عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے با وضو ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ مسئلہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں۔ اس مسئلے کے حق میں کوئی بھی نص شرعی موجود نہیں۔ اس سلسلے میں جو حوالے دیے جاتے ہیں، وہ سب کے سب استنباط پر مبنی ہیں، نہ کہ کسی نص قطعی پر۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے وضو کی شرط لگانا، قرآن کے احترام میں غلو کی بنا پر ہے، اور دین میں غلو کا کویی درجہ نہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: لا غلو فی الاسلام۔
اس نقطہ نظر کی تائید میں قرآن کی سورہ الواقعہ کی آیت کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے: انہ لقران کریم۔ فی کتاب مکنون۔ لا یمسہ الالمطھرون۔ تنزیل من رب العالمین۔ (سورہ الواقعہ، آیات: 77-80) یعنی یہ ایک باعزت قرآن ہے۔ ایک محفوظ کتاب میں۔ اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے گئے ہیں۔ اتارا ہوا ہے پروردگار عالم کی طرف سے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب وضو کے مسئلے سے نہیں۔ اس آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی تنزیل کا عمل فرشتوں کے ذریعے ہوتا ہے، اور فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں جن کو خدا نے پیدایشی طور پر طاہر بنایا ہے۔ اس آ یت میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہ مطہر ہے نہ کہ متوضاٗ، یعنی پاکیزہ نہ کہ با وضو۔ مطھر کا لفظ قرآن میں ایک دوسرے مقام پر ازواج جنت کے لیے آ یا ہے (2:25)۔ وہاں بھی یہ مراد نہیں ہے کہ یہ ازواج ہمیشہ باوضو ہوں گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو پیدایشی طور پر پاکیزہ اور طاہر بنایا ہوگا۔ و مطھرہ للاشعاربان اللہ طھر ھن (التفسیر المظھری ۰۴/۱)۔
قرآن کے الفاظ کے مطابق، قرآن کو وہ مخلوق چھوتی ہے جو خود اپنی تخلیق کے اعتبار سے پاکیزہ ہے، جس کو خالق نے پیدایشی طور پر پاکیزہ بنایا ہے۔ یہ مخلوق بلاشبہ فرشتے ہیں۔ وہ قرآن کو اللہ سے لیتے ہیں اور پیغمبر تک پہنچاتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ سے یہ نہیں نکلتا کہ قرآن کو اللہ سے لینے سے پہلے فرشتے وضو کرلیتے ہیں۔ فرشتے اپنی اصل تخلیق کے اعتبار ہی سے مکمل طور پر پاکیزہ ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرا استدلال اس واقعے سے کیا جاتا ہے جو روایات میں حضرت عمر بن الخطاب کے اسلام کے بارے میں آیا ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے۔ اس کا ایک جز یہ ہے کہ عمر بن الخطاب کو معلوم ہوا کہ ان کی بہن فاطمہ اور انکے شوہر سعید بن زید نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس وقت تک عمر بن الخطاب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ عمر بن الخطاب اپنی بہن کے گھر میں گئے اور دونوں کو اتنا مارا کہ وہ خون آلود ہو گیے، خون کو دیکھ کرعمربن الخطاب کے اندر ندامت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنی بہن سے کہا کہ مجھے وہ قرآن دکھاؤ جو محمد پر اترا ہے۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ:
فقالت فاطمہ: یا اخی، انک نجس علی شرکک، وانہ لا یمسہ الا لمطھرون۔ فقام عمر فاغتسل، فاعطتہ الٖصفیحہ (السیرہ النبویہ لابن الکثیر 35/2) یعنی فاطمہ نے کہا کہ اے میرے بھائی، تم اپنے شرک کے بنا پر نجس ہو، اور قرآن کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوتے ہیں۔ چنانچہ عمر بن الخطاب اٹھے اور انھوں نے غسل کیا، پھر فاطمہ نے ان کو صحیفہ (قرآن) دیا۔
اس روایت سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کو چھونے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے اس روایت سے اگر کوئی چیز نکلتی ہے تو وہ یہ کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ ایسی حالت میں بیان کرنے والوں کو یہ مسئلہ بیان کرنا چاہیے کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرو۔ غسل کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ مزید یہ کہ اس روایت کے مطابق، فاطمہ نے عمر بن الخطاب کے ہاتھ میں قرآن کا صحیفہ اس وقت دیا جب کہ ابھی وہ شرک پر قائم ہونے کے بنا پر نجس تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شرک کا خاتمہ غسل کرنے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ توبہ اور کلمہ شہادت کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اس واقعہ سے وضو کا مسئلہ نکالنا سرتاسر ایک غیر متعلق بات کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب کا ایک اور واقعہ روایات میں اس طرح آیا ہے۔ عمر بن الخطاب ایک بار ایک جماعت کے ساتھ تھے جو کہ ایک صحیفہ کے ذریعے قرآن کو پڑھ رہے تھے۔ اس دوران عمر قضائے حاجت کے لیے گیے۔ پھر وہ واپس آئے اور انھوں نے قرآن کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ ایک شخص نے کہا کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہیں حالانکہ آپ باوضو نہیں ہیں۔ عمر بن الخطاب
نے کہا: من افتاک ھذا۔ امسیلتہ الکذاب۔ یعنی کس نے تم کو یہ مسئلہ بتایا ہے کیا مسیلمہ کذاب نے؟۔ اسی طرح علی بن ابی طالب کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ وہ صحیفہ کو لے کر قرآن کو پڑھتے تھے۔ حالانکہ وہ باوضو نہیں ہوتے تھے۔ (موطا امام مالک، شرح العلامہ عبد الحی اللکنوی، کتاب الطھارہ، باب رجل یمس القران و ھو جنب او علی غیر وضو 83/2)۔
حضرت عمر فاروق کا مذکورہ واقعہ یہ بتاتا ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اس معاملے میں کیا مزاج پایا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں لوگوں کا سارا دھیان تمام تر قرآن کی معانی پر مرتکز ہوتا تھا نہ کہ اس کے ظاہری مسائل پر۔ یہ مسئلہ کہ قرآن کو وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں، یہ دراصل دور صحابہ کے بعد اس زمانے میں پیدا ہو جب کہ لوگ ظواہر کو اہمیت دینے لگے اور معنویت کا پہلو پس پشت چلا گیا۔ بعد کے زمانے میں یہ معاملہ صرف قرآن کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ دین کے تمام معاملات میں ایسا ہی ہوا۔ لوگ معنوی پہلووں پر زور دینے کے بجائے ظاہری پہلوؤں پر زیادہ زور دینے لگے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو انتقال تاکید کہا جاتا ہے۔ وضو کے بغیر قرآن کو نہ چھونے کا مسئلہ اسی بعد کے دور کا ایک ظاہرہ ہے، وہ قرآن اور حدیث کے نصوص سے ماخوذ نہیں۔ (الرسالہ، مئی ۲۰۱۱)