزدلفہ سے ،اب واپس تشریف لارہے تھے۔ایک دوراہے پر،ہم جب پہنچے جہاں سے ایک راستہ رمی جمرات کی طرف جارہا تھا اور دوسراباقی منیٰ کی طرف ،تویہاں،ہمارے اہل قافلہ میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ہم میں سے بعض کی ،بشمول ہم اصحاب اربعہ کے ،یہ رائے بنی کہ بجائے کیمپ جانے کے سیدھا بڑے شیطان کی درگت بنانے کے لیے ،جمرات کی طرف جایا جائے اور وہاں سے قربان گاہ اور پھر بیت اللہ جایا جائے طواف زیارت کے لیے،لیکن غالب اکثریت کی یہ رائے تھی کہ ایک بار اپنے کیمپ پہنچ جائیں ،پھراطمینان سے اگلا پروگرام بنائیں گے۔ہم نے اکثریتی رائے کا ساتھ دیا اور کیمپ کی طرف ہی چلتے رہے جب کہ چند نوجوان رمی جمرات کی بھی طرف چلے گئے۔
سورج طلوع ہو چکاتھا،سورج طلوع ہونے کے بعد توگرمی بھی کافی ہو گئی تھی۔ ہم ’’انکل گوگل ‘‘کی رہنمائی میں چلے جارہے تھے۔تھکاوٹ تو تھی لیکن جذبے جوان تھے۔ہم سب احرام میں تھے ،لبوں پر تلبیہ جاری تھا۔آخر کار ،تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے پیدل مارچ کے بعد،کافی زحمت اُٹھانے کے بعد ،ہم ،منیٰ شریف میں،اپنے کیمپ، پہنچنے میں کامیا ب ہوگئے اور سکھ کا سانس لیا۔الحمد للہ ،کل رات کے نکلے ہوئے ،آج صبح ،ہم اپنے کیمپ میں، بخیریت واپس پہنچ گئے تھے،اور اللہ پاک کے فضل سے اِس دوران میں ہم، اپنے حج پروگرام کا،رکن اعظم ادا کر آئے تھے اور شب مزدلفہ کے لطف ومزے بھی لوٹ آئے تھے۔