چین میں رہنے والے ہمارے دوست محمد سلیم سعودی عالم دین کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مدینہ منور ہ کے دو نوجوان ترکی سیر سپاٹے کیلئے گئے۔ ان کا مقصد اپنے جیسے دوسرے نوجوانوں کی طرح شراب و شباب کے مزے لینا اور مستیاں کرنا تھا۔استنبول پہنچتے ہی ندیدوں کی طرح انہوں نے سب سے پہلے کھانے پینے کی اشیاکے علاوہ اپنا مدعا اول شراب کی بوتلیں خریدیں اور ٹیکسی پر بیٹھ کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل انہوں نے شہر کے مضافات میں ایسا پسند کیا جہاں انہیں کوئی جاننے پہچاننے والا نہ دیکھ سکے۔کاؤنٹر پر رجسٹریشن کراتے ہوئے کلرک کو جیسے ہی پتہ چلا یہ دونوں مدینہ شریف سے آئے ہیں تو اس نے عام کمرے کے ریٹ میں ان کو ایک سوئٹ کھلوا کر دیدیاکہ اہل مدینہ چل کر اس کے ہوٹل میں آ گئے ہیں۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔دونوں کمرے میں پہنچے اور بوتلیں کھول کر معدے میں انڈیلنے بیٹھ گئے۔ ایک تو کم ظرف نکلا کچھ ہی دیر میں نشے سے دھت بے سدھ سو گیا جبکہ دوسرا نیم مدہوش باقی کی بوتلوں کو کل کیلئے چھوڑ کر سو گیا۔ ان کو سوتے کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔صبح کے ساڑھے چار بجے تھے، ایک نے غنودگی میں اْٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کاؤنٹر کلرک کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ ہمارے امام مسجد نے یہ جان کر کہ ہوٹل میں مدینہ شریف سے دو آدمی آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں، یہ کہہ کر نماز پڑھانے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ ایسی بے ادبی ہرگز نہیں کر سکتا۔ ہم لوگ آپ کا مسجد میں انتظار کر رہے ہیں، آپ جلدی سے تیار ہو کر آ جائیں۔
اس جوان کو یہ بات سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا، اس نے جلدی سے اپنے دوسرے ساتھی کو جگا کر بتایا کہ صورتحال ایسی ہوگئی ہے۔ کیا تجھے کچھ قرآن شریف یاد ہے؟دوسرے ساتھی نے کہا ہاں تھوڑا بہت قرآن شریف تو یاد ہے مگر لوگوں کی امامت کراؤں،یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور لگے سوچنے کہ اس گلے آن پڑی مصیبت سے کیسے جان چھڑائیں۔اس اثنامیں ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ کاؤنٹر کلرک کہہ رہا تھا بھائیو جلدی کرو، ہم لوگ مسجد میں آپ کے منتظر ہیں، کہیں نماز میں دیر نہ ہو جائے۔ایک کے بعد دوسرے نے بھاگ کر غسل کیا، جلدی سے تیار ہو کر نیچے مسجد پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسا لگتا تھا نماز فجر نہیں بلکہ جمعہ کی نماز ہے ۔ لوگ مدینہ شریف کے شہزادوں کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے بڑے اہتمام سے بیٹھے تھے۔
ایک جوان کہتا ہے، میں مصلے پر کھڑا ہوا، اللہ اکبر کہہ کر لڑکھڑاتی زبان سے الحَمدْ للہِ رَبِّ العَالَمِین پڑھا ہی تھا کہ ایک نمازی رونے لگا ۔غالباً وہ یہ تصور کر رہاتھا کہ دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا مکیں اور مسجد رسول کا ہمسایہ انہیں نماز پڑھا رہا ہے ۔ پھر کیا تھا کئی نمازیوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹے اور بہت سے رونے لگے۔ کہتا ہے کہ نمازیوں کے رونے سے میری ندامت اور بڑھی اور میں بھی رو پڑا۔ سورہ الفاتحہ کے بعد میں نے پڑھی تو محض سورۃ الاخلاص ہی، مگر اپنے پورے اخلاص کے ساتھ۔نماز ختم ہوئی، نمازی میرے ساتھ مصافحہ کرنے کیلئے امڈ پڑے اور کئی ایک تو فرط محبت سے مجھے گلے بھی لگا رہے تھے۔ میں سر جھکائے کھڑا اپنا محاسبہ کر رہا تھا۔ اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کیا اور یہ حادثہ میری ہدایت کا سبب بن گیا۔
قارئین محترم! اس کہانی سے اگرچہ بہت سے سبق اخذ کیے جا سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں اہم ترین یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں جس ماحول ، معاشرے ،مذہب اور خاندان میں پیدا کیا ہوتا ہے اسی کا لحاظ کرتے ہوئے لوگ ہم سے توقعات رکھتے ہیں اور اللہ بھی ہم سے انہی حوالوں سے معاملہ کرتا ہے ۔ اسی طرح ہماری تعلیم ، مقام مرتبہ ، عہدہ رتبہ ،اور خاندان برادری میں ہمارے رشتے او ربندھن سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ توقعات وابستہ ہوتی ہیں اور میرا خیا ل ہے کہ اگر ہم زندگی بھر ان توقعات کوپورا کرنے کی کوشش کر تے رہیں تو امید ہے کہ ہم نے اپنے رب سے رحمت اور کرم کی جو امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ بھی انہیں پورا کرے گا۔بندہ اگر بندہ ہو کر کسی کی توقعات پوری کر سکتا ہے تو وہ خد ا ہو کر کیوں نہ کرے گا۔یقین جانیے جس دن ہمیں اس بات سے شرم آنے لگ گئی کہ، مسلمان ہو کر ہم ایسا قبیح کام کیسے کریں ؟تو اللہ کو بھی جہنم بھیجتے ہوئے شرم آجائے گی اور اسی طرح جس دن سے ہمیں کسی کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے حیا آنے لگے اسی دن سے اللہ کے ہاں بھی ہمیں خالی ہاتھ نہ لوٹانے کا فیصلہ، امید ہے ،کہ ہو جائے گا۔