نہ کوئی دل سا غنی ہے ، نہ کوئی دل سا فقیر
ان کے الطاف کے بعد ، ان کی عطا سے پہلے
قلبِ صدیق و عمر ، سینہ عثمان و علی
چمنِ عشق ہیں ایجادِ صبا سے پہلے
دل نے سو بار سنی غیب سے آوازِ قبول
ایک بس ایک فقط ایک دعا سے پہلے
کچھ نہیں مانگتے ہم رب محمد کی قسم
ان پہ تسلیم کے بعد ، ان کی ثناء سے پہلے
دعوی عشقِ رسالت میں نہ جلدی کیجے
اس کی توثیق تو ہو خوفِ خدا سے پہلے
کچھ نہ تھے انفس و آفاق ، زمین و افلاک
ان کے نور ، ان کے ظہور ، ان کی ضیاء سے پہلے
کچھ نہیں ہاں بخدا کچھ بھی نہیں دیدہ و دل
ان کے دیدار سے قبل ، ان کی لقا سے پہلے
عازمِ طیبہ پہ لازم ہے کہ آدابِ سفر
پوچھ کے نکلے کسی مردِ خدا سے پہلے
دیکھا جاتا ہے وہاں دیدہ تر ، قلبِ سلیم
ریش و سجادہ و دستار و قبا سے پہلے
ہوسِ جاہ کہاں ، عشق شہنشاہ کہاں
سینہ خالی تو کرو کبر و ریا سے پہلے
دشتِ پر خارِ محبت میں قدم رکھتے وقت
پوچھ ہی لیتے کسی آبلہ پا سے پہلے
دل میں اک مہرِ جہاں تاب ہے جو بہرِ طلوع
اذن لیتا ہے شہِ ارض و سما سے پہلے