جب ہم کوئی خبر سنتے ہیں یا تاریخ کی کسی کتاب میں کوئی واقعہ پڑھتے ہیں تو حیوان عاقل ہونے کے ناطے یہ دو سوال پوچھنا لازم ہو جاتا ہے:
1۔ کیا یہ خبر یا واقعہ سچ ہے؟
2۔ کیا یہ خبر سچ ہو سکتی ہے؟
ہمیں معلوم ہے کہ تاریخی کتب میں واقعات کو بہت مبالغہ آرائی سے بیان کیا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر تو جھوٹ اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ سطح آب پر تیرتا نظر آتا ہے۔ لیکن دیگر مقامات پر سچ کو جاننے کے لیے دقت نظر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہر واقعے کو سن کر یا پڑھ کر مان لینا کوئی اچھا رویہ نہیں کہلا سکتا۔ واقعات کا بنظر انتقاد جائزہ لینا اور ان کی چھان پھٹک کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
علامہ ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمے میں بیان کیا ہے:
‘‘واقعات و اخبار کے سلسلے میں انسان کو اصول کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور غیر جانب دار ہو کر عقل سے سوچنا چاہیے اور ممکن و ممتنع کی طبیعتوں میں عقل سلیم اور طبع مستقیم سے فرق پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر خبر امکان کی حد میں ہے تو قبول کر لینی چاہیے وگرنہ نہیں۔’’یہاں امکان سے امکان عقلی مراد نہیں ہے کیونکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اور یہ واقعات کی حد بندی نہیں کر سکتا، بلکہ امکان مادی مراد ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ چند نصابی باتیں کرتے ہوئے امکان کی مختلف صورتوں کو بیان کر دیا جائے۔ امکان اور عدم امکان کی تین صورتیں یہ ہیں:
1۔ منطقی امکان /عدم امکان
2۔ طبعی امکان /عدم امکان
3۔ تکنیکی امکان /عدم امکان
ابن خلدون نے منطقی امکان کو ہی عقلی امکان کہا ہے۔ ہر وہ بات منطقی طور پر ممکن ہے جس کا انکار تناقض کی صورت میں برآمد نہ ہوتا ہے۔ گائے چھلانگ لگا کر چاند پر پہنچ گئی۔ یہ منطقی طور پر بالکل ممکن ہے کیونکہ اس کی نفی کسی صورت متناقض نہیں۔ کسی مادی وجود کے لیے منطقی طور پر روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کرنا ممکن ہے۔ البتہ چوکور دائرے کا وجود منطقی طور ممکن نہیں۔ اگر کوئی شکل چوکور ہے تو وہ دائرہ نہیں، اور اگر دائرہ ہے تو چوکور نہیں ہو سکتی۔ ایک مینار بیک وقت ایک سو فٹ اور ڈیڑھ سو فٹ بلند نہیں ہو سکتا۔
ہر وہ بات طبعی طور پر ممکن ہے جو قوانین فطرت کے مطابق ہو۔ گائے کا چھلانگ لگا کر چاند پر پہنچ جانا قوانین فطرت کے منافی ہے اس لیے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی مرید یہ بیان کرے کہ اس کے پیر صاحب بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ اپنی کرامت ظاہر کرنے کے لیے کل پیر صاحب نے مینار پاکستان سے چھلانگ لگائی اور صحیح سلامت زمین پر اتر آئے۔ ظاہر ہے عام سطح کے کسی بھی معقول شخص کے لیے اس کرامت کو تسلیم کرنا مشکل ہو گا ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض شاہان سلف بہت برگزیدہ بزرگوں کوبغیر سیڑھیوں کے بلندوبالا میناروں سے اتار دیا کرتے تھے اور وہ بزرگ زمین پر پہنچ کر زندہ نہیں پائے جاتے تھے۔ اسی طرح طبعی طور پر یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی فرد بیک آن دو مختلف شہروں میں موجود ہو۔ چنانچہ بعض کتب میں ایک ہی شخص کے بیک وقت دو مختلف شہروں میں دیکھے جانے والی روایات کو درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
تکنیکی امکان کا تعلق ہماری ٹیکنالوجی کی صورت حال سے ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ وہ دو گھنٹے میں لاہور سے نیویارک پہنچ گیا تو یہ منطقی اور طبعی اعتبار سے ممکن ہے لیکن اس وقت جو ٹیکنالوجی میسر ہے اس لحاظ سے ممکن نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارے ناممکن تھے لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی سے ایسے طیارے وجود میں آ گئے۔
جان ہاسپرز ایک امریکی فلسفی تھا۔ اس نے ایک کتاب An Introduction to Philosophical Analysis لکھی تھی جو ایک بہت مقبول نصابی کتاب رہی ہے۔ اس کے دوسرے ایڈیشن (1970) میں اس نے تکنیکی امکان کی مثال دیتے ہوئے لکھا تھا:‘‘تکنیکی طور پر ایسا سپیس شپ ممکن نہیں جو مریخ پر لینڈ کر سکے، لیکن چند سال بعد ایسا ممکن ہو سکتا ہے’’۔ چوتھے ایڈیشن میں اسے مریخ کی جگہ پلوٹو لکھنا پڑا کیونکہ مریخ تک سپیس شپ پہنچ چکا ہے۔البتہ جو منطقی اعتبار سے ناممکن ہے وہ طبعی اور تکنیکی طور پر بھی ناممکن ہے۔ جو طبعی طور پر ناممکن ہو وہ تکنیکی طور پر بھی ناممکن ہو گا۔ یعنی کوئی ایسی ٹیکنالوجی وجود میں نہیں آ سکتی جو قوانین فطرت کے بر خلاف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پانی سے چلنے والی کار نہیں بنائی جا سکتی۔ سینکڑوں برس لوگ Perpetual motion machine بنانے کے خبط میں مبتلا رہے۔ لیکن بالآخر نیوٹن کے دریافت کردہ قوانین نے ثابت کر دیا کہ ایسی مشین کا بنایا جانا ممکن نہیں۔
خالص طبیعات سے ہٹ کر اگر ہم تاریخی واقعات کا جائزہ لیں تو ہم کتنے ہی بیان کردہ واقعات کا تجزیہ کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن تھا یا نہیں؟
البیرونی نے سومنات کے مندر کے متعلق کتاب الہند میں لکھا ہے:
‘‘ملک سندھ کے جنوب مغربی شہروں میں سومنات کی زیادہ تعظیم کی جاتی تھی۔ اس کے پاس ہر روز ایک گھڑا گنگا کا پانی اور ایک ٹوکرا کشمیر کے پھولوں کا لایا جاتا تھا۔’’
ابن خلدون نے بھی ایسی ہی بات لکھی ہے:
‘‘باوجودیکہ سومنات دریائے گنگا سے دو سو کوس کے فاصلے پر تھا مگر ہر روز سامنات کے غسل کے لیے پانی وہاں سے لایا جاتا تھا۔ دریائے گنگا ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق جنت سے نکلا ہے اور اس میں نجات کے خیال سے اپنے مردوں کی ہڈیاں ڈالتے تھے۔’’
البیرونی اور ابن خلدون دونوں ہی عقل پر بھروسہ کرنے والے افراد تھے لیکن تعجب ہوتا ہے کہ دونوں نے بلا تبصرہ اس روایت کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس وقت روزانہ، تقریباً ایک ہزار میل کی دوری سے گنگا سے پانی اور کشمیر سے پھول لانا کس طرح ممکن ہو سکتا تھا جب کہ گھوڑے سے زیادہ تیز رفتار کوئی سواری نہیں پائی جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مذہبی عقیدت اور جوش و جذبے میں ایسی بہت سی محیر العقول حکایات بیان کی جاتی ہیں لیکن ان کا تنقیدی جائزہ لینا ایک مورخ کا فرض بنتا ہے۔
ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں مشہور مورخ المسعودی کی بیان کردہ بہت سی باتوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فطرت کے اصولوں کے منافی ہیں۔ لیکن اپنے مقدمہ میں اسی مسعودی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ‘‘حضرت عثمان کے زمانے میں صحابہ نے کافی جائیدادیں اور مال اکٹھا کر لیا ۔ (ایک صحابی) کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کے آٹھویں حصے کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی، نیز انھوں نے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈیاں اپنے پیچھے چھوڑیں۔ (ایک دوسرے صحابی) کو عراق سے روزانہ جو آمدنی ہوتی تھی وہ ہزار دینار تھی اور پہاڑی کی طرف سے اس سے بھی زیادہ آتا تھا۔ (تیسرے صحابی) کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار ہی اونٹ تھے اور دس ہزار بھیڑیں۔’’(اردو ترجمہ از محمد کاظم۔ صحابہ کے نام میں نے نہیں لکھے)
دولت جمع کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کیونکہ اس وقت تک بہت سی فتوحات ہو چکی تھیں۔ مسلمانوں کی سلطنت کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا تھا لیکن کیا اس وقت مدینہ میں ایک ہزار لونڈیاں، ایک ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بھیڑیں رکھنا ممکن تھا؟ کیا مدینے کے اردگرد اتنی چراگاہیں موجود تھیں جہاں اتنے گھوڑوں، اونٹوں اور بھیڑوں کو چارہ فراہم کیا جا سکتا ہو؟ ایک ہزار لونڈیوں کو رکھنے کے لیے کتنا بڑا مکان چاہیے ہو گا؟ کیا اس وقت مدینے میں اتنے بڑے مکانات، بلکہ محلات کا کوئی وجود تھا؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت کے مدینے میں یہی تین امیر افراد نہیں ہوں گے۔ چلیے ہزار نہ سہی، دو دو سو لونڈیاں رکھنے والے بھی ہوں گے، سو سو گھوڑے اور اونٹ بھی کئی لوگوں کے پاس ہوں گے۔ مدینہ کے بارے میں جو کچھ تاریخ کی کتابوں میں بیان ہوا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نری مبالغہ آرائی دکھائی دیتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مدینہ کی کل آبادی شاید پانچ ہزار بھی نہ ہو۔
اس ضمن میں ایک بہت دلچسپ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سفر بیت المقدس کی بیان کی جاتی ہے۔ ہمارے مذہبی عالموں، واعظوں سے لے کر جدید کالم نگار تک اس کو اسی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب خلیفہ ثانی مدینہ سے ایک غلام کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے تو سواری کے لیے ایک اونٹ تھا۔ اس اونٹ پر دونوں باری باری سفر کرتے تھے۔ جب یروشلم میں داخلے کا وقت آیا تو اونٹ پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی۔ چنانچہ آپ اس حال میں شہر میں داخل ہوئے کہ اونٹ پر غلام سوار تھا اور خلیفہ وقت مہار پکڑے چل رہے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سادگی، عدل اور مساوات پسندی اپنی جگہ لیکن کیا یہ سارا قصہ سچ ہو سکتا ہے؟
حضرت عمر کا دور مسلمانوں کی عسرت اور
تنگ دستی کا دور نہیں تھا۔ اس وقت عراق، ایران کا بڑا حصہ اور شام فتح ہو چکے تھے۔ مدینے میں بے تحاشا مال غنیمت آتا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان کو سواری کے لیے دو اونٹ بھی میسر نہ ہوں۔ کسی مورخ نے حضرت عمر کے اونٹ پر سفر کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ ابن کثیر نے تو ایک روایت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپ ایک لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ شبلی نے اگرچہ بہت سادگی سے مدینہ سے روانگی کا ذکر کیا ہے لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ چند مہاجر و انصار ساتھ تھے اور سواری میں گھوڑا تھا۔ آپ نے جابیہ کے مقام پر اپنے کمانڈروں سے ملاقات کی۔ یہیں پر نصرانیوں کا وفد آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور بعض روایات کے مطابق بیت المقدس کا معاہدہ یہیں لکھا گیا آپ بہت سادگی کے ساتھ ایک عام سے گھوڑے پر سوار بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے البتہ بازنطینی مورخین اور گبن نے لکھا ہے کہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔ اس بات پر بھی تعجب ہوتا ہے کہ جس شخص نے اولاً یہ قصہ گھڑا ہو گا اس نے کبھی اونٹ دیکھا تھا یا نہیں؟ اونٹ کی سواری تو ہرگز نہیں کی ہو گی۔ اونٹ پر بیک وقت دو افراد بآسانی سوار ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ اتنی مشہور روایت کا تاریخ کی کسی کتاب میں ذکر موجود نہیں۔ طبری سے لے کر ابن خلدون تک کوئی اس واقعہ کا ذکر نہیں کرتا۔ اس قسم کی روایتیں واعظوں اور قصہ گوؤں نے مشہور کر رکھی ہوتی ہیں جو بقول شبلی نعمانی‘‘عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے، اس لیے خود بخود ان میں مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے’’۔