قرآن مجید کا اسلوب دعوت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : مئی 2021

قرآن کا اسلوب دعوت
    قرآن مجید انذار و تبشیر کی کتاب ہے اور اس کا غالب موضوع و مقصد دعوت الی اللہ ہی ہے جو مختلف اسالیب اور عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔کبھی توحید کے رنگ میں ،کبھی رسالت کے رنگ میں اور کبھی آخرت کے رنگ میں ۔ ان تمام حوالوں سے قرآن مجید مختلف اسالیب اختیار کرتاہے تا کہ اس کی دعوت دلوں میں اتر جائے ۔ان اسالیب کو ہم درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں 
۱۔واقعات اور قصص
    انسانی طبیعت کہانی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید پچھلی قوموں اورپیغمبروں کے واقعات سنا کر ترغیب و ترہیب دلاتا ہے تا کہ جن گناہوں اور اعمال کی وجہ سے وہ قومیں تباہ و بربا د ہوئیں ان سے احتراز کیاجائے اور جن نیک اعمال کی وجہ سے پیغمبروں اور صالحین کو اللہ کا قرب حاصل ہوا ، ان کی تحصیل و تحریص کی جائے ۔ان قصص و واقعات میں بھی قرآن مجید کا خاص زور انبیا کے دعوتی نمونے پیش کرنے پر ہے ۔ امت مسلمہ کی چونکہ بنی اسرائیل سے بہت زیادہ مشابہت ہے اس لیے قرآن نے بنی اسرائیل کی کہانی کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے تا کہ امت مسلمہ ان اعمال بد سے بچ سکے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل منصبِ امامت سے معزول ہوئے اور یہ امت وہ کام کر سکے جو ان کو منصب امامت پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔قرآن چونکہ کہانیوں کی کتاب نہیں ا س لیے وہ واقعات اور قصص بیان تو کرتا ہے لیکن واقعے کا اتنا ہی حصہ بیان کرتا ہے جتنا موقع کی مناسبت سے ضروری ہوتا ہے ۔
۲۔تمثیلات
    قرآن مجید نے بہت سے مقامات پر بہت ہی خوبصورت تمثیلات سے اپنی دعوت کو واضح کیا ہے ۔ اور اس کا مقصد بھی قرآن یہ بیان کرتا ہے تا کہ لوگ غور وفکر سے کام لیں ۔وَلَقَد ضَرَبنَا لِلنَّاسِ فِی ہٰذَا القْراٰنِ مِن کْلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہْم یَتَذَکَّرْون (۳۹: ۲۷)‘‘اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی تذکیر کے لیے ہر قسم کی تمثیلیں بیان کر دی ہیں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔’’وَ تِلکَ الاَمثَالْ نَضرِبْہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہْم یَتَفَکَّرْونَ (۵۹: ا۲)‘‘اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سوچیں۔’’ تمثیل اصل میں تصویر کشی ہے اور قاری کے سامنے حقائق گویا ممثل ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔قرآن میں تمثیل کی دو مثالیں ملاحظہ کیجیے ۔دونوں مثالوں میں توحید کی عظمت، شرک اور جن کو لوگ شریک کرتے ہیں ان کا بودا پن بیان کیا ہے۔مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّہِ أَوْلِیَاء کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتاً وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (۲۹:ا۴)‘‘ان لوگوں کی تمثیل جنھوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنائے ہیں بالکل مکڑی کی تمثیل ہے جس نے ایک گھر بنایا۔ اور بے شک تمام گھروں سے بودا گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش کہ وہ اس حقیقت کو جانتے!’ یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئاً لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (۲۲:۷۳)‘‘اے لوگو! ایک تمثیل بیان کی جاتی ہے تو اس کو توجہ سے سنو! جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا کر سکنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ اس کے لیے سب مل کر کوشش کریں۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے۔ طالب اور مطلوب دونوں ہی ناتوان!’’
۳۔تدریج
    قرآن اپنی دعوت پیش کرنے میں تدریجی طریقہ اختیار کرتا ہے تاکہ جو لوگ اس کو قبول کریں اپنی طبیعت کی طلب سے قبول کریں اور پھر بتدریج پورا دین ان کے روح و دل کے اندر جذب ہو جائے۔ اس لیے قرآن سب سے پہلے عقائد کو پیش کرتا ہے جو انسانی روح کی اہم ترین ضرورت ہیں اور پھر اعمال کو۔أمنوا و عملوا لصالحات کی ترتیب قرآن کے اکثر مقامات پر پائی جاتی ہے ۔ شرک جیسی ہولناک گمراہی کے ساتھ ساتھ قریش کا عقیدہ آخرت بھی انتہائی گمراہ کن تھا۔ ان کا خیال تھا اگر اللہ تعالیٰ نے بالفرض ان کے اعمال کے بارے میں جواب دہی طلب کی تو ان کے بنائے ہوئے شریک سزا سے بچا لیں گے۔انہی باطل تصورات کی بیخ کنی کے لئے سب سے پہلے بنیادی عقائد یعنی عقیدہ توحید وآخرت پر زور دیا گیا پھر احکامات نازل ہوئے۔ قرآن کریم کی تدریجی دعوت کا اندازہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔ ‘‘سب سے پہلے جنت و جہنم کی آیات نازل ہوئیں جب لوگ اسلام میں داخل ہوئے توحلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے۔ اگر چھوٹتے ہی یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں۔ اور اگر حکم ہوتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے کہ ہم سے زنا ترک نہیں ہو سکتا’’۔
اسی طریقے کی ہدایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو کی۔
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمعاذ بن جہل حین بعثہ الی الیمن انک ستاتی قوما من اھل الکتاب فاذا جنتم فادعھم الی ان یشھدوا ان لا الہٰ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ فانھم اطاعوا لک بذالک فاخبر ھم ان اللہ قد فرض علیکم خمس صلوات فی کل یوم ولیلتہ فانھم اطاعوا لک بذلک فاخبر ھم ان اللہ قد فرض علیکم صدقتہ توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم اطاعوا لک بذالک فایاک وکرائم اموالھم واتق دعوالمظلوم فانہ لیس بینھم بین اللہ حجاب۔
‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب روانہ کرتے وقت ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں اس لیے وہاں جانے کے بعد سب سے پہلے انہیں لاالٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی دعوت دینا جب وہ تمہاری اس بات کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں جب وہ اس کے بھی پابند ہو جائیں تو انہیں فرضیت زکوٰۃ کی دعوت دینا کہ اللہ نے تمہارے اوپر زکوٰۃ فرض کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی غریبوں پر لوٹائی جائے گی۔ جب وہ تمہاری اس بات کو بھی قبول کر لیں تو ان کے عمدہ مال لینے سے بچنا کیونکہ مظلوموں کی آہ اللہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتی ہے’’۔
۴۔تصریف آیات
    قرآن مجید کی دعوت کا ایک انداز تصریف آیات ہے یعنی ایک ہی بات کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرنا۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک قاری کو ایک بات ایک پہلو سے سمجھ آ جائے لیکن دوسرے کے لیے وہی پہلو کارگر نہ ہو چنانچہ قرآن ایک ہی بات کو سمجھانے کے لیے مختلف اندازاختیا ر کرتا ہے اور یہ چیز انسانوں کی اختلاف طبائع کے پیش نظر دعوتی نقطہ نظر سے بہت ہی موزوں ہے ۔ قرآن کہتا ہیکَذٰلِکَ نْصَرِّفْ الاٰیٰتِ لِقَومٍ یَشکْرْون (۷:۵۸)‘‘اسی طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں’’۔تصریف آیات میں بھی قرآن ایک ہی قسم کی باتوں کا اعادہ ایک ہی عبارت اور ایک ہی ڈھنگ پر نہیں کرتا بلکہ ہر بار نئے الفاظ اور نئے اسلوب میں پیش کرتا ہے تاکہ نہایت خوشگوار طریقے سے دلوں میں اتر جائیں۔
۵۔دعوت کی عظمت 
    قرآن ان تمام طریقوں سے بھی احتراز کرتا ہے جن سے دعوت کی شان کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ بھاگنے والوں کے پیچھے پڑنا، نفرت کرنے والوں کا پیچھا کرنا یا گھمنڈ کرنے والوں کے سامنے تواضع کرنا اسی حد تک جائز قرار دیتا ہے کہ دعوت کی عظمت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سورہ عبس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں کے ساتھ اسی طرح کی نیاز مندیوں سے روکا گیا ہے اور داعیانِ حق کو تعلیم دی گئی ہے کہ جو لوگ دعوت سے متنفر اور بے نیاز ہوں ان کو پکارنے اور اپنانے کی خواہش اتنی غالب نہ ہونی چاہیے کہ اس انہماک میں ان لوگوں کی حق تلفی ہونے لگے جو دعوت قبول کر کے تربیت کے لیے منتظر اور محتاج ہوں۔
۶۔نفسیات انسانی کا لحاظ
نفسیاتی نقطہ نظر سے سب سے اہم چیز جس کا قرآن خاص لحاظ رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مخاطب کے اندر حمیت جاہلیت نہ ابھرنے پائے۔ ہر قوم اپنے معتقدات و روایات کے ساتھ وابستگی رکھتی ہے۔ اگر یہ وابستگی باطل ہے تو قرآن اس کی اصلاح کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے یہ غلط وابستگی قائم ہے۔ ایسا ہر گز نہ کیا جائے کہ اس کی غلط وابستگی کے فکری اسباب کی اصلاح کے بجائے خود اس پر براہِ راست حملہ کر دیا جائے کیونکہ اس طرح کے براہ راست حملے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخاطب حمیت جاہلیت سے بے خود ہو کر دعوت کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا۔ اسی نکتہ کی طرف ان آیتوں میں اشارہ کیا گیا ہے:وَ لَا تَسْبّْوا الَّذِینَ یَدعْونَ مِن دْونِ اللہِ فَیَسْبّْواللہ عَدوًا بِغَیرِ عِلمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکْلِّ اْمۃٍَّ عَمَلَہْم (۶:۰۸ا)‘‘اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے بے خبرانہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نگاہوں میں اس کا عمل کْھبا رکھا ہے۔وَقْل لِّعِبَادِی یَقْولْوا الَّتِی ہِیَ اَحسَنْ اِنَّ الشَّیطٰنَ یَنزَغْ بَینَہْم اِنَّ الشَّیطٰنَ کَانَ لِلاِنسَانِ عَدْوًّا مّْبِینًا (۷ا: ۵۳) ‘‘اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہے۔ بے شک شیطان ان کے درمیان وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے، شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن تو ہے ہی۔’’
۷۔مناسب وقت کا لحاظ
    داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت مناسب موقع پر پیش کرے ایسا نہ ہو کہ وقت کا غلط انتخاب اس کی دعوت کو غیر موثر کر دے ۔قرآن کا اسلوب دعوت یہی ہے کہ جب مخاطب اعتراض اور نکتہ چینی پر مستعد ہوا س وقت دعوت دینے سے احتراز کیا جائے اور کسی ایسے موقع کا انتظار کیا جائے جب کہ مخاطب خالی الذہن یا کم از کم اعتراض و نکتہ چینی کے جذبے سے عاری ہو۔
 وَ اِذَا رَاَیتَ الَّذِینَ یَخْوضْونَ فِی اٰیٰتِنَا فَاَعرِض عَنہْم حَتّٰی یَخْوضْوا فِی حَدِیثٍ غَیرِہ ط وَاِمَّا یْنسِیَنَّکَ الشَّیطٰنْ فَلَا تَقعْد بَعدَ الذِّکرٰی مَعَ القَومِ الظّٰلِمِین (۶: ۶۸)‘‘اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں مین میکھ نکالتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں۔ اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ان ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔’’
۸۔بدی کا مقابلہ نیکی سے
    قرآن کا ایک نمایاں اسلوب دعوت یہ ہے کہ وہ بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے کرتا ہے:وَ لَا تَستَوِی الحَسَنۃَْ وَ لَا السَّیِّئۃَْ ادفَع بِالَّتِی ہِیَ اَحسَنْ فَاِذَا الَّذِی بَینَکَ وَبَینَہْ عَدَاوَۃ کَاَنَّہْ وَلِیّ حَمِیم (ا۴:۴ ۳)‘‘اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہی، جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔’’
    اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی رقم طراز ہیں۔ ‘‘اس آیت میں دو باتیں بتائی گئی ہیں پہلی بات یہ کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ یعنی بظاہر مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائیں لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے مسلسل کام کرتی چلی جائے تو آخر کار وہ غالب آکر رہتی ہے۔ کیونکہ اول تو نیکی بجائے خود ایک طاقت ہے جو دلوں کو مسخّر کرتی ہے اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو۔ یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے اور تم اس کو معاف کردو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے بْرا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے’’۔