بیٹی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : ستمبر 2021

و ہ اپنی شادی کے بعد بہت خوش تھی، گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھااور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ‘ اس کا شوہر اس سے بہت محبت کرنے والا تھا۔ وہ ہر چیز کا بہت خیال رکھتا اور وہ بن کہے ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود پاتی۔اس کی بہنیں لوگوںسے کہا کرتیں کہ ہماری بہن اور اس کا شوہرتو ایک آئیڈیل جوڑا ہے ۔ اس کا شوہر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اس کی بیوی بہت خوش ہے مگر کبھی کبھی باتوں باتوں میں اس کی بیوی شادی سے پہلے والی زندگی کے بارے میں یوں کہا کرتی ’’ وہ بھی کیا آزادی کے دن تھے‘‘ ۔ اس کا شوہر اس سے کہتا کہ کیااب غلامی کے دن ہیں۔وہ یہ سن کے چونک پڑتی  اورفوراً کہتی ، نہیں تو، میر ا مطلب یہ تو نہیں کہ اب غلامی ہے ۔تو پھر اس کا کیا مطلب ہے ، اس کا شوہر پوچھتا۔ اور کہتا دیکھوتم اس گھر کی ملکہ ہو ہر چیز تمہارے کنٹرول میں ہے ۔پھر بھی تم اسے غلامی سمجھتی ہو؟ اور وہ آئیں بائیں شائیں کر کے چپ ہو جایا کرتی۔ وقت گزرتا رہا نہ وہ یہ کہنے سے باز آئی اور نہ اس کاشوہر یہ سمجھ سکاکہ وہ ایسا کیوں کہتی ہے ۔ اور پھر اچانک ایک دن اُس کے شوہر کو اس جملے کا مطلب سمجھ آ گیااور جب اسے یہ مطلب سمجھ آیا تو کتنی ہی دیر وہ خو دسے یہ کہتا رہا کہ ہاں اس کی بیوی سچ ہی کہا کرتی ہے ۔ ہو ا یوں کہ ایک بیٹی کی شادی ہوئی اور وہ بھی بہت خوش تھی کہ اس کا شوہر بھی اس سے بہت محبت کرنے والا تھا ۔ پھر اس کے شوہر کو بیرون ملک ملازمت مل گئی اور وہ شادی کے بعد جلد ہی بیرون ملک سدھا ر گئی ۔ ایک سال ہونے کو آیا کہ بیٹی کا والد بیما ر ہو گیا اور پھر ایک دن ڈاکٹروں نے جواب دے دیا گویا گنتی کے چند دن تھے جو رہ گئے تھے ۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی رہی کہ اسے پاکستان بھیج دو، وہ بھی اپنے باپ سے چند باتیں کر لے اور زندگی میں ایک بار اسے دیکھ لے ۔اس کا شوہر آج کل ،آج کل کر تا رہا اور یہ کسی بد نیتی کی وجہ سے بھی نہ تھا بس سستی تھی کہ دن گزرتے چلے گئے اور پھر ایک دن فون آگیا کہ اس کاباپ زندگی کی بازی ہا ر گیا۔ اب بھاگم دوڑ دونوںمیاں بیوی پاکستا ن پہنچے لیکن پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ باپ کی میت دیکھ کر رو بھی نہ سکی۔ اسے سکتہ ہو گیا تھا کیونکہ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ چند د ن پہلے آجاتی تو باپ سے دو باتیں ہی کر لیتی لیکن کیسے آتی ؟؟ شوہر بھیجتا تو آتی ۔اب تو ساری زندگی کا بس ایک ۔۔کاش۔۔ ہی رہ گیا تھا ۔ اور پھر اس بیٹی نے بھی یہ سوچا کہ’’ وہ بھی کیا آزادی کے دن تھے ‘‘۔ جب اس بیٹی نے یہ سوچا تو اسے بھی سمجھ آ گیا کہ اس کی بیوی یہ کیوں کہا کرتی ہے کہ’’ وہ بھی کیا آزادی کے دن تھے ‘‘۔ اور ساتھ ہی اسے یہ بھی سمجھ آیا کہ لوگ بیٹی کی رخصتی پہ اتنے اداس کیوں ہوا کرتے  ہیں ۔ اس لیے کہ وہ ایک ایسے گھر اور ایسے دیس جار ہی ہوتی ہے جہاں ہو سکتا ہے کہ اسے والدین کے گھر کی نسبت سے زیادہ آسایش مل جائے لیکن یہ بات بہر حال سچ ہے کہ وہاں پہ بعض اوقات و ہ کچھ کرنا بھی چاہے گی تو نہ کر سکے گی اور بعض اوقات تو یہ بھی ہو گا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی مرتے باپ کی آرزو بھی پوری نہ کر سکے گی ۔ اس نے سوچا کہ ہاں واقعی بیٹیوں کے لیے و ہ آزادی کے دن ہی ہوا کرتے ہیں۔یہ بات تو اس کی سمجھ میں آ گئی لیکن اب وہ یہ سوچ رہا ہے کہ بعض اوقات بظاہر اتنی سادہ سی بات کو سمجھنے میں بھی، اتنی دیر کیوں ہو جایا کرتی ہے۔