اسلامی تاریخ کی ایک ادنیٰ طالبہ ہونے کی حیثیت سے مجھے صحابہ کرامؓ میں حضرت امیر ؓمعاویہ کی شخصیت ایک مظلوم شخصیت لگتی ہے ۔جو تاریخ ہم تک پہنچی اور پہنچائی گئی، اس بنا پہ ہم میں سے اکثرنے ان کے بارے میں بہت ہی کم جانا۔زیادہ تر گفتگو سیاسی چپقلش، والدِ یزید اور ان کے فتح مکہ کے بعد اسلام لانے پر ہی ہوتی رہی ہے۔ سچ پوچھیے تو امیر معاویہ ؓ پہ زیادہ پڑھنے کا محرک بنے ہیں مظلوم ِ مدینہ سیدنا عثمانؓ غنی
ہم مسلمانوں نے سیدنا عثمانؓکی شہادت فراموش کر دی۔جن حالات میں ان کی شہادت ہو ئی اور جن حالات میں ان کو دفن کر دیا گیاوہ بھی تاریخ کا بہت دردناک باب ہے ۔وہ غنی جو کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیتے تھے انہی پہ پانی بند کردیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ ذوالنورین کے جنازے پہ بمشکل سات لوگ تھے اور تدفین بھی دو دن بعد ہوئی۔تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا امیر معاویہ نے مظلومِ مدینہ کے ایک ایک قاتل کو چن چن کر مارا۔جب یہ پتا چلا تو میرے دل نے انہیں پہلا سیلوٹ پیش کیا۔ان کے بارے میں جوں جوں پڑھتی گئی تو یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا گیا کہ ان کے بارے میں تو ہمیں درسی تاریخوں میں بہت ہی کم بتایا اور پڑھایا گیا ہے ۔ اگر سیدنا امیر معاویہ کسی دوسری قوم میں ہوتے تو تاریخ میں بہت الگ طرح سے جگمگاتے . ہم نے تو انہیں صرف یزید کا باپ بنا کر رکھ دیا ہے۔
کچھ حقائق پیش کرنے کی جسارت کر رہی ہوں۔
سیدنا امیر معاویہ بدر، احد اور خندق میں مشرکین کی طرف سے شریک نہیں ہوئے تھے۔حالانکہ بدر کے وقت ان کی عمر انیس سال، احد کے وقت بیس سال اور خندق کے وقت چوبیس سال تھی۔یہ وہ عمر ہوتی تھی جب عرب کے جوان جنگوں میں شوق سے شریک ہوتے تھے۔سیدنا امیر معاویہ قریش کے ان سترہ لوگوں میں تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اس کے باوجود صلح حدیبیہ میں مشرکین کی طرف سے کسی بھی معاملے یا لکھت پڑھت میں شریک نہیں ہوئے۔
کاتبِ وحی اور کاتبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مختلف بادشاہوں کو بھیجنے کے لیے خطوط لکھوائے۔بلکہ کاتبین میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد سب سے زیادہ سرکار کی خدمت میں رہنے کا شرف بھی سیدنا معاویہ کو ہی حاصل ہے۔
اہل حدیث حضرات کے ہاں جو ایک رکعت وتر پڑھنے کی روایت ہے وہ سیدنا امیر معاویہ سے ملتی ہے۔اس پہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ثابت ہے کہ معاویہ فقہیہ ہیں اگر معاویہ اس طرح پڑھ رہے ہیں تو یقیناً ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے فعل ہوگا۔
آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں گورنر شام رہے ہیں بلکہ آپ نے بائیس سال تک گورنری کی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں آپ سب سے کامیاب ترین سپہ سالار اور فاتح رہے ہیں۔آپ نے قبرص فتح کیا جو یورپ اور مصر کی فتوحات کا دروازہ بنا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں آپ کے زیرِ نگرانی مسلمانوں کا پہلا بحری بیڑہ تیار ہوا اور پھر مسلم فتوحات کا دراز اور سنہرا سلسلہ شروع ہوا۔آپ نے چوبیس سال تک تقریباً چونسٹھ لاکھ مربع میل پہ حکومت کی ہے۔آپ نے خوارج سے مقابلہ کیا۔ جنگ یمامہ میں شریک ہوئے۔ان کے دور حکومت میں قلات، قندھار، مکران، سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح کیے گئے ان کا دور اسلامی خلافت کا سنہرا ترین دور تھا۔ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سلطنتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ سیدنا معاویہ کے دور میں تقریباً بائیس لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ مسلمان کے زیرِ نگین آگیا۔ان ہی کے دور میں قسطنطنیہ پہ پہلی اسلامی فوج کشی کی گئی اور سب سے پہلے منجنیق کا استعمال ہوا۔اس کے علاوہ نہری نظام، ڈاک خانے، اقامتی اسپتال، جہاز سازی کے کارخانے، علم طب اور جراحت کی تعلیم کا فروغ اور وہ سب کچھ جو ایک زیرک اور ہمدرد خلیفہ اپنے لوگوں کے لیے کرتا ہے، وہ سب کچھ ان کے دور میں ہوا.
جب بھی اسلامی تاریخ میں سیدنا امیر معاویہ کو پڑھا، یہی اندازہ ہوا کہ وہ بے پناہ سیاسی بصیرت اور انتظامی صلاحیتیں رکھتے تھے ورنہ ایسا انتظام سنبھالنا اور اتنی فتوحات کرنا اور اس پہ اپنے دور میں ایک انچ زمین بھی اپنے قبضے سے نہ جانے دینا کسی عام صلاحیت رکھنے والے امیر یا حکمران کے بس کی بات نہیں تھی۔
ایک اور بات جس نے میری توجہ کھینچ لی وہ یہ کہ میرے پسندیدہ ترین صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدنا امیر معاویہ کو بطور گورنر کبھی تبدیل نہیں کیا۔حالانکہ انہوں نے ان کے علاوہ سارے گورنر تبدیل کیے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو ان کی انتظامی صلاحیتوں اور مملکت کے لیے اخلاص پہ کس قدر بھروسہ تھا۔سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا حسنِ سلوک اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اہل بیت یا بنو ہاشم کے بارے میں ان کے دل میں کسی قسم کی کوئی کجی نہ تھی۔ کیا ہم میں سے کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم حسنین کریمین سے زیادہ دین کے مخلص ہیں۔جب انہوں نے سیدنا امیر معاویہ پہ بھروسہ کیا اور ان کی بیعت کرلی تو ہم کون ہوتے ہیں ان پہ انگلی اٹھانے والے۔ تعصبات کو پرے رکھ کر ہمیں حقائق کو جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے۔