اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بہت سے اصولی احکام مشترک ہیں اور کچھ بنیادی عقاید و احکام میں شدید اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہر دو فریق کے ہاں ایک دوسرے کے با رے میں بہت سی بدگمانیاں بھی موجود ہیں، ایک دوسرے کی تکفیر کے اقوال بھی ملتے ہیں اور تکفیر پر خاموشی اور احتیاط کی روش بھی پائی جاتی ہیں، اگر کوئی تکفیر کا قائل نہ بھی ہو تو ایک دوسرے کو گمراہ ضرور سمجھتا ہے اور کہیں اشارے کنائے میں ایک دوسرے کو منافق باور کرایا جاتا ہے۔
جن بنیادی عقاید میں اشتراک پایا جاتا ہے، ان میں توحید، رسالت،ختم نبوت، آخرت، کتب، فرشتوں اور تقدیر پر ایمان شامل ہے۔اس طرح پانچ نمازوں، صومِ رمضان ، حج و زکوۃ کی فرضیت، اکل و شرب میں حلال و حرام کے اکثر احکام مشترک ہیں۔قرآن، حدیث، اجماع و قیاس ا گرچہ دونوں کے ہاں مصادر شریعت مانے جاتے ہیں۔ لیکن اخذِ حدیث اور اجماع کے اصول اور تصورات میں کافی فرق ہے۔اہل سنت کے ہاں حضورؐ کی حدیث کی روایت اہل بیت سمیت ہر صحابی رسولؐ سے قبول کی جاتی ہے، جب کہ اہل تشیع اخذ روایت میں اہل بیت کے علاوہ معدودے چند صحابہ تک محدود ہیں۔ اہل تشیع میں کچھ وہ ہیں جنھوں نے حضرت علیؓ کو صرف حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی، کچھ وہ ہیں جوا بو بکرؓ و عمرؓ پر بھی فضیلت دیتے ہیں، کچھ نے خلافت بلا فصل کا قول بھی اختیار کیا۔ بعض نے چار صحابہ کے سوا تمام صحابہ کے مرتد ہونے کا عقیدہ رکھا۔ بعض نے چودہ، پندرہ صحابہ کو صحیح قرار دیا باقی کو منافق سمجھا، بعض نے اس بار ے میں توسّع اختیار کیا۔ کچھ نے تحریف قرآن کا عقیدہ بھی اپنایا۔
امام کی معصومیت کا عقیدہ اثناعشری (بارہ امامی) شیعہ کے اصول مذہب میں سے ہے۔ اہل سنت والجماعت کے ہاں علم و تقویٰ کی حامل کسی بھی مجتہد شخصیت کو امام کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں امامت کسی شرعی منصب کا نام نہیں اور نہ ان کے ہاں امام کے قول و عمل کے معصوم ہونے کا کوئی تصور ہے جبکہ اہل تشیّع کے ہاں امامت ایک وہبی منصب ہے۔ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء کا شمار اہل تشیّع کے نہایت معتبر علما میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شیعی نقطہ نظر سے امامت، نبوت کی طرح منصب الٰہی ہے، جس طرح اللہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے اسی طرح امامت کے معاملے میں بھی کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ خود اللہ نبی کو حکم دیتا ہے کہ ‘‘شخص منتخب’’ کی امامت کا اعلان کر دے۔ نبی اور امام میں فرق صرف یہ ہے کہ نبی پر وحی نازل ہوتی ہے اور امام خصوصی توفیق کے ساتھ رسول سے احکام حاصل کرتا ہے۔ پس رسول، خدا کا پیغام رساں اور امام، رسول کا پیام بر۔(۱)
اہل سنت کے نزدیک شیعہ کا یہ عقیدہ شرک فی النبوۃ ہے۔اس اعتبار سے ان کے نزدیک یہ ایک بہت بنیادی بگاڑ،بدعت اور گمراہی ہے۔ سنّی اہل علم کے نزدیک نبیؐ کے بعد کسی کی بات منصوص نہیں ہے۔ شیعہ عالم مولانا سید افتخارحسین نجفی کے مطابق اثنا عشریہ، امام حسینؓ کی اولاد ہی سے نو شخصیات کے منصوص من اللہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ حضرت محمدؐ، علیؓ، فاطمہؓ اور حسن و حسینؓ کے علاوہ نو شخصیات کو بھی معصوم رکھتے ہیں، جب کہ زیدی شیعہ امام حسینؓ کے بعد کسی کے منصوص من اللہ ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے۔ البتہ حضور ؐکے ساتھ حضرت علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ و حسینؓ کو معصوم مانتے ہیں۔ (۲)
اہل سنت سے اس بنیادی اختلاف کے باوجود شیعہ عالم شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء کے مطابق صرف امامت کا اقرار نہ کرنے سے کوئی فرد اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں تمام مسلمان یکساں ہیں، ہاں آخرت میں ضرور درجوں کا تفاوت ہو گا، عمل اور نیت کے اعتبار سے مقامات ملیں گے۔ (۳)
اہل سنّت اور اہل تشیّع کے علم حدیث کا ایک بنیادی فر ق اصطلاحات کا الگ الگ تصور ہے۔ ان علیحدہ مفاہیم کی وجہ سے فریقین کا علم حدیث ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔اہل سنّت کے ہاں حدیث و سنت سے مراد حضورؐ کا قول، عمل اور تقریر (صحابہ کے قول و فعل پر حضورؐ کی خاموشی) ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث و سنت کا اطلاق آنحضورؐ کے اقوال و افعال اور تقریرات سمیت ائمہ معصومین کے اقوال، افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کے اقوال بھی شریعت کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت کا مصداق ہیں۔ معروف شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں:‘‘شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبیؐ کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں، اس لیے فقہائے امامیہ نے سنت کی اصطلاح میں توسّع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال، افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے’’۔ (۴)
معروف شیعہ عالم حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
‘‘علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپؐ یامعصوم کا قول، فعل اور تقریر ہے۔’’ (۵)
سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی اختلافی نکتہ ہے۔ اس نکتے پر دونوں حدیثی ذخیرے ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح صحابہ کرامؓ کی عدالت اور ان سے مروی روایات کا کیا حکم ہے؟ اہل السنّہ کے ہاں تمام صحابہؓ کی روایات قابل قبول ہیں۔ الصحابۃ کُلّھم عَدُول کے اصول کی رُو سے صحابہ میں اگرچہ درجات میں فرق ہے لیکن ہر صحابی کو عادل سمجھتے ہوئے اس سے روایت قبول کی جائے گی۔ اہل سنّت کے ہاں صحابہ کے بعد کے راویوں پر جرح (جانچ پڑتال) ہوگی،صحابہؓ پر نہیں۔ اس کے برخلاف اہل تشیّع صحابہ کے ساتھ بھی دوسرے راویوں جیسا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل، فاسق، منافق، بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں۔ اس لیے اہل تشیع صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں اور عادل صحابہ وہ ہیں جو حضرت علیؓ کے ساتھ کھڑے رہے۔ چنانچہ معروف شیعہ عالم احمد حسین یعقوب لکھتے ہیں:کُلُ الّذین وقفوا مع علیؓ و والوہ، ھم صحابۃ عدول۔ (۶)
معروف شیعہ محدث شیخ جعفر سبحانی کے مطابق وہ صحابہ جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علیؓ کے ساتھی رہے، ان کی تعداد اڑھائی سو ہے۔ (۷)
کتب تاریخ کے مطابق صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زاید تھی۔ ابن حجر کی کتاب الاصابہ میں 12446 صحابہ کے حالات درج ہیں۔ ان میں سے امام ابن کثیر کے مطابق راویانِ حدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار (۸) جبکہ امام ابن حزم کی کتاب ‘‘اسماء الصحابہ’’ کے مطابق ۹۹۹صحابہ سے روایات مروی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم پندرہ سوصحابہ ایسے ہیں جن سے اہل سنت کے ہاں حدیثیں مروی ہیں۔ گویا کہ اہل تشیع رواۃ صحابہ میں سے صرف پندرہ بیس فی صد سے روایات لیتے ہیں۔ اخذ حدیث کے اس فرق کے باعث اہل سنت و اہل تشیع کے اخذ احکام کے حوالے سے بھی بڑا فرق واقع ہوا ہے۔
(۲)
حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصاص عثمانؓ کا مطالبہ کرنے کے باعث مسلمان سیاسی لحاظ سے دو گروہوں شیعان علیؓ اور شیعانِ معاویہؓ میں تقسیم ہو گئے تھے۔ حضرت علیؓ کا تعلق بنو ہاشم سے تھا جب کہ حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دورِ جاہلیت میں جاری ان دونوں خاندانوں کی چپقلش جو فروغ اسلام کے باعث دب گئی تھی، اب پھر ابھر آئی۔ واقعہ کربلا نے اس خلیج کو اور گہرا کر دیا لیکن یہ مسئلہ اب تک سیاسی تھا۔ بعد ازاں سیاسی گروہوں نے اسے مذہبی رنگ یوں دینا شروع کیا کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے حضرت علیؓ اور حسینؓ پر برسرِمنبر تبرا بازی اور سب و شتم (برا بھلا کہنا) کو خطبہ میں شامل کر لیا، جسے عام مسلمانوں نے کبھی اچھا نہیں سمجھا۔ اس کے ردِّ عمل میں حضرت علیؓ کے حامیوں نے اہل بیت کی عقیدت و محبت میں صحابہ پر سبّ و شتم کرنا اور انھیں غاصب قرار دیناضروری سمجھا۔اور اہل سنت کو آج بھی اہل تشیّع سے اس کی شکایت ہے۔اہل سنت والجماعت کی عظیم اکثریت نے اہل بیت پر سبّ و شتم کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ جمعہ میں حضرت علیؓ پر سب و شتم کی اموی بدعت کو ختم کیا۔امام ابو حنیفہ نے عباسی مظالم کے خلاف اہل بیت کے نفس زکیہ کے خروج میں مالی تعاون کیا۔امت کی اکثریت اہل بیت رسول علی وحسین رضی اللہ عنہم سمیت تمام صحابہؓ کی تعظیم و احترام کی روش پر قائم تھی۔ جب بنو امیہ کے خلاف عباسی تحریک اٹھی تو اس کا ساتھ دینے والوں میں علوی نسل کے علاوہ عام مسلمانوں کی اکثریت بھی شامل تھی لیکن جب عباسی خلفاء نے اپنی خاندانی حکومت کے استحکام کے لیے علوی خاندان کو پیچھے دھکیلنا چاہا تو انھوں نے حضرت علیؓ اور ان کی نسل سے محبت کرنے والے ہر فرد کو مطعون کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ رافضی (شیعہ)ہے۔ رافضی دراصل ایک اصطلاح تھی جس سے مراد وہ آدمی ہوتا تھا جو خلفائے راشدین میں سے حضرت علیؓ کے سوا باقی خلفاء کو غاصب سمجھتا اور صحابہ سے بغض رکھتا ہو جب کہ ناصبی اس کے مقابلے میں اسے کہتے ہیں جو صحابہ سے محبت و عقیدت کے غلو میں اہل بیت بالخصوص حضرت حسینؓ سے بغض کا اظہار کرے۔ امت اسلامیہ نے ان دونوں انتہاؤں کو غلط تصور کیا اور یہ خیال کیا ہے کہ اہل بیت رسول سے محبت کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ صحابہ کی عظمت سے انکار کیا جائے اور صحابہ سے محبت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ انسان کا دل اہل بیت رسول کی عقیدت و محبت سے خالی ہو۔ یہ سب امت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ لیکن متعصب اور تنگ نظر لوگوں کا ہمیشہ وطیرہ یہی رہا ہے کہ انھوں نے ان دونوں سے محبت کرنے والوں کو کبھی رافضی کی گالی سے نوازا تو کبھی ناصبی ہونے کا طعنہ دیا۔
امام ابو حنیفہؒ اور شافعیؒ
امام ابو حنیفہؒ خود کو امام جعفر صادقؒ کا شاگرد کہتے تھے جبکہ امام مالک کا امام جعفر صادقؒ کے ہاں آنا جانا تھا اور امام جعفر صادق ؒ بھی ان سے پیار کرتے تھے۔ امام شافعی چونکہ اہلیت سے بہت محبت کرتے تھے حتی کہ ایک مرتبہ ایک علوی زادہ بچہ ان کے درس کے دوران کھیلتے ہوئے کئی بار ان کی مجلس کے سامنے سے گزرا تو وہ اس کے احترام میں بار بار کھڑے ہوتے رہے۔ ان کی اس عقیدت مندی کے باعث کچھ تنگ نظر لوگوں نے انہیں رافضی (شیعہ) کہنا شروع کر دیا تو امام شافعی نے کہاکہ اگر آل محمد کی محبت رفض ہے تو جن و بشر کو چاہیے کہ میرے رافضی ہونے کی گواہی دیں۔
لو کان حُبّ آل محمدٍ رفضاً
فلیشھد الثقلانِ اَنّی رافض
امام شافعی اکثر کہتے تھے: ‘‘میں حضرت ابوبکر کے ساتھ ساتھ حضرت علی کے فضل کا بھی معترف ہوں۔’’
اہل بیت سے محبت کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکرؓ سے بھی عقیدت کے اظہار کے باعث حب اہل بیت کے تنگ نظر دعوے داروں نے آپ کو ناصبی (اہل بیت کا دشمن) کہہ کر بدنام کرنا شروع کیا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اہل تشیّع اور سلطان زنگیؒ و ایوبیؒ
پانچویں صدی ہجری کے آخر تک بغداد کی عباسی خلافت عربی و عجمی عصبیت اور ترکوں کی سرکشی کے باعث کمزور پڑ چکی تھی، شیعہ سنّی فسادات نے سلطنت بغداد کو مزید خلفشار کا شکار کر دیا، خلیفہ بغداد کی کمزوری کے باعث مصر کے فاطمی خاندان نے قاہرہ میں الگ خلافت قائم کر لی تھی۔ اس وقت سے فاطمی اور عباسی خلافت آپس میں برسرپیکار تھیں۔ اس سیاسی کشاکش نے شیعہ سنی اختلاف کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔آہستہ آہستہ عباسی خلافت کی ابتری کا یہ عالم ہو گیا کہ بغداد کے نواحی علاقوں کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم ہو گئیں جو برائے نام خلافت بغداد سے وابستہ تھیں۔ ان حکومتوں کے سلاطین ایک دوسرے کے علاقوں کو ہتھیانے کی فکر میں رہتے تھے۔ مصر کی فاطمی خلافت نے شام میں سلجوقی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے عیسائیوں کو شام پرحملہ کرنے کی دعوت دی اور در پردہ سلجوقی مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کواپنی حمایت کا یقین دلایا۔
ملت اسلامیہ کی اس تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالآخر 15جولائی 1099ء کو صلیبی افواج بیت المقدس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ عیسائی افواج نے ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا کہ ستر ہزار شہری بچے بوڑھے، جوان اور عورتیں بے دردی سے ذبح کیے گئے۔ مسجد اقصیٰ میں ہر طرف خون ہی خون تھا۔چند سال کے اندر اندر صلیبی اقتدار کے سیلاب نے عالم اسلام کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مسلمان امرا اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صلیبیوں کی مدد لے رہے تھے اور کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف صلیبیوں کی مدد کر رہے تھے۔ مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی۔ بغداد کی عباسی خلافت اور مصر کے شیعہ فاطمی حکمران ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کا مصداق بنے ہوئے تھے۔ ان پُر آشوب حالات میں شام میں پہلے سلطان عماد الدین زنگی (م:1146ء)اور پھر نور الدین زنگی مسلمان امراء کو متحد کرنے اور صلیبی رشتہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترا۔مصر کے فاطمی خلیفہ عاضد کو ایک طرف اپنے وزیر اعظم سے خدشات لاحق تھے تو دوسری طرف اسے صلیبی افواج کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کئی درباری امرا خفیہ طور پر صلیبیوں ں سے راہ و رسم بھی رکھتے تھے۔ ان حالات میں خلیفہ عاضد نے سلطان نور الدین زنگیؒ سے صلیبیوں کے خلاف مدد طلب کی۔سلطان زنگی نے تمام تر سابقہ شیعہ سنّی تلخیوں اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فاطمی خلافت کو عیسائی یلغار سے بچانے کے لیے اپنے نوجوان سالار صلاح الدین ایوبی کو فوجی کمک کے ساتھ مصر بھیجا، جس نے اپنے حسن تدبیر سے نہ صرف مصر پر صلیبی حملے کو پسپا کر دیا بلکہ وزیر اعظم مصر کو بھی بے اثر کر دیا اور اپنے حسن انتظام سے رعایا کو امن و سکون مہیا کر دیا۔
سلطان زنگی کی خواہش تھی کہ مصر میں بھی خلافت بغداد کا خطبہ پڑھا جائے تاکہ دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں وحدت امت کا منظر پھر سے اجاگر ہو۔ چنانچہ ایک مناسب وقت پر 567ھ کے ایک جمعہ میں صلاح الدین ایوبی نے خلیفہ بغداد کا خطبہ جاری کر دیا اور مصری عوام اور امرا نے اس پر کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس طرح دو سو سالہ فاطمی خلافت کے خاتمے کے بعد ملت اسلامیہ پھر سے ایک ہی خلافت کے ماتحت ہو گئی۔ مخالف مسلک کی حکومت سے سلطان نور الدین زنگی کے فراخدلانہ تعاون اور صلاح الدین ایوبی کے حسن تدبیر کے باعث ملت اسلامیہ آپس کی خونریزی اور دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو گئی۔
ابن تیمیہؒ اور اہل تشیّع
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو یہود و نصاریٰ کو رافضیوں (شیعہ وغیرہ) سے اچھا سمجھتا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا:
‘‘الحمدللہ! ہر وہ شخص جو محمد کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ہر اس شخص سے افضل او ربہتر ہے جو آپؐ پر ایمان نہیں رکھتا۔ اگرچہ اس مومن میں کسی قسم کی بدعت موجود ہو۔ چاہے وہ بدعت خوارج، روافض، مرجیہ قدریہ یا کسی اور قسم کی ہو، کیونکہ یہودی اور عیسائی کافر ہیں۔ اور ان کا کفر اسلام میں اظہر من الشمس ہے۔ چنانچہ اگر بدعتی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی بدعت کی وجہ سے رسول اللہؐ کا متبع ہے، آپؐ کامخالف نہیں ہے، تو وہ کافر نہیں ہے اور اگر اس کا کافر ہونا فرض بھی کر لیا لیا جائے تو اس کا کفر اس کافر جیسا نہیں ہو گا جو رسول اللہؐ کو جھٹلاتا ہے اور آپؐ پر ایمان نہیں رکھتا۔’’ (۹)
اہل تشیّع اور شاہ ولی اللہؒ
شیخ محمد اکرام اپنی کتاب ‘‘رُود کوثر’’ میں لکھتے ہیں:‘‘شیعہ سُنّی مسئلے پر اہلِ سنت کے نقطہ نظر کی وضاحت اور تائید کے لیے شاہ ولی اللہ نے بہت کچھ لکھا لیکن اس معاملے میں بھی ان کی رائے اس طرح انتہاپسندی سے دُور تھی کہ جب ایک انتہاپسند سُنّی نے آپ سے پوچھا کہ کیا شیعوں کو کافر سمجھا جائے تو آپ نے یہ نہ مانا اور کہا کہ اس معاملے میں حنفی علماء میں اختلاف ہے۔وہ آدمی برہم ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہ تو شیعہ ہے۔ یہ روایت خود شاہ عبدالعزیز کی ہے۔’’
مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی اس مسئلے پر شاہ ولی اللہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘ہندوستان میں پہلے تو رانی سُنّی، پھر ایرانی شیعہ اور آخر میں متشدد سُنّی روہیلوں کی شکل میں داخل ہوئے۔ ان تینوں عناصر کے امتزاج سے تسنّن و تشیّع کے سلسلے میں بھی بڑا کام کیا۔ بڑی محنت سے ہزارہا صفحات کوپڑھ کر آپ نے چاروں خلفا کے واقعی حالات ‘‘ازالۃ الخفاء’’ میں ایسے دلنشین طریقے سے مرتب فرمائے کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اگر شیعوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے تو اسی کے ساتھ ان غالی سُنّیوں کی شدت و تیزی میں بھی کمی پیدا ہوجاتی ہے جو محض اس لیے کہ شاہ ولی اللہ نے شیعوں کی تکفیر میں فقہا حنفیہ کے اختلاف کو کیوں بیان کیا ہے، ان پر بھی شیعیت کا فتویٰ صادر کردیتے ہیں اور اس کے لیے بجائے مناظرے اور مجادلے کے شاہ صاحب نے ایک ایسی راہ دریافت فرمائی جس سے بہت سے فتنوں کا سدِّباب ہوگیا۔’’ (۱۱)
اہل تشیّع اور شاہ عبدالعزیزؒ
شیعہ اعتراضات کی تردید میں شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیزؒ نے ساڑھے چھے سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ‘‘تحفہ اثنا عشریہ’’ لکھی۔ شیعہ مذہب و خیالات کے بیان میں صرف مستند اور معتبر شیعہ کتب پر انحصار کیا اور تاریخ و تفسیر میں صرف انھی چیزوں کو چُنا جن پر شیعہ سُنّی دونوں فریق متفق ہیں۔ کتاب کی زبان اور طرزِ بیان سنجیدہ اور مہذبانہ ہے۔ یہ کتاب علمی لحاظ سے اس پائے کی تھی کہ بہت سے شیعہ علماء نے اس کے رد میں بہت کچھ لکھا لیکن جو لوگ حدِاعتدال سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں ان کی تسلی اور تسکین محض اتنی بات سے نہیں ہوتی کہ حق کو پورے عدل سے بیان کر دیا جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف کے کسی ایک اچھے وصف کو بھی تسلیم نہ کیا جائے حتیٰ کہ حضرت علیؓ کے مناقب کا بیان بھی بعض سنیوں کو پسند نہیں آتا۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:‘‘شاہ عبدالعزیز نے دوسری باتوں کی طرح اس (شیعہ سُنّی) معاملے میں بھی اپنے والد کی پیروی کی تھی۔ ان کاایک پٹھان شاگرد تھا، حافظ آفتاب نام، ہمیشہ حاضر درس ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت علیؓ کا ذکر ہورہا تھا اور شاہ صاحب نے ان کے بہ جان و دل فضائل و مناقب بیان کیے تو وہ اتنا بگڑا کہ شاہ صاحب کو شیعہ سمجھا اور ان کے درس میں شریک ہونا بند کر دیا’’۔(۱۲)
مولانا داؤد غزنوی اور شیعہ عالم
مشہور اہل حدیث عالم مولانا داؤد غزنوی کے دیرینہ ساتھی مولانا اسحاق بھٹی مولانا غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘‘مولانا عبدالعظیم انصاری (سابق ناظم دفتر جمعیت اہل حدیث پاکستان) کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ وہ مولانا (غزنوی)کے ساتھ تانگے پر بیٹھے کہیں جا رہے تھے۔ مولانا نے اچانک تانگے والے سے کہنا شروع کیا ‘‘تانگہ روکو، تانگہ روکو’’ تانگہ رکا تو مولانا جلدی سے نیچے اترے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے ایک طرف کو بڑھے، دیکھا تو اُدھر شیعہ عالم مفتی کفایت حسین تانگے سے اتر کر اسی طرح ہاتھ پھیلائے مولانا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دونوں بزرگوں نے مصافحہ کیا اور کچھ دیر آپس میں کھڑے باتیں کرتے رہے۔’’ (۱۳)
اہل حدیث عالم اور شیعہ ذاکر
ماضی میں شیعہ سنّی کے درمیان کس قدر رواداری کی روایت موجود تھی، آج ہم اسے ترس گئے ہیں۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی جو حکومتی ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے ریسرچ سکالر تھے اور اہل حدیث حضرات کے ہاں ان کا نمایاں مقام ہے، لکھتے ہیں:
‘‘وہ زمانہ موجودہ زمانے سے مختلف تھا۔ لوگ تحمل سے ایک دوسرے کی بات سنتے اور برداشت کرتے تھے۔ اگر کسی پر تنقید کی جاتی اور وہ تنقید کاجواب دینا چاہتا تو اسے جواب دینے اور اصل حقیقت بیان کرنے کا کھلے دل سے موقع دیا جاتا تھا۔ وہ کلاشنکوفوں، موزروں اور خنجروں کازمانہ نہ تھا اور اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو مارنے، دھاڑنے اور قتل کرنے والوں کا دور نہ تھا۔ وہ عزت و آبرو کا دور تھا، احترام و توقیر کا دور تھا... اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں:
فیصل آباد میں مولانا محمد صدیق امین پور بازار میں جامع مسجد اہل حدیث کے قریب سکونت پذیر تھے۔ ایک دفعہ مسجد سے کچھ فاصلے پر رات کے وقت شیعہ حضرات کا جلسہ ہو رہا تھا۔ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مقرر کی آواز مولانا کے گھر پہنچ رہی تھی۔ اور مولانا تقریرسُن رہے تھے۔ مقرر نے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر تنقید کی۔ مولانا اسی وقت گھر سے نکلے اور جلسہ گاہ میں سٹیج پر مقرر کے ساتھ مائیک کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر بڑے متحیّر ہوئے۔ مقرر سے فرمایا: صدیقؓ کا دفاع صدیق کرنا چاہتا ہے۔ شیعہ مقرر کا دل گردہ ملاحظہ ہو کہ وہ مائیک چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے اور مولانا صدیق کو تقریر کا موقع دیا۔ شیعہ سامعین نے نہایت بُردباری کا ثبوت بہم پہنچایا اور مولانا صدیق نے اپنی تقریر میں حضرت صدیقؓ کا دفاع کیا۔یہ تھا وہ زمانہ... نہ کسی نے خنجر چلایا، نہ بندوق اٹھائی، نہ چھرا ہاتھ میں پکڑا۔ پھر تقریر ختم کر کے وہ وہیں بیٹھ گئے۔ شیعہ مقرر کی تقریر سنی اور جلسہ ختم ہونے کے بعد گھر گئے۔’’ (۱۴ )
علامہ عارف الحسینی اور سنّی علماء
علامہ عارف الحسینی کے سوانح نگار سید نثار ترمذی لکھتے ہیں:
‘‘ایک مرتبہ عیدالفطر پر اختلاف ہو گیا۔ شہید عارف الحسینی نے رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلہ کے خلاف عید منانے کا اعلان کیا۔ چونکہ اہل سنت کی عید اگلے دن تھی، اس لیے آپ رات کو اہل سنت کی مساجد و مدارس میں علمائے کرام سے عید ملنے کے لیے چلے گئے۔ اور ساتھ ہی مٹھائی بھی لے کر گئے۔ یوں رات گئے تک اہل سنت کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ اس کا ایک خوشگوار ردِّعمل ہوا کہ اگلی صبح اہل سنت علما مٹھائی لیے علامہ عار ف الحسینی سے عید ملنے چلے آئے۔ گو کہ بظاہر اختلاف کا مقام تھا، مگر کس قدر خوبصورتی سے وحدت، میل جول اور رابطہ کا سلسلہ نکل آیا۔’’ (۱۵)
سید مودودی اور انقلابِ ایران
مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی کے دستِ راست جناب مولانا خلیل احمد حامدی لکھتے ہیں:‘‘۱۹۶۳ء کے حج میں مولانا مودودی کے مشورے سے خاکسار نے ترجمان القرآن (ماہ ستمبر ۱۹۶۳ء) میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا: ‘‘ایران میں دین اور لادینیت کی کشمکش’’۔ اس مضمو ن کی اشاعت پر سفارت خانہ ایران نے سخت احتجاج کیا۔ اور ایک جوابی مضمون محمد علی زرنگار کے قلم سے ترجمان القرآن میں چھاپنے کے لیے بھیجا جو چھاپ دیا گیا۔ مگر اس کے باوجودحکومتِ پاکستان نے ترجمان القرآن کو چھ ماہ کے لیے بند کر دیا۔ بلکہ جنوری ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اور مجلس شوریٰ کے تمام ارکان اور خود مولانا مودودی نظر بند کر دیئے گئے۔ جماعت پر جو الزامات لگائے گئے، ان میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ اس نے ایسے مضامین چھاپے ہیں جن سے پاکستان اور ایران کے دوستانہ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا مودودی کا یہ موقف اور ترجمان القرآن کی یہ خدمت پورے پاکستان میں واحد آواز تھی جو ایران کے مظلومین کے حق میں بلند ہوئی۔ خود پاکستان کی شیعہ قیادت بھی اس زمانے میں ایران کی لادینی حکومت کے خلاف کوئی حرف زبان پر نہ لا رہی تھی۔’’ (۱۶)
مولانا خلیل حامدی کی اس بات کی تائید علامہ عارف الحسینی کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جو انہوں نے اہل تشیع کو مخاطب کرتے ہوئے کہے:‘‘1963ء میں ایران کے شہر تہران اور قم میں جو شاہ کے خلاف اور امام خمینی کے حق میں مظاہرے ہوئے اور جن پر شاہ نے اس قدر بمباری اور فائرنگ کروائی کہ پندرہ ہزار افراد شہید ہو گئے لیکن یہاں پر آپ بتا سکتے ہیں کہ (پاکستان میں) کسی امام بارگاہ یا کسی مسجد سے کسی عالم دین نے صدائے احتجاج بلند کی ہو۔کسی عالم دین نے شاہ کے خلاف نہ ٹیلی گرام دیا نہ یہاں لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا۔ بلکہ اس کے برعکس ستم بالائے ستم یہ کہ اسی شیعہ پلیٹ فارم سے بعض افراد نے جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے تھے، اس وقت شاہ کے حق میں نعرہ بلند کیا اور امام خمینی نیز دوسرے علما اور عوام جو اسلام کے لیے کام کر رہے تھے، ان کے خلاف مقالے لکھے۔ اور شاہ کے لیے مجالس میں باقاعدہ دعائیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں شا ہ کی تعریف کی گئی۔ ان حالا ت میں بھی جب پندرہ ہزار شیعہ قتل ہوئے ہم اور آپ نے مجلس عزا برپا کی نہ کوئی جلوس نکالا اور نہ کوئی ٹیلی گرام انہیں دیا۔ حالانکہ اس وقت بھی مولانا مودودی صاحب نے شاہ کے خلاف مقالہ لکھا جس کے نتیجہ میں ان کا ماہنامہ ترجمان القرآن بھی بند کر دیا گیا۔’’ (۱۷)
جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل مرحوم کے مطابق 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد ان کی قیادت نے ایرانی قیادت سے ملاقات میں اپنی تائید کا اظہار کیا تو ایرانی قیادت نے کہا کہ ایرانی بلوچستان ان کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وہاں کے قبائل ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ ایرانی بلوچستان کی ساری آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔میاں طفیل محمد کے بقول انھوں نے ایرانی بلوچستان میں اپنا ایک آٹھ رکنی وفد بلوچستان سے بھیجا جو مولانا عبدالمجید مینگل مرحوم، مولانا عبدالحمید مینگل، مولانا عبدالغفور اور دوسرے حضرات پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ پندرہ بیس دن وہاں رہے اور وہاں کے علمائے کرام سے بات کی اور انھیں سمجھایا۔ چنانچہ اس طرح ہماری کوششوں سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔(۱۸)
پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور اہل تشیع
پیر مہر علی شاہ کے سوانح نگار کے بقول قیام پاکستان سے قبل قادیانی فتنہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے تمام اسلامی فرقوں کے راہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ سنی اہل حدیث اہل قرآن کے علاوہ لاہور اور سیالکوٹ کے شیعہ مجتہدین نے بھی قادیانیت کے محاذ پرپیر صاحب گولڑہ کو اپنا سربراہ و نمائندہ بنانے کا اعلان کیا۔(۱۹)
دینی تحریکات
قیام پاکستان کے بعد جب آئین پاکستان کی بحث کو الجھانے کے لیے سیکولر پریس اور سیاسی نمائندوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ملک میں کس کا اسلام نافذ کریں سنی کا شیعہ کا، اہل حدیث کا؟ یا حنفی کا تو سنی اور شیعہ مکاتب فکر کے 32جید علماء نے 22متفقہ نکات پر ایک دستاویز حکومت کو پیش کی جس کی بنیاد پر قرار داد پاکستان پاس ہوئی جو ہر دور میں بننے والے آئین کا حصہ رہی ہے۔
1974ء میں ختم نبوت تحریک اور آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مسئلہ میں شیعہ سنی علما یکجان رہے ہیں۔ پندرہ بیس سال قبل جب ملک میں شیعہ سنی منافرت پھیلانے اور فرقہ واردیت کی آگ بھڑکانے کی کوشش ہوئی توملی یکجہتی کونسل کی صورت میں تمام شیعہ سنی اکابر علماء اکٹھے ہوئے۔
اصولی اختلاف اور حضرت علیؓ کا اسوہ
حضرت ابوبکرؓ،عمر و عثمانؓ کی نسبت اہل تشیع حضرت علیؓ کو خلافت کا اولین حق دار تصور کرتے ہیں لیکن اس اختلاف کا حل کیا ہے اور اہل السنت کے ساتھ اہل تشیع کے لیے قابل عمل رویّہ کیا ہے، اس بارے میں مولانا سید ریاض حسین نجفی کی بات قابل غور ہے:‘‘رسولؐ اللہ کی سیاسی جانشینی کے مسئلے پر اختلاف رائے کے اظہار کے باوجود حضرت علیؓ نے ماقبل کی حکومت (خلافت ابو بکر، عمر و عثمان)کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا بلکہ امت کے مفاد میں ان سے ہر طرح کا تعاون کیا اور درپیش معاملات میں اسلام کے اعلیٰ اہداف کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ لہٰذا ہم علی وجہ البصیرت سمجھتے ہیں کہ اس دور میں شیعان علیؓ کے لیے خود حضرت علیؓ کا اسوہ ہی نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے، اور شیعوں کو حضرت علیؓ کی پیروی میں ہمیشہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد اور امت اسلامیہ کا مفاد پیش نظر رکھنا چاہیے۔’’ (۲۰)
اس میں شک نہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان کچھ اصولی اختلافات بھی ہیں،اس لیے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اسلاف نے اصولی اختلاف کے ہوتے ہوئے باہمی طور پر کیا رویّہ اختیار کیا؟حضرت علیؓ چونکہ شیعہ و سنی دونوں مکاتیب فکر کے لیے قابل احترام ہیں، اس لیے ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ اصولی اختلاف میں ان کا کیا رویہ تھا کیونکہ شیعہ سنی اختلاف صرف فروعی اختلاف نہیں بلکہ بعض جہتوں سے اصولی اور بنیادی اختلاف بھی ہے۔ حضرت علیؓ سے جب بعض لوگوں نے خارجیوں کے بارے میں سوال کیا:‘‘کیا یہ خوارج کافر ہیں؟’’ خوارج وہ لوگ تھے جو جنگ ِ صفّین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اور اس جنگ میں حضرت علیؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ کے درمیان صلح کے لیے دونوں طرف سے ایک ایک حَکم (ثالث) مقرر ہوئے لیکن یہ تحکیم کامیاب نہ ہوئی تو حضرت علیؓ کے لشکر کا ایک بڑا حصہ حضرت علیؓ سے اس بنیاد پر الگ ہوگیا کہ حضرت علیؓ نے انسانوں کو حَکم مان کر کفر کیا ہے کیونکہ حَکم کی حیثیت صرف اللہ کو حاصل ہے: اِنِ الْحکم اِلَّا لِلّٰہِ (۲۱)
ان خارجیوں نے نہ صرف حضرت علیؓ بلکہ حضرت عثمانؓ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا اور حضرت علیؓ کے خلاف مسلح ہوکر بغاوت بھی کی۔ لوگ آپ سے ان کے بارے میں شرعی حکم پوچھ رہے تھے کہ کیا یہ کافر ہیں؟تو آپ نے جواب دیا: ‘‘کفر سے تو یہ لوگ بھاگے ہیں’’۔‘‘تو کیا یہ منافق ہیں؟’’
‘‘منافق تو اتنی عبادت گزاری نہیں کرتا جتنی یہ کرتے ہیں۔’’‘‘تو پھر یہ کون ہیں؟’’
‘‘کل یہ ہمارے بھائی تھے، آج ہمارے خلاف باغی ہیں’’۔‘‘ہم ان پر فتح پائیں گے تو ان کو غلام بنائیں؟’’۔‘‘نہیں!’’
‘‘ان سے چھینا ہوا مال، مالِ غنیمت ہوگا؟’’
‘‘بالکل نہیں’’۔‘‘کیوں؟’’‘‘اس لیے کہ ان پر باغی کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ مرتد اور کافر کا نہیں’’۔ حضرت علیؓنے جواب دیا۔ ‘‘ان کے زخمیوں پر حملہ کر کے انھیں نہیں مارا جائے گا، ان کی عورتوں کو باندی نہیں بنایا جائے گا، ان سے جنگ ان کی اذیتوں سے بچنے کے لیے کریں گے، انھیں تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں’’۔‘‘وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں’’۔‘‘گناہِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، کافر نہیں۔ خارجیوں کی تاویل فاسد ہے’’۔‘‘وہ آپ کو بھی کافر کہتے ہیں’’۔‘‘ہم انھیں کافر نہیں کہیں گے۔ ہم اس گڑھے میں نہیں گریں گے جس میں تکفیر کرنے والے گرے ہوئے ہیں’’۔
‘‘وہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد ہے: اِنِ الحکم اِلَّا لِلّٰہِ (فیصلہ اور حکم تو صرف اللہ کا ہے)۔ آپ نے باہمی نزاع میں دو آدمیوں کو حَکم (ثالث) تسلیم کرلیا، لہٰذا آپ نے آیاتِ قرآنی کا کفر کیا ہے’’۔
‘‘کلمۃ حقِ اُرید بِھا البَاطِل’’،بات تو حق ہے لیکن اس سے جو مرادلیا جارہا ہے وہ باطل ہے’’۔حضرت علیؓ نے انتہائی بلیغ جملہ ارشاد فرمایا۔ خارجیوں کی کھلی مخالفت اور تکفیر کے باوجود حضرت علیؓ نے واضح الفاظ میں انھیں کہا:‘‘ہم پر تمھارے تین حقوق ہیں: پہلا یہ کہ ہم تمھیں مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں۔ دوسرا یہ کہ تمھارا یا تمھارے بچوں کا بیت المال سے جو وظیفہ لگا ہوا ہے، اسے بند نہ کریں، تیسرا یہ کہ جب تک تم لوگ شروفساد برپا کرنے سے رُکے رہو گے، تب تک ہم تم سے کوئی جنگ نہ کریں گے’’۔ (۲۲)
حضرت علیؓ نے خارجیوں کو یہ ضمانت اس وقت دی جب کہ ان کا ہر فرد تربیت یافتہ مسلح جنگجو تھا اور کسی وقت بھی جنگ کے شعلے بھڑک سکتے تھے۔مسلمانوں کے باہمی اختلاف میں ہی نہیں بلکہ شروفساد کے دور میں حضرت علیؓ کا اپنے مخالفین سے یہ سلوک ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ حدیثِ رسولؐ ہے: عَلَیکُم بِسُنّتی وسنۃ الخُلفاءِ الرّاشدین‘‘تم پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاکی سنت لازم ہے’’۔
خوارج نے حضرت علیؓ کی تکفیر کی، آپ پر بدترین تہمتیں لگائیں یعنی سابقون الاوّلون اور بدری مسلمان پر جن کا اللہ کے ہاں خصوصی درجہ ہے۔ دامادِ رسولؐ پر، فاطمہؓ کے شوہر پر، چوتھے خلیفہ راشد پر، لیکن آپؓ نے:
۱- خارجیوں کی تکفیر کے جواب میں ان کی تکفیر نہیں کی۔
۲- ان کی تہمتوں کے جواب میں تہمت تراشی نہیں کی۔
۳- ان کی بغاوت کے امکان کے باوجود ان کے بنیادی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی، حق وظائف، مسلمانوں کی مسجدوں میں عبادت کرنے کا حق، سلب نہیں کیا۔
مسلمانوں کے ائمہ فقہا نے خارجیوں کی تکفیر سے پرہیز کیا ہے حالانکہ خارجی اپنے سوا دوسرے سب مسلمانوں کی تکفیر پر اصرار کرتے تھے۔ اور دوسروں کے مال و جان کی لُوٹ مار کو اپنے لیے مباح (جائز) سمجھتے تھے۔امام شوکانی اپنی کتاب ‘‘نیل الاوطار’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘علمائے اہلِ سنت کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ خارجی مسلمان ہیں چونکہ وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں، ارکان اسلام کی پابندی کرتے ہیں، مسلمانوں کی تکفیر انھوں نے غلط تاویل کی بنیاد پر کی ہے’’۔
امام غزالی اپنی کتاب التفرقۃ بین الایمان والزندقہ میں لکھتے ہیں:
‘‘توحید پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کے خون کو مباح قرار دینا غلطی ہے۔ جب تک کوئی واضح راہ نہ ملے، خوارج کی تکفیر سے احتراز کرنا چاہیے’’۔
ابن بطال کہتے ہیں:
‘‘جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ خارجی مسلمانوں میں شامل ہیں جیساکہ حضرت
علیؓ سے ان کی تکفیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ کفر سے تو یہ لوگ بھاگے ہیں’’۔
قاضی عیاضؒ، امام ابوالمعالیؒ، قاضی ابوبکر باقلانیؒ خوارج کی تکفیر کرنے کے قائل نہیں ہیں (۲۳)۔
ہماری رائے میں اسی سے ملتا جلتا مسئلہ ہمارے دور میں سُنّی اور شیعہ کا ہے۔ سُنّی مسالک اربعہ اوراہلِ حدیث اور احناف میں دیوبندی بریلوی کے اختلافات بنیادی نہیں ہیں۔ اصولِ عقیدہ میں یہ ایک ہی ہیں۔ البتہ سُنّی اور شیعہ کے اختلافات محض فقہی نوعیت کے نہیں بلکہ بعض بنیادی اختلافات بھی ہیں جیسے اہلِ تشیع کا تصورِ امامت جو اہلِ سنّت کے ہاں ایک گمراہی سے کم نہیں، جس کے باعث ہر فریق کی ایک تعداد ایک دوسرے کو کافر تصور کرتی ہے۔ اس معاملے میں خوارج کے بارے میں حضرت علیؓ کا طرزِعمل ہمیں ایسے اختلاف میں بھی رہنمائی دیتا ہے جس میں ہردو فریق ایک دوسرے کو کفر پر یا کم از کم گمراہی پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔
بشکریہ : حوالہ جات ۱۔ آل کاشف الغطاء، اصل اصول شیعہ (ترجمہ: سید ابن حسن نجفی)، ص ۱۱۵، شیعہ تبلیغات تحریک جعفریہ پاکستان ۲۔ بحوالہ ثاقب اکبر: پاکستان کے دینی مسالک، ص ۲۵۳، البصیرہ، اسلام آباد، ۲۱ء ۳۔ اصل اصول شیعہ، ص ۱۵تا ۱۲۳ ۴۔ اصول الفقہ للمظفر، تہران ۵۵/۲ ۵۔ حیدر حب اللہ: نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی، تہران، ص ۲۴۔۔۔۶۔ نظریۃ عدالۃ الصحابۃ، تہران، ص ۷۷۔۷۔ کلیات فی علم الرجال، تہران، ص ۴۹۴۔۔۔۸۔ البدایۃ والنہایۃ، دار ہجر للطباعۃ، قاہرہ، ۳۶/۲۔۔۔۹۔ مجموع الفتاوی ٰ، ج ۳۵، ص۲۲ ۱۔۔۔۱۰۔ رود کوثر، ص ۵۷۸، ۵۷۹۔۔۔۱۱۔ بحوالہ رود کوثر، ص ۵۷۹۔۔۔۱۲۔ رود کوثر، ص ۵۷۹ ۱۳۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی: نقوش عظمت رفتہ، ص ۵۲۔۔۔۱۴۔ بزم ارجمنداں، ص ۴۹۶۔۔۔۱۵۔ سید نثار ترمذی: نقیب وحدت علامہ عارف الحسینی، ص ۴۳ ۱۶۔ تذکرہ مودودی، ج ۲، ص ۴۳۳، ادارہ معارف اسلامی، لاہور ۱۹۸۸ء۔۔۔۱۷۔ بحوالہ نثار ترمذی: نقیب وحدت علامہ عارف الحسینی، ص ۱۳۹۔۔۔۱۸۔ تذکرہ مودودی، ج ۲، ص ۷۷، ۷۸۔۔۔۱۹۔ علامہ فیض احمد فیض: مہر منیر، ص ۲۳، ۲۳۱ ۲۰۔ پاکستان کے دینی مسالک، ص ۲۵۱ ۲۱۔ یوسف ۱۲:۴ ۲۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، بیہقی، سنن کبری ٰ، ج ۸، ص ۱۷۳ ۲۳۔ بحوالہ ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی: اسلامی بیداری، ص ۸۱۔۱۸۲