سنگ اسمائے شہدا ء بدر:
اور پھر،یہ لیجیے ! بدر شہر آگیاہے۔جو پہلی نظر میں ایک جدید سہولیات سے آراستہ گاؤں لگتا ہے۔ہمارے سامنے نئی نئی تعمیر شدہ کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں،بازارہیں۔پٹرولپمپس ،ورکشاپس اور مارکیٹیں اور کشادہ سڑکیں موجود ہیں۔ مین شاہراہ سے دائیں مڑتے ہوئے ،سڑک پر چلتے چلتے ہم شہر سے تھوڑا دور نکل آئے اور مختلف موڑ کاٹتے ایک چوک پر ایک سائن بورڈ کے سامنے گاڑی رکی۔یہ ایک بڑی سی تختی تھی جس پر اُن ہستیوں کے نام کندہ تھے جو غزوہ بدر میں ،کفر کے خلاف داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ ‘‘عابد بھائی ’’ میں نے عرض کی،‘‘ذرا یہاں رکیئے ،ہم اِس تختی کا مشاہدہ کر لیں۔’’انھوں نے گاڑی روکی اور ہم نیچے اُتر آئے اور چلتے چلتے اِس تختی کے سامنے آکرٹھیرے جو چوک پر لگی ہوئی تھی۔
یہ ایک چوک ہے۔ٹریفک نہیں ہے۔بندہ بشر بھی کوئی نظر نہیں آرہا۔چوک کے درمیان میں یہ ایک یادگاری تختی نصب ہے اس تختی پر اُن چودہ شہدا کے اسمائے گرامی کندہ ہیں جو اس جنگ میں شہید ہوئے تھے،اُن میں چھ مہاجر صحابہ اور آٹھ انصاری صحابہ کرام تھے۔نام ملاحظہ فرمائیں: عبیدہ ؓبن الحارث،عمیرؓ بن ابی وقاص ،عمیرؓ بن حمام،سعدؓ بن خیثمہ(قبا میں میزبان رسول)،مبشر ؓبن عبد المنذر،ذو الشمالینؓ بن عبد عمر،عاقلؓ بن بقیر،حضرت مہجعؓ، صفوانؓ بن بیضاء الفہریؓ،یزیدؓ بن حارث خزرجی،رافعؓ بن معلی،حارث ؓبن سراقہ ،عوف ؓبن عفراء،معوذؓبن عفراء (مدینہ کی مشہو رخاتون عفراء کے بیٹے)
رضی اللہ تعالیٰ عنھم وجزاھم اللہ عنا و عن الاسلامِ خیر الجزآءِ۔
خاکسار،کچھ دیر اس تختی کے سامنے کھڑا رہا،بس کھڑا ہی رہا ،اُن کے حضور کچھ پیش کرنے سے زبان عاجز تھی،چشم نم تھی اورقلب خاشع اور جسم پر رونگٹے کھڑے تھے۔
قبرستان شہدا:
شہدائے بدر کے نام پڑھ کر،اور اُن کی یادگاری تختی کے سامنے اُنھیں خراج تحسین پیش کرنے کے بعد،پھر گاڑی میں آبیٹھے اور آگے کو چلے۔اب ہمارا کارواں،کوئی ڈیڑھ دو کلو میٹر چلنے کے بعد،ایک چار دیواری کے ساتھ جا رکا۔اب ہم ،گاڑی سے اُتر کر ،اس چاردیواری کی طرف بڑھے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ شہدا ء بدرکے قبرستان کی چاردیواری ہے۔یہ ایک قد آدم دیوار تھی جو دُور تک جاتی نظر آرہی تھی۔ جس طرف ہم رکے تھے ،اِس طرف کوئی گیٹ تو ہمیں نظر نہیں آیا ،اگر ہوتا بھی تو وہ شاید مقفل ہونا تھا،اندر جانے یا جھانکنے کے لیے ہمیں اور تو کچھ نہ سوجھا ، دیوار کے ساتھ پڑے ،بڑے بڑے پتھروں پر ہم چڑھ گئے جس سے احاطے کے اندر کا ماحول واضح نظر آرہا تھا۔ اندر ایک براؤن رنگ کا ریتلا اور ناہموار میدان تھا جس میں قبروں کے محض نشانات تھے کوئی واضح قبریں نہ تھیں۔قبرستان کا کم و بیش وہی منظر تھا جو ہم پہلے ،جنت المعلیٰ مکہ میں اور پھر جنت البقیع مدینہ میں دیکھ چکے تھے۔جگہ جگہ پتھر بکھرے تھے۔جنگلی بوٹے اورجھاڑیاں اُگی تھیں۔چھوٹی سی پہاڑی بھی تھی۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہے وہ عظیم المرتبت جگہ، جس نے غزوہ بدر کے ہیرے اپنے اندر چھپا رکھے ہیں۔ میرے ذہن میں تاریخ کے اوراق پلٹ رہے تھے اور جنگ بدر کا منظرپیش کررہے تھے۔ہم نے چشم ترسے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہی تھے کہ ہمارے ہی کسی ساتھی کی آواز آئی،احتیاط لازم ہے ،ہاتھ نہ اُٹھائیے ، صرف دِ ل میں دُعا کریں۔ہم نے فوراًہاتھ نیچے کر لیے اور دِل ہی دِ ل میں شہدا بدر کے لیے درجات کی بلندی کی دعائیں کیں۔ میرے دیگر ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔یہاں پر کچھ اور لوگ بھی آئے ہوئے تھے کوئی زیادہ نہیں۔
مسجد عریش :
دھوپ تیز تھی۔اگرچہ ہوا چل رہی تھی لیکن گرمی اپنی موجودگی کا احساس دِلا رہی تھی ۔ ہم واپسی کے لیے گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔وہاں سے گاڑی آگے نکلی اورچند فرلانگ بعد، ایک مسجد کے سامنے لا کر،عابد بھائی نے گاڑی پارک کر دی ۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے میں نے مسجد العریش کا بورڈ پڑھ لیا۔چند ایک اور گاڑیاں بھی وہاں رکی ہوئی تھی۔ہم نیچے اُترے ، ہمارے سامنے ،چاروں طرف،ریتلی زمین ،سنگلاخ پہاڑ،اونچ نیچ اور کھلی کھلی فضا تھی۔تیز ہوا چل رہی تھی۔ہمارے سامنے ایک احاطہ تھا اور اُس کے ساتھ ایک مسجد تھی،اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، خاکسارنے کہا،‘‘یہ مسجد عریش ہے اور وہ احاطہ میدان جنگ ہے۔’’
عریش کے معنی چھپر یا سائبان کے ہوتے ہیں۔ہمارے مقدر کی سکندری ملاحظہ فرمائیں،کہ ہم مقام بدر پر تھے۔مسجد عریش کے سائے میں کھڑے تھے۔یہ مسجد ، تعمیراتی لحاظ سے ،اگرچہ کسی طور متائثر کن اور عظیم الشان نہیں ہے لیکن تاریخی اعتبارسے،جس جگہ پر یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے،اُس کی عظمت و شوکت پرزمین و آسمان کی سب عظمتیں ورفعتیں قربان!
تاریخی روایات میں آ تا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر غزوہ بدر والے دِن ،قائد لشکر،امام المجاہدین،سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاکیمپ لگایا گیا تھا۔ایک ٹیلے پر ، گھاس پھوس کا ایک چھپربنا دیا گیا تھا جس کے اندر تشریف فرما ہوکر، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر،ہدایات و احکامات جاری فرما رہے تھے اوردوسری طرف اسی چھپر کے نیچے ہی ،سجدوں میں گر کراپنے اللہ کریم سے آہ و زاریاں ، التجائیں اوردعائیں بھی مانگ رہے تھے ۔
یہ چھپر،جو در اصل مر کز ِ قیادت تھاجنرل ہیڈ کوارٹر تھا،سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تجویز پروجود میں آیا تھا اور وہی اس کی نگرانی پر مامور تھے۔یہاں ایک چشمہ تھا،جس کے کنارے لشکر اسلام نے پڑاؤ ڈالا تھا،ارد گرد کئی اور چشمے بھی تھے جسے جنگی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے پاٹ دیا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس چھپر والی جگہ پر،غزوہ بدر کے ہیڈ کوارٹر والی جگہ پر ،نہ جانے کب ،کس نے مسجد تعمیر کر دی ،جسے مسجد عریش کا نام دیا گیا۔ظاہر ہے،تاریخ میں کئی بار ،اِس مسجد نے تعمیر و مرمت کے کئی ادوار و انداز دیکھے ہونگے اور نہ جانے اِس شکل میں یہ کب آئی ہوگی ،لیکن ،یہاں ،اِس مقام پر،صدیوں سے اِس کی موجودگی ، یہ تو ثابت کرتی ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر یہی وہ ذیشان مقام ہے جہاں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھااور غزوہ بدر کی قیادت فرمائی تھی۔ یہ مسجد ہیڈکوارٹر تھی تو پھر آس پاس کا علاقہ ،یقیناً وہی ہوگا جہاں یہ معرکہ حق وباطل برپا ہواتھا۔
مسجد کو تو تالے لگے تھے کہ نماز کا وقت نہ تھا،اِس لیے ہم میدان جنگ کی طرف بڑھے۔مسجد شریف کے آس پاس ایک ریتلا گراؤنڈ ہے جس پر چل کر ،ہم ‘‘غزوہ بدر کے میدان جنگ میں ہونے’’ کا لطف لے رہے تھے۔ہمارے پاؤں ریت میں دھنستے تھے۔مجھے یاد آیا کہ بدر کی رات یہاں بارش ہوئی تھی جس سے مسلمانوں کے حصے والا ریتلا میدان جم گیا تھا اور کفار کا نشیبی علاقہ پانی جمع ہو جانے سے کیچڑ والا ہو گیاتھا اور اس بارش کا خصوصی تذکرہ اللہ کریم نے قرآن مجید میں،بطور ایک نعمت خصوصی، کیا تھا۔
اس جگہ سے دور،نیچے، ایک کھائی میں، ایک کنویں کی منڈیر نظر آرہی تھی،بتایا گیا کہ یہ وہ کنواں ہے جس میں ابوجہل اور اور اُس کے ساتھیوں کو ،جہنم واصل کرنے کے بعد ، اُن کی لاشوں کو دھکیل دیا گیا تھا اور جس کی منڈیر پر کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لاشوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا،‘‘تم لوگ میرے کنبہ اور قبیلہ سے تھے لیکن اپنے نبی کے کے لیے کتنا برا کنبہ اور قبیلہ ثابت ہوئے۔تم نے مجھے جھٹلایا جب کہ اوروں نے میری تصدیق کی۔تم نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا جب کہ اوروں نے میری نصرت و حمایت کی۔تم نے مجھے نکالا جب کہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔اے کاش ،تم لوگوں نے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔اور دیکھو ،ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا ہم نے اُسے برحق پایا۔اس کریم مالک نے اپنے بندے کی مدو نصرت کی اور اُسے فتح یاب کیا۔’’
ہم اُس کنویں تک جا نہیں سکتے تھے،ایک تو وہ دور نیچے کھائی میں تھا ،دوسرا،کہا جاتا ہے کہ زیادہ دیر یہاں رکنا یا گھومنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں،کیونکہ یہ ممنوعہ علاقہ ہے ہم کہیں شرطوں کے ہتھے ہی نہ چڑھ جائیں لہٰذ ا احتیاط لازم ہے اور ہم نے کنویں تک جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا،نہیں بلکہ ترک کر دیا۔
بدر سے واپسی:
خاکستارتاریخ اور جغرافیہ کے حسین ملاپ کے مناظر میں ، کھویا ہواتھا کہ شکیل بھائی نے کہا ،‘‘کیوں نہ واپس چلا جائے، ڈاکٹرصاحب !کافی دیر ہوگئی ہے۔’’میں نے عرض کی ،‘‘جی بالکل،آیئے واپس چلیں،اگرچہ اِس سحر انگیزمقام کو چھوڑنے کودِ ل تو نہیں چاہتا،پھر بھی ہم نے جانا تو ہے ناں،لہٰذا آیئے چلتے ہیں۔’’مقام بدر اور مسجد عریش کو الوداع کہہ کر،شہدا ئے بدر کے احاطے پرالوداعی نظر ڈالتے ہوئے اور دِ ل ہی دِل میں اُن کے حضور سلام عرض کرتے ہوئے ،ہم گاڑی کی طرف بڑھ آئے ۔ہم نے جہاں پر گاڑی پارک کی تھی ، اُس کے سامنے کچھ کھنڈرات تھے۔ایک اچھی خاصی بستی کے ٹوٹے پھوٹے اور گرے پڑے گھر تھے۔ویران گلیاں اوراُجرے دیار تھے۔
شکیل بھائی نے کہا کہ،‘‘ڈاکٹر صاحب ! آپ لوگ اُدھر سے آئیں مین روڈ پر ،میں اِن کھنڈرات کے اندر سے ہو کر آتا ہوں۔ مجھے یہ کھنڈرات بڑے (fascinate) کرتے ہیں۔’’بہرحال وہ اُن کھنڈرات کی طرف چلے گئے اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر میں روڈ پر آگئے،اتنے میں وہ بھی اُن کھنڈرات سے نکل آئے اور گاڑی میں آ بیٹھے۔میں نے ازراہ تفنن طبع شکیل بھائی سے کہا ،‘‘ کوئی خزانہ وزانہ ملا اِن پرانے کھنڈرات میں سے ؟’’وہ ہنس پڑے ،کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب ! میں تو بس اِن فضاؤں میں اور اِن وادیوں اور کھنڈروں میں ہونے کو ،چند سانسیں لینے کو انجوئے کر رہا ہوں ،یاد گار بنا رہا ہوں،اور، بس،بڑا خزانہ ہے۔’’
ابھی ہم بدر شہر کی ہی سڑکوں پر تھے کہ ہمیں نیچے ایک وادی میں کجھوروں کا ایک دلکش باغ نظر آیا۔اکرم بھائی کہنے لگے ،‘‘یار آؤ اِس باغ میں چلتے ہیں۔’’آئیڈیا تو بڑا دِلنشین تھا ،ہم لوگ ابھی سوچ ہی رہے تھے اور وہ باغ کی طرف جانے والے راستہ پر،پیدل ہی چل پڑے جو نیچے کو اُتر رہا تھا۔ہم کار پر ہی رہے اور ایک بڑا سا چکر کاٹ کر اِس مذکورہ باغ میں آئے۔ گاڑی سے اُترے ،ہمارے سامنے ایک عمدہ نظارہ تھا۔کھجور کے سینکڑوں درخت تھے۔پھل لگا ہوا تھا ۔کھجوروں کے گوشے لٹک رہے تھے بڑا اچھا گھنا سایہ تھا۔ایک طرف کو ٹیوب ویل بھی چل رہا تھا۔ دُور دُور تک کھجوروں کی کئی اقسام کے پھلدار درخت نظر کو بھلے لگ رہے تھے۔گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو دُور سے ایک دوکارکن کام کرتے نظر آئے۔ اِدھر دوسری طرف کو، ایک عام سی دیہاتی قسم کی رہائش بھی تھی،اُس کے اندر سے بھی ،میلی سی دھوتی اور پھٹی پرانی بنیان پہنے ، ایک اور آدمی نکل آیا۔ہم قدرے ڈر رہے تھے کہ بغیر اجازت باغ میں گھس آئے تھے ،نہ جانے یہ کیا سلوک کرے۔اُس نے دُور سے ہی ،اردو زبان میں خیر مقدمی کلمات کہے تو ہماری بھی باچھیں کھل اُٹھیں اور ہماری جان میں جان آئی۔یہ لوگ اِس باغ کے مزدور تھے اور ہمیں دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ہمارے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی ،اکرم بھائی اِن سے تعارف لے چکے تھے اوراِس آدمی کے پیچھے ،وہ بھی آرہے تھے،آتے ہی کہنے لگے ،‘‘لو جی ڈاکٹر صاحب !یہ لوگ تو آپ کے گرائیں (ہمسایہ)نکلے ،آپ کے ڈیرہ غازی خان کے رہائشی ہیں۔’’مجھے بھی خوشی ہوئی ،باہمی تعارف ہوا۔اِن گرائیوں کی اجازت سے ہم کافی دیر باغ میں پھرتے رہے۔گھومتے رہے۔لطف لیتے رہے۔
اُن لوگوں نے ہماری خاطر تواضع کے لیے ،اپنے باغ کی تازہ اُتری ہوئی ،عمدہ کھجوریں بھی پیش کیں۔بڑا لطف آیا۔ درخت سے تازہ اُتری ہوئی کھجوریں،عجب لذت دے رہی تھیں۔آدھ پون گھنٹہ یہاں گزارنے کے بعد ،ہم گاڑی میں واپس آگئے اور واپسی کی راہ اختیار کی۔
آج بڑا عمدہ دِن گزر رہا تھا۔سیرت پاک کے ایک اہم باب کو سمجھنے کے بے پناہ مواقع میسر آرہے تھے۔
الحمد للہ علیٰ ذالک۔گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے عابد بھائی سے کہا کہ،‘‘ پچھلی بار جب میں یہاں،مقام بدر کی زیارت کو آیا تھا تو، آتے ہوئے ٹیکسی والا ہمیں بئیر روحا پر لے گیاتھا۔اب جاتے ہوئے ،اگر اُس کنویں کی زیارت بھی کروا دیں تو بڑا مزا آئے گا۔’’عابد صاحب کہنے لگے ،‘‘ ہاں،میں بھی وہاں گیا ہوا تو ہوں ،راستے کا اندازہ نہیں ،چلو گوگل دیکھتے ہیں ۔’’شکیل بھائی نے گوگل آن کیا اوربئیر روحا کی لوکیشن دے کر وہ عابد صاحب کو ،گوگل کا فراہم کردہ راستہ بتاتے رہے اور خاکسار ایک بار پھرتاریخ میں گھس گیا۔
ہمارے واپسی کے اسِ سفر کے دوران میں بھی،میرے ذہن کے دریچوں میں، سیدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی،میدان بدر سے فرحت انگیزواپسی کے مناظر کُھلتے رہے۔روایات میں آتا ہے کہ فتح کے حاصل ہو جانے کے بعد،تین دِن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام بدر میں ہی خیمہ زن رہے۔کسی جنگ میں فتح کی یہ بھی علامت سمجھی جاتی ہے کہ فاتح میدان جنگ میں ،بعد از جنگ موجودرہتا ہے اور ہارنے والا فریق میدان چھوڑ جاتا ہے۔دوسرے دِن سب سے پہلے زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی۔پھرشہدائے کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کو دفنایا گیا ۔اِ ن شہدا ئے کرام کی میتوں کو نہ غسل دیا گیا اور نہ ہی کفن پہنایا گیا۔سراپا رحمت نبی کی دشمنوں کے ساتھ بھی شفقت و رحمت ملاحظہ فرمائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واصل جہنم ہونے والے کافروں کی لاشوں کو بھی ، درندوں،گِدھوں،کتوں،چیل اور کوّوں کے لیے چھوڑنے کی بجائے ، ایک سلیقے سے ٹھکانے لگانے کا حکم دیا گیا ،وہ اس طرح کہ ،اُن سب بد بخت لاشوں کو، ایک کنویں میں پھینکوا کر ،اُسے اُوپر سے بند کر وا دیاگیا۔
مدینہ طیبہ کی طرف فتح کی خبر پہنچانے کے لیے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ کیا گیا ۔ سواری کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے،انھیں اپنی اُونٹنی قصویٰ عنایت فرمائی۔ان کے علاوہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ کوبھی عوالی(مدینہ طیبہ کا اُوپر والا حصہ) کی طرف روانہ فرمایا۔حضرت زید ؓ اُس وقت ،فتح کی یہ خوشخبری لے کر، مدینہ طیبہ پہنچے جب حضور ﷺ کی صاحبزادی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تدفین ہو رہی تھی۔خوشی اور غم جمع ہو گئے تھے۔ چونکہ مدینہ طیبہ میں،فتح کی اطلاع پہلے ہی پہنچ چکی تھی ،اِس لیئے چیدہ چیدہ لوگ ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح لشکر کا اسقبال کرنے کے لیے آگے کو روانہ ہو آئے اور مقام روحا پر یہ لوگ حضور ﷺ سے آملے اور پیغامات تہنیت کا تبادلہ ہوا۔خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ روحا پرہی مجاہدین کے قافلے کا، رات بھر قیام رہا اورپھر اگلے دِن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔
روحا والا کھوہ:
اور اب ہم بھی اُسی مقام روحا کی طرف ہی گامزن تھے جہاں ایک کنواں بھی ہے جسے بئیر روحاکہتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب !یہ دیکھئے یہ سامنے بیئر روحا ہے۔’’یہ کہتے کہتے ،عابد صاحب نے گاڑی کو ایک طرف کچے میں اُتار لیا ۔ ‘‘بیئر روحا’’ کا نام سن کر میرے کان کھڑے ہوئے،انگ انگ سے خوشی پھوٹنے لگی کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں یہ نام پڑھ رکھا تھا۔یہ ایک ایسا مقام تھا جہاں میرے آقا ؐ بدر کو جاتے ہوئے رکے تھے اور کچھ دیر پڑاؤ کیا تھا اورپھرعام کاروانی شاہراہ کو چھوڑ کر دائیں جانب مڑ گئے تھے۔غزوہ بدر سے واپسی پر بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تھا اور ایک رات یہاں پڑاؤ ڈالے رکھاتھا ،جیسا کہ ابھی ابھی ذکرکر چکا ہوں، اور پھراگلی صبح،آپؐ مدینہ شریف تشریف لے گئے تھے۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہم آج اُس تاریخی مقام پر تھے۔
یہ لیجیے ، بئیر روحا آگیا ہے ۔ ہماری گاڑی ایک کنویں کی منڈیر کے پاس رک رہی تھی۔ایک دو کاریں اور زائرین کی ایک بس بھی پہلے ہی سے یہاں رکی ہوئی تھیں ۔ ہم بھی گاڑی سے نیچے اُتر آئے ۔ہمارے سامنے تھل کا منظر تھا۔خشک بنجر اور ریتلا علاقہ،برائے نام سبزہ اور چھوٹے پتوں والے خال خال درخت، ریگستانی جڑی بوٹیاں اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں،جنگلی کیکر،جال اوردیسی اَک وغیرہ ،جیسے ہمارے ہاں تھل یا چولستان کا منظر ہوتا ہے ۔ تھل کے اِس کینوس میں ،ہمیں ایک کنواں بھی نظر آرہا تھا۔یہ بیئر روحا ہے ۔روایات میں آتا ہے کہ یہ کنواں اُس وقت کڑوا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اندر اپنا لعاب مبارک ڈالا تو یہ کنواں میٹھا اورشیریں ہو گیا۔آج ہم اس معجزہ دار کنویں کے پاس تھے۔ کنواں اب بھی آباد تھا۔موٹر لگی ہوئی تھی ،نل نیچے کنویں میں جارہے تھے اور پانی کا ایک بڑا سا ٹینک رکھا تھاجس میں موٹروں کے ذریعے پانی بھرا رکھا ہوتا ہے۔اس ٹینک سے واپس ایک نل میں لگی ٹوٹیوں سے پانی لیا جاتا ہے اور اُس وقت بھی اِکا دُکا لوگ پانی لے رہے تھے ۔ کچھ لوگوں نے وہاں خالی بوتلوں کے اور دیگر چھوٹی موٹی ضروریات کی چیزوں کے اسٹال بھی لگا رکھے تھے ،جیسا کہ عام طور پر اِس طرح کی زیارت گاہوں میں ہوتا ہے ۔ ہم نے بھی وہاں سے پانی پیا اور اپنی پیاس بجھائی۔قرائن یہی بتا رہے تھے کہ ہم نے وہیں سے پانی پیا تھا جہاں سے صدیوں قبل میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مجاہدین نے پانی پیا تھا۔آس پاس کوئی آبادی نظر نہیں آئی البتہ قدرے دور کچھ رونق سی دکھائی دے رہی تھی۔
کچھ دیر ٹھیرنے کے بعد،ہم نے مدینہ شریف کے لیے واپسی کی راہ لی اور تقریباً ایک گھنٹے بعد مدینہ شریف پہنچ گئے۔آج ہم بہت خوش تھے اور عابدصاحب اور عرفان صاحب کے شکر گزار تھے کہ آج اُن کی بدولت ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نقوشِ پا کی خاک پھانکنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی اور ایک ایسے علاقے کی زیارت نصیب ہوئی تھی جو ہمارے حج کے اِس پروگرام کا حصہ نہ تھی اوریہ دونوں بھائی ،اگر ہمت نہ کرتے تو ہمارے لیے مقام بدر کی سیروزیارت، بظاہر ممکن بھی نہ تھی۔