کیوں نہ سر کے بل چلوں:
ہفتہ،۳۔اگست ۱۹ء کو، نماز فجر ادا کرنے کے بعد، ہم نے سوچا کہ آج مسجد قبا کی زیارت پر چلتے ہیں کیونکہ ہفتے کا دِن ہے اوراس دِن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبا کی بستی میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ساتھ بیٹھے ہوئے ایک پاکستانی نوجوان سے بات کی ،جس سے نماز سے تھوڑی دیر قبل تعارف ہوا تھا،کیوں نہ اکٹھے مسجد قبا کی زیارت کر آئیں ،وہ فوراً مان گیا ،لہٰذا ہم اُٹھ کھڑے ہوئے اور چل پڑے اُس نوجوان نے پہلی بار وہاں جانا تھا ، خاکسار ،اگرچہ پہلے ہو آیا تھا،لیکن ابھی دِل نہیں بھرا تھا۔ہم پہلے تو ،مسجد نبوی کی باؤنڈری وال کے جنوب مشرقی گیٹ سے باہر نکل کر،ٹیکسی اسٹینڈ پر آئے اور وہاں کھڑے،کچھ دیر ماحول کا جائزہ لیتے رہے۔قبا جانے کے لیے ویگنیں بھی تھیں اور ٹیکسیاں بھی۔رش تو نہیں تھا لیکن ہم احتیاطاًصرف دُور کھڑے ویگن اسٹینڈکے مزاج کو سمجھ رہے تھے ۔پھر اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ پیدل جایا جائے ، کیونکہ ابھی رات ہی کوایک زائر نے بتایا تھاکہ مسجد نبوی سے تین ساڑھے تین کلو میٹر کا فاصلہ ہے مسجد قبا تک کا،وہاں پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھی سے مشورہ کیاکہ کیوں نہ پیدل جایا جائے ۔ وہ بولے ،‘‘کیوں نہیں ،مدینہ پاک کی گلیوں میں پیدل چلنے کا الگ ہی لطف ہے۔ہاں البتہ راستہ کسی سے معلوم کر لیں۔ساتھ ہی ہنستے ہوئے یہ بھی کہا کہ خالی پیٹ چلنا میرے بس میں نہیں۔’’میں بھی مسکرایا اور عرض کی کہ ٹھیک ہے، پہلے ناشتے کاکچھ کرتے ہیں،کیونکہ میری آنتیں بھی قل ھواللہ پڑھ رہی ہیں۔اگرچہ میں پچھلے سال جب عمرہ کے لیے حاضر ہواتھا تو یہاں مسجد قبا کی پیدل حاضری دی تھی،کچھ توراستہ معلوم ہے مجھے ،پھر بھی ہوٹل والوں سے پوچھ لیں گے، تو پھر آیئے ،پہلے پاکستانی ہوٹل تلاش کرتے ہیں ،ناشتہ بھی کر لیں گے اورانھی سے مسجد قبا کا راستہ بھی معلوم کر لیں گے۔’’ہم مسجد نبوی کی جنوبی سمت میں تھے بلکہ جنوب مشرقی کونے میں۔ہمارے لیے توہر طرف کا ماحول نیااورعدم واقفیت والا تھا،کرتے کراتے، اور سائن بورڈز کو دیکھتے اور لوگوں سے پوچھتے پوچھاتے،حرم سے خاصے دور نکل آئے اورآخر ہمیں ایک پاکستانی ہوٹل مل گیا۔وہاں سے ناشتہ کیا اور اُن سے مسجد قبا کا راستہ معلوم کیا۔کاؤنٹرپر بیٹھا نوجوان کہنے لگا،او بھائی!پیدل جانا توبہت دور ہے،کدھر پریشان ہوتے رہو گے ،ابھی ٹیکسی منگوا دیتا ہوں ۔ ’’ اس کی آواز میں تو بڑی محبت تھی لیکن اُس کے پیچھے کاروباری غرض کی مجھے بو آگئی۔اُس سے پیدل راستہ پوچھنے کا اصرار کیا تو اُس نے بادل نخواستہ رہنمائی تو کر دی لیکن ہمیں سمجھ کچھ نہ آیا۔اُس کا بل ادا کر کے باہر نکلے،پارکنگ ایریا تھا،ایک تاریخی مسجد ،مسجد بلال کے پاس سے گزرے ،ایک دو اور بندوں سے راستہ پوچھا اوراُس کے مطابق چلتے چلتے ، آخر ایک ایسے بازارمیں آگئے جس کے جنوب میں ،دور سے مسجد قبا کے مینار نظر آرہے تھے ۔اِس بازار میں پہنچتے ہی مجھے بھی راستہ یاد آگیا۔اِس بازار کو میں نے انارکلی لاہورکا نام دیا تھا۔یہ ایک لمبا سا بازار تھا جو ابھی بند پڑا تھا،کیونکہ ابھی صبح صبح تھی اور بازار یہاں بارہ بجے کھلتے ہیں۔ہم اِس راستے پر چل پڑے۔ بازار کے راستے میں ہارڈ ٹائلز لگائی گئی تھیں۔دکانوں کے دروازے جن پر قفل چڑھے تھے،پرانے زمانے کے لکڑی کے بنے لگ رہے تھے۔کسی کسی دکان کے لوہے کے شٹر بھی تھے۔بظاہرایسے لگتا تھا جیسے لاہور کے انار کلی بازار سے گزر رہے ہوں ۔بند دکانوں کے سائن بورڈز سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہو رہا تھاکہ یہ دکان کس سامان سے بھری ہوگی۔دھوپ چمک رہی تھی لیکن یہ ابھی بازار میں نہیں اُتری تھی، اگرچہ قدرے گرمی کا احساس تھالیکن دکانوں کاسایہ روڈ پر پڑ رہا تھا جس سے ہمارا یہ پیدل سفر خوش اسلوبی سے طے ہورہا تھا۔ایک قسم کی لذت اور فرحت کے جذبات تھے۔مدینے پاک کی گلیوں میں چلنے اور مدینہ پاک کی فضا میں سانس لینے کا اعزازپانے کا احساس ،اس پیدل مشقت پر حاوی تھا۔ کہتے ہیں کہ اکیلا آدمی تو بستر سے اُٹھ کر باتھ روم تک جانے میں بھی گھبراتا ہے لیکن اگر دو ہوں تو باتوں باتوں میں وہ قندھار پہنچ جاتے ہیں۔میں اگر اکیلا ہوتا تو شاید ایسا ممکن ہی نہ ہوتا کہ اتنی دور جاؤں لیکن ہم دو تھے ،باتیں کرتے سفر کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔میرا ساتھی جوان تھا اور جذبے والا تھا۔مدینہ ہو ،مدینے والے کی باتیں ہوں ، تو تھکاوٹ کدھر ہوتی ہے ہم مزے سے چل رہے تھے۔بازار میں ٹریفک بالکل نہیں تھی۔اِکا دُکا دکان کھلی تھی اور گنے چنے گاہک بھی نظر آئے۔ہاں البتہ مسجد قبا کی طرف جانے والے ،اور وہاں سے واپس آنے والے پیدل زائرین ضرور دکھائی دے رہے تھے۔ ہمیں کم و بیش ایک گھنٹہ ہو چکا تھا،مسجد نبوی سے نکلے ہوئے ، ابھی ہم مسجد قبا سے دُور تھے۔مسجد کے قریب آتے میناروں نے حوصلہ قائم رکھا ہوا تھا،اب بازار اوردکانیں ساتھ چھوڑ گئیں اور اُ ن کی جگہ کھجور کے باغات اور کھردری،سیاہ سنگلاخی زمین نے لے لی۔
میرا ساتھی کہنے لگا،‘‘ڈاکٹر صاحب سنا ہے کہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ کا باغ بھی یہیں کہیں ،بستی قبا کے راستے پر واقع تھا۔’’ہاں جی ،ایسا ہی ہے،لیکن مجھے اُس کی اصل جگہ کا علم نہیں۔سیدنا سلمان فارسی کا تذکرہ کرتے کرتے ہم مسجد قبا میں پہنچ گئے۔یہ ایک کشادہ اور عظیم الشان مسجد ہے۔یہ ایک پورا کمپلیکس ہے،یعنی مرد و خواتین کے لیے الگ الگ نما ز ہالز،الگ الگ وضخانے،لائبریری،میوزیم،پارکنگ ،مارکیٹ اورانتظامیہ کے دفاتر شامل ہیں ۔ ظاہرہے اب وہ مسجد تو دیکھنے سے رہے جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تعمیر فرمائی تھی ،کہ درمیان میں صدیوں کا فاصلہ تھا۔یہ موجودہ پر شکوہ مسجد شاہ فہد بن
عبدا لعزیزکے عہد کی تعمیر شدہ ہے اور اپنے فن تعمیر کے اعتبار سے‘‘ مغل فن تعمیر ’’ کاشاہکار دکھائی دیتی ہے۔خوبصورت ستون،محرابیں،گنبد اورمینار اوراعلیٰ پائے کی خطاطی،اُسی طرز کی ہے جو ہم یہاں مغلیہ دور کی تعمیر شدہ عمارتوں میں دیکھتے ہیں یا کم از کم مجھے یہی معلوم ہوا۔دو چیزوں سے میں بڑا متائثر اور محظوظ ہوا،ایک تو ہال کے اندر جو ستون تھے اُن کی غیر معمولی بناوٹ و سجاوٹ تھی اوردوسرے مسجد کے جو گنبد تھے وہ بڑے شاندار اور دیدہ زیب تھے۔وضو کر کے ،مسجد کے اندر آگئے۔کوئی خاص رش نہیں تھا۔کچھ نوافل ادا کیے،کچھ دیر مسجد کے اندر ہونے کا لطف لیا کہ کیسی خوش قسمتی تھی کہ آج یہ خاکسار اُس مسجد میں تھا جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہونے کا شرف رکھتی ہے۔مسجد سے باہر نکل کر کچھ دیر آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیا۔کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کے پاس ہی سیدنا سعد بن خیثمہ کی حویلی تھی جس میں پیارے آقا قبا کے قیام کے دنوں میں مجلس سجایا کرتے تھے۔ اور یہاں کجھوروں کے بہت سے باغات تھے،لیکن اب وہ نہ گلیاں رہیں اور نہ حویلیاں۔نہ وہ باغات رہے اور نہ ہی وہ کھیت کھلیان۔وہ جو کبھی بستی قبا تھی ،اب ایک جدیدشہر کا روپ دھار چکا ہے۔جدید شہر اوراس کا جدیدانفراسٹرکچر کافی لائق دید تھا لیکن ہمیں اس سے کیا سروکار،ہم تو دیوانے اُن کچی گلیوں کے تھے جو میرے محبوب کے قدموں کو چاٹتی تھیں،ہمیں تار کول کی کالی سڑکوں سے کیا لینا دینا۔ہم تو وہ کچے مکان ڈھونڈھتے تھے جن میں میرے محبوب قیام پذیر رہے ۔ہمیں ان فلک بوس عمارتوں سے کیا لینا دینا،بس ہم واپس ہی آگئے۔اب دِن گرم ہو چکا تھا۔مقصد سفر حاصل ہوچکا تو ٹانگوں نے بتایا کہ حضور ،شدید تھکاوٹ کے باعث اب پیدل واپسی ممکن نہیں ہے،لہٰذا ویگن کے ذریعے واپسی اختیار کی اور نماز ظہرکے قریب مسجد نبوی میں ایک بار پھر حاضر ہو گئے۔
مسجد جمعہ:
ابھی ہم مدینہ پاک کی طرف سے ، مسجد قبا کے میناروں کو نظر میں رکھے،قباکی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ سڑک کے بائیں جانب ایک اور مسجد نظر آئی۔بند تھی،کوئی بندہ بشر بھی اُس وقت پاس نہ تھا۔ایک سائن بورڈ نے بتایا کہ یہ مسجد جمعہ ہے۔ آجکل یہاں نماز کا اہتمام ہوتا ہے یا نہیں ، اس کی تو مجھے نہیں خبر،لیکن یہ ایک تاریخی مسجد ہے۔روایات میں آتا ہے کہ قیام قبا کے بعد،یثرب کی طرف ،جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو وہ جمعہ کا مبارک دِن تھا۔آپ کا قافلہ جو اب کم و بیش سو ڈیڑھ سو نفوس پر مشتمل ہو چکا تھا،بوقت چاشت قبا سے روانہ ہوا۔قبا سے نکل کرراستہ میں ،یہاں بنو سالم کی آبادی تھی۔ان لوگوں نے اِس قافلہ حق کا پرجوش اور پر تپاک استقبا ل کیا۔استقبال کرتے اور مہمان نوازی کرتے ،نماز جمعہ کا وقت ہو گیا۔اسی بستی میں ہی نماز جمعہ کا اہتمام کیا گیا اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ جمعہ نماز پڑھائی جس جگہ ،بعد میں مسجد جمعہ ،بطور یادگار تعمیر کر لی گئی۔روایات میں اس پہلی نماز جمعہ کا خطبہ پاک بھی نقل کیا گیا ہے۔
مسجد غمامہ:
مدینہ پاک میں ہمارا قیام دارالایمان نامی ہوٹل میں تھا جو کہ مسجد نبوی کے جنوب مغربی رُخ پر ایک گلی میں واقع تھا۔ ہوٹل سے مسجد نبوی کی طرف آتے جاتے ،مسجد میں داخل ہونے سے پہلے،تین چار مساجد دیکھا کرتے تھے۔ جوکہ بند ہوتی تھیں اور تاریخی معلوم ہوتی تھیں۔آتے جاتے سوچتا رہتا کہ کبھی اِن مساجد کے بارے میں بھی معلومات لی جائیں اور اِن کی اور مدینہ میں موجود دیگر تاریخی مساجد کی بھی زیارت کی جائے۔کل جمعہ کے بعد،آصف صاحب کے پر تکلف ظہرانے کے بعد ، میرے دیگر احباب تو اپنی اپنی مصروفیات میں لگ گئے اور بندہ ،اِن مساجدکی زیارت کی نیت سے ،ہوٹل سے نکل آیا۔ پہلی مسجد ،جو ہمارے راستے میں آتی تھی ، اُسے مسجد غمامہ کہتے ہیں۔اِس کو مصلیٰ العید بھی کہتے ہیں۔
مسجد نبوی پاک کے جنوب مغربی دروازہ (باب نمبر ۶) سے باہر نکلیں توسیاہ پتھروں سے بنی یہ چھوٹی سی خوبصورت مسجد نظر آتی ہے۔ ایک عرصے تک تواِس مسجد میں نماز پنجگانہ ہوتی رہی لیکن آجکل نہیں ہوتی اِس لیے کہ مسجد نبوی کی توسیع در توسیع ہوتے ہوتے ،اب یہ بالکل اِس مسجد کے قریب پہنچ چکی ہے۔میں جب حاضر ہوا تو یہ بند تھی۔زائرین کے لیے بھی نہیں کھولی جاتی اِس کے ارد گرد ایک خوبصورت پارک بنایا گیا ہے۔روشیں ہیں ، سایہ دار درخت اور آرائشی پودے بھی لگائے گئے ہیں۔ زائرین کے آرام کے لیے سیمنٹ کے بینچ بھی لگائے گئے ہیں ۔ ہارڈ ٹائیلز سے منقش فرش بنایا گیا ہے۔وہاں پر کبوتروں نے بھی ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ رات میں روشنی کے لیے دیدہ زیب آرائشی لائٹیں لگائی گئی ہیں۔ پارک کے اطراف میں فلک بوس پلازے اور کثیر منزلہ عمارتیں ہے۔ مجموعی طور پر ایک دیدہ زیب اوردِلکش منظر ہے۔
سیاہ پتھروں کی اینٹوں سے یہ عمارت بنی ہے ۔اینٹوں کو سفید رنگ کے مسالے سے جوڑا گیا ہے۔برآمدے اور مین ہال کے کل گیارہ خوبصورت گنبدہیں۔گنبدسفید ماربل کے لگتے تھے۔ایک چھوٹا سا مینار بھی ہے۔مسجد میں دو دروازے ہیں، ایک مین گیٹ جو شمالی سمت میں ہے اور ایک مغربی سمت میں چھوٹا دروازہ ہے۔ میں جب ، باہر سے ہی اِس مسجد کی زیارت کر رہا تھا توایک آدمی جو مجھے پاکستانی لگتا تھا،مغربی دروازے سے باہر نکلا اور نکلتے ہی دروازے پرقفل چڑھانے لگا تو میں نے قریب پہنچ کر عرض کی کہ مجھے مسجد کے اندر کی ایک جھلک دیکھ لینے دیجیے۔کافی منت سماجت کے بعد اُس نے محض چند لمحوں کے لیے دروازہ کھولا اور میں نے مسجد کے اندر کی زیارت کر لی۔مسجد کی موجودہ عمارت عثمانی دور کی تعمیر کردہ ہے ۔پہلے پہل یہ مسجد کب تعمیر کی گئی ،یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ،بعض مورخین کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں یہ مسجد پہلی بار تعمیر کی گئی ،واللہ اعلم، البتہ سیرت مبارکہ کی کتابوں سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں یہاں کوئی مسجد نہیں تھی۔ اِس مسجد کو اور مسجد کے اِس مقام کو یہ یقینی شرف حاصل ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس زمانے میں یہاں ایک گراؤنڈ تھی جس میں پہلی بار ، میرے آقا علیہ السلام نے ۲۔ہجری کو عید الفطر کی نماز کی امامت فرمائی تھی۔اِس لیے اِس مسجد کو مصلیٰ العید بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں بھی اِسی مقام پر عیدین کے اجتماعات ہوتے رہے۔ اب آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اِن سطور کا یہ گناہ گارراقم کتنی بڑی عظمت والی جگہ پر تھا۔ اِس مسجد کو ،مسجد غمامہ کیوں کہا جاتا ہے
اِس کی وجہ تسمیہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں ایک بار کافی عرصہ تک بارش نہ ہوئی۔اللہ پاک سے بارش طلب کرنے کے لیے ،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مقام پرجہاں عیدین پڑھاتے تھے ، لوگوں کو نماز کے لیے جمع ہونے کا حکم دیا۔تپتی دھوپ اورشدید گرمی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمع ہو گئے۔پیارے آقا تشریف لائے اور میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تپش اور چلچلاتی دھوپ میں اللہ کریم سے بارش مانگنے کے لیے نماز پڑھانا شروع کی۔اِدھر سیدی خیر ابشر صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر فرمایا، اُدھر آسمان مدینہ پر بادلوں نے چادر رحمت تان لی۔نہ دھوپ رہی اور نہ گرمی ۔ اورجوں ہی سید الانبیا نے سلام پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ،رحمت خداوندی جوش میں آئی ،بادل برسنا شروع ہوئے اور پل بھر میں مدینہ طیبہ میں جل تھل ہوگیا۔ غمامہ بادل کو کہتے ہیں۔مسجد غمامہ کے بالکل قریب ہی ، اُسی پارک میں ہی ایک اور چھوٹی سی مسجد ہے جسے مسجد ابو بکرکہا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ تسمیہ اور تاریخی حیثیت کا علم نہیں ہو سکا ۔سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اِس مسجد کی نسبت کی وجہ بھی نامعلوم ہے ۔یہ بھی بند تھی۔اِس کا ایک خوبصورت گنبد اور ایک ہی مینار ہے۔
اِسی طرح مسجد غمامہ سے کچھ دور ،شارع السلام پر ،مسجد نبوی کے گیٹ نمبر(۶) سے ۵۰۰ میٹر دور ،مسجد نبوی سے نکل کر،شارع السلام پربائیں ہاتھ پر ایک اور مسجد ہے جسے مسجد علی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس مسجد کی بھی وجہ تسمیہ اور تاریخی حیثیت نا معلوم ہے۔ہم جب زیارت کے لیے حاضر ہوئے تویہ بھی بند تھی غالباً مرمت کا کام جاری تھا۔یہ مسجد قبل ازیں ذکر کردہ دونوں مساجد سے قدرے بڑی تھی۔اِسی طرح ایک اور چھوٹی مسجد،مسجد غمامہ سے جنوب میں واقع ہے۔جن دِنوں (اگست ۱۹ء میں)ہم یہاں مدینہ طیبہ میں حاضر تھے ، یہ مسجد، دو زیرتعمیر عمارتوں کے درمیان موجود تھی۔تعمیرات کی وجہ سے یہ ایریا ٹین کی چادروں سے،عوام الناس کے لیے بند کیا ہوا تھا۔ہم روزانہ ،دِن میں کئی بار اُدھر سے گزرتے تھے۔ایک دِن ایک کام کرنے والے آدمی سے میں نے پوچھ لیا کہ یہ مسجد کونسی ہے۔اُس نے کہا ،تفصیل کا تو مجھے علم نہیں،البتہ اِس مسجد کو مسجد عمر کہتے ہیں۔یہ مقفل رہتی ہے۔کیوں کہتے ہیں ،کسی کو پتہ نہیں۔
مسجد الاجابہ:
آج نمازعصر کے بعد،مسجد الاجابہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔ہم قیام مدینہ کے دوران میں جنوب مغربی کونے سے آیا جایا کرتے تھے۔اب اِس مسجد کی زیارت کے لیے مجھے وسیع وعریض مسجد نبوی کے شمال مشرق والے کونے میں جانا تھا،گویا پوری مسجد نبوی میں سے گزرنا تھا ،یہ بھی کافی طویل فاصلہ ہے لیکن مجھے اُس سے بھی کہیں آگے جانا تھا۔یہ مدینے کی گلیاں اور بازار تھے۔میرے لیے یہ سب گل و گلزار تھے۔ہم یہاں کیا لینے آئے تھے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں ،نبی کی گلیوں میں اور نبی کے وجود انور سے مہکی فضاؤں میں سانسیں لینے تو آئے تھے۔ ہم آلودہ تھے،یہاں صاف ہونے آئے تھے۔یہاں کی مساجد تو مساجد ،بازاروں کو بھی شرف حاصل ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم انھی بازاروں میں چلا پھرا کرتے تھے ۔ میرے اللہ کریم نے ،اِن بازاروں کا بھی ذکر اپنے قرآن میں کیا ہے۔مسجد نبوی سے نکل کر ایک بازار میں آگیا۔ایک دکان سے چائے کا کپ لیا اور ایک سڑک کنارے بیٹھ کر،محبوب کے شہر میں ،فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جو چائے پی تھی ،اللہ کی قسم اُس کی لذت اور شیرینی آج تک نہیں بھولتی۔
ایک آدمی سے مسجد الاجابہ کا راستہ پوچھا ،اُس نے بڑی اچھی طرح سمجھایا اور میں چل پڑا۔میں مسجد نبوی کے شمال اور مغرب میں تھا۔مختلف پلازوں اور سڑکوں سے گزرنے کے بعد،ایک انڈرپاس آ گیا۔ نہایت خوبصورت،اعلیٰ تعمیر،برقی زینے کے ذریعہ نیچے اُترا ،نیچے ایک اچھی خاصی مارکیٹ تھی۔اِس انڈرپاس والی مارکیٹ سے ہوتا ہوا،دوسری طرف کی برقی سیڑھیاں استعمال کرکے اُوپر آگیااورمشرق کی طرف منہ کرکے فٹ پاتھ پر چلنا شروع کیا۔ مغرب کی طرف جاتے سورج کی تمازت خاصی تیز تھی۔حرمین میں نماز عصر جلدی پڑھی جاتی ہے ،میں عصر پڑھ کر مسجد نبوی سے نکلا تھا،ابھی بھی گرمی میں شدت قائم تھی۔یہ پہلی سرکلر روڈ تھی جو مسجد نبوی کے چاروں طرف موجود ہے،اِسے شاہراہ فیصل کہتے ہیں،اِس کاپرانانام شاہراہ ستین ہے۔میرے سامنے سے جو ٹریفک آرہی تھی وہ جنت البقیع کی طرف سے آرہی تھی۔بہر حال میں مدینے کی ایک گلی میں تھااور بڑے لطف میں تھا۔کچھ دور جانے کے بعد،مسجد بھی نظر نواز ہو گئی۔خاکسار اُس کی طرف رواں دواں تھا۔ایک وسیع پارکنگ ایریا آیا اور اُ س کے کنارے مسجد الاجابہ زیب نظر تھی۔مسجد کا گنبد اور شاندار مینار ،دور سے ہی نظر آرہے تھے۔شاہ فہد کے زمانے کی تعمیر شدہ ،سفید سیمنٹ کا پلستر ہواتھا۔مین گیٹ پر نام کی بڑی نفیس تختی لگی تھی۔نہایت اعلیٰ صدر دروازہ تھا۔اندر داخل ہوا۔وضو خانے میں جا کر وضو بنایااور پھر مسجد میں داخل ہو گیا۔اچھی خوبصورت اور مناسب آرائش و زیبائش کی حامل مسجد ہے۔ خواتین کے لیے الگ سے ہال موجود ہے۔مسجد میں مرد و خواتین،زائرین و زائرات کا ہجوم ہے۔معلوم ہوتا تھا کہ یہاں نماز پنجگانہ کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے کچھ لوگ نماز ادا کر رہے تھے۔میں نماز عصر ادا کر چکا تھا ،نوافل کے لیے وقت مکروہ تھا اِس لیے نوافل پڑھ نہیں سکتا تھا،اِس لیے وقت گزاری کے لیے میں نے قرآن مجید کے ریکس سے ایک قرآن مجید لے کر،ایک طرف کو بیٹھ کر تلاوت شروع کر دی۔ دراصل میں مسجد اجابہ میں ہونے کو انجائے کر رہا تھا۔ مسجدمیں سرخ قالین بچھا تھا۔ ایئر کنڈیشنڈنر خوب کام کر رہا تھا۔آپ جانتے ہیں ،یہ خاکسار ،مقدر کا سکندر بنا،آج کہاں بیٹھا تھا۔؟یہ انصار کے قبیلے بنو معاویہ کی مسجد ہے۔میرے آقا سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،کئی باراِس محلے میں تشریف لائے اورمیری سرکار نے اِس مسجد میں نمازیں ادا فرمائیں ،بلکہ نمازوں کی امامت فرمائی۔ مسلم شریف میں ،ایک بار کا ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنو معاویہ کی اِس مسجد میں تشریف لائے اور دورکعت
نفل ادا فرمائے۔صحابہ کرام نے بھی آپ کی اقتدا میں یہ نفل پڑھے۔بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دُعا مانگی اور پھراپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ میں نے ،اپنے رب کریم کے حضور تین درخواستیں پیش کی ہیں ،جن میں سے دو تو منظور فرما لی گئی ہیں اور ایک دعا منظور نہیں ہوئی۔صحابہ کرام نے عرض کی ،حضور وہ کونسی تین دعائیں ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،‘‘میں نے پہلی دعا یہ کی کہ میرے رب میری اُمت کو قحط کی بلا سے ہلاک نہ کیا جائے۔اِس دعا کو شرف قبولیت بخشا گیا۔دوسری دعایہ تھی کہ مالک میری اُمت کو سیلاب میں غرق نہ کرنا۔یہ دعا بھی قبولیت کا شرف پا گئی اور تیسری دعا یہ مانگی کہ میری اُمت کو خانہ جنگی اور باہمی تفرقہ سے محفوظ فرمانا ،لیکن اِس دعا سے منع کر دیا گیا۔’’ اجابہ کے معنی ہیں قبول ہونا۔
مسجد ابوذر غفاری:
مسجد الاجابہ میں کچھ دیر شرف قیام پانے اور تلاوت و دعا کے بعد،واپسی کی راہ لی۔جس راستہ سے آیا تھا اُسی راستے سے واپس گیا۔جس جگہ پر زیر زمین بازار اور راستہ شروع ہونا تھا ،وہاں پہنچا تواُس علاقے میں شمال میں ایک مسجد تھی۔سوچا کہ مغرب ہونے والی ہے ،کیوں نہ یہاں مغرب کی نماز پڑھ لوں ،کیونکہ مسجد نبوی تک جاتے جاتے تو کافی وقت لگ جائے گا۔ذہن میں یہ خیال آیا تو بجائے سیڑھیاں اُترنے کے میں اُس مسجد کی طرف ہو لیا۔یہ ایریا بھی کافی پر رونق تھا۔شمال کی سمت میرا رخ تھا۔دو رویہ سڑک تھی۔سڑکوں کے درمیان میں بھی اور کناروں پر بھی درخت لگے ہوئے تھے۔ایک جگہ تو ریاض جانے کے لیے ایک بس بھی لگی ہوئی تھی اور چھوٹے اسپیکر پر ‘‘ریاض ۔۔ریاض۔۔ریاض’’ کی آواز بھی لگ رہی تھی۔گویا یہ کوئی بس اڈاتھا اوراسپیکر بطور ہاکرز کام کر رہا تھا۔ایک دو فرلانگ پر وہ مطلوبہ مسجد آ گئی۔میں مسجد کی طرف بڑھا۔مسجد کے باہر ہی ایک بورڈ لگا ہوا تھا اُس کی عبارت کو پڑھ کر میں خوشی سے پھولا نہ سمایا جب مجھے معلوم ہوا کہ میں اتفاقی طور پر ایک اورتاریخی مسجد میں آگیا ہوں جس کا نام ہے مسجد ابوذر غفاریؓ۔ اُس بورڈ پر یہ عبارت لکی تھی۔
ھو مسجد ابی ذر الغفاری ، سُمیَ السجدۃ و ذالک لان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سجد فیہ سجدۃ طویلۃ حیث اتاہ جبریل علیہ السلام یقول ‘‘من صلی علیک صلیتَ علیہ ومن سلم علیک سلمتَ علیہ ’’ لذلک سجد السجدۃ الطویلۃ شکراً لربہ
جدد فی عھد خادم الحرمین الشریفین الملک فھد رحمہ اللہ ۔
یہ مسجد ابو ذر غفاری ؓہے۔ اس کو مسجد السجدہ کا نام بھی دیا گیا۔اِس مسجد میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل سجدہ فرمایا تھا،کیونکہ جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)یہ بتا گئے تھے کہ جو کوئی آپ پر درود بھیجے گا ،اللہ اُس پردرود بھیجے گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گااللہ بھی اُس پر سلام بھیجے گا۔ اپنے رب تعالیٰ کا اِس انعام پر شکرانے کے طور پر،آپ نے اتنا طویل سجدہ فرمایا تھا۔
میں مسجد کی طرف بڑھا۔سڑک (جس کے کنارے یہ بورڈ لگا تھا)اور مسجد کے داخلی دروازے کے درمیان کھلی جگہ تھی جس کا فرش پکا تھا۔کسی محلے میں جس طرح کی مساجد ہوتی ہیں،باہر سے یہی نظر آرہا تھا۔سادہ اندازاور صاف ستھرا ماحول آس پاس بازار ،دکانیں اورکثیر المنزلہ عمارتیں موجود تھیں،اگرچہ یہ سب جدید تھیں لیکن اِن سب پرقدامت جھلکتی تھی۔ مسجد کا داخلی دروازہ کوئی‘‘ بڑا مین گیٹ ’’قسم کا نہ تھا۔ پانچ چھ سیڑھیاں چڑھ کر مسجد کے اندر داخل ہوگیا۔ائیرکنڈیشنڈ ہال میں سرخ قالینی صفیں بچھی تھیں۔ہال کے اندر،ایک طرف کوسفرہ(دسترخوان) بچھایا گیا تھاجس پرانواع و اقسام کی کھجوریں،پانی کی بوتلیں،دہی کے پیکٹس،خبز(ڈبل روٹی قسم کی چیز) ،قہوے کے تھرموس اور چھوٹی چھوٹی ڈسپوزایبل پیالیاں اور کئی دیگر چیزیں سجائی گئی تھیں۔عربی چوغے پہنے بچے اور جوان دستر خوان پر خدمت پر مامور اور مستعدکھڑے تھے اور آنے والے لوگوں کو دسترخوان پر بیٹھنے کی ترغیب وترتیب دے رہے تھے۔کچھ لوگ پہلے سے ہی اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے۔اِن میں اہل عرب بھی تھے اوراہل عجم بھی ۔پاکستانی بھی،انڈین ،بنگالی اور ترکی بھی۔مناسب جگہ دیکھ کریہ فقیر بھی سفرے پر‘‘ تشریف فرما ’’ ہوگیا۔ وافر اشیائے خور و نوش دیکھ کر خاکسار کی بھوک بھی چمک اُٹھی۔یہ اللہ کے بندوں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کی،اہل مدینہ کی طرف سے میزبانی تھی۔یہ اِن کی روایت ہے۔اتنے میں اذان مغرب بلند ہوئی اور ساتھ ہی‘‘ پیٹ پوجا ’’شرو ع ہوگئی۔ نماز مغرب مسجد ابو ذر غفاری میں ادا کی ۔مقامی امام صاحب کی نہایت اعلیٰ تلاوت قرآن مجید سے لطف پایا۔نماز پڑھ کر باہر نکلا اور سوچتا رہا کہ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اِس مسجد کی نسبت کیسے ہوگی۔کیا آپ
یہاں رہتے رہے یا کوئی اور وجہ۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ،اِس مسجد کا موجود ہونا تو یہ بورڈ ثابت کر ہی رہا تھالیکن نسبت غفاری کی وجہ کیا ہوگی معلوم نہ ہوسکا۔البتہ چلتے چلتے ،میرے ذہن کی سکرین پر سیدنا حضرت ابوذر غفاری کی زندگی کی فلم چلنا شروع ہوگئی ،آیئے آپ کو بھی چند جھلکیاں دکھاتا ہوں۔
(جاری ہے)