ایک سابق امریکی میرین فوجی کی سچی داستان
ترجمہ۔ عثمان غوری
میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ میں وہ باتیں‘جو میں اب آپ کو بتانے لگا ہوں‘ وہ کبھی بیان بھی کرسکوں گا۔ لیکن اس امید پر بیان کی جسارت کر رہا ہوں کہ شاید میری زندگی کے تجربات کسی کی اصلاح و رہنمائی کا باعث بن سکیں، اور شاید کہ میری داستان ان لوگوں کے لیے ‘جو قبولِ اسلام کی طرف راغب ہیں‘ کسی قدر اطمینان کا موجب ہوجائے۔
میں نے امریکہ میں ایسے والدین کے ہاں پرورش پائی جو محض نام کے عیسائی تھے- وہ کبھی چرچ نہ جاتے تھے ۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی میں نے اپنے والد یا والدہ کو کسی مذہبی تقریب میں شمولیت کے لیے بات بھی کرتے سنا ہو، خواہ یہ کسی بپتسمہ کی تقریب ہو، مذہبی انداز میں کسی شادی کی محفل ہو یا کسی جنازے میں شمولیت ہو۔ میرے خیال میں میرے ماں باپ کی شادی انتہائی بے جوڑ تھی شایداسی لیے وہ اکثر اوقات شراب کے نشے میں دُھت رہتے میں اور میرے بہن بھائی دور دور اور سہمے سہمے سے رہتے تھے، جیسے کہ اکثر اوقات ہمارے جیسے بد قسمت گھرانوں کے بچے ہُوا کرتے ہیں۔ میرے والد لگاتار کسی نہ کسی بیماری کا شکار رہتے تھے اور کسی ملازمت پر بھی چند مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے تھے۔ جب وہ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے ناکارہ ہو جاتے تو وہ ہفتوں تک غائب رہتے تھے۔ میرے والد کے مقابلے میں والدہ قدرے مضبوط اور سمجھ دار تھیں لیکن وہ بھی اکثر خوابوں کی دُنیا میں پناہ گزیںرہتیںاور قبل اس کے کہ ان کے ہوش و حواس بحال ہوں اور انھیں یاد آئے کہ ان کے بچے بھی ہیں جن کی انھیں دیکھ بھال کرنی ہے وہ پھر سے شراب نوشی کے دورے میں مبتلا ہو جاتیں۔ میں گھر میں چونکہ سب سے بڑا بچہ تھا اس لیے اکثر اوقات ان کی ذمہ داریاں مجھے ادا کرنی پڑتی تھیں۔کھانا بھی میں پکاتا، اور اس بات کا بھی مجھی کو خیال رکھنا پڑتا کہ ہمارے سکول کے کپڑے صاف ستھرے ہوں، گھر کے دوسرے چھوٹے موٹے کاموں کی بھی دیکھ بھال کرنی ہوتی اور سکول کی طرف سے ملا ہوا گھر کا کام بھی مکمل کرنا ہوتا۔مجھے اس وقت توکبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر میں نَشو ونَما پانا واقعی ایک بڑا مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
ایک موسمِ بہار میں میری چھوٹی بہن سخت بیمار ہو گئی۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا، خون کے سرطان کی تشخیص ہوئی اور وہ تین ہفتے بعد ہی میرے باپ کی عدم موجودگی میں فوت ہو گئی۔اس کے بعد میری والدہ کی قوتِ ارادی جواب دے گئی اور ان میں کسی معاملے کو نبٹانے کی ذہنی صلاحیّت بالکل ختم ہو گئی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود ہم اسکول میں ٹھیک ٹھاک چلتے رہے ۔ گریجویشن کے بعد میں نے بحری فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس وقت امریکہ جنگِ ویتنام میں پھنسا ہُوا تھا۔ مجھے پہلی انفنٹری ڈویژن میں بھجوا دیا گیا ۔ویتنام میں میں نے محسوس کیا کہ نشے سے میرے اندر ایک مصنوعی قوت و ہمت پیدا ہو جاتی تھی اور اپنے ارد گرد مجھے جس تباہی و بربادی اور موت کا سامنا تھا میرے اندر اس کا احساس بھی کم ہو جاتا تھا۔ میں تھا تو واجبی سی سمجھ بوجھ کا آدمی لیکن میں نے اس علاقے میں نام خوب پیدا کیا۔
وہ دن جس نے میری زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا وہ ایک عام سا دن تھا۔ہم نے اس جگہ کا محاصرہ کر لیا جس کے متعلق ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ دشمن کا کیمپ ہے اور ہمیں ان کا قلع قمع کرنا تھا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ کسی کو قیدی نہ بنایا جائے (بلکہ ختم کر دیا جائے)۔ایک دھما کا ہوا اور مجھے کچھ یاد نہ رہا جب ہوش آیا تومیرا ایک ساتھی فوجی مجھے اُٹھا ئے ہوئے تھا۔اس کا سانس پھولا ہوا تھا وہ ایک لمحہ سستانے کے لیے رکا اور اس نے میری طرف مڑ کر دیکھا۔جب میں نے زمین پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ یہ خون سے تر بہ تر تھی۔میں حیران تھا کہ جب وہ خود اتنا زخمی ہے تو اس میں مجھے اٹھا کر لانے کی ہمت کہاں سے آگئی تھی۔ مجھے اس وقت احساس ہُوا کہ یہ میرا ہی خون تھا جو ہر طرف بکھر رہا تھا۔ دہشت سے میری جان نکل گئی اور میں نے چیخ کر اس سے کہا کہ مجھے نیچے رکھ دو۔ہم طبی امداد کے ٹھکانے پر پہنچ گئے اور اس نے مجھے دھڑام سے زمین پر ڈال دیا۔
میری ٹانگوں کی جگہ ٹھونٹھ سے باقی رہ گئے تھے جن سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ وہ آخری چیز تھی جو میرے ذہن میں رہ گئی ، اس کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال کے بستر پر پڑا تھا۔ جن چادروں نے میری ٹانگوں کو ڈھانپ رکھا تھا ان کے نیچے نظر پڑی تو شدید صدمے کی وجہ سے میرے ہوش اڑ گئے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں چیخوں چلائوں۔ خدا نے میرے ساتھ یہ کیوں کیا ہے؟ اب جب کہ مجھے اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مجھ پر کتنی رحمت و عنایت فرمائی تھی تو مجھے اپنے اس خیال پر بڑی وحشت محسوس ہوتی ہے:
’’جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں(سورہ الروم ۳۰:۳۶)۔
میں نے نرس کو بلانے کے لیے اِدھر اُدھر بلاوے کی گھنٹی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے بازوئوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو مجھے انتہائی صدمہ ہُوا۔ اپنی یہ بے بسی دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں۔ اس پر کچھ نرسیں دوڑتی ہوئی آئیں انھوں نے مجھے سُلانے کے لیے کوئی انجکشن دیا۔ جب میں جاگا تو میں نے دیکھا کہ ایک انتہائی حیرت انگیز آدمی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے گھور رہا تھا۔ پہلی بات جو اس نے مجھ سے کی، وہ تھی: ’السلامُ علیکم‘۔ اُس وقت میرے لیے یہ بے معنی الفاظ تھے۔ اس کے بعد یہ شخص روزانہ میری خدمت گزاری کرتا رہا۔ نہ صرف وہ جسمانی لحاظ سے میری خدمت کرتا تھاجو اس وقت مجھے انتہائی اہم محسوس ہوتی تھی، بلکہ اس نے روحانی طور پر بھی میری بڑی خدمت و رہنمائی کی حالانکہ میرا خیال ہے کہ مجھے اپنے روحانی وجود کا اس وقت کوئی ادراک نہ تھا۔
وہ ایک مسلمان تھا۔ اس نے مجھے ارکانِ اسلام کی تعلیم دی۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق مسلمانوں کے تصوّر کی وضاحت کی۔الغرض اس نے عمومی طور پر اس بات کی طرف میری رہنمائی کی کہ میں اپنی زندگی کا مقصد اور اس کے بے پناہ امکانات پر غور و فکر کروں؛ قطع نظر اس بات کے کہ میرے ہاتھ پائوں ضائع ہو چکے تھے۔ میرا بایاں بازو کندھے تک الگ کر دیا گیا تھا اور دایاں بازو کہنی کے قریب سے کاٹ دیا گیا تھا۔ٹانگوں کے متعلق میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان کے صرف ٹھونٹھ ہی سے باقی رہ گئے تھے۔ اس شخص نے مجھے قُرآنِ کریم کی کچھ ایسی آیات یاد کرائیں جنھیں ادا کر کے میں اپنے درد میں کمی محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے مجھے ایسی دعائیں سکھائیں جنھوں نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ صورتِ حال خواہ کتنی ہی اچھی یا بُری ہو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات اللہ تعالیٰ کا کرم ہی ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
جب میںعلاج اور مصنوعی اعضا کے ذریعے کافی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا، تو مجھے مکمل بحالی کے لیے جہاز میں بٹھا کر اپنے وطن کے ایک اعلیٰ ہسپتال بھجوا دیا گیا۔ میں پہلے ہی کلمۂ شہادت ادا کر چکا تھا اور اب ایک با عمل مسلمان تھا۔ لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ میرے باعمل مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ کیونکہ جب میرے ہاتھ پائوں ہی نہیں تو کیسی طہارت اور وضو اور کہاں کی نماز! لیکن اسلام بنی نوع انسان کے لیے آسان بھی ہے اور ہر حال میں قابلِ عمل بھی ہے۔ میں اپنے منہ کے ذریعے اپنے اعضا پر پانی چھڑک کر اپنا وضو کر لیتا ہوں اور رکوع و سجود کے لیے اپنا سر اور آنکھیں جھکا دیتا ہوں:
گھر واپسی کے کچھ عرصے بعد تک میرے چھوٹے بہن بھائی مجھے ملنے سے ڈرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے وہ مجھ سے ملنے آ ہی گئے۔ان میں سے تین نے تو میرے ماں باپ کی روش اپنا لی اور شراب نوشی میں غرق ہو کر کلیتاً غیر ذمہ دار بن گئے۔باقی چار کو بھی نشے کی کچھ لت تو لگ گئی تھی لیکن ان میں سے دو بحالی کی طرف گامزن تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں انھیں شکستہ دل اور خوفزدہ نظر آئوں گا، لیکن جب انھوں نے وہ اعتماد اور اطمینان دیکھا جو میرے اندر موجود تھا تو انھیں قدرے اطمینان ہُوا۔ہم نے اپنی یہ عادت بنا لی کہ ہر ہفتے اکٹھے ہوں قطع نظر اس سے کہ ان میں سے اکثر نشے ہی کی حالت میں ہوں۔لیکن آہستہ آہستہ ، اور وہ بھی نہایت معمولی حد تک، انھوں نے اس بات کو کسی قدر توجہ سے سننا شروع کر دیا۔کہ اسلام کیا ہے اور ہر شخص کی زندگی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت کا کیا مطلب ہے۔میری دو بہنیں ہیں جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئیں۔ لیکن باقی سب نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اب میرے خاندان میں کوئی کسی کا دست نگر اور محتاج نہیں۔ سب خود کفیل ہیں۔وہ سب اپنی اپنی مسلمان کمیونٹی میں پوری طرح سرگرمِ عمل
ہیں۔جو مسلمان نہیں ہوئے وہ بھی اپنے معاشرے کی بہتری میں حصہ لے رہے ہیں اور مجھے امید ہے وہ بھی ایک نہ ایک دن ضرور حق پا لیں گے۔وہ مجھ سے اپنے ہمسر کی حیثیت سے محبت کرتے ہیں اور اس بنا پر میرا احترام کرتے ہیں کہ میں نے راہِ حق تک پہنچنے میں ان کی رہنمائی کی ہے۔
بعض اوقات مجھ سے کہا جاتا ہے کہ میں مختلف اسلامی اجلاسوں سے خطاب کروں۔ ایسے ہی ایک لیکچر کے موقع پر میری اس خاتون سے ملاقات ہوئی جو اب میری بیوی ہے۔ اس کا خاندانی پس منظر میرے خاندانی پس منظر جیسا نہیں تھا بلکہ وہ بچپن ہی سے پُر مسرت اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتی رہی تھی۔ کیونکہ اس کے خاندان والے کٹر کیتھولک تھے اس لیے اس کے قبولِ اسلام کی وجہ سے اب ان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا۔ اس کا ایمان اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے سلسلے میں اس کی فرض شناسی قابلِ تعریف ہے۔ وہ ضرورت مند مسلمانوں کے لیے مسلسل کپڑے اور خوراک جمع کرتی رہتی ہے۔ اور ہم نے نو مسلموں کی امداد کے لیے ایک قومی نیٹ ورک قائم کر لیا ہے۔ ہم ای میل کے ذریعے سے ان کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں اور جو لوگ دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں ان کی قریب ترین مسجد یا اسلامی مرکز تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہمیں الاسکا سے بھی خطوط ملتے ہیں جس میں رمضان کے روزوں کے متعلق سوال دریافت کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جن دنوں میں وہاں چوبیس گھنٹے میں سے بیس بیس گھنٹے کا دن ہوتا ہے۔
میں نے دو تہائی قرآنِ کریم تو حفظ کرلیا ہے اور آگے بھی مسلسل حفظ کر رہا ہوں۔ میں ان شا ء اللہ یہ کام مکمل قرآنِ کریم حفظ کرنے تک جاری رکھوں گا۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے۔جو بات اور بھی زیادہ خوشی کی ہے وہ یہ ہے کہ اب الحمدللہ ہمارے پاس تین پیارے پیارے بچے ہیں جن میں سے پہلا لڑکا تو ہمارا اپنا بیٹا ہے اور دوسرے دو بچے وہ ہیں جو یوگو سلاویہ کی جنگ کے نتیجے میں بے آسرا ہو گئے تھے۔ میری اہلیہ سخت خطرہ مول لے کر یوگوسلاویہ کے شہر مسطار اپنے کزنز کے پاس گئی تھی اور وہاں سے ان بچوں کو امریکہ لے آئی تھی۔ ان کے ماں اور باپ دونوں ہی قتل کر دیے گئے تھے اور یہ بچے سراجیو کے قریب ہی ایک دریا کے
کنارے بھوک اور خوف کی وجہ سے روتے چلّاتے ملے تھے۔
ہم دونوں ان بچوں کی مادری زبان سیکھنے کی کوشش کررہے ہیںتاکہ ہم انھیں ان کی تہذیبی و لسانی میراث واپس دلا سکیں۔ اگر یہ کسی اور کے ہاتھ لگ جاتے تو وہ اپنی اس میراث سے قطعی طور پر بے گانہ ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے۔اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بے انتہا کرم فرمایا ہے۔اس نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی اور میری اور میرے خاندان کی نگہداشت کا بندوبست فرمایا۔ میں اس کے ان احسانات کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔میں جب تک زندہ ہوں ان شا ء اللہ اسلام کی راہ میں جد و جہد کرتا رہوں گا۔’’جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو بے شک اللہ بڑاغفورورحیم ہے‘‘(سورہ المزّمل ۷۳:۲۰)۔بشکریہ ماہنامہ ینگ مسلم ڈائجسٹ بنگلور (انڈیا) ماہِ فروری ۲۰۰۵