کل شام سے بہت دکھی ہوں اور وجہ بھی کوئی بہت بڑی نہیں صرف ہمارے مسلمانوں کے رویے ہیں ۔ کل دوپہر ایک بچی کا فون آیا کہ سر بشیر میں کچھ مشورہ اور مدد لینے کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں میں نے پوچھا کہ بیٹا پہلے کام بتایے ۔ کہنے لگی مل کر ہی بتاؤنگی فون پر سن کر کہیں آپ انکار نہ کردیں ۔ آفس آنے کی اجازت دیدیں ۔ میرا آفس اب میرے بزنس آفس سے زیادہ مشورہ گھر بن چکا ہے ۔ وہ شام کو ایک سادہ سے دیہاتی لڑکے ساتھ میرے آفس پہنچ گئی ۔ بچی نے بغیر تمہید کے بتایا کہ پچھلے سال کووڈ میں مبتلا تھی تو مجھ سے دوا لینے آئی تھی ۔کہنے لگی سر ہم پنجاب لیاقت پور کے رہنے والے ہیں ۔ مزدوری کرنے کراچی آئے ۔ چونکہ میں ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی تو انہوں نے آٹھویں کلاس تک پڑھایا مگر غربت سے تنگ آکر میری جلدی شادی کردی اور تین سال پہلے دونوں فوت ہوگئے ۔ میری شادی کے چار سال جہنم میں گزرے ۔ شوہر نشہ کرتا تھا میں گھروں میں کام کرتی تھی مگر کووڈ نے لوگوں کے کاروبار ہی تباہ نہیں کیے گھر بھی اجاڑ دیے ۔ مجھے کووڈ ہوا تو کام چھوٹ گیا ۔ میں بےروزگار ہوگئی ۔ میاں کو نشہ کے پیسے ملنے بند ہوئے تو مجھ سے لڑتا رہتا کہ کماکر لاؤ ۔ تنگ آکر دسمبر 2020 میں مجھے طلاق دیکر کہیں غائب ہو گیا ۔ اب میری عمر 21 سال ہے اور مجھے اپنے کسی رشتہ دار کا پتہ ہی نہیں ۔ دھکے کھاتی رہی ۔ گلستان جوہر میں ماں کے جاننے والے ایک گھر میں کام اور رہایش میسر ہوگئی مگر مجھے اس گھر میں مسئلے ہونے لگے ۔ اگر کسی لڑکی کا کوئی والی وارث نہ ہو تو ہر شخص بری نظر سے دیکھتا ہے ۔ پچھلے دنوں مجھے صبح کے وقت ایک سیکیورٹی کمپنی کے آفس کی صفائی کا کام مل گیا جو میں نمٹا کر دو گھنٹے میں گھر واپس آجاتی تھی ۔ میں عزت کی زندگی ڈھونڈ رہی تھی کہ کہیں کسی کے نکاح میں آکر خود کو ہر شخص کی نظروں کی وحشت سے محفوظ کرلوں ۔ اسی سیکیورٹی کمپنی میں دلیپ کمار صبح آفس کھولتا تھا ۔ 15 دن تک ہم سارا کام اکٹھے کرتے کرتے ذاتی باتیں بھی کرنے لگے ۔ میں نے کہا کہ میں دنیا میں اکیلی ہوں ۔ اللہ کے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ۔ دلیپ کمار نے کہا کہ میں بھی ایسا ہی ہوں ۔ بچپن میں کوئی فیملی مجھے تھر سے کراچی لے آئی تھی ۔ دس سال تک مجھے واپس جانے نہ دیا اور پھر وہ امریکہ چلے گئے ۔ میں قیوم آباد میں ایک کمرے میں رہتا ہوں ۔ اگر آپ کہو تو میں مسلمان ہوکر تم سے شادی کرسکتا ہوں ۔ مگر میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ غریب آدمی ہوں ۔ سر ہم تین مسجدوں میں گئے کہ دلیپ کمار کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کردو ۔ ہر مولوی نے ہمیں ڈانٹ کر نکال دیا کہ شاید ہم کوئی غلط کام کرنے لگے ہیں ۔ ایک مولوی نے تو مجھ سے کہا کہ بی بی کس بدشکلے کی باتوں میں آگئ ہو میرے پاس رہ لو ۔ آخر میں ہمارے ایک سیکیورٹی گارڈ نے دلیپ کمار کو کلمہ پڑھا کر مسلم نام احمدعلی رکھ دیا اور اپنے محلے کے ایک شخص سے ہمارا نکاح پڑھوا دیا ۔ ہم نے یہ بات جب اپنی کمپنی میں بتائی تو ہم دونوں کو کمپنی سے فارغ کردیا گیا کہ کمپنی میں نوکری کرنے والوں کو ایسے تماشوں کی اجازت نہیں ہے اس طرح کمپنی کا ماحول خراب ہوتا ہے ۔
سر اب ہم دونوں میاں بیوی تو بن گئے ہیں مگر بےروزگار ہوگئے ہیں ۔ ہمارے دو مسئلے حل کردیں ۔ ہم آپ کو زندگی بھر دعائیں دیں گے ۔
١۔ ہمیں کمرے کا دو ماہ کا کرایہ اور ایک ماہ کا راشن دے دیں تب تک ہم نوکری ڈھونڈھ لیں ۔
٢۔ احمدعلی کے ختنے کروا دیں کیونکہ ہم جس ہسپتال میں جاتے ہیں وہ ہماری یہ بات سن کر ہمارا مذاق اڑاتے ہیں ۔
آپ معاشرے کے رویے دیکھیے ۔ جائز نکاح کی دشواریاں دیکھیے ۔ کسی کے مسلمان ہونے پر اسکی مدد کرنے کے بجائےاسکی زندگی اجیرن ہوتے دیکھیے ۔ آپ یقین کیجیے کہ دلیپ کمار احمد علی کے روپ میں مجھے زیادہ پریشان لگ رہا تھا ۔ بات کرتے مجھ سے بھی ڈر رہا تھا ۔ ساری بات بچی کو کرنی پڑ رہی تھی اور ابھی انکو نکاح نامہ بنوانا ہے ۔ رجسٹر کرانے کو نادرا کے دفتر کے دھکے کھانے ہیں ۔
میں انکی باتیں چپ چاپ سنتا رہا ۔ انہیں چائے پلائی ۔ محلہ محمودآباد میں اعظم میڈیکل سینٹر میں بات کی ۔ ڈاکٹر اعظم اور سرجن نے بغیر فیس کے احمد علی کے ختنے کردینے کی حامی بھرلی ۔ دو لوگوں کی ضرورتوں کا ایک ماہ کا راشن منگوایا ۔ دو ماہ کا کمرے کا کرایہ لفافے میں ڈال کر دے دیا ۔ تحفہ میں باترجمہ قرآن کریم دیکر ایک شادی شدہ جوڑے کو خوشی خوشی اپنے دفتر سے روانہ
کردیا کہ جب تک ضروتیں پوری کرنے کو نوکری کا بندوبست نہ ہو جائے ۔ آپکو زندگی سے ناامید نہیں ہونے دونگا ۔
یہ کہانی لکھتے ہوئے میں اپنے آنسو نہیں روک پا رہا کیونکہ میں نے ایک فون کرکے اور صرف تیس ہزار روپے خرچ کرکے ایک نومسلم لڑکے کو یقین دلا دیا ہے کہ مسلمان ہونا اتنا بھی مشکل نہیں ہے جتنا پچھلے ایک ہفتے میں اس نے دیکھا ہے ۔
میں نے کہا دو ماہ تک خوشی سے اپنے لیے نوکری ڈھونڈھ لو ورنہ مجھ سے رابطہ تو رہے گا ہی میں بھی ڈھونڈوںگا ۔