من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہو ا؟
ڈاکٹر محمد اسعد(راجکمار)
سوال : اپنامختصرتعارف کرائیے؟
جواب : اب الحمداللہ میرا نام اسعد ہے میری پیدائش موضع سرور پور جو اب ضلع باغپت میں ہے کے ہندو جاٹ زمیندار گھرانے میں ہوئی میرا نام میرے والد محترم نے راجکمار رکھا تھا۔ میری پرائمری تعلیم گاؤں میں ہوئی، بعد میں بڑوت سے انٹر، سائنس میں اور بائیو لوجی سے کیا اور الہ آباد سے آیور ویدک کاڈگری کورس بی، اے ایم، ایس کیا۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں کچھ بتایئے؟
جواب : میرے قبول اسلام کا واقعہ اللہ کی صفت ہادی کا کرشمہ ہے۔ بی اے،ایم ایس کے ہاؤس جاب کے بعد میں نے تین اپریل ۱۹۹۳ ء کو پھلت آکر مولانا کلیم صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا پھر جماعت میں وقت لگایا اور اب میں مظفر نگر میں پریکٹس کررہا ہوں۔ گاؤں میں میڈیکل پریکٹس شروع کی لیکن اللہ کو اور کچھ منظور تھا میرا کلینک چل نہیں سکا حالانکہ تین سال تک پابندی کے ساتھ میں نے کلینک کیا۔ میرے ایک رشتہ دار نے مجھے مشورہ دیا کہ کاندھلہ کے پاس ایلم گاؤں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے تم وہاں کلینک کرلو، اپنی دوکان دینے کی بھی پیش کش کی۔ میں نے اپنے والد صاحب سے مشورہ کیا، ان کی رائے ہوگئی اور میں نے وہاں کلینک کرلیا۔ ایک سال تک وہاں بھی پابندی سے بیٹھنے کے بعد میری کلینک نہیں چلا۔ ایلم گاؤں میں ان دنوں سنسر پال عرف فوجی کا آتنک (دہشت پھیلا ہوا تھا چاروں طرف فوجی کے گینگ کی دہشت تھی خود ایلم گاؤں چھاؤنی بنا ہوا تھا پی، اے، سی لگی ہوئی تھی، مگر روز معلوم ہوتا تھا کہ فوجی آیا اس کو مار دیا اور کسی کو گولیوں سے بھون دیا۔ ملک کے اکثر اخباروں میں فوجی کی خبریں آتی تھیں پولیس نے اس کو زندہ یا مردہ لانے پر دو لاکھ روپیے انعام طے کیا تھا میری بھی اس سے دور کی رشتہ داری تھی کلینک سے مایوس ہوکر مجھے بھی اس کے ساتھ رہنے کی سوجھی۔ کسی طرح میری ان سے ملاقات ہوگئی فوجی قاتل اور ڈاکو کی صورت میں میں نے ان کے اندر ایک بڑے انسان کو دیکھا پہلی ملاقات نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا اور میں نے ان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔
سوال : آپ ایک شریف گھرانے کے فرد تھے آپ نے ایک دم ایسا فیصلہ کیسے کرلیا ان کے اندر کیا خوبی دیکھی کہ اس قدر گرویدہ ہوگئے؟
جواب : ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے آپ کو ان کی داستان سننی پڑے گی۔ اصل میں وہ بہت شریف گھرانے کے ایک سجیلے نوجوان تھے ایسی وجاہت کہ جہاں سے وہ گزرتے آدمی ان کو دیکھنے کے لئے مجبور ہوجاتا۔ ان کو فوج میں ملازمت مل گئی وہ بہت جذباتی اور مضبوط عزم کے آدمی تھے۔ وہ جس افسر کے ماتحت تھے اس کے بارے میں انہوں نے سنا کہ اس نے رشوت لے کر دشمن جاسوسوں کو راز دیئے ہیں وہ تحقیق میں لگ گئے اور بات سچ ہونے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے غدار کو جینے کا حق نہیں۔ مجھے اس کو مارنا ہے، انہوں نے اپنے ارادہ کو پورا کیا اور اپنے افسر کو گولی مار کر فوج سے بھاگ آئے۔ اپنے گھر وہ نہیں جاسکتے تھے اس لئے جنگلوں میں در بدر پھرتے تھے پولیس ان کی تلاش میں تھی۔ اس دوران وہ بڈھانہ میں ایک قاری صاحب کے یہاں کبھی کبھی رات گزارا کرتے تھے۔ قاری صاحب کو وہ اپنا ساؤ ( محسن ) سمجھتے تھے قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ مقدمہ فوجی عدالت میں گیا اور عدالت نے ان کو بری کردیا۔ اسی دوران بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ ملک میں گرم ہوا، ایلم گاؤں میں کچھ مسلمان رہتے تھے ایک روز فوجی کے پاس آئے اور کہنے لگے بھائی فوجی ہمیں معاف کردوہم گاؤں چھوڑ کر جارہے ہیں ۔ فوجی نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ پر دھان جی کے گھر والے مسجد ڈھانے کو کہہ رہے ہیں اور جب ہماری مسجد ہی نہ رہے گی تو ہمارا اس گاؤں میں رہنا بے کار ہے ۔ فوجی نے جواب دیا جب تک میں زندہ ہوں تمہاری مسجد کو کوئی نہیں گرا سکتا تم آرام سے گاؤں میں رہو ان لوگوں نے پردھان سے کہہ دیا کہ فوجی نے کہا ہے میرے رہتے ہوئے کوئی مسجد نہیں گراسکتا ۔ موجودہ پردھان سے فوجی کے خاندان کی چلتی تھی پردھان نے کہا ایسے فوجی سیکڑوں بھی ہوں گے پھر بھی ہمیں ۶؍ دسمبر کو مسجد ڈھانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ لوگ بھی بے وقوف تھے انہوں نے آکر فوجی سے یہ بات بھی کہہ دی، اس نے رائفل اٹھائی پردھان اس کے ایک بیٹے اور ایک بھتیجے کو گولی ماری اور مسجد کے سامنے گھسیٹ کر لا کر ڈال دیا اور مسلمانوں سے بولا یہی تھے تمہاری مسجد کو ڈھانے والے اب تو تمہیں کوئی ڈر نہیں ؟ اب تم آرام سے رہو اس خاندان کے بچے ہوئے لوگوں نے کسی گینگ سے تعلق قائم کیا اور فوجی کے گھرانے پر رات کو ڈاکہ ڈلوادیا سامان لوٹنے کے علاوہ عورتوں کی بے عزتی کی فوجی کے بھابی اور چچی کی عزت لوٹ کر ان کو مارا اور ان کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں فوجی گھر نہیں تھے ان کو معلوم ہوا بھابی اور چچی کی لاش دیکھ کر ان کا حال خراب ہوگیا انہوں نے ان لاشوں کی سوگندھ (قسم ) کھائی کہ جب تک زندہ رہوں گا ان کے گھر والوں کا روزانہ ایک آدمی مارونگا پھر گینگ بنایا اور روزانہ ایک آدمی قتل کیا۔ شاید ۱۶۵؍ لوگوں کو قتل کیا پورے صوبہ کی پولیس پریشان تھی مگر فوجی پر قبضہ کرنا مشکل تھا ، مگر وہ عجیب ڈاکو تھے ڈاکہ ڈالتے تھے لوگوں سے مہینے وصول کرتے تھے مگر اس میں سے نہ خود پیسہ استعمال کرتے تھے نہ ساتھیوں کو کھانے دیتے تھے غریبوں کی مدد کرتے تھے اور بیواؤں اور یتیموں کی شادیاں کراتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ غریب لوگ اکثر مسلمان تھے اس لئے زیادہ تر وہ مسلمانوں کی مدد کرتے تھے ۔ اسی دوران اللہ کی رحمت کو جوش آیا بڈھانہ میں قاری صاحب کے حجرہ میں وہ رکے ہوئے تھے مولانا کلیم صاحب ہریانہ کے ایک سفر سے صبح صبح واپس ہو رہے تھے ان کو قاری صاحب سے کچھ کام تھا وہ مسجد میں آگئے قاری صاحب بہت خوش ہوئے ان کو دیکھ کر فوجی کو ذرا تکلف ہوا مگر قاری صاحب نے کہا کہ میں آپ کا کون ہوں ؟ انہوں نے کہا آپ میرے ساؤ (محسن ) ہیں ، قاری صاحب نے کہا یہ میرے ساؤ ہیں مجھے آپ کو ان سے ملانا تھا۔ مولانا صاحب سے وہ ان کا تعارف بڑوت سے بڈھانہ تک کے ایک سفر کے دوران کرا چکے تھے ۔ مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ مسجد کی حفاظت کے سلسلہ میں ڈاکو بننے کی حالت نے ان کو بہت متاثر کیا اور وہ بڈھانہ تک فوجی کے ہدایت کے لئے دعائیں مانگتے رہے کہ یا اللہ آپ کے گھر کی حفاظت نے اس کو یہاں تک پہنچادیا اس لئے اس کو ہدایت ضرور دے دیجئے ۔ مولانا صاحب بھی ان سے ملنے کے مشتاق تھے مل کر خوش ہوئے۔ مولانا نے فوجی سے کہا : پورے علاقہ میں یہ قتل عام تم نے کیوں پھیلا رکھا ہے۔ فوجی نے کہا میں نے سوچا ہے موت تو میری قریب ہے تھوڑا سا نام ہی کر جاؤں۔ مولانا صاحب نے کہا موت کو قریب سمجھتے ہو تو وہاں کی کچھ تیاری بھی کر رکھی ہے ؟ یہاں کی پولیس اور عدالت سے تو بچ سکتے ہو وہاں کی عدالت سے بچنا ممکن نہیں ۔ فوجی نے کہا موت کے بعد کس نے دیکھا ؟ مولانا صاحب نے کہا جس نے دیکھا ہے اس نے بتایا ہے ، وہاں کا مسئلہ بڑا نازک ہے وہاں کی تیاری کی فکر کرو ۔ فوجی نے کہا کہ لارے کی بات تو میں سمجھتا نہیں جب میرے ساؤ کے ساؤہو تو بتاؤ آپ کیا چاہتے ہو ؟مولانا صاحب نے فرمایا کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ۔ فوجی نے فوراً کہا پڑھاؤ ،آپ کے ابی بتایا کرتے ہیں، میں نے سوچا کہ مذاق میں کہہ رہا ہے وہ اس وقت تک اس کے عزم سے واقف نہیں تھے مگر انہوں نے اس کو کلمہ پڑھایا اس نے کلمہ پڑھا اور بولا جی میں مسلمان بن گیا اب موت کے بعد میرے لئے سزا ختم ہو گئی؟ مولانا صاحب نے کہا ہاں انشاء اللہ دن نکل رہا تھا اس نے اپنے ہتھیار اٹھائے اور چلنے لگا، مولانا صاحب نے پوچھا کہاں جانا ہے ؟ فوجی نے بتایا ہمارے مخالف ایک مخبر نے ہمارے ایک ساتھی کی غلط مخبری کرکے پولیس سے ہاتھ پاؤں تڑ وادیئے ہیں، آج حسین پور کے ایک باغ میں اس کا کام کرنا ہے۔ مولانا صاحب نے کہا اب اس کا کوئی مطلب نہیں، اب تم کسی کا قتل نہیں کرسکتے، فوجی نے کہا آپ نے یہ تو نہیں کہا تھا مولانا صاحب نے کہا کلمہ میں پہلا لفظ لا پڑھایا تھا جس کے معنی ہیں نہ، یعنی اللہ کی ہر نافرمانی قتل، ظلم، کفر اور ہر برائی سے نہ ہے۔ فوجی نے کہا یہ ہتھیار تو بھینٹ مانگتے ہیں مولانا صاحب نے کہا اگر بھینٹ مانگتے ہیں تو آج مجھے قتل کردو کل قاری صاحب کو قتل کردینا ، فوجی صاحب نے کہا کہ میں کوئی باؤلا ہوں؟ مولانا صاحب نے کہا اس طرح تم روز قتل کرتے ہو تو کیا تم راؤ لے ( عقلمند ) ہو؟ فوجی نے کہا اچھا تونا ہے؟ مولانا صاحب نے کہا بالکل ناہے، فوجی نے کہا اگر نا ہے تو پھر آج کے بعد فوجی قتل اور ڈاکا کچھ بھی نہیں کرے گا۔
فوجی وہاں سے چلا گیا اس نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اس میں ۹؍ غیر مسلم تھے اور ۳۱؍ مسلمان تھے اس کو نہ جانے کیوں ۴۰؍ کی گنتی کا کچھ اعتقاد تھا اپنے مسلمان ہونے کی خبر دی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ مجھ پر جان سے کھیلنے والے سارے ساتھی مسلمان ہو جائیں۔ دوسرے روزفوجی کو گرفتار کرلیا گیا دیش کے سارے بڑے اخباروں نے فوجی کی گرفتاری کو سرخیوں میں چھاپا۔ تہاڑ جیل میں انہوں نے تین مہینے گزارے یوپی پولیس نے معذرت کردی تھی کہ فوجی چار بار جیل سے فرار ہو چکا ہے اگر اب فرار ہواتو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔
سوال : اپنے اسلام قبول کرنے کی بات تو آپ نے بتائی نہیں ؟
جواب : جیل میں ان کے ایک بھائی ملاقات کرنے گئے انہوں نے سگریٹ کے کاغذ پر ایک خط مولانا صاحب کے نام لکھ کر میرے پاس بھیجا اور پیغام بھیجا کہ ڈاکٹر راجکمار سے کہنا اگر فوجی سے محبت ہے تو پھلت جاکر مولانا صاحب کے پاس کلمہ پڑھ لے اور جماعت میں چلا جائے اور میرا یہ خط مولانا صاحب کو دے دے اور میرا سلام سوبار کہے ۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میں وہ خط لے کر پھلت آیا ۳؍ اپریل ۹۳ء کو ۱۲ ؍ بجے کے قریب میں پھلت پہنچا مولانا کو وہ خط دیا وہ خط ارمغان میں چھپا ہے آج تک اس کا فو ٹو میرے پرس میں رکھا رہتا ہے ، یہ ہے ( خط نکالتے ہوئے ) خط کا مضمون یہ ہے ۔
پریہ مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کاتہ‘
آپ کو تو سو یم آتما سے پتا لگ گیا ہوگا تہاڑ جیل میں ہوں موت کے منہ میں ہوں، جیل کی اس تنگ زندگی میں ایمان کے بعد بادشاہت کا مزہ آرہا ہے دو انتم (آخری ) اچھائیں ہیں ایک یہ کہ میرے سب ساتھی جو میرے ساتھ سدا جان سے کھیلتے رہے کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہوجائے اور دوسری یہ کہ آپ ایک بار مل لیں ایمان سلامت ہے، آپ کے احسان کا بدلہ اپنی کھال کی جوتیاں بناکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔
والسلام آپ کا سیوک سنسر پال فوجی
مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا، کھانا کھلایا، میرا نام محمد اسعد رکھا تھوڑی دیر باتیں کیں مجھے وضو کراکے مدرسے لے گئے۔ ظہر کی نماز میں نے ساتھ پڑھی، مدرسہ کے بچے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے ، کیوں کہ میں نماز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مجھے نماز آتی نہیں تھی ۔ میں نے دس ہزار روپیے مولانا صاحب کو دیئے کہ مجھے جماعت میں جانے کے لئے کہا ہے میں اپنے ان پیسوں سے یہ کام نہیں کرنا چاہتا آپ یہ پیسے لے کر مجھے اپنے پاس سے خرچ دے دیجئے۔ مولانا صاحب نے کہا یہ پیسے تو ہم بھی نہیں لے سکتے مگر آپ کے خرچ کا انتظام کردیتے ہیں انہوں نے مجھے خرچ دیا چار مہینے کے لئے جماعت میں جانا تھا جماعت میں مجھے بڑے اچھے امیر ملے۔ وہ بارہ بنکی کے ایک ٹیچر تھے انہوں نے کہا جماعت میں اپنی جان اور اپنا مال لگانا چاہیے، اس لئے صرف ایک چلہ لگا کر میں نے اپنا کام کرنے کا پروگرام بنایا اور کما کر اپنے مال سے باقی دو چلے لگانے کا ارادہ کیا۔ لوٹ کر پھلت آیا مولانا صاحب پہلے تو وقت سے پہلے واپس آیا ہوا دیکھ کر پریشان ہوئے مگر جب وہ وجہ معلوم ہوئی تو بہت خوش ہوئے۔ مظفر نگر میں میں نے کلینک شروع کیا جو شروع میں نہ چل سکا۔ ایک سال میں تین جگہیں بدلیں، مگر ایک سال کے بعد مولانا صاحب نے استغفار کی تسبیح بتائی اور روزانہ صدقہ کرنے کو کہا اللہ کا شکر ہے کام اچھا چل گیا اس کلینک سے میں نے اپنا گھر بنایا اور اب حال بہت اچھا ہے۔
سوال : فوجی صاحب کاکیا ہوا؟
جواب : مولانا صاحب بتایا کرتے تھے اس خط کو پڑھنے کے بعد ان کو تہاڑ جیل میں جاکر فوجی سے ملنے کی بڑی تڑپ ہوئی اور کچھ روز میں وہاں جانے کا ایک بہانہ مل گیا مگر جس روز وہاں جانا تھا ہندوستان ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ سنسر پال نے خود کشی کرلی مولانا صاحب کہتے تھے کہ مجھے اس خبر سے حد درجہ صدمہ ہوا ۔ پورے اعصاب پر اس کا اثر ہوا انہوں نے اپنے شیخ کو اس المناک واقعہ کی اطلاع دی، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت مولانا علی میاں صاحب کو سناتے ہوئے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضرت مرحوم نے مولانا صاحب کو بہت تسلی دی اور اطمینان دلایا کہ ہمیں امید ہے کہ اس شخص نے خود کشی نہیں کی ہوگی اور اگر ایک فی صد اس نے خود کشی کی ہوگی تو ابھی اس کا مکلّف نہیں تھا انشاء اللہ اس کا خاتمہ بخیر ہوگا بعد میں وہاں کے ایک مسلمان افسر جو اس وقت جیل کے ذمہ دار تھے انہوں نے مولانا کو بتایا کہ اس سے قبل فوجی صاحب جیل سے چار بار فرار ہوچکے تھے اس لئے یوپی پولیس نے آئندہ کے لئے معذرت کردی تھی اس لئے تہاڑ جیل سے لے گئے تھے اور شاید الیکٹرک شاک سے ان کو مار دیا گیا اور بعد میں خود کشی کی خبر پھیلا دی گئی۔ اس افسر نے بہت افسوس کا اظہار کیا کہ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوجاتا تو میں ضرور کچھ کرتا، اللہ کا شکر ہے کہ فوجی صاحب کی خواہش کافی حد تک پوری ہوئی ۳۱؍ غیر مسلم ساتھیوں میں سے ۲۳؍ الحمدللہ مسلمان ہیں ان میں سے ۵،۶؍ تو ایسے ہیں کہ عام لوگ اور خود ہم ان سے دعا کو کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک کی زندگی کا حال ایسا ہے کہ ان پر کتابیں چھپیں عجیب اللہ کی شان ہے کہ کس راستے سے رحمت کی ہوا چلائی۔
سوال : آپ کی شادی ہو گئی تھی آپ کے خاندان کا کیا حال ہے؟
جواب : ہاں میری شادی ہو گئی تھی میری بیوی میرے ساتھ ہر حال میں جس طرح رہی وہ مثالی بات ہے اس نے میرے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک لمحہ میری مخالفت نہیں کی میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مالک نے مجھے آپ کے ساتھ باندھا ہے میں بھارت کی ایک پتنی ہوں آپ کے ساتھ خوشی سے ستی ہونے کو تیار ہوں جماعت سے آنے کے بعد جب میں نے اس کو اسلام کے بارے میں سمجھانا شروع کیا تو وہ بہت خوش ہوئی۔
الحمد للہ میرے تین بچے ہیں بڑے بیٹے کا نام ابو بکر ہے چھوٹے کا محمد عمر ہے لڑکی کا نام میں نے فاطمہ رکھا ہے، بڑا بیٹا حفظ کررہا ہے چھوٹا بچہ تیسری کلاس میں پڑھ رہا ہے فاطمہ بھی اب مدرسہ جانے لگی ہے میرا ارادہ ہے کہ ان سب کو اور اللہ جتنی اولاد دے گا سب کو عالم، حافظ اور دین کا داعی بنانے کی کوشش کروں گا۔ گھر والوں نے شروع میں مخالفت کی اور کچھ روز ناراضی رہی مگر میں نے تعلق رکھا اور والدین کی خدمت کرتا رہا۔ ہر ماہ ان کے پاس کچھ نہ کچھ لے کر جاتا ہوں اب وہ خوش ہیں اور اسلام کے بھی قریب ہو رہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اللہ نے خدمت کی بڑی تاثیر رکھی ہے خدمت سے پتھر دل موم ہو جاتے ہیں ، اسلام سے پہلے ہم نے والدین کی خدمت نہیں کی مگر اب میں اور میری بیوی جب بھی گھر جاتے ہیں بہت خدمت کرتے ہیں اب وہ سارے بہن بھائیوں میں ہم سے ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ۔
سوال : مسلمانوں کے لئے کچھ خاص پیغام آپ دینا چاہیں گے ؟
جواب : اس کے لئے بڑا لمبا وقت چاہئے میرا خیال ہے کہ ہم مسلمانوں کا باہر کا کوئی دشمن نہیں ہے اسلام سے دوری ہماری سب سے بڑی دشمن ہے بلکہ اسلام سے دور رہ کر ہم ساری انسانیت سے دشمنی کررہے ہیں۔ اس لئے کہ ایمان واسلام ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے وہ خود مسلمانوں کو اسلام سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کے نام سے گھبراتے ہیں ۔ اپنی سب سے بڑی ضرورت اور اپنی نجات کے راستے سے وہ ہماری وجہ سے دور ہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے لئے نہیں تو ساری انسانیت پر رحم کھا کر ان کو اسلام کا تعارف کرانے کے لئے کم از کم ظاہری طور پر مسلمان بن جانا چاہیے ، خدا کے لئے اس درد ناک پہلو کی طرف توجہ کریں ۔
مستفادازماہنامہ ارمغان، اکتوبر ۲۰۰۴ ء
آدمی ہوں میں عجب طور طریقے والا
کھو گیا میں تو کہیں پھر نہیں ملنے والا
موت دل کش ہے مگر ایسی بھی جلدی کیا ہے
دیکھو دالان میں اک پھول ہے کھلنے والا
ریل گاڑی کی چھکا چھک بھی تحیر میں ہے گم
جیسے رستے میں کوئی بھید ہو کُھلنے والا
آج پھیلا ہے ہر اک سمت یہاں کیسا سکوت
جیسے ہر شے کا توازن ہو بگڑنے والا
وہ خواب جو میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں
میرے اندر ہے کہیں آج وہ مرنے والا
جانے کیا دیکھ کے اس اَور گیا ہو گا وہ
ایسا نادان نہ تھا بھیڑ میں کھونے والا
عہد ناپرساں ہے یہ کوئی یہاں دوست نہیں
گور کو خود ہی چلا جاتا ہے مرنے والا
ممتاز رفیق