سوال: کیا بہتر ہے! قربانی کے لیے جانور خرید کرنا اور ذبح کرنا؟ یا اتنے پیسے فقرا میں تقسیم کر دینا؟
جواب: سب سے پہلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پچھلے کچھ سالوں سے ایسے یا اسی جیسے سوالات کی کثرت ہو چکی ہے۔جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں: طواف کے نام پر کعبہ کے گرد چکر لگانا بس کیجیے اور جا کر فقراء اور مساکین کے گرد چکر کاٹئے۔ اور کچھ لوگ ایسے کہتے ہیں کہ: قربانی کے جانور کے پیسے صدقہ کر دینا قربانی کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ اور کچھ یوں کہتے ہیں کہ: بھوکے کے منہ میں جانے والا آپ کا ایک لقمہ آپ کی ہزار مساجد بنا دینے سے بہتر ہے۔
ان لوگوں کے استفسارات کے بارے میں آپ جانتے ہیں یا نہیں جانتے، ان کی غرض و غایت مسلمانوں کو ان کے ظاہری رسم و رواج جو کہ در اصل اسلام کے ایسے شعائر اور نشانیاں ہیں جو مسلمانوں کو دوسرے مذاہب پر فوقیت دیتی ہیں اور ان مذاہب سے اسلام کو مختلف بناتی ہیں پر شرمندہ کرنا ہوتا ہے۔ جو شخص بھی ایسے سوال پوچھتا ہے یا ایسی باتیں کرتا ہے وہ در اصل دین اسلام اور اسلام کے دانشمندانہ احکامات اور اسلام کی اولیات اور ترجیحات سے نابلد ہوتا ہے۔
فقیر اور مسکین کس دور میں نہیں رہے؟ یہ طبقہ آقا علیہ السلام کے زمانے سے لے کرآج تک موجود اور چلا آ رہا ہے۔ آج تک ایسی باتیں کسی نے کرنے کی جرأت نہیں کی جو اب کی جا رہی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو شخص عمرے اور بار بار عمرے کا اہتمام کرتا ہے اس پر اللہ کی طرف سے وسعت رزق اور مال کی کشادگی ہوتی ہے اور ایسے لوگ عموماً صدقہ و خیرات میں بھی کھلے ہاتھ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ بہت سارے عمروں کے خواہاں ایسے لوگ تو نہیں ہو سکتے جن کے دل میں مال خرچنے کی استطاعت، ایمان کی تازگی اور دل میں نرمی نہ ہو۔ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ فقراء پر خرچ کرنے کا موازنہ لوگوں کے عمروں پر، لوگوں کی قربانیوں پر اور لوگوں کے مساجد کی تعمیر پر خرچ ہونے والے مال سے کیوں کیا جاتا ہے؟ایسا کیوں نہیں کہا جاتا کہ لوگ ہفتے میں دو بار گوشت نہ خریدیں ایک بار کو کافی سمجھیں اور دوسری بار کے پیسے مساکین پر خرچ کر دیا کریں۔
ایسا کیوں نہیں کہا جاتا کہ سگریٹ نوشی بند کرو اور جتنا سگریٹ پر خرچ کر دیتے ہو اتنے فقراء پر خرچ کرنا شروع کرو؟ایسا کیوں نہیں کہا جاتا کہ شادی ہالوں پر، بڑے بڑے ولیموں پر، نت نئی رسموں اور رواجوں پر پیسہ اڑانا بند کرو اور بچ رہے پیسوں سے غریبوں کی بستیوں کا طواف کرو۔ ایسا کیوں نہیں کہا جاتا کہ اپنے پیسوں کو کنسرٹ پر، سٹیج ڈراموں پر، میچوں پر، فلموں پر، تماشوں اور ناچ گانوں پر خرچ کرنا بند کرو اور غریبوں کے حال کی اصلاح پر خرچ کرو۔ بیسیوں ایسے سوالات کہ ایسا کیوں نہیں کہا جاتا، ایسا کیوں نہیں پوچھا جاتا؟
ایک سوال ایسے لوگوں سے بھی پوچھنا بنتا ہے کہ ہمیں ہمارے شعائر سے لطف اندوز ہونے کے لیے آخر چھوڑ کیوں نہیں دیا جاتا ۔دو مختلف عبادتوں کا آپس میں کیوں موازنہ کیا جاتا ہے جن کے فضائل مختلف ہیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے لوگوں سے کہا جا رہا ہو کہ مختلف قسم کی ساری عبادات کو چھوڑ کر بس ایک عبادت (نیک عمل) کے پیچھے لگ جاؤ۔ان سوالات پر ایسے لگتا ہے کہ اسلام سے جن کو پرخاش ہے وہ ساری رات کروٹیں بدلتے ایسے سوال سوچتے ہیں اور دن چڑھے مسلمانوں کو زچ کرنے کے لیے پوچھتے ہیں۔ ان لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے سوالوں کی ظاہری رونق یا ان کے جملوں کی خوبصورت بناوٹ در پردہ اسلام اور اسلام کے شعائر کو تباہ کرنے کی چال ہے۔
سچ پوچھیے تو جو ایسے سوالات پوچھتے ہیں ان کا نہ تو خانہ کعبہ کے طواف سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی غریبوں کے گھروں کے طواف سے کوئی لینا دینا ہے۔
مضمون کا خلاصہ اور پوچھے گئے سوال کا جواب یہ ہے کہ قربانی کرنا افضل ہے۔ اس عمل کی حفاظت کیجیئے اور ایسی باتوں کو نہ سنیئے جو مسلمانوں کے شعائر کی نفی کرتی ہوں۔ اور اگر قربانی ذبح کی ہے اور غریبوں کے بارے میں دل بے چین ہے تو ساری قربانی یا قربانی کا کچھ حصہ غریبوں میں بھی بانٹیے۔ اب دل چاہے تو اپنا مال بھی ساتھ ان پر صدقہ و خیرات کیجیے۔ اور اگر بس دماغ میں کوئی فتور آیا ہوا ہے اور خلفشار پیدا ہوتا ہے تو چپ رہیئے اور جان لیجیے کہ یہ اسلام کے شعائر ہیں، ان پر خاموشی رکھنی ہے۔ اللہ نگہبان ہو۔