ذوالحجہ کا چاند:
عام طور پر ،آپ جب حجاز میں ہوتے ہیں تو شام و سحر ایسے لذت آمیز ہوتے ہیں کہ آپ کو تاریخیں اور دِن یاد نہیں رہتے۔ ایک ایسی روٹین اور ایسے ماحول میں آجاتے ہیں کہ پچھلی زندگی کی روٹین بھول جاتے ہیں۔ہمارا بھی کچھ یہی عالم تھا،لیکن موبائل فون کے ساتھ اور ڈائری لکھنے کی عادت نے ماہ و سال سے قدرے تعلق بنائے رکھا تھا۔ آج ذی قعدہ کا آخری دِن تھا اور ہم منتظر تھے کہ ذوالحجہ کا چاند آج یا کل میں نظر آیا ہی چاہتا تھا۔ ہم حج کے انتظار میں دِن گزار رہے تھے۔اِس انتظار کی شدت کو کم کرنے کے لیے باقی دلچسپیاں اختیار کیے ہوئے تھے۔شروع شروع میں جب پاکستان سے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور عمرہ مکمل کیا ،تو ایک قسم کے انجانے خوف اورشدید ڈرمیں مبتلا ہوگیا تھا۔انتظار کے وہ لمحات زہر لگتے تھے،لیکن آہستہ آہستہ ،جوں جوں حج کے دِن قریب ہوتے گئے یہ انتظار دِل بہار بنتا گیا ،خوف مٹتا گیا اور اُس کی جگہ ایک محبوب سے ملاقات کا سا اشتیاق بڑھتا گیا۔اب ہمیں حج کے ایام کا انتظار تو تھا لیکن خوف نہیں تھا۔اب اشتیاق تھا ،چاہت تھی اور حج کی قربت کی لذت تھی۔
مقام بدر سے واپس آکر،حرم نبوی کی لائبریری میں پہنچ گیا۔حرم مکی کی طرح ،یہاں حرم مدنی میں بھی ،ہم نے اپنی میل ملاقات کے لیے ایک جگہ مقرر کر لی تھی،جہاں ہم رومیٹس،مغرب ،عشا ء اور صبح کی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔عصر کی نماز پڑھ کر وہاں پہنچ جاتے اور عشا کے بعد واپس آتے۔پھر نماز فجر بھی وہاں جا کر ہی پڑھتے تھے۔یہ مقررہ جگہ مسجد نبوی کی چھت پرجنوب مغربی کونے میں تھی۔ اِس کا ایک یہ فائدہ تھا کہ ہمارا ہوٹل بھی اِسی طرف تھا،آنے جانے میں سہولت تھی اور دوسرے ،مسجد نبوی کے اِسی کونے میں ہی برقی زینہ بھی لگایا گیا تھا جس کے ذریعے اُوپر آنے اور نیچے جانے میں سہولت تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ تھا کہ حرم کی لائبریری بھی مسجد کے اِسی طرف میں واقع ہے ،مجھے وہاں آنے جانے میں بھی سہولت تھی۔یہ جگہ ہمارے حاجی یونس صاحب نے منتخب کی تھی اور خوب منتخب کی تھی البتہ یہاں ایک پرابلم ضرور تھا ،وہ یہ کہ مسجد کے مین ہال کے مقابلے میں یہاں قدرے گرمی زیادہ ہوتی تھی۔ مسجد نبوی ایک منزلی(single storied)عمارت ہے۔اِس کی چھت،حسب دستور کھلی(open) ہے۔ مسجد کا مین ہال تو ظاہر ہے ایئر کنڈیشنڈ ہے لیکن چھت پر تو گرمی ہونی ہے۔اِس کی شدت کو کم کرنے کے لیے جو دو اقدامات کیے گئے ہیں اُن کا خاطر خواہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ایک یہ کہ وہاں بڑے بڑے ایئر کولر نصب کئے گئے ہیں اور دوسرے اِس چھت پر کسی مخصوص میٹیریل ،جس کا مجھے پتہ نہیں چل سکا،کی چادریں تان دی گئی ہیں اِن سے سایہ بھی ہو گیا ہے اور سورج کی تمازت بھی کافی کم ہو گئی ہے۔اِس چھت کو عموماً حج کے دِنوں میں ہی کھولا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں کے رش کو مسجد کا مین ہال اور باہر کے صحن بخوبی سنبھال لیتے ہیں۔آج بھی، معمول کے مطابق ، ہم تین ساتھی حاجی محمد یونس صاحب،شکیل بھائی اور خاکسار،نماز مغرب کے بعد، اُسی مخصوص جگہ پر بیٹھے بات چیت کر رہے تھے کہ شکیل بھائی کہنے لگے کہ پاکستان سے میسج آیا ہے کہ یہاں سعودیہ میں ، ذوالحج کا چاند نظر آگیا ہے اورذوالحجہ شروع ہوگیا اور یوں ہم انشا اللہ ۱۰۔اگست بروز ہفتہ، میدان عرفات میں ہوں گے۔ساتھ ہی میرے موبائل پر بھی ،پاکستان سے مبارکبادی کے پیغامات آنا شروع ہوگئے۔ حیرت ہے کہ یہاں ، ہمارے سمیت ،کسی نے بھی چاند دیکھنے کی تکلیف گوارا نہ کی تھی۔سعودیہ کے چاند کی خبر ہمیں پاکستان سے مل رہی تھی۔ہے نہ دلچسپ بات!
ہم لوگ جنھیں سب سے زیادہ اِس چاند سے(concern)ہونا چاہیے تھا وہ یہاں پر سب سے زیادہ لا تعلق اور بے خبر تھے۔ہمارا یہ خیال تھا کہ مسجد میں حکومت کی طرف سے کوئی اعلان ہوگا ،لیکن ایسا نہ ہوا ۔ بہر حال ہم نے اللہ کریم سے دُعا کی کہ اِس مہینہ کو ہم سب کے لیے خیرو برکت والا مہینہ بنائے اور ہمیں مناسک حج کو بہترین طریقے سے ادا کرنے کی توفیق دے،اِس کے لیے آسانیا ں فراہم کرے اورکسی قسم کی کوئی تنگی نہ آئے۔ اور یہ کہ اِس حج کو اورہماری دیگر نیکیوں کو بھی اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے۔آمین یا رب العالمین۔
ہم سب خوش وخرم اور ہشاش بشاش تھے۔جس مقصد کے لیے حجاز میں حاضر ہوئے تھے وہ قریب سے قریب تر ہوتاجارہا تھا۔ اب صرف چند دنوں کی بات تھی اور ہمیں حج کی سعادت ملنے والی تھی ،اِن شا اللہ ۔عشا ء کی نماز پڑھ کر ہم کمرے میں واپس آئے۔آج میس میں نہیں گئے کیونکہ ہم سب کمرہ والوں کی ،عابد صاحب نے دعوت طعام کر رکھی تھی اور انھوں نے کھانا کمرے میں ہی لانا تھا۔ہم ویسے بھی اپنے میس سے تنگ آئے ہوئے تھے۔یہ کھانا اپنی ورائٹی اور ذائقے کے اعتبار سے ،مکہ والے کھانوں سے کہیں فروتر تھا۔یہاں پر کھانے کا کوئی شوق باقی نہیں رہا تھا ہم سب بس مارا ماری ہی کر رہے تھے۔چاول یا جوایک آدھ پھل ملتا تھا ،اُس پر گزارا کر رہے تھے ۔اب جب یہ دعوت ملی تو ہم بڑے خوش تھے اور جب وہ بھائی کھانا لے کر آئے تومیری تو خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ وہ البیک کا چرغہ لائے تھے اور یہ چرغہ یہاں کی سوغات ہے۔
۲۔اگست ۱۹ء بروز جمعۃ المبارک یکم ذی الحج۱۴۴۰ھ
آج جمعہ مبارک ہے۔نماز فجر کے لیے حاضری ہوئی،پھر ناشتہ کے لیے ہوٹل گیا ۔ ناشتے کے بعد،تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر جلد ہی حرم میں حاضر ہوگیا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار عالی پر درودوسلام کے بعد لائبریری میں آگیا۔ہمارے حاجی صاحب تو بڑھاپے کی عمر میں تھے،گو توانا تھے لیکن نمازوں کے علاوہ کمرے میں ہی رہتے تھے۔حاجی محمد اکرم صاحب اور شکیل صاحب‘‘ مہمانوں کے مہمان بنے’’ خدمت کروا رہے تھے۔اُن کے مہمانوں کی اِس خدمت داری سے ہم بھی مستفید ہوتے رہتے تھے۔اکرم صاحب کے مہمان ،عابد صاحب اور عرفان صاحب نے آج واپس ریاض جانا تھا اور شکیل بھائی کے ایک مہمان نے جدہ سے تشریف لا نا تھا،باقی رہا یہ خاکسار ،جس کا یہاں نہ کوئی دوست اور نہ ہی کوئی واقف کار،اِس وقت اکیلا ہی حرم میں تھا۔کچھ دیر تو لائبریری میں بیٹھا مطالعہ کرتا رہاپھر اچانک ہی خیال آیا کہ کیوں نہ جبل اُحُد اور تیر اندازوں والی پہاڑی کی زیارت کے لیے جایا جائے۔اگرچہ میں اکیلا تھا لیکن ذہن میں خیال آگیا تو اُٹھ کھڑا ہوا۔اگرچہ اِس سے پہلے دو دفعہ،اِسی حالیہ سفر میں، وہاں پر حاضری ہو چکی تھی لیکن کوئی زیادہ مزا اور لطف نہیں لے پایا تھا۔
زیارت کوہ اُحُد اورغزوہ اُحُد:
مدینہ طیبہ میں،قدم قدم پر تاریخ اور سیرت پاک کے نقوش ثبت ہیں۔کسی واقف راز کا ساتھ ہو توہر قدم سیرت پاک کے مطالعے کی طرف اُٹھتا ہے۔ہم جدید مدینہ طیبہ میں ہوتے ہیں لیکن ہمارا ذہن پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک مدینہ کی گلیوں میں ہوتا ہے۔موجودہ مسجد نبوی کے مین گیٹ باب شاہ فہد سے باہر نکلتے ہیں تو سامنے ایک نہایت شاندار ،حسین و جمیل ،سنہری رنگ کا ایک پہاڑ نظر نواز ہوتا ہے یہی کوہ اُحد ہے۔مسجد پاک سے قریباًچھ کلو میٹر شمال کی سمت میں یہ محبوب پہاڑ واقع ہے۔پیارے رسول سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس پہاڑ سے محبت کرتے ہیں۔
تاریخ اسلام کی دوسری بڑی جنگ ،جسے غزوہ اُحُدکہا جاتا ہے ،اسی پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی۔ مدینہ طیبہ میں آنے والے ہر زائر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس متبرک و محبوب پہاڑ کی زیارت کرے،ہم نے بھی مدینہ طیبہ کے آثارونقوش سیرت کی زیارت کے دوران ،اس پہاڑ کی بھی زیارت کی تھی۔پہلے ہم جاویدصاحب کے ساتھ وہاں گئے تھے اور پھرہمارا یہ ٹورعابد بھائی کی رہنمائی میں ہوا۔لیکن میرے لیے یہ دونوں دورے تشنگی کا باعث ہی بنے ۔ اِس تشنگی کوبجھانے کے لیے میں لائبریری سے نکل آیا۔جمعہ ہونے میں ابھی ساڑھے تین گھنٹے باقی تھے۔باب شاہ فہد کی طرف والے بس اڈے پر آیا،آنے جانے کا ٹکٹ لیا،زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور جلد ہی بس روانہ ہو گئی۔چند منٹوں میں ،بس نے جبل اُحُد کے بس اسٹاپ پر اُتار دیا۔ بس ا سٹاپ سے نکل کر پیدل مقام احد کی طرف چلا ۔ بس اسٹاپ سے نکلتے ہی ایک پل پر آگیا،یہ ایک خشک ندی پر بنا پل تھا جس کا نام وادی قنات ہے ۔اس پہاڑی نالے کا نہایت خوبصورت بیڈ بنایا گیا تھا،درمیان میں براؤن رنگ کی مٹی چمک رہی تھی۔ کناروں کو ہموار کر کے پتھر لگائے گئے اور دونوں طرف فٹ پاتھ بھی بنائے گئے ۔اس وقت یہ بالکل خشک تھا،بارشوں کے موقع پر یہاں پانی ہوتا ہے اور یہ ندی کا روپ اختیار کر جاتا ہے۔وادی قنات کے پل پر چلتے ہوئے ،اب میرے سامنے تین چیزیں تھیں:جبل احد،جبل عینین اور شہدا ءِ اُحُد کی آخری آرام گاہ والا احاطہ۔
میں آگے بڑھ رہا تھااورمیرے ذہن کی سکرین پر صدیوں قبل کی فلم چلنا شروع ہو گئی۔میں نے جبل عینین پرچڑھنا شروع کیا،کافی لوگ اُوپر پہنچے ہوئے تھے اور کچھ میری طرح اُوپر جا رہے تھے۔چھوٹی سی پہاڑی ہے اور اونچائی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔خشک پہاڑی ہے البتہ پتھر نہایت خوبصورت ہیں۔تھوڑی ہی دیر میں یہ عاجز چوٹی پر پہنچ گیا۔یہاں کافی رش تھا۔اب میں چشم تصور سے میدان غزوہ اُحُدکودیکھ رہا ہوں۔یہ جبل عینین ،جس پر میں کھڑا ہوا ہوں،تیر اندازوں کی پہاڑی بھی کہلاتا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ،جنگ احد والے دِن ،پچاس تیر اندازوں کو یہاں پر کھڑا کیا تھا۔اس دستے کی قیادت سیدنا حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی۔اس دستے کے ذمے لشکر اسلام کی پشت کی حفاظت قرار دیا اور آپ ؐ نے اس دستے کوانتہائی سخت الفاظ میں تاکید فرمائی کہ وہ کسی طور بھی اپنے اس مورچے کو نہیں چھوڑیں گے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،‘‘ہمیں فتح ہو یا شکست،ہماری بوٹیاں بھی پرندے،لے کر ہوا میں اُڑ جائیں ،تم نے یہ مورچہ نہیں چھوڑنا،ہر حال میں ہماری پشت کی حفاظت کرنی ہے ،جب تک میں نہ تم کو بلاؤں ،تم نے یہیں رہنا ہے۔’’سوچتا ہوں کہ یہ فقیرآج کہاں کھڑا ہے۔یہیں کہیں ،اسی مختصر سی پہاڑی پر ،میرے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام،نے اپنے تیر اندازوں کو کھڑا کیا تھا آپ یہاں اُوپر تشریف لائے تھے۔اپنے مجاہدین کو یہیں پر ہدایات دیں تھیں۔یہ چیز کتابوں میں پڑھی تھی اور آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔کس پتھر پر میرے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے ہونگے۔
دِل چاہتا ہے کہ ایک ایک پتھر کو چوم لو ں کیونکہ انھی پتھروں نے حضور کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی تھی۔ یادیں ہی یادیں تھیں۔لیکن میں جبل رماۃ سے نیچے اُتر آیا۔ شہدا ئے اُ حُدکے قبرستان کی طرف حاضر ہوا۔یہ ایک بڑا سا احاطہ ہے جس کی قد آدم سے بڑی چاردیواری ہے۔لوہے کی سلاخوں سے بناایک بڑا سا گیٹ لگا ہے جس کی سلاخوں کے درمیان سے قبرستان کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔قبرستان میں ایک چھوٹا سا احاطہ بنا ہوا ہے۔اِسی احاطے میں سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ کی قبر انور ہے۔اُن کے ساتھ سیدنا مصعب بن عمیر اور سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہما مدفون ہیں۔پیارے آقا سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،شہداءِ احد کی قبور پر تشریف لا یا کرتے تھے۔یہ بندہ عاجز بھی اِسی سنت پاک کی پیروی میں یہاں حاضر تھا۔
قبرستان میں قبروں کے نشانات تو نہیں نظر آئے بس چند روڑے اورسرخ مٹی اور ناہموار زمین ہی نظر آرہی تھی۔ خاکسار شہداءِ کرام کی یاد میں کچھ دیر خاموش کھڑا رہااور چشم نم سے سلام عقیدت پیش کر کے واپس آ گیا۔ کیسی کیسی فقید المثال ہستیاں یہاں ،اِس خاک میں آسودہ ہیں۔
حقیقت ہے کہ ہمارا دین و ایمان ان ہستیوں کی قربانی کا ثمر ہے۔ہم اِن ہستیوں کے ،اس سرزمین پر بہائے گئے لہو کے مقروض ہیں۔ہم اِن کو کیا بدلہ دے سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ ہم اِن ہستیوں کے درجات کی بلندی کی دعائیں کریں اور ایسی نابغہ ہستیوں کے بارے میں دعاکرنا بھی تو، بذات خود ہمیں ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔
شہدا کے قبرستان سے ہٹ کر،میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔دھوپ اورگرمی کافی تھی۔نماز جمعہ کا وقت بھی قریب تھا اور واپسی کی بس پکڑ کرمسجد نبوی میں حاضر ہوگیا۔مسجد میں رش بڑھ گیا تھا۔چاروں طرف سے پروانے دیوانہ وار مسجد کی طرف دوڑے چلے آرہے تھے۔اگرچہ نماز میں ابھی کافی وقت تھا لیکن مسجد ابھی مکمل بھر چکی نظر آتی تھی ۔ میں نے اپنی مقررہ جگہ پر جانا تھااور بمشکل چھت پر پہنچ پایا۔یہاں چھت پر شدید گرمی تھی۔ماحول کو ٹھنڈا کرنے والے بڑے بڑے کولر،گرمی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے ۔ چھت پر بھی ،آج جتنا ہجوم تھا اتناپہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بہر حال ہماری مقررہ جگہ تک تو میں نہ پہنچ سکا البتہ درمیان کی صفوں میں جگہ مل گئی۔نشست سنبھالتے ہی دائیں بائیں نظر ڈالی تو ،دائیں طرف تو ازبک بھائی تشریف فرما تھے اور بائیں طرف ایک پاکستانی نوجوان،اللہ سے لو لگائے بیٹھا تھا اُس کے راز ونیاز میں مداخلت سے گریز کرتے ہوئے اِدھر اُدھر‘‘آوارہ نظری’’ میں مصروف ہوگیا۔ہماری یہ آوارہ نظری بھی ،حرمین کے اِس مبارک سفر میں ہمارا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ابھی اِس محبوب مشغلے میں مصروف ہی تھا کہ بائیں جانب بیٹھے پاکستانی نے خود ہی میری طرف التفات فرمایا اور سلام دعا لینے میں پہل کی۔ہمارا باہمی تعارف ہوا ہی تھا کہ اذان جمعہ کی آواز گونجی،جس کے احترام میں ہم دونوں خاموش ہو گئے۔یہ بھائی ہمارے قریبی ضلع منڈی بہاء الدین سے تعلق رکھتے تھے اور یہاں مدینہ طیبہ میں ملازمت کرتے تھے ۔ دو چھوٹے چھوٹے پھول سے بچے اُن کے ساتھ تھے۔نماز کے بعد ،مختصر سی ملاقات رہی کیونکہ بچے اُن کے ساتھ تھے اور اُنھیں جانا تھا۔زائر حرم کی خدمت کا عندیہ دے رہے تھے اور میں نے بھی اُنھیں ایک تکلیف دینے کاسوچ لیا اور ایک ڈیوٹی اُن کے ذمے لگا دی جس کا ذکر ابھی کرتا ہوں۔
نماز جمعہ ادا کر کے ہوٹل واپس آیا۔راستے میں ہی کمرے کے دوساتھی مل گئے۔آج عابد صاحب اور عرفان نے واپس جانا تھا ۔ ہم سب اُن کے شکر گزار تھے کہ اتنی دور سے آکرانھوں نے ہماری اتنی زیادہ خدمت کی تھی ۔اللہ پاک اُن کو جزائے خیر دے۔کمرے میں پہنچ کر اِن دونوں بھائیوں سے الوداعی ملاقات ہوئی اور وہ ریاض کو روانہ ہوگئے۔اُن کے جاتے ہی ،برادرم شکیل صاحب کے بھائی محمد آصف صاحب ،جدہ سے لمبا سفر کرکے ہم زائرین حرم سے ملاقات کے لیے تشریف لے آئے۔ہنس مکھ ، نرم خو،لب پرہلکی سی مسکراہٹ سجائے،اُن سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔میں نے پوچھا کہ،‘‘بھائی!مکہ پاک تو جدہ کے قریب تھا ،آپ وہاں تشریف نہیں لائے لیکن مدینہ طیبہ ،اتنی دور ہے جدہ سے ،آپ یہاں دوڑے چلے آئے ۔ ’’ مسکرا کرکہنے لگے،‘‘ڈاکٹر صاحب! جس دِن سے آپ لوگ تشریف لائے ہیں یہاں سعودیہ میں،اُسی دِن سے ملنے کے لیے بے تاب تھے،لیکن حج تک ہم لوگ مکہ شریف نہیں جا سکتے کسی طور پر بھی ،یہ حکومت کی پابندی ہے۔یہاں مدینہ میں آ سکتے ہیں تو حاضر ہو گئے۔’’ محترم آصف بھائی بھی ہمارے لذت کام و دہن کے لیے،البیکسے نہ جانے کیا کچھ اُٹھا لائے تھے۔انھوں نے ایک بڑا بھر پور اور لذت آفرین ظہرانہ دیا۔الحمد للہ علیٰ ذالک وجزااللہ جزاکثیرا
۳۔اگست بروز ہفتہ
مساجد مدینہ ۔۔مسجد قبا:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم،ہجرت کے بعد،مدینہ طیبہ کی جس پہلی مضافاتی بستی میں تشریف لائے ،وہ بستی قبا کہلاتی ہے۔اور آج ،سوہنڑے ،منٹھارنبی ﷺ کا یہ عاجز غلام،اسی بستی قبا میں تھا۔یہ بستی ، بستے بستے ،اب تو ایک عالیشان جدیدمتمدن شہرکامنظرپیش کر رہی ہے اور اِس کے اور مدینہ طیبہ کے درمیان اب فاصلے مٹ چکے ہیں،اب دونوں ایک ہی شہر بن چکے ہیں،بلکہ مدینہ طیبہ کی حدود ، اس بستی سے کہیں آگے نکل چکی ہیں ۔ میں مسجد قبا کی زیارت کو آیا ہوں اور اُس کی بیرونی سیڑھیوں پر بیٹھ کر،تاریخ کے اوراق پر نظردوڑا رہا ہوں،اگرچہ میری نظریں سامنے کی فلک بوس عمارتوں پر ہیں لیکن میراذہن تاریخ کی ورق گردانی کر رہا ہے۔
بستی قبا کے قیام کے دوران میں ِپیارے آقا علیہ السلام نے جو پہلا کام کیا ،وہ اس بستی میں مسجد کی تعمیر تھاجسے تاریخ مسجد قبا کے نام سے جانتی ہے۔جس کی زیارت کو آج ہم قبا کی اس بستی میں حاضر ہوئے تھے
یہ مسجد قبا وہ پہلی مسجد ہے جو اسلام میں قائم ہوئی ۔مکہ میں مسجد الحرام کی بنیاد تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رکھی تھی۔اب مدینہ جاتے ہوئے ،قبا کی اس بستی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قیام تھا اور پہلی مسجد کی تاسیس بھی یہیں پر فرمائی۔اس مسجد قبا کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیر میں خود بھی ،بنفس ِ نفیس ، حصہ لیا۔صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مٹی گارا بھی اُٹھایا اور دیواریں بھی چنیں۔روایات میں آتا ہے کہ جب اس مسجد پاک کی تعمیر ہو رہی تھی ،تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگر صحابہ کرام یہ شعر،کورس کی شکل میں پڑھا کرتے،
افلح من یعالج المساجدا
یقراء فیھا قائما ً و قاعداً
ولا یبیت اللیل عنہ راقداً
‘‘کامیاب ہوا وہ شخص جو مسجد کی تعمیر و آبادی میں حصہ لیتا ہے اور اس میں بیٹھ کر ،یا کھڑے ہوکر(نماز و اذکار) پڑھتا رہتا ہے۔اور رات کو(غافلوں کی طرح )سو کر نہیں گزار دیتا۔’’
یہ اشعار کورس کی شکل میں پڑھے جاتے،اور آخری الفاظ ،المساجدا ،قاعدا اور راقدا کو لمبا کیا جاتا اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس گیت کے پڑھنے میں شامل ہوجاتے تھے۔
کیسا پر کیف اور زندگی بخش ماحول ہو تاہوگا!
پھر کیسی شان اور رفعت و بلندی حاصل ہے اس مسجد کو،پیارے آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے،اس مسجد میں ادا کی جانے والی پہلی نماز کی امامت خود فرمائی،گویا آپ کی اقتدا میں ادا کی جانے والی پہلی نماز اس مسجد میں ہوئی۔کیسی با برکت اور شکوہ و عظمت کی حامل ہے یہ مسجد!ایسے تو نہیں کچھے چلے آتے عشاق اس بستی اور اس مسجد کی طرف!
روایات میں آتا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو صاحب ایمان اس مسجد قبا کی زیارت کرنے آئے گا اور یہاں دو رکعت نفل ادا کرے گا،اُسے ایک مقبول عمرے کا ثواب حاصل ہوگا۔
حضور اکرم ﷺ کی اپنی بھی یہ عادت مبارکہ تھی کہ اکثر و بیشتر،ہفتے کو یا بدھ کوقبا میں تشریف لایاکرتے ،اپنے قبا کے میزبانوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور اس مسجد میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
ہر زائر مدینہ کی طرح،ہماری بھی یہ خواہش تھی کہ اُس پہلی مسجد کی زیارت کریں ،جس کی تعمیر، ہجرت کے بعدخود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی تھی۔شکیل بھائی کے دوست،جاوید صاحب نے ہماری اِس خواہش کو پورا فرمایا۔ہم نے یہاں دو رکعت نفل ادا کرکے ایک مقبول عمرے کا ثواب کمایا۔لیکن پیاس ابھی باقی تھی۔ہمیں کوئی اندازہ نہ تھا کہ وہاں کیسے جایا جاتا ہے کیونکہ پہلے جتنی بار جانا ہوا تھا اِسی طرح دوستوں کے ساتھ ، اُن کی کار پر ہوا تھا۔خود سے کیسے جائیں ،اِس کی خبر نہ تھی۔پوچھنے پرکسی نے ہمیں بتایا کہ مسجد نبوی کے جس گیٹ سے بھی آپ باہ نکلیں،ویگنوں اورٹیکسیوں والے آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں،زیارت زیارت یا قبا قبا یااُحد اُحد،وغیرہ وغیرہ،آپ جہاں جانا چاہیں ،ان سے مک مکا کر کے جا سکتے ہیں۔ (جاری ہے)