احمـــــد اوّاہ : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ’
سلمان صدیقی: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ’
سوال :جناب سلمان صاحب خوشی ہوئی، آپ تشریف لے آئے، ابی فرمارہے تھے کہ اس بار کسی بالکل نووارد کا انٹر ویو ارمغان میں آنا چاہئے ،بلکہ کئی بار یہ بھی فرمایا کہ ہریدوار جاکر ہی میں آپ سے بات کروں۔ اصل میں مجھے ہریدوار جانا بھی تھا اور کچھ عرصہ سے گایتری سماج کے مرکز شانتی کنج سے لوگ رابطہ کررہے ہیں وہ ابی کو وہاں بلانا چاہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں رامپور میں ایک پروگرام میں ابی کو بلا یا گیا تھا تب سے تو بار بار ان کے فون آتے ہیں ،ابی یہ فرما رہے تھے کہ ایک دو بار تم ہو آؤ، اللہ نے آپ کو بھیج دیا ؟
جواب :مجھے حضرت صاحب سے ملنے کی بہت بے چینی تھی،پچھلے ہفتے ہم لوگ آئے تھے مگر ہماری گاڑی خراب ہوگئی تھی،مستری کے یہاں دیر ہوگئی اور ہمارے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے حضرت صاحب نکل گئے تھے ،شاید ہمارے اندر کوئی کھوٹ ہوگا کہ ملاقات نہیں ہوسکی۔ آج تو میں نیت کرکے آیا تھا کہ بس مل کر جاؤں گا،چاہے چند دن کے بجائے چند سال پھلت میں پڑا رہنا پڑے، اللہ کا شکر ہے کہ آتے ہی ملاقات ہوگئی ۔
سوال :آپ اپنا خاندانی(پریچے) تعارف کرائیے؟
جواب : میں بریلی ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے برہمن پریوار میں ۲؍جنوری ۱۹۵۳ء میں پیدا ہوا، میرا نام میرے پتا جی(والدصاحب)نے ارون کمار مشرا رکھا میرے والد ایک جونئیر ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ریٹائرہوئے ،ابتدائی تعلیم مقامی اسکول ہی میں ہوئی۔ کچھ روز میں اپنے چچا کے یہاں جن کے کوئی اولاد نہیں تھی،احمد نگر مہاراشٹرمیں رہا، وہاں سے میں نے گریجویشن کیا۔سائکالوجی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا، اور روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں لیکچرر ہوا۔بعد میں ریڈر اور پروفیسر بن گیا شادی ایک سیاست سے جڑے خاندان میں ہوئی۔میرے سسر یوپی کے بہت سرگرم سیاسی لیڈر ہیں،بلکہ لیڈروں کے لیڈر ہیں۔ وہ مجھے راج نیتی (سیاست) میں لانا چاہتے تھے اس کی وجہ سے مزاج نہ مل سکے اور پریوارِک(خاندانی) زندگی ناخوشگوار رہی اور یہی بات میرے لئے
سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لینے کا ذریعہ بن گئی ۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے ۔
جواب : ۲۰۰۲ء میں میں نے نوکری سے استعفا دے کر سنیاس اختیار کرلیا اور ہریدوار چلا گیا۔ ایک کے بعد ایک آشرم میں شانتی کو تلاش کرتا رہا، بڑی تپسیا کی، بڑے بڑے جاپ کئے، مگر شانتی اور سکون کہیں نہیں ملا۔جہاں جاتا قریب لگنے کے بعد ایسا لگتا کہ دھرم (مذہب) ایک پروفیشن ہے، ایک کاروبار ہے، ایک دھندہ ہے۔ میرا حال بھی کبھی لگتا تھا کہ نمک کی کان میں جو گیا نمک ہو گیا۔ میں نے بھی ایک آشرم بنالیا‘‘ شانتی ون آشرم’’کے نام سے، مگر روڈ ہی الٹی ہو تو منزل کہاں مل سکتی ہے ۔ منزل پر پہونچنے کے لئے راستہ کا صحیح ہونا ضروری ہے۔بے چینی اور بے یقینی بڑھ جاتی ،کبھی کبھی دل میں آتا کہ واپس پریوارک جیون میں چلا جاؤں، مگر آشرم کے بندھنوں سے بندھ گیا تھا چھوڑ نہ سکا۔کئی بار آشرم کو بیچنے کی بات بھی ہوئی ،چند مہینے پہلے بالکل سودا ہوگیاتھا،مگر ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ مہا کنبھ آرہا ہے اس کے بعد بیچ دینا۔ مہا کنبھ سے پہلے میں نے پورے ہریدوار اوررشی کیش کا حال دیکھاجیسے کسی کاروباری سیزن سے پہلے دوکانداراپنے گاہکوں کو رجھانے اور للچانے کی تیاری کرتے ہیں، اس طرح میں نے ہر جگہ دیکھا، مہا کنبھ کے لئے سب آشرموں میں تیاری میں بہت خرچ کیاگیاتھا، مگر پولیس نے بھیڑ سے بچنے کے لئے آتنک واد (دہشت گرد ی ) کا ہوّا بٹھا دیا۔ لوگ ڈر کی وجہ سے نہیں آئے ،بار بار پولیس نے کہیں کوئی بیگ پھینک کر، کبھی کوئی چیز رکھ کر افواہ بھی پھیلادی ،آشرم والوں اور دھارمک گروؤں نے بہت صفائی بھی کی کہ پولس کا پروپیگنڈہ ہے، مگرلوگ امید سے دسواں حصہ بھی نہ آئے،فورس اس قدر لگائی گئی تھی کہ شردھالو(زائرین ) دیکھ کر خود بھی سہم جاتے کہ ضرور کوئی خطرے کی بات ہے ۔سارے آشرموں میں بہت مایوسی کا ماحول تھا،اتنا خرچ کیا گیا تھا اور چڑھا وا کچھ بھی نہیں۔ میں چونکہ سائکالوجی میرا سبجیکٹ(مضمون) رہا ہے اپنے فن سے پورے سسٹم(نظام)کودیکھتا تو اس قدر جھلا جاتا کہ مذہب کے نام پر یہ دھندا، کبھی میں اپنی انترآتما (ضمیر) سے لڑتا اور سوچتا کہ چھوڑ کر چلا جاؤں۔
مہا شیوراتری سے ایک روز پہلے میں ایک بڑے آشرم میں ایک بڑے دھرم مہا گرو کے یہاں گیا۔ میں نے وہاں پر جو کاروباری حال دیکھا تو میرا دل اس دھندے سے بالکل بد دل ہوگیا ۔جب دھوکا دینا ہی ہے تو لیڈر بن کر ہی کرنا چاہئے ،دھرم کے نام پر یہ دھندہ تو بہت ہی شرم کی بات ہے۔ مجھے خوداپنے حال پر شرمندگی ہوئی، اس سے اچھا تھا کہ گھر والوں کے ساتھ رہتے، اپنے بچوں اور گھر والوں کی سیوا کرتے تو شاید مالک مل جاتا۔ رات کو دیر تک مالک سے شکایت کرتا رہا،بار بار آنسو آتے رہے ، میرے مالک آپ کو تلاش کرنے میں سب کچھ چھوڑ کر آیا مگر تو اور بھی زیادہ پردہ میں ہے،شاید اس علاقہ میں آپ کو ڈھونڈنا تو اونٹ کو چھت پر ڈھونڈنا ہے ۔دیر تک نیند نہیں آئی،دو بجے آنکھ لگی تو سپنا دیکھا حضرت محمد ﷺ تشریف لائے، سفید،بالکل سفید کپڑے ،بہت ہی خوبصورت چہرہ، نور ہی نور،چہرے کے چاروں طرف جیسے چاند کا گھیرا،میں نے آشیرواد کے لئے سر جھکایا تو میری کمر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا پنڈت جی اگر ستیہ (سچ )کی تلاش ہے تو جوالا پور جاکر مفتی یوسف سے ملئے۔ آنکھ کھلی تو پانچ بج رہے تھے، اٹھا اشنان وغیرہ کیا، ناشتہ کیا، دھلے کپڑے پہنے اور آشرم میں اپنے سادھوؤں سے جوالا پور کا راستہ معلوم کیا ،تو معلوم ہوا کہ بالکل پاس ہے۔ نو بجے صبح بس اسٹینڈ پر پہونچا تو دیکھا چار پانچ مولانا صاحب بس سے اترے، میں نے ان میں سے جوان میں بڑے لگ رہے تھے معلوم کیا کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ بولے جوالا پور سے، میں نے کہا :وہاں پر کوئی مفتی یوسف صاحب ہیں ؟وہ چونک کر بولے آپ ان کو کیسے جانتے ہیں ؟میں نے اپنا پورا تعارف کرایا اور اپنا رات کا حال اور خواب بتایا، وہ بولے کہ میرا نام محمد یوسف ہے اور میں مفتی ہوں، مگر میں جوالا پور کے پاس ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں، میرے علاوہ اس علاقہ میں مفتی یوسف کہلایا جانے والا کوئی آدمی نہیں ہے ۔رات میں نے ساتھیوں سے مشورہ کرکے پروگرام بنا یا تھاکہ ہمارے حضرت مولاناکلیم صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ سچائی کی تلاش میں آئے کتنے مخلص لوگ ہیں جو اللہ کو اور سچے راستے کو تلاش کرتے ہیں ان کا حق ہے کہ ہم حق ان تک پہنچائیں، تومہا کنبھ میں ہم کو جانا چاہئے۔رات کو میرے ساتھ یہ چار ساتھی تیار ہوگئے اور صبح کتابیں لے کر یہاں آئے ہیں۔ آپ سچ کو واقعی تلاش رہے ہیں تو ہمارے حضرت کی کتاب پڑھئے اور انہوں نے ہمیں‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ کتاب دی کہ آپ اس کو پڑھئے آپ ہم سے ملنے جارہے تھے، مالک نے آپ کے پاس خود ہمیں سچ لے کر بھیج دیا ۔میں نے وہ کتاب لی اور بس اسٹینڈ پر ایک بینچ پر بیٹھ کر وہ کتاب پڑھنا شروع کی، سیدھے سادے انداز میں اندر کی سچائی کے ساتھ لکھی گئی یہ کتاب پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ میرے مالک نے میری فریاد سن لی اور جس سچ کی مجھے تلاش تھی وہ مجھے مل گیا۔میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ مجھے مولانا صاحب کے پاس لے چلو مفتی صاحب نے فون ملانے کی کوشش کی، مگر فون نہ مل سکا۔میں نے ان لوگوں کو اپنے آشرم چلنے کے لئے کہا، انہوں نے کہا کہ آدھے گھنٹے کے بعد ہم خود آجائیں گے ،میں نے ان کو پتہ بتایا اور اپنے ایک ساتھی کو ان کے ساتھ چھوڑ کر آشرم میں ناشتے کی تیاری کے لئے آگیا۔آدھے گھنٹے بعد وہ آگئے اور بولے حضرت صاحب ممبئی سفر پر ہیں، آپ ان سے بات کرلیجئے۔ فون ملایا، مولانا صاحب سے میری بات ہوئی، میں نے کہا ، مجھے آپ کی کتاب پڑھنے میں اتنا آنند آیا تو آپ سے بھینٹ کرنے (ملنے میں) کتنا آنند (مزہ)آئے گا۔ حضرت صاحب نے کہا نہ میری کتاب میں وہ مزہ ہے نہ مجھ سے بھینٹ میں، بس مزہ تو اپنے مالک کا سورگ (جنت میں) درشن کرنے (دیدار) میں آئے گا ، اور وہ، پنڈت جی بغاوت سے توبہ کرکے مالک کے آخری اور مکمل قانون کا حلف لئے بغیر نہیں ہوسکتا۔پھر مولاناصاحب نے ایمان لائے اور کلمہ پڑھے بغیر انسان کتنے خطرے میں ہے ،اس کے بارے میں بتایا اور مجھے فوراً کلمہ پڑھنے کے لئے کہا،میں نے کہا کہ ہم پھلت آنا چاہتے ہیں آپ ہمیں وقت دے دیں ۔مولانا صاحب نے اپنے سفر کے بارے میں بتایا اور مجھے بہت زور دے کر فوراً مفتی یوسف صاحب سے کلمہ پڑھنے کو کہا، پہلے تو میں پھلت آکر ہی کلمہ پڑھنے کو کہتا رہا مگر بعد میں میں تیار ہوگیا،مفتی صاحب مجھے کلمہ پڑھوانے لگے تو مجھے یہ خیال ہوا کہ ان کے پیر صاحب سے ہی کلمہ پڑھنا چاہئے، میں نے مفتی صاحب سے یہ بات کہی، مفتی صاحب نے پھر فون ملایا اور بتایا کہ یہ آپ سے ہی کلمہ پڑھنا چاہ رہے ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا کہ بات کرائیے،میں نے بات کی تو حضرت صاحب نے فون پر کلمہ پڑھنے کے لئے کہا اور زور دے کر مجھے راضی کیا ،فون پر کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ترجمہ بلکہ ذرا تفصیل سے عہد کرایا۔ مجھ سے فرمایا کہ نام بدلنا کوئی ضروری نہیں لیکن اچھا ہے کہ آپ کوئی اسلامی نام پسند کرلیں، میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ حضرت صاحب ہی میرا نام رکھیں تو اچھا ہے ۔حضرت نے فون پر بتایا کہ پرانی مذہبی کتابوں کے عالم حضرت سلمان فارسی تھے اس نام کی برکت حاصل کرنے کے لئے اگر ان کا نام سلمان مشرا رکھ دیا جائے تو اچھا ہے۔ میں نے کہا مشرا وِشرا چھوڑئیے بس پورا سلمان فارسی رکھ دیجیے، حضرت صاحب نے کہا کہ فارسی تو ایران کا رہنے والا ہونے کی وجہ سے ان کے نام میں لگتا ہے، آپ سلمان بریلوی رکھ لیں میں نے کہا کلیم صدیقی کی طرح اگر سلمان صدیقی رکھیں تو کیسا ہے ؟حضرت صاحب نے کہا آپ نے سچے دل سے تصدیق کی ہے، آپ صدیق نام رکھ سکتے ہیں،میں نے کہا بس سلمان صدیقی بہت پیارا نام ہے ۔
سوال :بہت خوب ،اس کے بعد کیا ہوا
جواب :حضرت صاحب سے فون پر بات ہوتی رہی،مفتی صاحب ہمارے آشرم میں ہی رہ رہے ہیں اور اللہ کے شکر سے جماعت سے نمازہورہی ہے، ساری مورتیاں ایک ایک کرکے نکال دی گئی ہیں ،میں حضرت صاحب سے ملنے کے لئے بے چین تھا، ایک ہفتے پہلے بھی آیاتھا ،آج ملاقات ہوگئی، حضرت صاحب نے گھر والوں کو ہریدوار بلانے یا خود بریلی جانے کے لئے کہا ہے۔ کچھ روز پھلت آکر ذکر وغیرہ کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے ، حضرت صاحب کے مشورے سے پھلت میں، یا حضرت صاحب کہہ رہے تھے کہ ان کے پیر صاحب کی جگہ تو رائے پور ہے ،سہارنپور ضلع میں، وہاں جاکر چند ماہ رہوں گا ،ابھی تو ہم لوگ مہا کنبھ میں رہیں گے تاکہ سچ کی تلاش میں بری طرح بھٹکنے والے لوگوں کوتلاش کرکے ان پر ہورہے ظلم سے ان کو نکالیں ۔
سوال :ابھی تک کچھ اور لوگوں پر آپ لوگوں نے کام کیا ہے ؟
جواب :اللہ کا شکر ہے۔ ابھی ہم لوگ آشرم ہی میں رہ رہے اور کام کررہے ہیں۔
سوال :ابی بتارہے تھے کہ آپ نے بڑے اچھے اچھے خواب دیکھے ہیں؟
جواب :الحمدللہ میں نے سات بار اپنے پیارے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، ایک بار میں نے سو لوگوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے لے جاکرخواب میں کلمہ پڑھوایا، جن میں گایتری سماج کے تین بڑے لوگ بھی تھے ،اللہ کرے اس کی سچی تعبیر جلد سامنے آئے ۔
سوال : آپ نے اپنے گھر پر کچھ بات کی، یعنی بریلی میں ؟
جواب : ہاں میں نے حضرت صاحب سے ملنے کے بعد پھلت سے اپنی بیوی کو فون ملایا،وہ بہت رورہی تھی ،جب میں نے بتایا کہ ایک بڑے دھرم گرو اور صوفی یہاں، یہاں صوفی سنتوں کی مہان بستی پھلت میں رہتے ہیں، انہوں نے مجھے آشرم چھوڑ کر گھر میں بال بچوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے اور جلد ہی میں آنے والا ہوں، آٹھ سال کے بعد وہ یہ سن کر بس پاگل سی ہوگئی، بولی مجھے ان دھرم گرو اور صوفی جی کا پتہ ضرور بتائیں تاکہ میں بھی ان کی شرن میں آجاؤں اور ان سے آشیرواد لوں،میں ضرور اپنے تینوں بچوں کے ساتھ ان کے یہاں آؤں گی ۔
سوال : ماشاء اللہ آپ کا مسئلہ تو حل ہو اسا لگتا ہے ۔
جواب : جی مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے وہ تو حضرت سے اتنا متاثر ہوگئی ہے کہ لگتا ہے پہلی مرتبہ کہنے سے کلمہ پڑھ لے گی ۔
سوال :آپ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب : مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ ہر انسان کو میرا یہ پیغام ہے کہ جو بھی سچی آتما کے ساتھ حق کو تلاشتا ہے اس کو حق ملتا ہے اور حق کو تلاش کرنے والے ہر غلط راہ پر بھٹکتے رہتے ہیں،مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو غلط راستے پر چلتے دیکھ کر ان سے
نفرت کرنے کے بجائے نر می کے ساتھ ان کی رہنمائی کریں۔
سوال :بہت بہت شکریہ سلمان صدیقی صاحب، اللہ تعالی آپ کی حقیقی صدیقیت کا کوئی حصہ ہم رسمی اور بدنام کرنے والے لئے نسبی صدیقیوں کو بھی نصیب فرمائے ۔
جواب :آپ شرمندہ کر رہے ہیں
بشکریہ : ماخوز از ماہنامہ ارمغان اپریل ۲۰۱۰ء