باپ

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : ستمبر 2021

پچھلی شب لاھور ائیرپورٹ کے منظر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔یہ ڈیپارچر لاؤنج تھا۔کوئی دو برس کی بچی تھی۔ باپ خداحافظ کہہ کر مسافروں کی قطار میں لگ گیا۔بچی نے جو اندازہ کیا کہ بابا چھوڑ کر جارہے ہیں۔وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اس کی زبان پر یہی تھا۔۔بابا پاس۔۔بابا پاس ۔۔وہ ہاتھ اٹھا کر قطار کی طرف دیکھ کر مچل رہی تھی۔میرے پہلو میں کھڑی ساتھی بولیں ۔"بچی کی چیخ و پکار پر تو سب سماعتیں متوجہ ہوگئی ہیں مگر بابا کا دل تو کسی کو نظر نہیں آرہا۔"میں نے کہا ممکن ہے بابا آنسوؤں کو بمشکل حلق میں دھکیل رہے ہوں۔یہ "بابا" بھی دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔خود اپنے لیے نہیں جیتے۔زندگی بھر جو کماتے ہیں اس کا پانچ فیصد بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے۔اپنی جوانی اور بہترین صلاحیتیں لگا کر گھر والوں کی خوشیاں خریدتے ہیں۔مائیں تو بچوں کے ساتھ سائے کی طرح رہتی ہیں۔شیرمادر کے ہر قطرے سے ان میں اپنی محبت اتارتی ہیں۔انکی گود کی گرمی سے بچے کی حسیات بیدار ہوتی ہیں۔مگر یہ بابا تو صبح جاکر رات کو پلٹتے ہیں۔چھٹی کا دن زیادہ مصروف گزارتے ہیں کہ اہل خانہ کا اگلا ہفتہ سہل گزر جائے۔کچھ بابا تو تلاش معاش میں دیار غیر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔وہ بھائی ہیں تو بہنوں کی شادی،بیٹا ہے تو والدین کی کفالت و بیماری کا فریضہ۔ہمارے والد آٹھ بچوں کے لیے گاؤں سے خالص شہد اور مکھن منگواتے تھے۔گھر میں دیسی انڈے آتے تھے۔کبھی مرغیاں پال لیتے کہ بچوں کی صحت اچھی ہوگی تو اچھا لکھے پڑھیں گے۔ایک صبح امی کو غصہ آگیا" اس پاجامے میں دو بار پیوند لگاچکی اب نیا پاجامہ بنوا لیں۔کل ہی لٹھا لا کر چار پاجامے سی دیتی ہوں۔بولے"یہ پیوند میرے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کی سنت ہے۔"

ہمیں بچپن سے یہی پتا تھا کہ پیوند ایک مقدس چیز ہے کہ ایک مقدس ہستی سے اس کی نسبت ہے۔سمجھ میں نہیں آتا تھا جب کہتے تھے سالن نکال کر خالی دیگچی مجھے دے دو۔رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے،برتن بددعا کرتا ہے اس کو روٹی سے پونچھ کر صاف کرنا چاہیے۔کبھی ہمارے ساتھ دستر خوان پر نہ بیٹھے آخر میں بچی پلیٹوں کو روٹی سے صاف کرتے کہ یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔سب بابا ایسے ہی ہوتے ہیں۔وہ باپ کے انتقال پر تڑپ رہی تھیں کہ اکلوتا بھائی دیار غیر سے نہ آسکا۔

 ابا نے قسم دی تھی کہ اس کو میرے کینسر کا نہ بتانا زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر دے گا میری بیماری پر!!آپ ہی جانیں!گھر کے چار کمروں میں ائرکنڈیشن ہوں تو صرف امی بابا کے کمرے کا نہیں چلتا۔جب بچے ناراض ہوتے ہیں کہ ہیٹ ویو میں بھی خیال نہیں رکھا اپنا۔ تو ایک معصوم سا عذر کہ بیٹے "مصنوعی ٹھنڈک" سے ٹخنوں کی ہڈیاں متاثر ہوتی ہیں۔یہ بابا لوگ بڑے مضبوط ہوتے ہیں اپنے دکھ طشتری میں سجا کر تھوڑی پیش کرتے ہیں۔میرے بچوں کے باپ کی طرح بہت سے بابا بیوی بچوں کو طارق روڈ سے عید کی شاپنگ کراتے ہیں جب اصرار کیا کہ اپنے کپڑے بھی یہیں      سے خرید لیں تو ایک ہی جواب ملا۔مجھے فلاں کی فٹنگ ہی درست آتی ہے اور یوں ہمیشہ خود صدر کی پرانی دکان سے عید کا جوڑا خریدا۔

ہمارے سماج میں خون پسینہ کی گاڑھی کمائی سے بچوں کو جوان کرنے والے بابا مارے حیا کے کبھی جوان بیٹوں سے ان کی تنخواہ تک نہیں پوچھتے۔کبھی فرمائش نہیں کرتے۔خود کو گھر کے کونے تک محدود کر لیتے ہیں کہ زیادہ چلت پھرت سے دوسروں کی" پرائیویسی" متاثر نہ ہو۔۔

ائیرپورٹ پر تڑپتی بچی نے مجھ سمیت بہت سوں کو باپ کی یاد دلا دی تھی۔