عموماً ایک حدیث کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس لئے وہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اس کی حقیقت اور مقصد کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے حدیث کا پورا سیاق وسباق سامنے رکھنا ہوگا۔ عام طور محدثین باب کی مناسبت سے حدیث کا مختصر ٹکڑا نقل کردیتے ہیں۔ یہاں پہلے یہ حدیث امام بخاری کے استاذ اسحاق بن راہویہ کی مسند سے پوری نقل کی جاتی ہے:‘‘حضرت ابوہریرۃ رضی للہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے (یعنی اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ) وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ایذا نہ پہنچائے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ مہمان کی اچھے انداز سے میزبانی کرے، پوچھا گیا یا رسول اللہ مہمان کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تین راتیں، اس کے بعد مہربانی (صدقہ) ہے۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اگر کسی معاملے میں شریک یا وہاں موجود ہو تو اسے چاہئے یا تو اچھائی والی (ایک روایت میں سچائی والی) بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ عورتوں کے بارے میں میری طرف سے حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت قبول کرو، اس لئے کہ وہ ایک پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلی کا اوپر زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے، اگر تم پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو (سیدھی تو نہیں ہوگی البتہ اس کوشش میں) اسے توڑ ڈالوگے، اور اگر تم اسے (پسلی کو) اپنے حال پر رہنے دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، لہذا (ایک بار پھر) عورتوں کے بارے میں بھلائی کی میری تاکیدی نصیحت قبول کرلو۔''
اس پوری حدیث سے معلوم ہواکہ اس کا سیاق اورcontext مرد اور عورت کی حیثیت اور مرتبے کا تعین یا ان کا طریقہ تخلیق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ سماجی تعلقات کے بارے میں ہدایات دینا ہے۔ اس سلسلے میں تین قسم کے لوگوں کے بارے میں ہدایات ہیں ایک وہ جن سے کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے، جسے یہاں ضیف یعنی مہمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عرب معاشرے میں ‘‘ضیف’’ کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے مستقل گفتگو کی ضرورت ہے۔ دوسرے اپنی سوسائٹی کے وہ لوگ جن سے بکثرت واسطہ پڑتا یا ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں، جسے عربی میں ‘‘جار’’ یعنی پڑوسی کہا جاتا ہے (یہ لفظ بھی ذرا وضاحت کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں) تیسرے نمبر پر جن سے سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے اور یہ وہ فیملی ممبرز ہیں جن میں مرد بھی ہوتے ہیں عورتیں بھی۔ عرب کا معاشرہ دنیا کے بیشتر معاشروں کی طرح مرد کی بالا دستی والا معاشرہ تھا، ایسی صورت میں بہتر تعلقات کے لئے کمزور کو طاقت ور کے حقوق یاد دلانے کی بجائے بالا دست کو زیر دست کے حقوق کی یاد دہانی ہی زیادہ بہتر طریقہ ہوتا ہے۔ سو آپ نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مخاطب بنایا ہے پہلے جملوں میں دیگر طبقات(ضیف، جار) کے ساتھ حسنِ سلوک کے لئے جو اسلوب اختیار کیا گیا یہاں موضوع کے اس حصے کی اہمیت کی وجہ سے اسے کہیں زیادہ زور دار اسلوب اختیار فرمایا اور اختصار کی بجائے طوالت کو ترجیح دی۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے موضوعِ بحث مردوں کو عورتوں کے حوالے سے حسن سلوک کی تاکید کرنا ہے، اور یہ کہ آپ ﷺ مرد کے بارے میں زیادہ خطرہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ دوسرے فریق کی حق تلفی کرے گا اس لئے پورے زور کے ساتھ اسے ہی مخاطب بنایا جارہا ہے۔
عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اتنا تو قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے پہلے ایک انسان کو پیدا کیا پھر اسی سے اس کی زوج کو پیدا کیا لیکن کیسے اور کس حصے سے اس بارے میں قرآن خاموش ہے۔ زیرِ نظر حدیث کا یہ مطلب ممکنہ طور پر ہو تو سکتا ہے کہ پہلی عورت پسلی سے بنی ہو تاہم یہ معنی متعین نہیں ہیں، اس طرح کی تعبیرات عربی محاورے بالخصوص حدیث کے محاورے میں مشابہت بیان کرنے کے لئے بھی ہوتی ہیں۔ خود اردو محاورات میں اس کی مثالیں مل جائیں گی۔ کہتے ہیں فلاں پتا نہیں کس ڈھیٹ ہڈّی کا بنا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا اس کی تخلیق کا بنیادی مادہ ہڈی ہے۔ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ ٹیڑھا ہونے میں پسلی کے مشابہ ہے۔
میں حدیث کے درس میں یہاں پہنچ کر طلبا سے کہا کرتاہوں کہ اپنی اپنی پسلیاں چیک کرلیں کہ وہ سیدھی ہیں یا ٹیڑھی۔(سب بیک آواز): ٹیڑھی ہیں۔ کیا خیال ہے سیدھی کرانے کے لئے ہسپتال میں داخل کرادیں؟ خرچہ سارا ہم دے دیں گے۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ کیوں بھئی، جسم کا ایک نقص دور ہوجائے گا۔ نہیں پسلی ٹیڑھی ہی ہوتی ہے، پیدائشی ایسی ہوتی ہے، اسے ایسا ہی ہونا چاہیے، وگرنہ وہ اپنے مقاصدِ تخلیق ادا نہیں کرسکے گی۔
بس، بس، اب سمجھو عورت کا ٹیڑھا پن بھی اسی نوعیت کا ہے، وہ خلقتاً ایسی ہے، اسے ایسا ہونا ہی چاہئے وگرنہ وہ اپنے مقاصدِ تخلیق ادا نہیں کرسکے گی۔ یہ درست نہیں ہوگا کہ عورت کے محض ٹیڑھا ہونے میں تو پسلی کے ساتھ تشبیہ یاد رہے باقی چیزوں میں بھول جاؤ۔ عمارت کو خوب صورت بنانے کے لئے جو محرابیں اور آرچیں بناتے ہیں سیدھی تو وہ بھی نہیں ہوتیں اور آپ کبھی بھی یہ نہیں کہیں گے کہ عمارت میں حسن پیدا کرنے کے لئے انہیں سیدھا کردیا جائے
اب وہ ٹیڑھا پن کیا ہے جس کے بغیر عورت عورت نہیں ہوسکتی، جو ٹیڑھا پن عورت کی فطری ضرورت اور اس کا حسن ہے؟ اس کو مختلف انداز سے بیان کیا جاسکتا ہے، جو یہاں براہِ راست موضوع سخن نہیں۔ البتہ ایک پہلو جو سیاق وسباق سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کبھی مرد کے معیار اور اس کے مزاج پر فِٹ نہیں بیٹھتی اس لئے کہ بنانے والے نے دونوں میں کئی فرق رکھے ہیں، اس لئے بظاہر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح عورت مرد کے لئے ٹیڑھی ہے مرد بھی عورت کے لیے ٹیڑھا ہی ہے۔ جیسے دو ہلالوں کو یا کمانوں کو پشت کی طرف سے ملائیں تو دونوں ایک دوسرے کے لئے ٹیڑھے ہیں۔ حدیث میں صرف عورت کا ذکر اس لیے ہے کہ مخاطب مرد ہیں اور انہیں عورت سے حسن سلوک کی تاکید مقصود ہے۔
اکثر روایات میں یہ لفظ بھی آتے ہیں ‘‘لن تستقیم لک علی طریقۃ’’ علی طریقۃ کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک ‘‘کسی بھی صورت میں’’ یعنی کسی بھی صورت میں تم پر سیدھی نہیں بیٹھے گی۔ اس صورت میں تو وہی مفہوم نکل رہا ہے جو ابھی عرض کیا عورت کبھی مرد کے مزاج اور معیار پر پوری نہیں اتر سکتی اور یہ ایک فطری بات ہے۔ حدیث میں ‘‘لک’’ کے لفظ بہت اہم ہیں کہ عورت کا غیر مستقیم یعنی ٹیڑھا ہونا اپنی ذات کے اعتبار سے نہیں ہے مرد کی نسبت سے ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم ہوسکتا ہے کہ ‘‘طریقۃ’’ کے معنی عادت اور طور طریقے کے ہیں، جیسا کہ بعض روایتوں میں ‘‘خلق واحد’’ کے لفظ آئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایت کرنے والے بعض حضرات نے اس کا یہ مفہوم سمجھا ہے۔ اس صورت میں عورت کا تلون بیان ہورہا ہے کہ وہ ایک حالت یا وصف پر برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہ بذاتِ خود کوئی بہت بڑی برائی نہیں ہے، عورت کے زندگی میں کردار کے حوالے سے اس کے فوائد بھی بیان کئے جاسکتے ہیں جیسے پسلی کے ٹیڑھا ہونے کے کئی طبی فوائد بیان ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت میں اس طرح کی صرامت، ذہنی مضبوطی اور بے لچک پن آجائے جو مردانہ مزاج کا حصہ ہوتا ہے اور عورت سے خاص قسم کی جذباتیت ختم ہوجائے تو اس کا یہ تلون تو ختم ہوجائے گا لیکن عورت عورت نہیں رہے گی۔ عورت کی جذباتیت مرد کے حوالے سے ٹیڑھا پن ہے لیکن بحیثیت مجموعی عورت کا حسن اور مجموعی انسانی زندگی کے لئے ناگزیر امر ہے۔
بہر حال دیکھنے کی اصل چیز حدیث کا بنیادی سبق ہے جو خاندانی زندگی کی بہتری کے لیے عورت کے ساتھ حسنِ سلوک سے متعلق ہے یہی حدیث کا اصل موضوع ہے۔ مرد کو عورت کے ساتھ اچھے برتاؤ اور نباہ میں جو نفسیاتی الجھن پیش آسکتی ہے حدیث کا مقصد اسے زائل کرناہے۔ مرد کبھی تو سوچتا ہے کہ بس میرا واسطہ جس عورت سے پڑا ہے وہ تو میرے معیار پر پوری نہیں اترتی، دنیا جہاں کی باقی عورتیں اس سے مختلف ہیں، لہذا اس عورت کو بھی انہی کی طرح کا ہونا چاہئے۔ حدیث مرد کو بتارہی ہے کہ ایسا نہیں ہے، عورت ذات جہاں بھی ہوگی، جہاں سے بھی لے کر آؤگے تمہارے لیے یہ مسئلہ ضرور ہوگا، اس لیے یا تو اسی ٹیڑھا پن کے ساتھ نباہ کا ہنر سیکھ لو، یا عورت کے بغیر زندگی گزارنے کافیصلہ کرلو۔ اور کبھی مرد کا خیال ہوتا ہے کہ میں عورت کو سیدھا کرلوں گا، اس طرح سے وہ اس کا شوہر وغیرہ بننے کی بجائے اس کا مرشد ومربی بلکہ سرجن بن بیٹھتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ ذہن سے نکال دو کہ تم اس میں کامیاب ہوسکو گے، وہ فطری طور پر ایسی ہے، اسے ایسا ہونا ہی چاہیے اور وہ ایسی ہی رہے گی، لہذا گزارا کرنا ہے تو اسی تنخواہ پر کرو۔ یہی تمہارا امتحان ہے، اسے اپنی کھینچی
ہوئی لکیر کے مطابق چلنے کا عادی بنالینے کے بعد اس سے نباہ کرلیا تو کوئی کمال نہیں کیا، کمال یہی ہے کہ مزاج کے اس فطری اختلاف کے باوجود اس سے بنا کر دکھاؤ، تو ''خیرکم خیرکم لأہلہ '' (تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے) کی تعریف کے تم مستحق ہو گے جسے دوسری احادیث مبارکہ میں اخلاق اور ایمان کی معراج قرار دیا گیا ہے۔٭٭٭