حج بیت اللہ اور اللہ کے مہمان

مصنف : صاحبزادہ احمد منصور بگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : ستمبر 2018

سفر نامہ آخری قسط
حج بیت اللہ اور اللہ کے مہمان
صاحبزادہ احمد منصور بگوی
۲۰۱۷ کے حج بیت اللہ کی روداد

 

پاکستانی زیادہ تر کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں اورسب سے زیادہ نقصان اس ہی سیکٹر کاہواہے نیز یہ کہ پاکستانیوں کابے شمار پیسہ یہاں کے لوگوں کے پاس پڑاہے۔ہر طرف کنسٹرکشن کی مشینری بے کارکھڑی نظرآتی ہے اوربہت جلدوہ عدم استعمال کے باعث اورموسم کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے گی۔پھر بھی امید کی کرن یہ ہے کہ سال2018 کے بعد کاروباری معاملات اوراقتصادی حالات بہترہوناشروع ہوجائیں۔ابھی توہرطرف زیرتعمیرعمارات اور بند کرینیں کثرت سے نظر آتی تھیں۔
قیامِ حج کا دورانیہ 25دن سے زیادہ نہیں ہوناچاہیے۔دراصل لوگوں کے مزاج ، عادات اوررویوں کاپتاتو صرف اس وقت چلتاہے جب آپ اُن کے ساتھ مل جُل کر کھاناکھائیں ،سفر کریں یاکچھ وقت اکٹھے رہیں۔لیکن ایک دوسرے کوسمجھنے کے بعد پھر بھی زیادہ دیر تک اکٹھے رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ہر شخص اپنی ذات کے حصار میں رہتاہے۔اس حصار کے اندر در اندازی اور40دن کی مسلسل دراندازی کچھ زیادہ ہی بارگراں ہوجاتی ہے۔ حکومت کوحج کے دورانیے کو20یا25دن تک لاناچاہیے ۔لمبے اورتھکا دینے والے قیام کے دوران میں حاجی صاحبان کے جذبات، دعائیں ،حرم کی مشقت آہستہ آہستہ اتنی موثر نہیں رہتی جتنی کہ تھوڑے وقت کے اندر موجود اورتازہ دم رہتی ہے۔ حاجی صاحبان ہرروز مدینہ روانگی اورپھر واپسی کے دن اورگھنٹے گننا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر اگر رشتہ داروں کاگروپ حج کے لئے آجائے توشیطان کے حملے اوردنیا کی طلب بڑھ جاتی ہے۔تب ایسی بدمزگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جوشاید ساری زندگی بھر کے لئے تلخ یادیں بن جاتی ہیں۔
کافی انتظار کے بعدہماری روانگی حرم مدینہ کی طرف شروع ہوگئی۔یہ بھی ایک لمباسفرتھا لیکن مدینہ جانے کی خوشی نے تمام مشکلات کوآسان کردیا۔ہم نے مدینہ کے ہوٹل میں پہنچ کرسکون کاسانس لیا۔ہوٹل نہ صرف اچھا تھابلکہ حرم سے3منٹ کی پیدل مسافت پرتھا اورسامنے سب سے پہلے باب السلام ہی آتاتھا۔ہم نے عصر کی نماز ادا کی اورروضہ رسولؐ پرسلام کے لئے حاضر ہوگئے۔بڑاپُراثرمنظرتھا۔
مدینہ منورہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھراہواہے۔زیارات کے لئے جانے والی بسوں کی بجائے کوشش کی کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ایسی زیارات نصیب ہوجائیں جہاں کہ عام لوگ نہیں جاتے۔اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کی ناز برداری فرمائی اور اپنے بندوں کے لیے خود مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل عبدالستار صاحب کو بھیج دیا جنہوں نے بڑے اہتمام اورمحبت سے زیارات کرائیں۔جزاہ اللہ خیر!عبدالستار صاحب ہمیں جن جگہوں پر لے گئے اُن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
Oمقامِ احد۔
Oوہ کنواں جہاں کے پانی سے حضور ؐ کی میت کوغسل مبارک دیاگیا۔
Oکعب بن اشرف کاقلعہ جس کے آثار ابھی تک باقی ہیں بلکہ کھجور کا باغ جس کے اندرقلعہ بنایاگیاتھاوہ بھی ابھی تک موجود تھا۔
Oوہ باغ جہاں پر حضورؐ نے خود اپنے ہاتھ سے کجھور کے پودے لگائے تھے۔(وہ باغ سعودی حکومت کی ملکیت ہے اور اُس کے ٹھیکے دار سے ملاقات ہوئی جوکہ خود ایک پاکستانی کاشتکارتھااوروہاں فصل لگاتاتھا) 
اگر آپ نے حج کے سفر سے کچھ سیکھ کراپنی زندگی کاحصہ نہیں بنایاتوشاید آپ پر حج کرنے کاکوئی اثر نہیں پڑا۔میں نے حج سے جو کچھ سیکھا ہے کوشش ہے کہ اسے اپنی زندگی پرلاگوکروں۔
حج تو اپنے آپ میں ایک تبدیلی لانے کانام ہے۔اللہ تعالیٰ چھوٹی چھوٹی غلطیاں تو شاید نہیں پکڑتاہوگا ۔لوگ باربارحج کرنے جاتے ہیں کہ شاید پہلا حج قبول نہیں ہوا۔ یہ بات تواُس کی شان کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہے۔جبکہ قرآن خود کہتاہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو معاف کرنا اپنے پرلازم کرلیاہے بشرطیکہ اپنے گناہوں سے معافی اوراصلاح کے طلب گار ہوں۔حج کا تومقصد صرف ایک ہے کہ حکم باری تعالیٰ کی تعمیل کہ جس نے حج اللہ کی رضا کے لئے کیا تووہ ایساہوگیا جیسے ابھی پیداہواہے اوراس کے سب گناہ معاف ہوگئے ہیں۔اللہ تعالیٰ تو الرحمن الرحیم ہے یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ اپنے بندے کو معاف نہ کرے۔اصل بات تویہ ہے کہ آپ نے حج سے کیاسیکھا اوراپنے اندر کیاتبدیلی لے کرآئے ہیں اوراگر زندگی پھر بھی اُسی طرح گزررہی ہے جیسے پہلے تھی تو پھر آپ نے حج سے کچھ نہیں سیکھا۔حج تو زندگی کاوہ سفر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بلاوے کے ساتھ ہوتا ہے۔کچھ سیکھنے کے لئے جائیں اوراسے اپنی زندگی پرلاگو کردیں توزندگی بھی اورقسمت بھی تبدیل ہوجائے گی۔
ہمارے گروپ میں جوبچے شامل تھے وہ باقی سب سے زیادہ ہوشیارتھے اوراُن کی انرجی وسوچ نے شاید ہم لوگوں کوبہت متاثر کیا اورمیرا خیال ہے کہ بچوں کے لئے حج پرجانا زیادہ مناسب کام ہے کیونکہ واپسی پر بلال،طحہ اورطلال بڑے تبدیل ہوگئے۔ سب سے زیادہ صبر انہوں نے کیا۔اُن کو جوبات سمجھ میں آئی اُنہوں نے اُسے اپنے آپ پرلاگو کیا۔بچوں نے مکہ اورمدینہ کواچھا Explore کیا اوراُن کی وجہ سے ہم نے بھی کچھ نیاسیکھ لیا۔اُنہوں نے پاکستانی کھانے کی جگہوں کوتلاش کیا اور بڑے جوش سے طواف اورحرم کی نمازوں کی کوشش کی جس سے باقی لوگوں کوبھی حوصلہ ملا۔پاکستان آکر بھی اُن میں بڑی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں۔خاص طور پر کہ وہ اپنی پڑھائی اورنمازوں میں زیادہ ذمہ دار ہو گئے۔ 
مدینہ سے واپسی کاسفر شروع ہونے لگا تو مجھے پتہ چلاکہ پاکستانی حاجیوں کو بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ 8سے10 گھنٹے پہلے ہوٹل خالی کروالیاجاتاہے اورحاجی 3سے4گھنٹے بسوں میں انتظارکرتے ہیں میں نے اس کے خلاف آواز اُٹھانے کافیصلہ کیا۔کیونکہ میراخیال بلکہ یقین تھاکہ سعودی گورنمنٹ حاجی کے لئے بہت سے انتظامات کررہی ہے اورحالت بہتر کرنے کی سنجیدہ کوشش کررہی ہے یہ کوئی Mismanagement ہورہی ہے یاکچھ لوگ غلط کام کررہے ہیں یاانتظامات میں سے پیسہ بچارہے ہیں۔میں گورنمنٹ آف پاکستان کے سینٹرچلا گیاجو کہ کچھ ہی فاصلے پر تھا۔اُنہوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا۔میں نے اصرار کیا کہ مجھے شکایت لکھنی ہے جس پرمیری شکایت لکھ کر روانہ کردی گئی۔دراصل میں نے ایک سروے ہوتے دیکھا تھا اور ایک سروے میں مترجم کے ساتھ شامل ہوا اوراپنے تاثرات دئیے۔ اس میں پوچھا گیاتھا کہ جو کھانا دیاجارہا ہے وہ کیساہے ،رہائش کیسی ہے،لفٹ ٹھیک ہے،کمرے کی روم سروس کیسی ہے وغیرہ وغیرہ۔میری درخواست میں تمام تفصیل تھی کہ حاجیوں کوہوٹل سے جلد نکال دیاجاتا ہے اورپھر وہ بہت جلدی ائیرپورٹ پہنچ جاتے ہیں اوروہاں پر غیرضروری رش ہوجاتاہے۔
خدا معلوم میری درخواست کانتیجہ تھا یاہم چونکہ اللہ کے مہمان تھے ۔ چنانچہ جب ہماری باری آئی تو ہمارے جانے کاپہلا شیڈول دیوار پرچسپاں کیاگیا تووہ یہ تھا کہ ہم 8گھنٹے پہلے تیارہوجائیں ۔پھردوبارہ شیڈول لگا جوکہ 4گھنٹے پہلے چلنے کے لئے تھا۔ساتھ ہی پتہ چلا کہ ہمارے لئے کارگو کی ٹیم بلڈنگ میں ہی آرہی ہے جوکہ ہمارا سامان لے کرجائے گی۔سامان بلڈنگ سے ہی بک کرا لیا گیا اورہمیں صرف 3گھنٹے پہلے تیارہونے کے لئے کہاگیا۔ہم مدینہ ائیرپورٹ جہاز کی روانگی سے تقریباً ایک گھنٹہ تیس منٹ پہلے پہنچے ۔جب ہم مدینہ ائیر پورٹ پہنچے تو ہمارا سامان دروازے کے سامنے پڑاتھا۔کچھ ہی دیر میں ہمیں سامان مل گیا۔سامان بک کروانے کے لئے لمبی لائن لگی تھی اورپاکستانی پرانے پاکستانی بننے لگے تھے ہم نے صبر کامظاہرہ کیا۔صبرکاپھل ہمیشہ میٹھا ہوتاہے۔ہماری باری کچھ ہی دیر میں آگئی ۔ہم ٹرمینل کے اندرداخل ہوئے تو دنیا زمین پرسوئی ہوئی تھی یعنی افغانستان ،ایران اوردوسرے ممالک کے حاجی زمین پرسوئے ہوئے اوربیٹھے ہوئے تھے۔ہم پریشان تھے کہ بیٹھنے کے لئے بھی جگہ نہ تھی۔میں نے بیگم کے ساتھ پریشان ہونے کی بجائے ائیرپورٹ کی سیرشروع کر دی ۔دو مگ کافی خریدے اتنی دیر میں گروپ لیڈر کی کال آگئی کہ بس آگئی ہے اورجہازپرچلناہے۔ہم ٹرمینل کے اندر آنے کے20منٹ کے بعد بس میں سوار ہو کرجہازکی طرف چلے گئے۔ہم وہ کافی کے کپ بھی لے کرجہاز میں پہنچے۔ لیگ سپیس والی سیٹیں توپاکستان سے ہی بک تھیں اورہماراواپسی کاسفرشروع ہوگیا۔ عملہ خوش اخلاق تھا اورانہوں نے ہماری کافی خدمت کی۔جہاز کاسفر نہ جانے کیوں کچھ لمبا ہی لگنے لگا شاید اس لئے کہ گھر جارہے تھے اور گھر پہنچنے کی جلدی بھی تھی۔
لاہورائیرپورٹ پرہمارے انتظار میں بچے اوردیگر رشتہ دار آئے ہوئے تھے۔ Immigration آسانی سے ہوگئی ائیرپورٹ کے اندر بھی کچھ لوگ ہماراانتظار کررہے تھے۔گھرپہنچے توسب لوگ انتظار کررہے تھے۔ اپناگھر تواپناگھر ہوتا ہے ۔ تھکاوٹ بالکل نہ ہوئی۔بچوں نے گھر سجا رکھاتھا۔پھولوں کے ہار ائیرپورٹ اور گھر میں ہماراانتظارکررہے تھے۔
مہمانوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیااورکچھ دن تک چلتارہا۔لیکن اس کے بعدہم پوراہفتہ اتنا سوئے کہ شاید زندگی میں اتنی گہری اورپرسکون اورنیند نہ آئی ہوگی۔حج کی اصل تھکاوٹ توواپس آنے کے بعد اپنے گھرپرہوتی ہے۔خداکاشکر ہے کہ سب لوگ تندرست ہی رہے۔
***

پس نوشت
میں نے کچھ باتیں سیکھیں اورکوشش کی کہ اُن کو اپنی زندگی پرلاگوکردوں۔
*یہ اللہ کی رحمت ہے جودلوں کوبدلتی اور صحیح رخ پرچلنے میں مدد دیتی ہے۔
*اسلام بہت سادہ اورآسان مذہب ہے اورصبراس راستے کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ 
*شرک سے بڑاگناہ کوئی نہیں ہے اس لیے شرک کی حدوں سے بھی دور رہو۔ لوگوں کوبھی شرک سے باخبرکرو۔شرک اور توحید کے درمیان میں بڑی باریک لائن ہے۔ 
*رسول اللہ ﷺ کی ایسی محبت جو شرک تک لے جائے اس سے پناہ مانگنی چاہیے اور ایسی توحید جو کہ محبت رسول سے بے بہرہ کر دے اس سے بھی پناہ مانگنی چاہیے۔
***