من الظلمت الی النور
میں نے اسلام کیسے قبول کیا
سنیل کمار (محمدعثمان)
سوال : آپ ہمارے ارمغان کے قارئین کے لئے اپنا کچھ مختصر تعارف کرائیں ۔
جواب : میرا نام محمد عثمان ہے پَلوَل ضلع فرید آباد (ہریانہ) کے قریب ایک گاؤں میں ایک غیر مسلم راجپوت گھرانے میں پیدا ہوا ۔ میرا پہلا نام سنیل کمار تھا میرے والد اپنے گاؤں کے ایک معمولی کسان ہیں ۔ فروری ۱۹۹۲ ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا میری عمر اب تقریباً ۲۵ سا ل ہے، میں نے دینی تعلیم کا آغاز ۱۹۹۲ ء میں مدرسہ ہر سولی میں کیا ، ناظرہ قرآن پاک کے بعد حفظ شروع کیا ، بعد میں دارلعلوم دیوبند میں میں نے حفظ اور عا لمیت کی تکمیل کی۔ فالحمد للہ علی ذلک۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے سلسلہ میں کچھ بتائیے؟
جواب : میری زندگی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کی ایک نشانی ہے ۔ میرے اللہ نے مجھ گندے کو ہدایت سے نوازنے کے لئے عجیب و غریب حالات اور نشانیاں دکھائیں گھریلو حالات کی وجہ سے آٹھویں کلاس کے بعد میں نے تعلیم بند کردی اور کچھ روزگار وغیرہ تلاش کرنا شروع کئے ۔ میری کلاس کا ایک میواتی لڑکا عبدالحمید میرا دوست تھا جو قصبہ ہتھین کے پاس کا رہنے والا تھا ۔ ہم دونوں میں بے انتہا محبت اور دوستی تھی ۔ عبدالحمید بھی گھریلو حالات کی وجہ سے پلول میں کار مکینک کا کا م سیکھنے لگااور کچھ دن کے بعد میں بھی اس کے ساتھ ورکشاپ جانے لگا۔ عبدالحمید کے والد میاں جی تھے اوروہ ہتھین کے قریب ایک گاؤں میں جمعیت شاہ ولی اللہ کی طرف سے امام تھے ۔
اس گاؤں کے پسماند ہ مسلمان ۱۹۴۷ ء میں اور اس سے پہلے مرتد ہوگئے تھے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں حضرت تھانویؒ نے اپنے چند خدام کو دعوت کے کام کے لئے لگایا تھا اور یہاں کام کرنے والوں کے لئے بڑی دعائیں بلکہ بعض بشارتیں بھی سنائی تھیں ۔ اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی ، ایک مزار تھا اس مزار کی یہ خصوصیت پورے علاقہ میں مشہور تھی کہ اس پر کبھی کسی نے کوئی تنکا بھی پڑا ہوا نہیں دیکھا ہر وقت انتہائی صاف رہتا ہے ۔ اوپر طاقوں میں کبوتر بھی رہتے ہیں مگر وہ بھی بیٹ نہیں کرتے۔ اسی مزار کے ایک حصہ میں وہ میاں جی صاحب رہتے تھے۔ بستی کے لوگ ان کو کھانا بھی نہیں دیتے تھے ، وہ اکیلے اذان دیتے اور نماز پڑھتے کچھ بچے کبھی کبھی ان کے پاس آجاتے تھے ۔وہ ان کو کلمہ یاد کراتے۔ وہاں کے مرتد ہوچکے مسلمان بھینسا بوگی سے بھاڑے کا کام کرتے تھے یہاں ایک مٹی کابڑا اونچا ٹیلہ تھا یہ سب لوگ وہاں سے مٹی اٹھاتے اور لوگوں کے یہاں ڈالتے ۔ ایک روز دو لوگ یہاں مٹی سے کاٹ رہے تھے ا چانک انھوں نے دیکھا کہ وہاں ایک خالی کھوہ میں سفید کپڑا دکھائی دیا۔ انھوں نے اور مٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لاش ہے یہ لوگ ڈرے اور میاں جی کو بلایا اور کہنے لگے کہ یہ کوئی جن یا پریت ہے ۔ میاں جی آئے انھوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش کی میت ہے اور اس طرح پڑی ہے جیسے آج ہی انتقال ہوا ہو ۔ انھوں نے لوگوں سے بتایا کہ یہ کسی اللہ والے مومن کی میت ہے اللہ کے نیک بندوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد ان کو دلہن کی طرح سلادیا جاتا ہے اور مٹی بھی ان کی حفاظت کرتی ہے ۔ اس واقعہ سے گاؤں والوں پر بڑا اثر ہوا اور ان میں سے خاصے لوگ ارتداد سے توبہ کرکے مسلمان ہوگئے ۔ اپنے بچوں کو بھی میاں جی کے پاس پڑھنے بھیج دیا اور مسجد کے لئے جگہ دی ۔ جو اللہ نے بنوا بھی دی۔ ایک روز عبدالحمید صاحب اپنے والد کے پاس اس گاؤں میں گئے میں بھی ان کے ساتھ چلاگیا ۔میا ں جی کے کھانے کا انتظام کرایا، اتفاق سے پلیٹ ایک ہی تھی۔ کھا نے سے پہلے میاں جی صاحب نے کہا تم ذرا ٹھہرو، میں گاؤں سے دوسری پلیٹ لے آؤں ، ہم دونوں نے کہا کہ الگ پلیٹ لانے کی ضرورت نہیں ہم دونوں ایک پلیٹ میں ہی کھاتے ہیں ، یہ کہہ کر ہم دونوں کھانا کھانے لگے ۔ میاں جی نے عبدالحمید سے کہا کہ بیٹا جب تم دونوں میں اتنی محبت اور دوستی ہے تو اپنے دوست کو مسلمان کیوں نہیں بنالیتا، یہ کیسی محبت ہے، یہ ہندو مرگیا تو کیا ہوگا؟ یہ کیسی دوستی ہے کہ ایک ہندواور ایک مسلمان ۔ کھانے کے بعد عبدالحمید اور ان کے والد نے مجھ سے کلمہ پڑھنے اور مسلمان ہونے کے لئے بہت خوشامد کی اور اصرار کیا ، کئی باررونے بھی لگ گئے ، میں نے ان سے کہا کہ آپ اسلام کا کوئی منتر( کلمہ ) مجھے بتائیے میں اس منتر کوپڑھوں گا۔ اگر میں نے کوئی چمتکار (کرشمہ) دیکھا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا ۔ میاں جی کو جماعت والوں نے ایک دعایاد کرائی تھی وہ انھوں نے مجھے یاد کرائی، اَللّٰھُمَّ اَجِِِرْنِیِ مِنَ النَّار ترجمہ: ’اے اللہ مجھے دوزخ سے پناہ دیجئے‘ اور کہا کہ چلتے پھرتے پڑھا کروں ۔
میں نے ان سے کہا کہ اس کا مطبل( مطلب) مجھے بتاؤ، انھوں کہا مطلب تومجھے بھی معلوم نہیں کل ہتھین مفتی رشید صاحب کے پاس جاؤں گا، ان سے معلوم کرکے بتاؤں گا۔ اگلے روز وہ ہتھین گئے میں بھی دوسرے دن شام کو ہتھین گیا میں بھی ان سے مطلب معلوم کرنے پہنچا ، انھوں نے بتایا کہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! اے میرے مالک ! مجھے دوزخ (نرک) کی آگ سے بچا ۔ میں نے سوال کیا کہ نرک کی آگ سے بچانے کا کیا مطلب ہے انھوں نے بتایا کہ جو آدمی مسلمان ہوئے بغیر اور ایمان کے بنا مر جائے ، وہ ہمیشہ نرک کی آگ میں جلے گا اور جو ایمان پر مرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔ میں نے کہا کہ کیا واقعی یہ بات سچی ہے ، انھوں نے کہا کہ یہ بالکل سچی ہے ۔ مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے عبدالحمید سے کہا کہ تو میرا کیسا دوست ہے اگر میں اسی طرح مرجاتا تو ہلاک ہوجاتا ۔ تونے کبھی مجھ سے نہیں کہا۔ میاں جی نے کہا واقعی بیٹا تم صحیح کہتے ہو ۔ عبدالحمید کو تمہارے ایمان کی بہت فکر کرنی چاہئے تھی ، بیٹا اب جلدی کلمہ پڑھ لو ، میں تیار ہوگیا وہ مجھے لیکر اگلے روز ہتھین مدرسہ گئے مفتی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عثمان رکھ دیا،الحمدللہ علیٰ ذالک
سوال : اس کے بعد آپ نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا یا گھر والوں سے چھپائے رکھا؟
جواب : اس کے بعد کا ہی حال سننے کا ہے تیسرے روز مجھے مفتی صاحب نے قانونی کارروائی کے لئے ایک صاحب کے ساتھ فرید آباد بھیج دیا۔میں نے فرید آباد ضلع جج کے سامنے بیان حلفی دے دئے ۔ضلع جج متعصب قسم کے آدمی تھے انھوں نے نابالغ کہہ کر مقامی تھانہ انچارج کے حوالہ کرنے اور تحقیقات کا حکم جاری کردیا۔ہتھین تھانہ کے انچارج جناب اومیش شرماتھے وہ کسی ضروری تفتیش کے لئے جارہے تھے انھوں نے انسپکٹر بلبیر سنگھ کو میرا کیس سونپا اور چلے گئے ، بلبیر سنگھ بہت ظالم اور متعصب تھے ، انھوں نے مجھے بہت دھمکایا اور بے دردی سے پہلے ہاتھوں سے مارلگائی اور جب میں نے ایمان سے پھرنے سے انکار کیا تو ڈنڈے سے بے تحاشا مارا ۔ جگہ جگہ میرے خون بہنے لگا، میں ہر وقت اَللّٰھُمَّ اَجِِِرْنِیِ مِنَ النَّارپڑھتا تھا مار کھاتے وقت کبھی کبھی زور سے یہ دعانکل گئی ۔ اس نے کہا یہ کیا پڑھتا ہے اور گالیاں دیں ۔ میں نے دعوت کی نیت سے اسے اس دعا کا مطلب بتایا ، اس کو اور بھی غصہ آیا ۔ اس نے دو سپاہیوں کو کہا کہ لوہار کی بھٹی پر جاکر لوہے کے سریے گرم کرو اور لال کرکے ننگا کر کے اسکو داغ دو ، ہم دیکھیں گے کہ یہ آگ سے کیسے بچے گا اور جب تک یہ اپنے دھرم میں واپس آنے کو نہ کہے اس وقت تک اسکو نہ چھوڑنا۔ وہ سپاہی پاس میں لوہار کی بھٹی پر گئے اور چارلوہے کے سریے گرم کرکے بالکل آگ کی طرح لال کرکے مجھے لے کر تھانہ میں لائے ۔ میرے اللہ کا کرم ہے دعا پڑھتا رہا ، انھوں نے میری شرٹ اتاری اور میری کمر پر سریوں سے داغ دینا چاہا مگر اللہ کافضل کہ مجھے ذرابھی اثر نہیں ہوا ۔ وہ سپاہی حیرت میں آگئے اور انسپکٹر بلبیرسے کہا۔ اس وقت تک سریوں کی لالی ختم ہوگئی تھی ، جب اس نے دیکھا کہ میری کمر پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو اس نے غصہ میں سپاہیوں کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ تم سریے گرم کرکے نہیں لائے ہو یہ کہہ کے ایک سریہ اٹھایا ۔ اس کا ہاتھ بری طرح جل گیا۔ وہ تکلیف کے مارے بے تاب ہوگیا ور دو سپاہیوں کو کہا اسکو سامنے بھگا کر گولی مار دو ورنہ یہ بہت سارے لوگوں کے دھرم بھرشٹ کردے گا۔ میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں انسپکٹر چلاگیا ۔ وہ دونوں سپاہی مجھے زور دیتے رہے کہ میں دوڑوں ، میں نے کہا میں چور نہیں ہوں مجھے گولی مارنی ہو تو سامنے سے ماردو۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تھانہ انچارج جناب اومیش شرما آگئے انھوں نے سارا ماجرا سنا، پولیس والوں کو دھمکایا کہ اس کا وشواس ( یقین ) ایسا پکّا ہے کہ تم گولی بھی ماردو گے تواس کو نہیں لگے گی ۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور پھر ایک چارج شیٹ لگاکر رہتک جیل چالان کردیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹا تیرے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ میں تجھے جیل بھیج دوں ورنہ تجھے کوئی ماردے گا۔ اللہ کا کرم میری اس مصیبت سے جان چھوٹی اور اللہ کی رحمت پر میرا یقین اور مضبوط ہوگیا۔
سوال : سنا تھا کسی کوتوال نے آپ کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا، اس کا کیا واقعہ ہے ؟
جواب : میں آگے سناتا ہوں ، یہ تھانہ انچارج کوتوال اومیش شرماجی بہت ہی اچھے آدمی تھے۔ تیسرے روز رہتک جیل آئے اور مجھ سے میرے اسلام قبول کرنے اور آگ کا اثر نہ کرنے کا پوراماجرا سنا اور اس کی تحقیق کی کہ واقعی تجھ پر ان گرم سریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ، میں نے کہا آپ میرے خیر خواہ ہیں آپ سے سچ نہ بتاؤں گا تو کس سے بتاؤں گا۔جب ان کو یقین ہوگیا کہ اللہ نے مجھے آگ سے بچایا تو وہ اور متاثر ہوئے ، میری ضمانت کرائی فائنل رپورٹ لگائی ، مجھے جیل سے چھڑایا اور مجھ سے کہا کہ مجھے بھی ان مولانا صاحب سے ملاؤ جنھوں نے تمہیں مسلمان کیا ہے ۔ہتھین آکر مفتی رشید احمد صاحب سے ملے اور کچھ دیر اسلام کی باتیں معلوم کیں اور وہیں مسلمان ہوگئے مفتی صاحب نے ان کو اسلام کو ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کچھ زمانہ کے بعد بابری مسجد شہید ہوگئی ۔پورے میوات میں فسادات ہوئے ہتھین کا علاقہ ہمیشہ فسادات کا گڑھ رہتا تھا مگر کوتوال شرماجی ( جو اب عبداللہ ہیں) کی وجہ سے اس علاقہ میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہوا اور انھوں نے مسلمانوں کی بڑی مدد کی ۔
سوال : آج کل آپ کا کیا مشغلہ ہے ؟
جواب : میں آج کل اَلور ضلع میں جمعیت شاہ ولی اللہ کے تحت دعوتی کام کررہا ہوں ، وہاں پر ایک ادارہ کی ذمہ داری میرے سپرد ہے ۔ حضرت مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی کے واسطہ ہی سے ہر سولی مدرسہ میں مرا داخلہ ہوگیا تھا میں نے ان کی ہی نگرانی میں زندگی گزارنے کا عزم کیا ہے۔
سوال : قارئین ارمغان کے لئے آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب : قارئین ارمغان کے لئے میری ایک گذارش ہے کہ ارمغان ایک تحریک ہے جس کا مقصد ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اپنے دعوتی مقصد کے لئے کھڑا کرنا اور عملی میدان میں اتار کر ہم جیسے کفر اور شرک زدہ لوگوں کی فکر کرنا ہے ،صرف تائید یا تصویب کرکے یا واہ واہ کرکے گھر بیٹھے رہنے کی ہمیشہ اصحابِ ارمغان نے مذمت کی ہے ۔ قارئین کو ارمغان کے قاری کی حیثیت سے اس نسبت کی لاج رکھنی چاہئے اور زندگی میں لوگوں کو کفر سے نکالنے کی عملی کوشش ضرور کرنی چاہئے ۔دوسری ضروری درخواست یہ ہے کہ میرے گھروالوں اور اہل خاندان کی ہدایت کے لئے دعا کریں اور اس کی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی نبی کے درد کا کچھ حصہ نصیب فرمادیں ۔ آمین
سوال : بہت بہت شکریہ۔ فی امان اللہ ۔
جواب : آپ کا بہت بہت شکریہ ، مجھ کو تحدیثِ نعمت کا موقع عطا فرمایا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ‘
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان جولائی۲۰۰۳ ء