کھانے اور پینے کے بارے میں روایات

مصنف : خالد مسعود

سلسلہ : حدیث نبویﷺ

شمارہ : مارچ 2021

پیغمبر ﷺ کی دعا سے کھانے میں برکت
عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں کمزوری محسوس کی ہے۔ میرے خیال میں آپ بھوک میں مبتلا ہیں۔ کیا تمھارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ انھوں نے چند ٹکیاں جو کی نکالیں، ان کو اپنی اوڑھنی کے کچھ حصہ میں لپیٹا اور میری بغل میں دے دیا اور اوڑھنی کا کچھ حصہ میرے اوپر ڈال دیا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ آپ کے پاس اور لوگ بھی ہیں۔ میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: کھانے پر بلایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے کہا: چلو۔ سب لوگ چل پڑے اور میں ان کے آگے آگے تھا، یہاں تک کہ میں ابوطلحہ کے پاس آیا اور ان کو خبر دی۔ ابوطلحہ نے ام سلیم سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا تو نہیں کہ ان کو کھلا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ام سلیم، لاؤ کیا ہے تمھارے پاس۔ انھوں نے وہی روٹیاں پیش کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ چورا کی گئیں اور ام سلیم نے اپنی چمڑے کی کپی اوپر انڈیل دی اور اس کو سالن دار کر دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جو چاہا دعا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو اندر بلاؤ۔ آپ کی اجازت سے انھو ں نے کھایا، آسودہ ہو گئے اور نکل گئے۔ آپ نے پھر کہا: کہ دس آدمیوں کو بلاؤ۔ آپ کی اجازت سے انھوں نے کھایا، آسودہ ہو گئے اور نکل گئے۔ آپ نے پھر کہا: دس آدمیوں کو بلاؤ۔ آپ کی اجازت سے انھوں نے کھایا، آسودہ ہو گئے اور نکل گئے۔ آپ نے پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ، آپ کی اجازت سے انھوں نے کھایا، آسودہ ہوئے اور نکل گئے۔ آپ نے پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو بلاؤ، یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھایا اور آسودہ ہو گئے۔ یہ تمام لوگ ستر یا اسی آدمی تھے۔
وضاحت
یہ روایت صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری کتابوں میں بھی آئی ہے، لیکن الفاظ ہر جگہ بدلے ہوئے ہیں۔ زرقانی نے دس روایتوں کا حوالہ دیا ہے اور ان سب میں الفاظ مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں موقع ایک ہی ہے، البتہ واقعات مختلف ہو سکتے ہیں جن کو اکٹھا کر کے ایک واقعہ بنانے میں کامیابی نہیں ہوتی۔ بعض محدثین کا خیال ہے کہ ان تمام روایات کے مواقع الگ الگ ہوں گے، حالاں کہ واقعات کا اختلاف اس بات کا قرینہ نہیں ہوتا کہ ان کا موقع الگ الگ ہو۔
بعض روایات کی رو سے یہ واقعہ غزوہ خندق کے دوران پیش آیا۔ اس روایت میں جَو کی روٹیوں کاذکر ہے جن کا چورا بنایا گیا اورا س میں گھی یا تیل ملا کر نرم کیا گیا۔ دوسری روایات میں بکری ذبح کر کے شوربے کے ساتھ روٹی کھلانے کا۔ اگر یہ واقعہ غزوہ خندق کا ہے تو مسجد سے مراد مسجد نبوی نہیں ہو گی، بلکہ وہ جگہ ہو گی جہاں سب لوگ نماز کے لیے جمع ہوتے ہوں گے۔ اس روایت کے مطابق روٹیاں تیار تھیں، جبکہ دوسری روایت میں یہ ہے کہ مزدوری کے معاوضہ سے غلہ خرید کر پیسا گیا اور اس سے روٹی بنائی گئی۔ روایات میں کھانے والوں کی تعداد کا فرق بھی ہے۔ بعض کے نزدیک یہ تعداد چالیس تھی۔باقی رہ گئی یہ بات کہ کھانے میں برکت ہو سکتی ہے تو یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ برکت ہوتی ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد اس میں ہر برکت کی توقع ہو سکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو معجزات بائبل میں بیان ہوئے ہیں، ان میں بھی ہے کہ بعض اوقات لوگوں کی بھیڑ ہوتی تھی کہ آپ ان کو کھانے کی دعوت دے دیتے۔ ان کا خادم پوچھتا کہ ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ وہ کہتے کہ تم کھلاؤ گے۔ وقت آنے پر پوچھتے کہ تمھارے پاس کتنی روٹی ہے؟ وہ کہتے: تین یا پانچ۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا معجزہ دکھاتے اور تمام گروہ کھا کر آسودہ ہو جاتا اور اس کے بعد بھی روٹی کے کئی ٹوکرے اٹھائے جاتے۔ لہٰذا پیغمبر کی دعا کی برکت سے ایسا ہونا ممکن ہے۔
کھانے میں برکت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے کافی اور تین کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
وضاحت
واقعہ یہ ہے کہ اگر دل میں جگہ ہو تو کھانے میں بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر دل تنگ ہو تو پھر کھانے کی برکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ہر روز تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ کھانا اگرچہ دو آدمی کا ہوتا ہے، لیکن تین چار کھا لیتے ہیں۔ روایت کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حکم ہے، بلکہ یہ ہے کہ ایسا ہونا چاہیے۔ آدمی کے دل میں فیاضی اور وسعت ہو، قناعت اور ایثار ہو، خود غرضی اور طمع نہ ہو۔
روزمرہ زندگی کے بارے میں حضورﷺ کی نصیحتیں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے سے پہلے دروازہ بند کر لو، مشکیزہ باندھ دو، برتن ڈھانک دو اور چراغ گل کر دو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا، نہ مشکیزہ کا بندھن کھولتا اور نہ برتن کو کھولتا ہے، جبکہ چوہیا لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دیتی ہے۔
وضاحت
روزمرہ زندگی سے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایات دی ہیں جو بے حد قیمتی ہیں۔ یہ حکمت کی تعلیم ہے۔ چھوٹی چھوٹی بے پروائیاں بعض اوقات بہت سنگین نتائج تک پہنچا دیتی ہیں۔ لہٰذا آدمی کو محتاط رویہ رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید کی روشنی میں شیطان کو جو اختیار حاصل ہے، وہ بس اتنا ہے کہ صرف وسوسہ اندازی کرے۔ وہ عملاً کچھ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ دلوں میں غلط فہمیاں ڈال کر فتنہ اندازی کرتا ہے۔ اگر اسے عملاً نقصان پہنچانے کا اختیار ہو تو کوئی گھر سلامت نہ رہے۔ اسی حقیقت کی تعبیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
'فُوَیْسِقَہ' کا لفظ بہت ہی عمدہ ہے۔ طبیعت پھڑک اٹھی۔ یہ 'فاسقہ' (چھنال) کی تصغیر ہے اور حضور نے اس سے مراد چوہیا کو لیا ہے جو گھروں میں بڑے نقصانات کر دیتی ہے۔ گذشتہ زمانے میں اور آج بھی دیہاتوں میں سرسوں کے تیل کے دیے استعمال ہوتے ہیں۔ چوہیا کی غذا اس میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ جلتی بتی لے اڑتی اور گھر میں آگ لگا دیتی ہے۔
بھلی بات کرو یا چپ رہو
ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ بھلی بات کرے یا چپ رہے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے، ایک دن اور ایک رات اس کی خاطر تواضع کرے اور تین دن تک میزبانی کرے۔ اس کے بعد جو ہے، وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنا ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ کر دے۔
وضاحت
زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن نہ فرمایا ہو۔ اس روایت میں زندگی کے بعض گوشوں کے متعلق رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ زبان کھولے تو خیر کے لیے ورنہ خاموش رہے، کیونکہ سارے فتنے زبان کے بے جا استعمال سے جنم لیتے اور بالآخر آدمی کو جہنم میں لے جاتے ہیں۔ فضول بکواس، غیبت، تہمت، تحقیر نہیں کرنی چاہیے۔ کلمہ خیر ہے تو ٹھیک، ورنہ خاموشی اختیار کرنا ہی بھلے لوگوں کا طریقہ ہے۔اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پڑوسی کی عزت اور مہمان کی قدر کرے، ورنہ اس کا ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت معتبر نہیں۔ مہمان کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ پہلے دن اور رات کو آدمی اس کی خاطر تواضع کرے اور اس کے بعد تین دن تک ضیافت کرے، یعنی جو کچھ خود کھاتا ہے، وہ اسے بھی کھلائے۔ اس کے بعد اس کو کھانا کھلانا صدقہ ہے، یعنی وہ مہمان نہیں، بلکہ سائل کے درجہ میں ہو گا۔ مہمان کے لیے آپ نے یہ نصیحت فرما دی کہ وہ اتنا قیام نہ کرے کہ میزبان کی زندگی اجیرن کر دے۔
جانوروں کو پانی پلانا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص راستے میں جا رہا تھا کہ اس کو سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں پایا تو اس میں اتر گیا۔ اس نے پانی پیا اور نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپتا ہوا پیاس کے باعث مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس کو خیال آیا کہ اس کتے کو بھی وہی پیاس ہے جس سے مجھے سابقہ تھا۔ وہ کنویں میں اترا، اپنا موزہ پانی سے بھرا اور منہ میں پکڑ لیا، یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا۔ پھر پانی کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ خدمت پسند آئی تو اس کو بخش دیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا جانوروں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: جی، ہر زندہ جانور میں کہ جس کے اندر جگر ہے، اس کا اجر ہے۔
وضاحت
بعض اوقات جس جذبے کے تحت کوئی کام کرتا ہے، وہی اس کی اصل فطرت ہوتا ہے جس شخص کا یہ جذبہ تھا کہ کتے کی پیاس دیکھ کر یہ کہے کہ اس کو بھی میرے جیسی پیاس لگی ہے، وہ یقیناًبھلا آدمی ہو سکتا ہے، فاسق و فاجر شخص نہیں ہو سکتا۔ یہ ہر آدمی کا کام نہیں۔ اس شخص نے ایک ایسی خدمت کر دی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اس کو معاف کر دیا۔ میرے خیال میں اس طرح کے آدمی نہایت شریف اور بنیادی طور پر نیک ہوتے ہیں۔ ان کے اندر رحم کا جذبہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے آدمی کی غلطیاں ایسی نہیں ہوتیں کہ اس کو جہنم میں لے جائیں، بلکہ ان کی اس طرح کی نیکیوں سے دھل جاتی ہیں۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کوئی زانیہ فاسقہ عورت ایسا کام کرے تو بخش دی جائے گی تو بحث پیدا ہوتی ہے۔ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ اس طرح کے لوگ کبھی توفیق نہیں پاتے۔ جو بھلے لوگ ہوتے ہیں، ان کو ہی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ کوئی چھوٹی سی نیکی بھی وہ اس شان سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو جاتا ہے۔ اور اس کی خوشی ان کی بخشش کے لیے کافی ہوتی ہے۔ایک بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی کی اس نیکی نے اس کے اچھے اعمال کے پلڑے کو اتنا بھاری کر دیا کہ اس کے گناہوں کا پلڑا مقابلتاً ہلکا ہو گیا۔ جس خلوص سے اس نے نیکی کی، اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی اس میں شامل کر کے اس کے نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کر دیا۔ 'ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء'۔
مچھلی کھانا
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی جانب ایک مہم بھیجی اور اس پر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا۔ یہ پوری پارٹی تین سو آدمیوں کی تھی اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ کہتے ہیں کہ جب ہم راستے میں ہی تھے تو زادراہ ختم ہو گیا۔ لشکر کے پاس جتنا غذائی سامان تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سارے کا سارا جمع کرنے کا حکم دیا۔ یہ کھجور کے دو توشہ دان بنے۔ کہتے ہیں کہ امیر ہمیں روزانہ تھوڑا تھوڑا راشن دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہو گیا اور ہمیں اس میں سے ایک ایک کھجور ملنے لگی۔ میں نے کہا: اس ایک کھجور سے کیا بنتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے اس کی کمی کو اس وقت محسوس کیا جب وہ بھی ختم ہو گئی۔ پھر ہم ساحل پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پہاڑی کی طرح کی ایک مچھلی پڑی ہوئی ہے۔ لشکر نے اس سے اپنی غذائی ضرورت پورے اٹھارہ دن پوری کی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں، پھر انھوں نے سواری کے اونٹ پر کجاوہ رکھوایا، پھر وہ سواری ان کے نیچے سے گزاری گئی اور وہ ان پسلیوں کو چھوئی نہیں۔
وضاحت
یہ واقعہ سریہ سیف البحر کا ہے۔ زادراہ ختم ہو جانے پر ایک عظیم الجثہ مچھلی کا ملنا مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد تھی جو غیر متوقع طور پر ان کو حاصل ہوئی اور انھوں نے اٹھارہ روز تک مچھلی کھائی۔ اس زمانے میں آج کل کے فریزر تو نہیں تھے۔ گوشت خشک کر کے رکھتے تھے۔ مچھلی کا بھی اور دوسرے جانوروں کا بھی۔ شریعت میں سمندر کا جانور حلال ہے اور اس کے لیے زندہ پکڑے جانے کی کوئی شرط نہیں۔ ہمارے ہاں فقہا میں دو گروہ ہیں، جو دو انتہاؤں پر ہیں۔ احناف کے ہاں معروف مچھلی کے سوا اور کوئی چیز جائز نہیں، حالاں کہ مچھلیاں بہت بڑی بڑی بھی ہوتی ہیں۔ شوافع کے ہاں شاید چند جانوروں کے سوا باقی سب سمندر ی جانور جائز ہیں۔ سمندری گھوڑے کچھوا اور کیکڑے بھی ان کے مذہب میں حلال ہیں۔ عام تصور دین میں بھی ان کی فقہ میں بڑی وسعت ہے۔ احناف نے بالکل پابند کر دیا ہے۔ میرے خیال میں دونوں میں تھوڑی سی افراط و تفریط ہے۔ اصل میں دیکھا یہ گیا ہے کہ خشکی کے جانوروں میں جیسے ریچھ، سانپ اور بچھو بھی ہیں، اسی طرح پرندے بھی ہیں اور درندے بھی۔ پھر پرندوں میں بھی درندے ہیں، جو گوشت کھانے والے جانور ہیں۔ مذاق سلیم کے ساتھ یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ کون سی چیزیں کھانے کی ہیں اور کون سی کھانے کی نہیں ہیں۔ چوپایوں میں بہت سے جانور جو جنگل میں پائے جاتے ہیں، مثلاً ہرن، گورخر، نیل گائے وغیرہ، یہ سب مویشی چوپایوں کے حکم میں ہیں۔ اسی طرح سمندری جانوروں میں بہت سے ہیں جو خشکی کے درندوں (سباع) یا سانپوں کے مشابہ ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو انھی جانوروں کی مانند ہیں جن کو ہم کھاتے ہیں۔ مؤخرالذکر کا کھانا تو بلاشبہ جائز ہے، لیکن جو جانور سانپوں اور بچھوؤں کے مشابہ ہیں، ان کو نہیں کھانا چاہیے۔ علیٰ ہٰذالقیاس سمندری پرندے مچھلیوں کے حکم میں نہیں آتے، بلکہ ان کا ذبح ہونا ضروری ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ وہ سمندر میں بھی رہتے ہیں اور خشکی پر بھی رہتے ہیں۔ ان کا دونوں طرف آنا جانا ہوتا ہے۔ ان میں بھی بہت سے پرندے ایسے ہیں کہ جن کے گوشت میں حلت و حرمت کی بحث پیدا ہوتی ہے۔ میں نے سمندر کا سفر کیا ہے اور دیکھا ہے کہ غول کے غول پرندے ہوتے ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانے کے نہیں ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانے کے ہیں۔باقی رہ گئی یہ بات کہ کیا اتنی بڑی مچھلی ہو سکتی ہے جس کی پسلیوں کو کھڑا کیا جائے تو ان کے نیچے سے اونٹ گزر سکے تو ایسا ہونا بعید نہیں۔ وہیل مچھلیاں بہت بڑی ہوتی ہیں۔ ان کے پیٹ میں کئی ہاتھی سما سکتے ہیں اور یہ مچھلیاں بعض اوقات سمندروں کے ساحلوں پر مردہ پائی بھی جاتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی ہی مچھلی مجاہدین کی خوراک بنی۔
پڑوسیوں کو تحفہ بھیجنا
عمرو بن سعد کی دادی روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنین کی بیویو، تم میں سے کوئی بھی اپنی پڑوسن کے لیے حقیر نہ سمجھے، اگرچہ بکری کی ایک جلی ہوئی کھری ہی کیوں نہ ہو۔
وضاحت
یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی ہے کہ اے مومن خواتین، تم میں سے کوئی بھی اپنی پڑوسن کے لیے اپنے تحفہ کو حقیر نہ جانے، اگرچہ یہ تحفہ بکری کی جلی ہوئی کھری ہی کیوں نہ ہو۔ بکری کا جلا ہوا کھر یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ہو تو یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ایسا تحفہ کیا دینا۔ جو کچھ بھی میسر ہو، اس میں سے تحفہ بھیجنا چاہیے۔ یہ محبت کا اظہار ہے۔ محبت کے اسی اظہار کے لیے دوسری روایت میں آیا ہے کہ تحفے دیا کرو۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ کوئی اچھی سی چیز ہو تو تحفہ بھیجوں۔ اپنے اظہار تعلق کے لیے یہ ضروری ہے کہ کچھ بھی ہو بھیجنا چاہیے اور تحفہ وصول کرنے والے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی تحفہ کو حقیر نہ خیال کرے۔ 'کراع' بکری کے کھر کو کہتے ہیں اور اس کو تیار کرنے کے لیے آگ پر جلاتے ہیں۔ جب اس کا سوپ نکلتا ہے تو وہ کوئی حقیر چیز نہیں ہوتا، وہ قیمتی ہوتا ہے، اگرچہ کھر خود اتنا قیمتی نہیں ہوتا۔ آج کل تو کھر کے بھی اتنے دام ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر ہوتے تو اتنی قیمتی ڈش کبھی نہ کھاتے۔ نفسیاتی طور پر یہ حقیقت ہے کہ تحفے تحائف محبت بڑھانے کا قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔
جو چیز کھانے کے لیے حرام ہے اس کا بیچنا بھی حرام ہے 
عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ یہود کو غارت کرے کہ ان کو چربی کھانے سے منع کیا گیا تو انھوں نے (یہ حیلہ کیا کہ) اس کو بیچا اور اس کی قیمت کھا گئے۔
وضاحت
قرآن مجید میں ہے کہ یہود کی سرکشی کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اصر و اغلال کی نوعیت کی جو چیزیں ان پر حرام کیں، ان میں چربی بھی تھی، تو انھوں نے یہ طریقہ ایجاد کر لیا کہ چربی بیچ کر اس کی قیمت کھا جاتے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو چیز کھانے کے لیے حرام ہے تو اس کی تجارت کر کے فائدہ اٹھانا بھی حرام ہے۔ جس چیز کا کھانا ممنوع نہیں، اس کی بیع کی حرمت کی بھی کوئی وجہ نہیں۔
قیامت میں نعمتوں کا سوال
مالک کہتے ہیں کہ یہ بات ان کو پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو انھوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو مسجد میں پایا۔ ان سے پوچھا (کہ کیسے آنا ہوا)؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم بھوک کے ستائے ہوئے نکلے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھی بھوک ہی نے نکالا ہے۔ پھر وہ ابوالہیثم بن التیہان انصاری کے پاس گئے تو ان کے پاس جَو کا آٹا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ اس کو بنایا جائے۔ وہ اٹھے کہ مہمانوں کے لیے بکری ذبح کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو دودھ والی سے بچیو۔ انھوں نے ایک بکری ذبح کی اور ٹھنڈا پانی لائے اور اس کا مشکیزہ کھجور کے تنے سے لٹکا دیا۔ پھر کھانا لایا گیا اور اس میں سے سب نے کھایا اور پانی پیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج جو نعمت نصیب ہوئی ہے، اس کے متعلق قیامت میں تم سے پوچھا جائے گا۔
وضاحت
یہ حدیث امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ لیکن موطا میں یہ امام مالک کے بلاغات میں سے ہے۔
اس روایت میں کچھ چیزیں قابل غور ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہی تین ہستیاں امت کا سرمایہ ہیں۔ روایت کی رو سے ان تینوں کا حال یہ تھا کہ بھوک سے لاچار ہو کر گھر سے نکل پڑیں۔ بھوک تو بلاشبہ لگ سکتی ہے، لیکن یہ کیا کہ کھانے کی طلب میں گھر سے نکل پڑیں۔ آخر مقصد کیا تھا؟ کیا یہ تھا کہ کوئی ہمارے چہرے کو دیکھ کر پوچھے کہ کیا بات ہے تو کہہ دیں کہ خیر نہیں ہے، کچھ کھلاؤ۔ یا یہ کہ کوئی ہماری حالت کو دیکھ کر ہی ترس کھا جائے اور کچھ لا کر کھلا دے۔ یہ باتیں میں اپنے متعلق گمان نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گمان کروں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک لگتی رہی ہے، لیکن اور کوئی واقعہ ایسا نہیں پایا کہ گھر سے اس مقصد کے ساتھ نکلے ہوں کہ کوئی کھانا کھلا دے۔علما کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ایک اور روایت کے مطابق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک پیاس نہیں لگتی تھی، جبکہ اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے بھوک نے گھر سے باہر نکالا ہے۔اسی طرح کی ترمذی کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا کہ وہ کیسے آئے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے سوچا کہ آپ کی زیارت ہو جائے گی۔ یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ یہاں یہ روایت امام مالک کے بلاغات میں سے ہے، لیکن مسلم میں یہ حدیث موصول ہے اور اس کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اسلام غزوہ خیبر کے بعد کا ہے۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کا یہ حال نہیں رہا تھا کہ ایسی فاقہ کشی پیش آتی ہو۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں تو خیبر کی کافی جائداد آئی تھی۔ دوسرے مسلمان بھی اس زمانہ میں خوش حال ہو گئے تھے۔ لہٰذا روایت میں بیان کی گئی کیفیت امر واقعہ کے خلاف ہے۔ اگر یہ بات ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کسی سے سن کر پچھلے دور کا واقعہ بیان کیا ہے تو انھیں بتانا چاہیے تھا کہ فلاں سے یہ سنا ہے، کیونکہ وہ خود واقعہ کے شاہد نہ تھے۔ ایک ایسے واقعہ کے متعلق جو اس زمانے میں پیش آیا جب وہ مسلمان بھی نہ تھے تو ان کا راوی ہونا ہی ثابت نہیں ہوتا۔تیسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر یہ تینوں اکابر امت بھوکے تھے تو اس وقت کے معاشرے میں یہ کس کے ہاں مہمان بن کر جا سکتے تھے؟ جن صحابی کا نام یہاں لیا گیا ہے، ان کے ہاں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا جانا معروف نہیں ہے۔ نیز ان کی شخصیت پر بھی راویوں کا اتفاق نہیں ہے۔ دوسری روایت میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں جانے کا ذکر ہے تو ان کے پاس کھجور کا ایسا باغ نہیں تھا، جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ کھجور کا باغ حضرت ابوطلحہ کے پاس تھا۔ وہاں حضور جاتے تو وہ کھجور اور ٹھنڈا پانی پیش کیا کرتے۔ زرقانی نے روایت کے کئی طریقے نقل کیے ہیں اور ہر ایک میں الگ الگ بیان ہے اور یہ معین نہیں ہوتا کہ یہ کس کا قصہ ہے۔یہ اس روایت کی مشکلات ہیں۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے تو اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ پیش آیا ہو گا۔ اور آں حضرت کا یہ فرمانا نہایت برمحل ہے کہ اس نعمت کے متعلق سوال ہو گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوا کہ اپنے گھر سے بھوکے نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اچھا خاصا گوشت کھلا دیا۔
ٹڈی کھانا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے متعلق ان کا فتویٰ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک ٹوکری میرے آگے رکھ دی جائے کہ ہم اس میں سے کھائیں۔
وضاحت
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنگل کے شہد اور ٹڈیوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ ضرورت پر منحصر ہے۔ اگر کوئی دوسری چیز میسر نہ ہو تو ٹڈی کھانا ٹھیک ہے۔ جس چیز کو حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کھایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کھانے کی خواہش ظاہر کی تو اس کا کھانا بہرحال جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ٹڈی جو ہمارے ہاں آتی ہے، اس میں اور صحرا کی ٹڈی میں بڑا فرق ہوتا ہے، لیکن یہ بات کچھ درست نہیں معلوم ہوتی۔ صرف چھوٹی بڑی کا فرق ہو سکتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہی وہ چیزیں ہیں جن کے پیش نظر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا تھا کہ آپ نے اپنے بعد آنے والے تمام خلفا کو شکست دے دی۔ اب کس کی طاقت ہے کہ آپ کی تقلید کر سکے گا۔
کھانے کے آداب
وھب بن کیسان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا لایا گیا اور آپ کے ساتھ آپ کے ربیب عمر بن سلمہ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور جو تمھارے سامنے ہے، اس میں سے کھاؤ۔
وضاحت
ربیب اس بچے کو کہتے ہیں جو بیوی کا اس کے سابق شوہر سے ہو۔ عمر بن سلمہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر ابو سلمہ کے بیٹے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پرورش کرتے تھے۔ جب وہ پلیٹ میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہے ہوں گے تو آں حضرت نے ان کو کھانے کے آداب بتاتے ہوئے فرمایا کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھا کرو اور جب بہت سے لوگ مل کر کھائیں تو ہر ایک کو اس بات کا لحاظ کرنا چاہیے کہ دوسرے بھی کھا رہے ہیں۔ لہٰذا دست درازی نہیں کرنی چاہیے، اور پلیٹ کے اس حصہ میں سے کھانا چاہیے جو اپنے سامنے ہو۔بسم اللہ سے مراد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ جو کہا ہے کہ پہلے لقمہ پر بسم اللہ اور دوسرے پر الرحمن الرحیم پڑھنا چاہیے اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پورا پڑھنا چاہیے۔ ہاں شروع میں اگر بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے یا پھر آخر میں پڑھ لے۔
یتیم کے مال سے ولی کا فائدہ اٹھانا
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ میری نگرانی میں ایک یتیم ہے اور اس کے کچھ اونٹ ہیں، تو کیا میں اس کی اونٹنیوں کے دودھ میں سے کچھ پی سکتا ہوں۔ تو ابن عباس نے اس سے کہا کہ اگر تم اس کے کھوئے ہوئے اونٹ کو تلاش کرتے ہو، خارش زدہ اونٹوں کو تیل ملتے ہو، ان کے حوض کی لپائی کرتے ہو اور ان کی باری کے دن پانی پلاتے ہو تو بے شک پیو، بشرطیکہ ان کے بچے کو نقصان نہ پہنچے اور سارا دودھ نچوڑنے والے نہ بنو۔
وضاحت
قرآن مجید میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ حیثیت کے مطابق یتیم کے مال سے اس کا ولی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسی اجازت کی روشنی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ اگر یہ تمام خدمات انجام دیتے ہو تو دودھ بھی لے سکتے ہو، بشرطیکہ اونٹنی کے بچوں کو اس سے محروم کرنے والے نہ بنو۔
شکر نعمت کے طور پر دعا
ہشام اپنے باپ عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ان کے سامنے کوئی چیز کھانے یا پینے کی لائی جاتی، یہاں تک کہ دوا بھی، اور وہ کھاتے یا پیتے تو یہ دعا ضرور کرتے۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور ہم کو کھلایا اور پلایا اور نعمت بخشی۔ اے اللہ، تو بہت بڑا ہے۔ اے اللہ، تیری نعمت نے ہم کو پایا ہماری تمام برائیوں کے باوجود اور ہم صبح و شام اس کے خیر سے متمتع ہونے لگے۔ اے اللہ، ہم تجھ سے اس نعمت کا اتمام اور اس کے شکر کی توفیق مانگتے ہیں۔ نہیں ہے کوئی خیر تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔ اے نیکوں کے اللہ اور اے عالم کے خدا۔ شکر ہے اللہ کے لیے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ اے اللہ تیرے سوا کوئی قوت نہیں۔ اے اللہ تو نے ہمیں جو رزق دیا ہے، اس میں برکت دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔
وضاحت
روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عروہ نے یہ دعا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی، نہ ہی خود انھوں نے اس کا کوئی حوالہ دیا ہے۔ یہ ان کی اپنی دعا معلوم ہوتی ہے۔ الفاظ کی ترتیب سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے اس کو کوئی مناسبت نہیں۔ اس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں والی چستی نہیں پائی جاتی۔ بہرحال وہ شکر نعمت کے طور پر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
عورت کا نامحرم کے ساتھ کھانا
یحییٰ کہتے ہیں کہ امام مالک سے فتویٰ پوچھا گیا کہ عورت کسی غیر محرم یا اپنے غلام کے ساتھ کچھ کھا پی سکتی ہے؟ امام مالک نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ وہ اس طریقے سے کھائے جو عورت کے لیے معروف ہے۔ انھوں نے کہا کہ عورت کبھی کبھی اپنے شوہر کے ساتھ اور کبھی کسی دوسرے کے ساتھ جس کے ساتھ اس کا کھانا پینا ہوتا ہے یا اپنے بھائی کے ساتھ کھانا کھا لیتی ہے۔ لیکن یہ مکروہ ہے کہ عورت کسی ایسے آدمی کے ساتھ تنہا ہو جس کی اس کے ساتھ حرمت نہیں ہے۔
وضاحت
یہ امام مالک کا فتویٰ ہے کہ نامانوس غیر محرم آدمی کے ساتھ تنہا بیٹھ کر عورت کے کھانے پینے میں حرج ہے۔ لیکن اعزہ و اقربا میں سے اور دوستوں میں سے بھی جو اعتماد کے لوگ ہوتے ہیں، اگر کھانے میں شریک ہو جاتے ہیں تو ان کی موجودگی میں کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ نہ ہو تو معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
٭٭٭

 

بشکریہ : از افادات، مولانا امین احسن اصلاحی ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد