مسجد امام بخاری:
خاکسار مسجد ابو ذر غفاری کی زیارت کرکے واپس آرہا تھا اور اُن کی یاد یں میرے ذہن میں ایک ایک کرکے آرہی تھیں۔میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ،اُسی زیرزمین بازار میں آگیاجس کا پہلے ذکر کر چکا ہوں۔اُس راستے اور بازار سے باہر آیا اور مسجد نبوی کی طرف آتے ہوئے ایک اور مسجد نظر پڑی ۔ ایک آدمی سے پوچھا کہ کیا یہ کوئی تاریخی مسجد ہے یا ویسے ہی کوئی مقامی مسجد۔اُس نے بتایا کہ یہ مسجد امام بخاری ہے۔ باہر سے ،دیکھنے پر ایک خوبصورت،ایک مینار اور ایک گنبد والی چھوٹی سی مسجد ہے جو آس پاس میں واقع، آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کے مکینوں کے لیے ایک محلے کی مسجد کا درجہ رکھتی ہے۔مسجد نبوی کے شمال اور مشرق میں تھوڑی فاصلے پر ،پہلی سرکلر روڈ کے اندر اندر واقع ہے۔ شاہ دروازہ (main gate) کی متعدد سیڑھیاں چڑھ کر داخلی حصہ میں آیا ،جہاں پرمسجد کے نام کی تختی لگی تھی۔ ہال کے اندر داخل ہوگیا ،سعودیہ کی عام روایت کے مطابق،ایئر کنڈیشنڈ ہال تھا،سرخ قالینی صفیں بچھی تھیں،صاف ستھرا ماحول تھا۔ عمارت کی چھت ،نہایت شاندار محرابوں اورایک وسیع گنبد پر قائم تھی۔لوگ نماز پڑھ رہے تھے،خاکسار نے بھی نوافل ادا کیئے اورچند لمحے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں گزارے۔امام بخاری ؒ سمر قند بخارا کے رہنے والے تھے۔عجمی تھے لیکن ایک ایسا کارنامہ سر انجام دے گئے ہیں کہ جس کے باعث، آپ نہ صرف علم الحدیث کے بانی ہیں بلکہ اِس فن کے امام قرار پائے ہیں۔ یہ کارنامہ صحیح بخاری شریف کی تصنیف ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے زمانہ قیام مدینہ طیبہ میں ،حضرت امام بخاری ؒ کا قیام اِسی جگہ ،جہاں پر یہ مسجد قائم ہے،ایک جھونپڑے میں تھا،جس میں بیٹھ کر آپ نے اپنی عظیم الشان کتاب ،بخاری شریف کی تدوین و تالیف کا کچھ کام کیا تھا۔ امام بخاری کا اصل نام محمد بن اسماعیل تھا ۔آپ ازبکستان کے شہر بخارا میں ،شوال ۱۹۴ھ (۲۷ ۔جولائی ۸۱۰ ء) میں پیدا ہوئے اور شوال ۲۵۶ ھ (یکم ستمبر ۸۷۰ء) سمر قند ازبکستان میں فوت ہوئے۔آپ کو علم الحدیث کا بانی اور امام مانا جاتا ہے۔آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی روایات میں،بوجوہ ، جھوٹ اور سچ میں جو آمیزش ہوگئی تھی اُس کو صاف کرنے کے اصول وضع کیے،قوانین بنائے اور اُن کو استعمال کر کے ،لاکھوں احادیث و روایات پر مشتمل مروجہ ذخیرہ احادیث کو پرکھ کر ،جانچ کر ایک کتاب مرتب کی جسے احادیث مبارکہ کا صحیح ترین اور معتمد ترین ذریعہ مانا جاتا ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کے نام سے منسوب اِس مسجد میں چند لمحے گزار کر ،واپس نکل آیا اورمسجد نبوی کی چھت پر مخصوص اپنی نشست گاہ تک پہنچا ۔وہاں میرے رومیٹ پہلے سے ہی موجود تھے۔تھوڑی ہی دیر میں اذان عشا کا وقت ہوگیا۔نماز ادا کر کے ہم اکٹھے ہوٹل واپس آگئے۔
۴۔اگست اتوار ۲۰۱۹ء اتوار
شاپنگ:
جوں جوں وقت گزر رہا تھا،مدینہ طیبہ سے ہمارے جانے کے دِن قریب آتے جارہے تھے۔حج و عمرہ پر جو لوگ جاتے ہیں،انھوں نے اِس سفر میں ،عبادت و ریاضت اور مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کے علاوہ جو اہم کام سر انجام دینے ہوتے ہیں،اُن میں سے ایک اہم ترین کام شاپنگ بھی ہوتا ہے۔بلکہ بعض زائرین کے لیے تویہ خریداری سر فہرست امر ہوتا ہے۔ہر زائر اور کچھ خریدے یا نہ خریدے ، مدینہ طیبہ سے کھجور اور مکہ مکرمہ سے زم زم لے جانے کا اہتمام کرنا فرض و واجب کے درجے میں سمجھتا ہے کیونکہ یہ دو چیزیں حرمین شریفین کا بہترین تحفہ قراردی گئی ہیں پاکستانی حجاج میں ،نہ جانے کیوں یہ روایت بن گئی ہے کہ وہ یہ خریداری مدینہ طیبہ میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مدینہ میں چیزیں سستی ملتی ہیں بنسبت مکہ شریف کے ۔
بندہ خریداری اورشاپنگ کے معاملات میں ہمیشہ سے لاپروہ اور کورا رہا ہے ۔صرف ناگزیر ضروریات کی حد تک چیزیں خریدنا لازم جانتا ہے۔ مجھے غیر ضروری تحفہ تحائف ، سامان ِآسائش و آرائش اور اسبابِ نمودو نمائش خریدنے کے معاملات میں کبھی بھی کوئی زیادہ شوق نہیں رہااور نہ ہی کوئی طبعی میلان یاکوئی د لچسپی رہی۔ ویسے بھی ہم متوسط طبقے کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں، محدود آمدنی کے لوگ ہیں اور ایسے ا سفار میں،محدود رقم ہی پاس ہوتی ہے اِس لیے ہم،کوئی لمبی چوڑی شاپنگ کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔مجھے ،بس مدینہ طیبہ سے کھجور ہی خریدنی تھی ،اور یہ بھی کوئی لازم نہیں تھا کہ یہاں سے ہی خریدتا،مکہ شریف سے بھی خریدی جاسکتی تھی۔اتفاق کی بات ہے کہ اِس سفر حج میں ہم، جولوگ ایک کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے ،سارے تقریباًایک ہی مزاج کے لوگ تھے اوراِن دلچسپیوں کے آدمی نہیں تھے۔ہم سارا سارا دِن ساتھ رہتے تھے ،شاپنگ اور خریداری کبھی بھی ہمارا موضوع گفتگو نہیں رہتاتھا ۔ ہم میں سے کسی نے کبھی کوئی ایسی دلچسپی نہ دکھلائی تھی ۔انفرادی طور پر ،بازاروں سے گزرتے ہوئے ،گھر والوں کے لیے ،کوئی ایک آدھ چیز ،خرید لی ہوتو ہو،باقاعدہ جسے شاپنگ کہا جاتا ہے ،اُس کا کریز،مجھے ،اِن ساتھیوں میں،کہیں نظر نہیں آیا۔ مسجد نبوی کی چھت پر اپنی مخصوص نشست گاہ میں بیٹھے ،ایک دِن حاجی یونس صاحب کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب !واپسی کے دِن قریب آتے جارہے ہیں،شاپنگ وافنگ نہیں کرنی کیا؟’’میں نے شکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے منڈے سے پوچھ لیں ،میں نے تو صرف دس بارہ کلو کھجور لے جانی ہے ،وہ بھی، آپ ہی، میرے لیے خرید لینامیں ادائیگی کر دوں گا۔’’ مدینہ طیبہ میں بھی اور مکہ مکرمہ میں بھی،حرمین کے چاروں اطراف میں پلازے ہی پلازے اور مارکیٹیں ہی مارکیٹیں ہیں۔انواع واقسام کے سامان سے،دکانیں بھری ہوتی ہیں اور چند مخصوص اوقات میں رنگ رنگ کے اور ملک ملک کے گاہکوں سے بھی بھری ہوتی ہیں۔کبھی کبھار میں سوچتا ،کہ یہ لوگ، کیا یہاں شاپنگ کرنے آتے ہیں ،کہ جب دیکھو،بازاروں میں رش لگا ہوتا ہے اور پھر ایک دِن ،یہ بات، شکیل بھائی سے میں نے کہہ دی ۔ جواب میں انھوں نے ایک بڑی خوب صورت بات کہی،کہنے لگے‘‘ڈاکٹر صاحب !بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیں ، مسجد میں ،سلامی میں ،ریاض الجنہ میں اور دیگر مقامات عبادت و ریاضت میں ،کیا رش کوئی کم ہوتا ہے اور مکہ مکرمہ میں مقامات عبادت میں ہجوم کوئی‘‘ گھٹ ’’ہوتا ہے۔’’یقیناً اِن مقامات پر بھی رش ہوتا تھا اور کافی ہوتا تھا اور لوگوں کا ذوق شوق بھی دیدنی ہوتا تھا،بلاشبہ بڑے بڑے قابل رشک لوگ تھے عبادت کے معاملے میں!
آج نماز فجر ادا کرنے کے بعد ،جب ہوٹل میں ہم ناشتہ کر رہے تھے تو، حاجی صاحب نے کہا ،میرا خیال ہے کہ آج میں ،اِدھر قریب ہی کھجور مارکیٹ ہے اِس کا چکر لگاآتا ہوں، کیسا کیسا مال موجود ہے اور ریٹس کیسے ہیں،سب دیکھ آتا ہوں۔’’ شکیل نے کہا،‘‘ہاں ہاں،اچھی بات ہے آپ ایک بار مارکیٹ دیکھ آئیں ،پھر شام کو اکٹھے چلیں گے اور اپنی اپنی پسند کی کھجور لے لیں گے،میرا تو ابھی ایک دوست آرہا ہے اُسے ملنا ہے۔’’ہمارے درمیان یہ بات ہوگئی اور میں حسب ِمعمول ،نو بجے مسجد نبوی میں حاضر ہوگیا۔اُس وقت میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، جب ،نماز ظہر کے بعد میں واپس ہوٹل اپنے کمرے میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے حصے کی کھجور کمرے میں موجود ہے اور حاجی صاحب مجھے کہہ رہے تھے،‘‘یار ڈاکٹر ! کھجور مارکیٹ گیا تھا ، اچھی کھجور ،اچھی قیمت پر مل رہی تھی،میں اپنے لیے اور تیرے لیے خرید لایا ۔’’اور جب اُس بوڑھے بزرگ نے مجھے یہ بتا یا کہ وہ بازار سے کمرے تک ،تیس کلو کھجور کے تھیلے،اپنے سر پر رکھ کر لایا ہے تو میں شرمندگی اور احسان مندی سے زمین میں گڑ گیا۔ یہ ہے محبت اور شوقِ خدمت !
مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ میں حاجی صاحب کی اِس محبت اور خدمت کا کیا صلہ دوں ؟کیسے دوں۔محبت و خلوص کا صلہ ہو بھی کیا سکتاہے اور کوئی انسان دے بھی کیسے سکتا ہے۔اللہ کریم انھیں اِس مخلصانہ خدمت کا بہترین اجر عطا فرمائے۔آمین۔
باب الرحمۃ سے باب البقیع تک کا سفر:
صبر آزما تین گھنٹے:
جیساکہ سطور بالا میں لکھا کہ بندہ آج نو بجے صبح ،حسب ِ معمول مسجد نبوی میں حاضر ہوا،ارادہ تھا کہ سلام عرض کرنے کے بعد،حرم کی لائبریری میں جا بیٹھوں گالیکن جب باب السلام تک پہنچا تو آج رش کی کیفیت کو قدرے کم جانا تو منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ آج ایک بار پھر ریاض الجنہ میں نوافل ادا کرنے کی سعادت حاصل کی جائے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضری کا ،آجکل ،جو نظم قائم کیا گیا ہے وہ کچھ اِس طرح ہے۔پہلا طریقہ ،تو یہ ہے کہ آپ باب السلام سے داخل ہوں اورہجوم عاشقاں کے ساتھ ساتھ، عقیدت و محبت کی گزرگاہ میں سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ،مقدس جالیوں تک پہنچیں اور درود و سلام پیش کر کے ،باب البقیع سے باہر آجائیں۔یہ میں اکثر کرتا تھا،دِن میں کئی بار کرتا تھا۔دوسرا طریقہ یہ تھا،کہ آپ ،باب الرحمہ سے اندر داخل ہوں اور قدیمی مسجد کے اندر آجائیں،لائنیں لگی ہیں،اہل محبت کی اِن لائنوں میں لگ جائیں اوراپنی باری آنے پر،ریاض الجنت میں پہنچ جائیں ،نوافل ادا کریں،اور پھر، مقدس جالیوں کے قریب سے گزر تے ہوئے،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ،درود و سلام پیش کر کے، باب البقیع سے باہر آ جائیں۔ یہ بڑا مشکل ،دِقت طلب اور وقت طلب کام تھا۔یہ بھی دو تین بار کر چکا تھا۔
ریاض الجنت میں نوافل ادا کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔آج ایک بار پھر اِس گھاٹی کو عبور کرنے کا حوصلہ کر لیاتھا۔باب الرحمت کی طرف ہوا۔عام دنوں میں باب السلام سے باب الرحمت تک کا سفر پانچ سیکنڈ ،جی ہاں صرف پانچ دس سیکنڈ کا ہی ہے۔لیکن آج مجھے اس سفر کو طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا،(میرے خیال میں ابھی رش کم تھا)اور میں باب الرحمت سے ،قدیمی مسجد کے اندر آگیا۔ مسجد میں لگے گھڑیال پر دِن کے دس بج چکے تھے۔دِل و دماغ کو محبت میں بسائے،لبوں پر درودوسلام سجائے،آنکھوں کو جھکائے ،پلکیں بچھائے ،غلام حاضر تھا۔باب الرحمت سے ،مقدس جالیوں تک ،دو منٹ کا بھی راستہ نہیں ہے۔
آنکھیں جھکائے رکھنے کا ماحول ہی نہیں تھا۔نرم چال چلنے اور آہستہ خرامی سے آگے بڑھنے کاتویہاں موقع ہی نہ تھا۔ہجوم تھا اور ہجوم کا شور تھا۔نہ جانے شور کیوں تھا۔اِک ہنگامہ برپا تھا۔نا معلوم ہنگامہ! گھڑی کی سوئی ،ٹک ٹک کرتی آگے بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے قدم ایک ہی جگہ پر ٹکے ہیں اور ایک ہی جگہ پر ٹکے رہنے میں ہی سارا زور اور ساری قوتیں صرف ہو رہی ہیں۔ میرے لیے ،اتنی دیر کھڑے رہناکمر درد کا باعث بنتا ہے اور یہ درد شروع ہو چکا تھا۔اب حالت یہ تھی کہ کھڑے رہنا مشکل تھا تو بیٹھنا ناممکن۔ آدھا گھنٹہ ہوگیا اور صرف پانچ قدم ہی، آگے کو ہم سرک پائے ہیں۔اب نہ جانے کیا ہوا،کہ یکدم دس قدم آگے کو فاصلہ طے ہوا اور پھر رک گیا۔گھنٹہ گزر گیا ۔کیفیت یہ ہے کہ کھڑے کھڑے ٹانگیں شل ہوگئی ہیں۔آپ بیٹھ بھی نہیں سکتے،اور تو اور ،آپ پیچھے بھی نہیں جا سکتے ۔ مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر تھا۔ہجوم نے جدھر کو جانا ہے ،آپ نے بھی اُدھر کو جانا ہے۔جتنا قرآن یاد تھا ،پڑھ ڈالا،مسجد پاک کا ایک ایک بیل بوٹا دیکھ ڈالا۔محرابیں ،ڈاٹیں بھی گن ڈالیں۔ستونوں کا شمار بھی کر بیٹھا لیکن ،ہجوم کا یہ حال تھا کہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔قدیمی مسجد کے ستونوں کے شمار کے دوران میں ایک دُور ایستادہ ستون کے اُوپر یہ لکھا دیکھا، ‘‘ھذا حد مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم’’یعنی یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی حد ہے۔یہ عبارت ایک لائن میں ایستادہ ستونوں کے اُوپر ،سنہری حروف میں لکھی ہوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دَور والی مسجد پاک کی حد یہاں تک تھی جہاں تک اِن ستونوں کی لائن ہے۔خاکسارمسجد پاک کی عثمانی تعمیر کے تو اندر تھا لیکن ابھی پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دَور والی مسجد سے باہر تھا۔ریاض الجنہ تو وہاں تھی۔ابھی مجھے کافی سفر طے کرنا تھا۔
ہمار ا بے ہنگم قافلہ، سوئے ریاض الجنت ،چیونٹی کی چال، رواں دواں تھا۔ مسجد کی انتظامیہ کا سسٹم کام کر رہا تھا۔اِن لوگوں نے قدیمی مسجد کے اندر،وقفے وقفے سے ،پارٹیشنیں لگا رکھی تھی ، یعنی قناتیں لگا کر ،اِس حصے کو کئی حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ لوگوں کی ایک مخصوص ‘‘تعداد ’’ کوقنات کھول کر اندر کر لیتے اور پھر بند کر دیتے۔ جس وقت قنات کھولی جاتی اور لوگ اندر جاتے ،وہ لمحہ انتہائی شور شرابے کا ہوتا تھا۔
اِس طرح قناتوں کے کھلتے بند ہوتے،تھوڑا آگے بڑھتے زیادہ قیام کرتے ،پونے بارہ بج گئے۔یکدم انتظامیہ کیطرف سے کچھ کاروائی پڑتے دیکھی،کچھ بندشیں ڈھیلی کی جانے لگیں،کچھ قناتیں ہٹائی جانے لگیں، ‘‘صلوٰۃ’’ ‘‘صلوٰۃ’’ کی آوازیں آنے لگیں ،صفیں ترتیب پانے لگیں،معلوم ہوا کہ نماز ظہر کے انتظامات ہورہے ہیں۔اِس چہل پہل میں، ہمارا سفر بھی قدرے تیزی سے آگے بڑھا اور یکدم کچھ زیادہ قدم آگے کو طے کرنے کا موقع مل گیا۔ابھی نماز میں کم ازکم ایک گھنٹہ رہتا ہوگا کہ صفیں ترتیب پا گئی۔صفیں بننے کی وجہ سے،میرے سے چند قدم آگے والے کچھ لوگوں کو پیچھے جانے پڑاتھا ، اُن کے چہروں پر مایوسی اور یاس کے جذبات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ، اتفاقی طور پر ،ہم بجائے پیچھے جانے کے ،کچھ آگے ہی سرک آئے۔ اور ایک صف میں جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔ یہ بیٹھنا بھی سخت تنگی کا حامل تھا،ایک دوسرے کی پسلیاں رگڑ کھا رہی تھیں۔ہلنے کی بھی گنجائش نہ تھی۔اِس بیٹھنے میں بھی وقفے وقفے سے اضطراب کی کوئی نہ کوئی لہر اُٹھتی اور ہم سب کو لہرا اور ٹکرا جاتی۔جس جگہ میں بیٹھا تھا ،میرے اور ریاض الجنت کے بیچ میں، بس، صرف ایک قنات حائل تھی۔سامنے منزل تھی۔آج تو لگتا تھا وقت رک گیا ہے ،گھڑی کی سوئیاں بھی ،نہ جانے کیوں چیونٹی چال چل رہی تھیں۔منزل گرچہ سامنے تھی لیکن دِل ہی دِل میں اُس سوئے اتفاق سے ڈر رہے تھے کہ کہیں اُٹھا نہ دیئے جائیں اوریاس و الم کے وہ چہرے بھولتے نہیں تھے جن کو ابھی چند منٹ قبل پیچھے واپس جاتے دیکھا تھا۔اِس دوران میں ،وقت کو کاٹنے کے لیے ،اپنے دائیں بائیں تشریف فرما حضرات کی طرف توجہ کی اور باری باری اُن بھائیوں سے تعارف حاصل کیا۔دائیں طرف والے بھائی ترکی سے تشریف لائے تھے۔عبداللہ نام تھا۔ بائیں طرف والے بھائی بنگلہ دیشی تھے اور میں اِن دونوں کے درمیان پھنسا تھا۔ عبداللہ صاحب قونیہ سے تشریف لائے تھے عربی زبان کے اُستاد تھے۔میری طرح عربی اور انگریزی جانتے تو تھے لیکن اِن میں گفتگو پر قادر نہ تھے۔بہر حال ہم دونوں نے کچھ نہ کچھ دال دلیا کر ہی لیا۔پاک ترک دوستی کا نمونہ بن گئے۔بائیں طرف والے بنگالی بھائی کا نام صادق صاحب تھا،وہ بھی تھوڑی اردو اور تھوڑی انگریزی جانتے تھے اور ہمارا باہمی تعارف ہو گیا۔ صادق صاحب ہائی اسکول کے ٹیچر اور جماعت اسلامی کے ممبر تھے۔قبل ازیں لا تعداد بنگالیوں سے ملاقات رہی تھی اور میں جماعت اسلامی سے متعلق لوگوں کو ملنے کا ، بوجوہ ،بے حد اشتیاق رکھتا تھا،لیکن یہ بھائی پہلے بندے تھے ،جو آج ملے تھے،جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا لیکن ہماری ملاقات ایک ایسی جگہ پر ہورہی تھی ،جہاں ہم دونوں بری طرح پھنسے ہوئے تھے ، یہاں تو سانس لینا بھی مشکل تھا کجا کہ ہم ایک دوسرے کو حال دِل سنا پاتے۔پھر بھی ، آپادھاپی اورتنگی کے اِس ماحول میں ،ہم نے ،اِن دونوں ہمسایوں سے ، خاطر خواہ گفتگو بھی کر لی،فون نمبرز کاباہمی تبادلہ بھی کر لیا اور سیلفیاں بھی بنا لیں۔ اتنے میں اذان ظہر کی آواز گونجی۔ہمارے قریب ہی ،مسجد پاک کے اندر ہی چبوترہ اذان تھا۔ مؤذن صاحب کی بھی زیارت ہوگئی۔
اذان کے ساتھ ہی ،ہم کھڑے تو ہو گئے ،لیکن قبل از جماعت سنتیں نہ پڑھیں کیونکہ بسہولت ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔چند منٹ کھڑے کھڑے ،مسجد کے اندر ،‘‘آوارہ نظری ’’ کرتے رہے حتیٰ کہ اقامت کی صدا بلند ہوئی اور ظہر کی جماعت کھڑی ہوگئی۔ نماز کی نیت کرلی اور بمشکل ،پھنس پھنسا کر، امام صاحب کی اقتدا میں چار رکعتیں مکمل کیں ، اب اگرمیں یہ کہوں کہ اس نماز میں بڑا ہی لطف آیا، تو جھوٹ ہی بولوں گا،بس نماز پڑھ لی ،یہی غنیمت تھا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک جماعت کے ختم ہونے کے بعد بھی، ابھی یہ رکاوٹ ہٹائی نہیں جا رہی تھی۔ہمارے انتظار کی گھڑیاں طویل ہو رہی تھیں۔ ہم کھڑے تھے ،نظریں ریاض الجنہ پر ٹکی تھیں اور سوچوں کی پرواز کی حد کا تو نہ ہی پوچھیں۔گاہے حال میں ہوتیں اور اگلے لمحے صدیوں قبل کے مدینہ کے منظر پر جا ٹکتی ۔کبھی تو سامنے ہونے والے شو ر شرابے ،دھکم پیل اور ہنگامہ آرائی کو دیکھتا تودِل مسوس کر رہ جاتا اور کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ادب و احترام کے واقعات ذہن میں آتے تو دِل کو فرحت ملتی۔اور پھر ،نماز کے قریباًآدھے گھنٹے بعد ، ہمارے قریب والی قنات ہٹائی گئی اوردھکم پیل کا ایک ایساریلا اُٹھا کہ الامان والحفیظ ۔ ہم بھی اِسی ریلے کی رو میں بہہ کر ریاض الجنہ میں جا پڑے اورفوراًہی دو رکعت نفل کی نیت کرلی کہ مبادا کہیں اور ہی نہ دھکیلے جائیں۔یہ دورکعتیں اِس حالت میں مکمل کیں کہ قیام کے دوران لوگ سامنے سے گزرتے رہے،سجدے میں لوگ سر کے اُوپر پھلانگتے رہے۔ بہرحال ،سلام پھیرا ، قدرے اطمینان سے دُعا مانگی اور ابھی یہ ختم ہی کی تھی کہ شرطوں نے وہاں سے اُٹھا دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی سنہری جالیوں کی طرف دھکیل دیئے گئے ۔ ریاض الجنہ سے نکل کر اُس مقدس راستے میں آگئے جو اِن جالیوں کی طرف جا رہاتھا۔ اب کی بار جالیوں کے قریب سے گزرے اور درودوسلام کے تحفے پیش کرتے ،قریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد ، ہم باب البقیع سے باہر آ گئے۔یہ ایک نہایت صبر آزما مرحلہ تھا۔نہایت تکلیف دہ مرحلہ تھا،جسمانی اعتبار سے بھی اور ذہنی اعتبار سے بھی۔ایک نہایت پریشان کن تجربے سے گزرا تھا۔ایک ایسے مقام پر جہاں اُونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے ،ہم اہل ایمان جوشور اور ہنگامہ برپا کیے رہتے ہیں ،اُس پردِل بہت کڑھتا تھا۔ ہماری معززخواتین والے حصے میں تو ایک قیامت برپا ہوتی ہے۔
۵۔اگست ۲۰۱۹ء بروز سوموار
سلسلہ زیارات مدینہ
زائر کوہ سلع پر:
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ پرسوں نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر ایک پاکستانی بھائی سے متعارف ہواتھا،اُن کی کسی خدمت کے استفسار و اصرار پر ،یہ عرض کی تھی کہ اگرچہ مدینہ طیبہ کے تاریخی مقامات کی زیارت، کرتو چکا ہوں لیکن دِل نہیں بھرا،تشنگی باقی ہے۔اگر ممکن ہو تو، کسی دِن کوہ سلع کی دوبارہ زیارت کرنا چاہوں گا۔وہ بخوشی راضی ہو گئے اوراُن سے آج کا دِن طے ہوا اور وہ وقت مقررہ پر تشریف لے آئے۔
سلسلہ زیارات مدینہ کے تحت ،آج بندہ ،عزیزی شفیق کے ساتھ کوہ سلع پر پہنچا۔یہ پہاڑمدینہ شہر کے شمال مغربی سمت میں ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں کفر و اسلام کی تیسری بڑی جنگ برپا ہوئی تھی جسے تاریخ غزوہ احزاب کے نام سے جانتی ہے۔اس جنگ کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔یہ غزوہ ،صحیح ترین قول کے مطابق،شوال ۵ ہجری میں پیش آیاتھا۔خندق کی اب کوئی نشانی باقی نہیں ہے۔چلتے چلتے ،شفیق صاحب نے ایک سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ کہا جاتا ہے یہ وہ سڑک ہے جوخندق والی جگہ پر بنائی گئی ہے۔یہ سڑک ہی تھی عام سڑکوں کی طرح،جس پر ٹریفک رواں دواں تھی ،کسے خبر کہ اس کے نیچے کتناعظیم الشان وِرثہ دبا ہے اورکون جانے کہ اس سڑک کے نیچے میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے عزیزترین ساتھیوں کے خون اور پسینے کے وہ ہزاروں دررِ نایاب اور زریں قطرے دبے ہوئے ہیں جن پر کائنات کے تمام تر لال وگہر قربان کیے جا سکتے ہیں۔جن درِنایاب ایسے قطروں کے صدقے ،ہمیں ہمارا یہ دین ملا ہے ،کون جانے، کہ وہ تارکول کی اس سڑک کے نیچے ،کیسے چھپادیئے گئے ہیں۔
دنیا میں خندقیں اور بھی کھودی گئی ہوں گی لیکن یہ خندق اپنی مثا ل آپ تھی کہ اس کو کھودنے میں کائنات کے بادشاہ سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس حصہ لیا تھااور ایک مزدور کی طرح حصہ لیا تھا۔ خندق کی کھدائی کا منظر اور اُس کا قصہ اتنا دِلربا اور دِل آویز ہے کہ جی چاہتا ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چلائی گئی ایک ایک کدال اور اُٹھائی گئی مٹی کی ایک ایک ٹوکری کا نقشہ بیان کروں،لیکن اس عاجز کے پاس وہ الفاظ کہاں۔کم و بیش پانچ کلو میٹر لمبی،دس فٹ گہری اوربیس فٹ چوڑی خندق چند دنوں میں کھودلی گئی۔یہ ایک معجزہ تھا جوایک ہفتے کے اندراندر رونما ہوگیا۔
میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ شفیق صاحب نے ایک بڑی مسجد کے سامنے گاڑی پارک کر دی۔یہاں کبھی سات تاریخی مساجد ہواکرتی تھیں،جن کا تعلق جنگ احزاب کے کسی نہ کسی واقعے سے جوڑا جاتا تھا اور زائرین کرام اکثراُن کی زیارت کیا کرتے لیکن موجودہ سعودی حکمران خاندان نے اُن میں سے بیشتر کو مسمارکردیااور اُن کی جگہ یہ بڑی اور خوبصورت مسجدتعمیر کر دی جس کے سامنے ہماری گاڑی پارک ہوئی تھی۔ باقی تاریخی مساجد تو باقی نہ رہیں ،البتہ کوہ سلع کے دامن میں قدرے چڑھائی پر ایک چھوٹی سی مسجد موجود ہے جسے مسجد فتح کہا جاتا ہے۔روایت ہے کہ یہ مسجد اُس جگہ واقع ہے جہاں ،غزوہ احزاب کے دوران میں ،سالار اعلیٰ سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ مبارک لگایا گیا تھا۔اُس مسجد تک جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں،جن کے ذریعے یہ عاجز اُوپر پہنچا۔مسجد چھوٹی سی تھی اور حسب توقع بند تھی دروازے کی سلاخوں کی درزوں سے اندر جھانک کر دیکھا وہاں ایک چھوٹاسا برآمدہ نما کمرہ تھا۔دھول مٹی سے اٹاایک پرانا قالین بچھا تھا۔یاد رہے کہ تاریخی مساجد اصلاًنماز و عبادت کے لیے نہیں بنائی جاتی تھیں بلکہ وہ اس جگہ کی تاریخی حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے بطور نشانی بنائی جاتی تھیں۔اس لیئے یہ عموماًچھوٹی اور تعمیر کے لحاظ سے غیردلکش ہوا کرتیں اور وضو اورنماز و سجدے کی ضروریات سے بھی خالی ہوتی تھیں سو یہ مسجد بھی ایسی ہی تھی اس لیے اس کا بند ہونا یا چھوٹا ہونا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ہم تو اس مقام پر ہونے کو ہی غنیمت جان رہے تھے اور چند لمحے ہی سہی،اُن فضاؤں میں سانس لے رہے تھے جہاں کبھی میرے آقا علیہ الصلوٰۃو السلام اپنے صحابہ کے ساتھ قیام پذیر رہے اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے ۔پیارے آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کم و بیش ایک ماہ تک اس مقام پر خیمہ زن رہے ،نمازیں پڑھتے رہے ،اللہ کریم سے سرگوشیاں کرتے رہے۔ہم آج وہاں تھے جہاں سے میرے محبوب نے غزوہ احزاب کی سپہ سالاری فرمائی تھی۔یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہم وہاں تھے۔
ہم اگرچہ خاصی اُونچائی پر تھے لیکن پہاڑ ابھی اور اُونچا تھا۔ یہ کو ہ سلع کا مغربی حصہ تھا اوریہ پہاڑ مزید مشرق اور شمال میں ، ہمارے پیچھے پھیلا ہواتھا۔ اور ہماری سامنے وہ سارا علاقہ تھا جومسلمانوں کی لشکر گاہ بنا تھا اور اُس سے دور وہ سڑک بھی نظر آرہی تھی جو مبینہ طور پر خندق والی جگہ پر بنی تھی اور جس کے پار کفار کے خیمے گاڑے گئے تھے۔
یہ جنگ دراصل اعصاب کی جنگ تھی ۔ دشمن نے جب اور کوئی راستہ نہ دیکھا تو وہ خندق کے باہر ہی خیمے لگا کر بیٹھ گیا۔سخت محاصرہ قائم کر لیا۔تیس دِن تک یہ محاصرہ قائم رہا۔ لڑائی بھڑائی کے ایک دوچھوٹے چھوٹے واقعات کے علاوہ کوئی قابل ذکر زور آزمائی کا سلسلہ نہ ہوا۔مسلمان تو بہر حال اپنے گھر میں تھے گو محصور تھے لیکن دشمن تو بہت دور سے آیا تھا۔اس پریشان کن صورتحال میں ،اُن کے کیمپ میں سخت بد دلی اور بے چینی پھیل گئی تھی۔جنگ کی کوئی تدبیر ہی اُن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ خندق کو وہ عبور نہیں کر سکتے تھے،جو بھی ایسی اِکا دُکا کوششیں ہوئیں مسلمان تیر اندازوں نے اُن کوبھی بری طرح ناکام بنا دیا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی،ہر دم ہوشیار،چوکنا اور دشمن کی چالوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔موسم کی سختیاں اور محاصرے اور جنگ کی تکلیفیں ، مسلم کیمپ میں کسی قسم کی بد دلی،بوکھلاہٹ ،اُکتاہٹ یاعزم و حوصلہ میں کسی قسم کی کمی نہ لا سکیں اور یہی اس کیمپ کا سرمایہ تھا۔
محاصرہ کیے ایک ماہ گزر چکا تھا۔سردی کا زمانہ تھا۔حملہ آوروں کی ہر کوشش بے سود ہو رہی تھی ۔مدینہ کے اندر موجود یہود سے کی گئی سازش بھی پکڑی گئی۔منافقین بھی ، کوشش کے باوجود اُن کی کوئی مدد نہ کر سکے۔رہی سہی کسر بگڑتے موسم نے پوری کردی۔پھر ایک رات اچانک موسم کے تیور بگڑے،تیز آندھی اور ریت و باراں کے ایک طوفان نے، علاقے کو گھیر لیا۔ مسلمان سپاہ ،تو،پہاڑ کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سے نسبتاًمحفوظ رہی جب کہ حملہ آور کھلی جگہ میں ہونے کے باعث سخت تباہی کا شکار ہوئے۔اُن کے جانوررسے تڑوا کر بھاگ گئے۔خیمے اُکھڑ کر اُڑ گئے۔ کھانے کی دیگیں اُلٹ گئیں۔قیمتی سازو سامان بری طرح بکھر گیا۔سخت تاریکی ،بارش اور شدید سردی کے باعث، بھاگتے ہوئے کافر شدید طور پر زخمی ہوئے اور بھاگتے بھاگتے دم توڑ گئے۔کسی کا کسی سے رابطہ نہ رہا اور صبح ہوتے ہی دشمن کے خیموں کی جگہ پر ایک تباہی ہی تباہی اور ویرانی ہی ویرانی غالب تھی۔
کفر اپنے تمام تر لاؤلشکر سمیت میدان جنگ سے ایک بار پھر خائب و خاسر ہو کر بھاگ گیا تھا اور فتح مسلمانوں کے قدم چوم رہی تھی۔ایسے میں میرے ذہن کے کینوس پرسورہ احزاب کی وہ آیات مبارکہ ظاہر ہوئیں جن میں ارشاد ربانی ہے:‘‘اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو،یاد کرو اللہ کے احسان کو جو اُس نے تم پر کیاجب لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں۔اللہ تمھارے سب اعمال کو دیکھ رہا تھا۔یاد کرو وہ وقت جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے سے تم پر چڑھ دوڑا تھا،جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے،تب تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔(ہاں ہم جانتے ہیں کہ )اُس وقت اہل ایمان خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا مارے گئے۔’’
لیکن اہل ایمان اس آزمائش میں پورے اُترے اور ہر طرح کے حالات میں اپنے قائد ﷺ کے ساتھ جڑے رہے جس کے نتیجے میں انجام کار فتح و نصرت اُن کا مقدر بنی اور کفار کے لوٹ جانے کے بعد خیر البشر سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد ارشاد فرمایا :‘‘ اب کے بعد اہل مکہ پھر کبھی ہم پر حملہ آور ہونے کی جرأت و جسارت نہیں کر سکیں گے۔’’
میرے دل میں خیال آیا کہ مسجد فتح کے بند دروازے کے سامنے بیٹھ کر سورہ احزاب کی تلاوت کی سعادت حاصل کروں کیونکہ اسی سورہ میں ہی جنگ احزاب پر اللہ کریم نے تذکرہ و تبصرہ فرمایا ہے لیکن بوجوہ ایسا نہ کر سکااور ہم اس جگہ سے نیچے اُتر آئے۔نیچے اُترتے ہوئے سامنے،بجانب جنوب، ایک اور بوڑھی اور مختصرسی مسجد باقی نظر آئی ۔ یہ مسجد سلمان فارسی کہلاتی ہے۔یہ اس مایہ ناز صحابی کی یاد دلاتی ہے جن کے مشورے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خندق کھدوائی تھی اور آج اس عظیم الشان دفاعی ترکیب کے باعث فتح و کامرانی سمیٹی تھی۔اس مسجد کے تھوڑاہی آگے،اسی سمت میں ایک اور مسجد بھی ابھی قائم تھی جو مسجد علی کہلاتی ہے۔یہ گویا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت و بہادری کی یادگار ہے جو آنجناب نے اس غزوہ کے موقع پر سر انجام دی تھی۔روایت ہے کہ اس گہری اور چوڑی خندق کو کفار کے ایک سورما اور عرب کے مشہور شاہسوار اور نامی گرامی پہلوان عبد ِ وُدنے کراس کر لیا تھا اور مسلمانوں کے کیمپ کے قریب پہنچ کر للکار ماری تھی اورشیر خدا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا کام تمام کیا تھا اور اُسے جہنم واصل کیا تھا۔(جاری ہے)