ترجمہ و تشریح مولانا امین احسن اصلاحی (انتخاب: اظہار احمد)
رسول اللہ ﷺ سے محبت ……ایمان کا جزو
‘‘حَدَّثَنَا اَبُو الیَمَانِ قَالَ : اَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ قَالَ : حَدَثَنَا اَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الاَعْرَج، عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَّ رَضِیَ اﷲ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَا یُوْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ’’
﴿حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والداوراولاد سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔﴾
حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بِنْ اِبْرَاھِیمَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ،عَنْ عَبْدِالْعَزِیزِ بْنِ صُھَیْبٍ،عَنْ اَنسٍ عَنِ النَّبِیِ ﷺ و حَدَّثَنَا آدمُ قَالَ :حّدَّثَنَا شُعْبَۃُ،عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ اَنْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲ ِ ﷺ ‘‘لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُون اَحَبَّ اِلَیہِ مِنْ وَالِدِہِ وَ وَلَدِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِینَ’’
﴿حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں : اس کے باپ ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کو محبوب نہ بن جاؤں۔﴾
تشریح:
ان روایات میں آنحضرت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی کے اندر آپ ؐ کے لیے محبت ماں باپ ، اولاد اور تمام مخلوق کے مقابلے میں زیادہ ہو۔اس سے مراد وہ جذباتی محبت نہیں جوآدمی کو اپنی بیوی یا اولاد سے ہوتی ہے۔ جذبات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ان میں مداخلت نہیں ہو سکتی ۔ یہاں مراد عقلی اوراختیاری محبت ہے ۔ یہ سب سے زیادہ نبی ﷺ کے ساتھ ہونی چاہیے ۔ اس محبت کا معیار قرآن و حدیث دونوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر آدمی کے سامنے کوئی ایسا موڑ آجائے جہاں اس کو یہ فیصلہ کرنا ہو کہ ماں باپ اور بیوی بچوں کی محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ کام کروں لیکن نبی ﷺ کا حکم اس کے خلاف ہے۔ اگر آدمی اس موڑ پر اس چیز کو اختیار کر لے جو نبی ﷺ کا حکم ہے اور بیوی بچوں یاماں باپ کی خواہش کو نظر انداز کردے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام خلق سے زیادہ نبی ﷺ سے محبت کرتاہے۔ یہ ایمان کا بدیہی اور عقلی تقاضا ہے۔ ماں باپ اور اولاد کے علاوہ اس میں دوسری سب چیزیں شامل ہو جائیں گی۔ جیسے خاندان، برادری ، قوم ، وطن وغیرہ۔ حقیقی ایمان وہی ہے جو اس کسوٹی پر پورا اترے۔ باقی رہا قانونی ایمان تو وہ یہ ہے کہ جب تک آدمی لاالہ الا اللہ کا انکار نہ کر دے یاکسی ایسی چیز کا اعلان نہ کردے جو اس کلمے کے منافی ہے تب تک اس پر لفظ مسلمان کا اطلاق ہوگا اور اس پر مسلمانوں کا قانون لاگو رہے گا۔ مردم شماری میں وہ مسلمان ہی شمار ہوگا اگرچہ حقیقی ایمان سے خالی ہو۔
حضور کی محبت کے ضمن میں ایک بات جویاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے لیے محبت کا لفظ ہی مناسب ہے۔ عشق کا لفظ بازاری اور اس کا استعمال غنڈہ پن ہے۔ اللہ اور رسول کے ساتھ عشق کا کیا مطلب ؟ اللہ اور رسول کی محبت تو ایک معلوم شے ہے اور اس کے لیے ایک کسوٹی بھی موجود ہے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے ۔ عشق کا لفظ نہ قرآن میں استعمال ہواہے نہ حدیث میں اور نہ ہی کسی مہذب آدمی کویہ لفظ استعمال کرنا چاہیے ۔ اس عشق کے لیے کوئی پیمانہ بھی مقرر نہیں۔ اس وجہ سے خیریت اسی میں ہے کہ اللہ اور رسول کے لیے محبت ہی کا لفظ استعمال کیاجائے جو قرآن و حدیث دونوں میں استعمال ہوا ہے اور جو نہایت پاکیزہ لفظ ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محض عقلی و اصولی ہی نہیں تھی بلکہ جذباتی بھی تھی لیکن یہ جذبات کبھی حدودِکتاب وسنت سے متجاوز نہیں ہوتے تھے۔ ایک طرف یہ حال تھا کہ صحابہ اپنے اوپر بڑی سے بڑی تکلیف اٹھا لیتے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں ایک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں ان کے اپنے جسم تیروں سے چھلنی ہو جاتے تھے لیکن وہ یہ نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے جیتے جی آپؐ کا بال بھی بیکا ہو ۔ مرد تومرد عورتوں تک کے جذبات کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے بیٹے اور شوہر اور باپ اور بھائی سب کو قربان کر کے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی آرزو رکھتی تھیں، دوسری طرف اتباع سنت کا یہ اہتمام تھا کہ اس محبت سے مغلوب ہوکر بھی کبھی کوئی ایسی بات ان سے صادر نہیں ہوتی تھی جو آپؐ کی صریح ہدایات تو درکنار ، آپؐ کی پسند ہی کے خلاف ہو، حضرت انسؓ کا بیان ملا حظہ ہو :
عن انس قال لم یکن شخص احب الیھم من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکانوا اذا رأوہ لم یقوموا لما یعلمون من کراھیتہ لذالک۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص بھی محبوب نہ تھا ۔ لیکن جب وہ آپؐ کودیکھتے تو آپؐ کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہوتے کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آپؐ اس بات کو نا پسند کرتے ہیں۔
از افاداتِ غامدی
نبی ﷺ کی محبت کے ضمن میں قرآن مجید کی متعلقہ آیات میں اَحَبّ الیکم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اردو زبان میں ان الفاظ کا قریب ترین ترجمہ عزیز تر ہو سکتاہے ۔ چنانچہ مطلب یہ ہو گا کہ اگر حضورؐ کے مقابلے میں کوئی اور ہستی کسی انسان کے ہاں عزیز تر ہو جائے تو پھر یقینا ایمان میں نقص پیدا ہوجائے گا۔
انسانی زندگی میں عام طور پر تین مواقع پر اس محبت کا Test ہوتا ہے۔
۱۔ جب معاشی معاملات میں کسی غیر معمولی اقدام کا سامنا کرنا پڑے:مثلاً سود کا ترک کرنا۔ انسان اگر معاشی مفاد میں سود کو ترجیح دے لے تو گویا حضورؐ کی محبت قربان ہو گئی اور ایمان خطرے میں آگیا۔
۲۔ جب کسی خاص مقام پر دین و ایمان کو خطرات لاحق ہو جائیں: اس موقع پر انسان اگر ہجرت کا فیصلہ کرلے تو گویا اس نے حضورؐ کی محبت کو ترجیح دے کر اپنا ایمان بچا لیا۔
۳۔ جب جہاد کا موقع آجائے : اگر انسان کی زندگی میں جہاد کا تقاضا سامنا آجائے اور انسان اس موقع پر اس تقاضے پر باقی سب محبتیں قربان کر دے توپھر بھی اس نے حضورؐ کی محبت کایا دوسرے لفظوں میں اپنے مومن ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا۔
قرآن مجید کی متعلقہ آیات بھی غزوہ تبوک کے پس منظر ہی میں بیان ہوئی ہیں ۔یہ موقع کلام بھی اس بات کومزید موکد کرتاہے کہ حدیث میں حضورؐ سے جس محبت کا تقاضا کیا گیاہے وہ عقلی و اختیاری محبت ہے اور اس کی آزمایش عام طورپر انھی مواقع پر ہوتی ہے جب دومحبتوں میں تصادم پیدا ہو جائے ۔ یعنی ماں کی محبت کچھ اور تقاضا کر رہی ہو اور دین کی محبت کچھ اور۔ باپ کسی اور طرف بلا رہاہو اور حضورؐ سے تعلق کسی اور طرف اس موقع پر انسان عقلی و شعوری طورپر جس طرف کو ترجیح دے گا۔ اس کی محبت گویا اس کے دل و دماغ پر غالب ہوگی۔