مولانا مناظر احسن گیلانی (1892-1957) نے لکھا ہے : پہلوں کی عقلوں کو سورج کی شعاعوں اور آگ کے شعلوں نے اگر چندھیایا تھا تو کیا پچھلوں کے سینوں میں برق کی قوتوں ، ایٹم کی طاقتوں ، پٹرول کی تونائیوں نے چکا چوند نہیں لگائی ہے - بزرگوں کے کارنامے ، سورماؤں کی اولعزمیوں نے اگر پہلوں کو ان بزرگوں کی پتھر میں کدی ہوئی مورتیوں کے آگے جھکایا تھا تو کیا پچھلوں کے لیڈروں نے اور قائدوں کے کارناموں نے ان کے اسٹیچو اور فوٹو کے ساتھ ساری عزت و فلاح کو وابستہ نہیں کیا ہے (النبی الخاتم صفحہ 156)
جو لوگ خدا کو نہیں مانتے وہ نہیں مانتے - مگر جو لوگ خدا کو مانتے ہیں وہ بھی اکثر مشرکانہ انداز میں اس کو مانتے ہیں - موجودہ زمانہ میں جس طرح دوسرے معاملات میں تبدیلیاںہوئی ہیں اسی طرح شرک کی صورتیں بھی بدل گئ ہیں - قدیم شرک کی بنیاد اگر توہمات پر تھی تو جدید شرک کی بنیاد علم اور تہذیب پر ہے - بہت سے لوگ صورتوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شرک میں مبتلا نہیں ہیں - لیکن اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیجئے تو وہ بھی معروف مشرکوں سے کم مشرک نظر نہیں آئیں گے -
خدا کو ماننے کی دو سطحیں ہیں - ایک فطری سطح اور دوسرے شعوری سطح - خدا انسان کے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے - وہ فطرت انسانی میں ہر دوسری چیز سے زیادہ پیوست ہے - اس لئے آدمی ہر حال میں خدا کو ماننے پر مجبور ہے - حتی کہ غافل اور ملحد انسان بھی نازک لمحات میں خدا کو پکارنے لگتا ہے - مگر یہ سب فطری سطح پر خدا کا اقرار ہے - اور فطری سطح پر خدا کا اقرار معتبر نہیں - خدا کا اقرار صرف وہ معتبر ہے جو شعور کی سطح پر پیدا هہو-
مشرک انسان کا معاملہ یہی ہے - وہ فطرت کی سطح پر خدا کو ماننے پر مجبور ہوتا ہے - مگر وہ شعور کی سطح پر خدا کا یقین نہیں کر پاتا - اس لئے خدا کے رسمی اقرار کے ساتھ وہ کچھ اور ہستیاں بنا لیتا ہے جن سے وہ اپنی امیدوں اور تمناؤں کو وابستہ کر سکے - خدا کو اگر چہ وہ مانتا ہے - مگر خدا صرف اس کے رسمی عقیدہ کا جزہوتا ہے ، وہ اس کے شعورکا جزنہیںہوتا وہ بظاہر خدا کو مانتا ہے مگر وہ اس کے شعور اور احساس میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر شامل نہیں ہوتا - وہ اس کے فکر و عمل میں روح بن کر نہیں دوڑتا - اس کے شعور کو زندہ یقین اس کے مفروضہ خداؤں سے ملتا ہے - اس کے احساس کو تروتازہ تڑپ ان ہستیوں سے ملتی ہے جن کو اس نے محسوس طور پر اپنے سامنے بٹھا رکھا ہے - خدا اس کے روایتی عقیدہ کا جزہوتا ہے اور شرکا اس کے جیتے جاگتے ذہن کا جزہوتے ہیں -
شرک کسی صورت کا نام نہیں بلکہ حقیقت کا نام ہے - اور انسان اتنا ظاہر پسند ہے کہ وہ ہر زمانہ میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی محسوس خدا گھڑ لیتا ہے - وہ خدا کو مانتے ہوئے عملاً دوسروں کی پرستش کرنے لگتا ہے - حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان بھی اتنا ہی مشرک ہے جتنا قدیم زمانہ کا انسان تھا - اگر چہ آج دیوتاوں کے نام کچھ اور ہیں اور پہلے کچھ اور
توحید یہ ہے کہ آدمی اپنی عقیدت اور اپنے اعتماد کے جذبات کو صرف ایک خدا کے ساتھ وابستہ کر دے - اور شرک یہ ہے کہ وہ زبان سے تو خدا کو خدا کہے - مگر اس کی حقیقی توجہ اور دلچسپیاں خدا کے سوا دوسروں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں -
موجودہ زمانہ میں بت کی پرستش بہت سے لوگوں نے چھوڑ دی ہے - مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شرک ختم ہو گیا ہے - شرک اب بھی پوری شان کے ساتھ لوگوں کے یہاں موجود ہے - فرق یہ ہے کہ آج پتھر کے بت کے بجائے دوسری چیزیں پوجی جاتی ہیں - بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اعلی ترین جذبات کا مرکز اپنے قائدین اور رہنماؤں کو بنا رکھا ہے - بہت سے لوگ اپنے اداروں اور اپنی جماعتوں کے ساتھ وہی قلبی وابستگی رکھتے ہیں جو خدا کے ساتھ ہونی چاہئے - بہت سے لوگ اپنے ملک اور اپنی قوم کو خدا کا درجہ دئے ہوئے ہیں - بہت سے لوگوں کے لئے معیار زندگی اور مادی ترقیاں وہی برتر مقام حاصل کئے ہوئے ہیں جو خدا کا مقام ہونا چاہئے -
موجودہ زمانہ میں بت پرستی کا شرک زیادہ تر عوام میں باقی رہ گیا ہے - مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کا شرک شخصیت پرستی اور مادہ پرستی ہے - لوگ خدا کو مانتےہوئے اپنی محبوب شخصیتوں کے پرستار بنے ہوئے ہیں - وہ زبان سے خدا کا اقرار کرتے ہیں مگر عملاً ان کی ساری گرویدگی صرف مادی مصلحتیں اور دنیوی مفادات سے ہے
توحید کا پرستار وہ ہے جس کے جذبات خدا سے اتنا زیادہ وابستہ ہو جائیں کہ اس کی تنہائیاں خدا کی یاد میں بسرہوتی ہوں - اس کو خدا کے تذکرے سے لذت ملتی ہو - وہ اپنی صبح و شام کی زندگی میں خدا کو سب سے اونچا مقام دئےہوئےہو - اس کی نظر میں خدا کے سوا ہر دوسری چیز ہیچ بن گئ ہو - وہ سب کچھ خدا کے حوالے کر کے اپنے آپ کو اس کے لئے خالی کرلے -
موحد صرف اللہ والاہوتا ہے اور مشرک اللہ کے ساتھ دوسروں والا بھی -