میں نے کچھ مہینے قبل ایک پوسٹ کی تھی۔ غیرت مند اولاد کے نام سے۔جس میں میرا موقف یہ تھا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے تو دوسرے کی زندگی حرام نہ کریں۔باپ کو مالی، پلمبر یا سبزی لانے والا اور ماں کو بچوں کی کئیر ٹیکر نہ بنا دیں۔ بڑھاپے میں ایک غمگسار ساتھی کی جوانی سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اولاد اس معاملے میں اکثر خود غرض واقع ہوتی ہے۔ اس وقت میں نہ جانتی تھی کہ خدا مجھے اس آزمایش کے لیے منتخب کر چکا ہے۔امی کے اس دنیا سے جانے کے بعد ابو کی حالت ہمارے لیے شدید تکلیف کا سبب تھی۔جس بندے نے ہمارے سکھ چین اور اچھے مستقبل کے لیے زندگی بھر محنت کی، ہمیں زمانے کے سردو گرم سے بچایا، ان کو اتنا افسردہ دیکھنا بہت ہی مشکل امر تھا۔
محبت انقلابی کام کرواتی ہے۔ یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ غیر معمولی کام کرنے کے لیے غیرمعمولی محبت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ خدا کی طرف سے دیا گیا صبر اور ہمت ہی تھی کہ ایک مہینے کے اندر اندر ہم بہن بھائیوں نے اہم فیصلہ کیا۔جی ہاں ابو کے نکاح کا فیصلہ۔
ہم سب نے برملااس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اپنے باپ کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ری ایکشن کا اندازہ تھا لیکن اتنی زیادہ مزاحمت دیکھنے کو ملے گی یہ نہ سوچا تھا۔
۱۔پاگل ہو گئے ہو اتنی جلدی؟ دنیا کیا سوچے گی؟ضرورت کیا ہے؟'' دنیا سے ہمارا کیا واسطہ؟؟دنیا تو خوش باش ہے۔زندگی تو ہمارے باپ کی ختم ہونے جا رہی ہے ۔یہ ایسے ہی اداس رہے توجلدی ختم ہوجائیں گے۔جتنی شدید چوٹ ملے اتنی جلدی فرسٹ ایڈ دے دی جائے تو اچھا ہے۔ ہمیں پتہ ہے ہمارا باپ اکیلا رہا تو گھل گھل کر ختم ہوجاے گا۔
۲۔چلو کرنی ہی ہے سال دو سال بعد کر لینا
'' اس سے کیا ہوگا''
۳۔ جلدی شادی کی تو تمہاری ماں کی روح کو تکلیف ہوگی۔
لاحول ولا قوۃ۔اسلامی تاریخ کثیر الازواجی سے بھری پڑی ہے۔ انبیاء کرام اور صحابہ کرام کئی ازواج رکھتے تھے۔کیا انہوں نے کبھی بتایا کہ روحیں تڑپتی ہیں۔؟
۴۔لوگ باتیں بنائیں گے کہ بچے باپ کی شادی کر رہے ہیں۔
'' کوئی بات نہیں۔ٹرینڈ سیٹ کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ لوگ شروع میں اعتراض کرتے ہیں باتیں بناتے ہیں لیکن پھر تسلیم کر لیتے ہیں۔
۵۔ ''سوتیلی ماں کب اچھی ہوتی ہے؟؟ پھنس جاوگے''''ا چھے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ہم ڈھونڈ لیں گے۔''
۶۔دل گردے کا کام ہے باپ کی شادی کرنا۔ دل پھٹ جائے گا کلیجہ منہ کو آئے گا اپنی ماں کی جگہ کسی اور عورت کو دوگے؟
'' نہیں۔ماں کی جگہ اپنی جگہ موجود رہے گی۔ فیملی میں ایک فرد کا اضافہ باقی سب کی اہمیت ختم نہیں کرتا۔لیکن باپ بھی بہت پیارا ہے۔ ہم باپ کو اکیلا نہیں رہنے دیں گے۔۔دل پھٹتا ہے یا نہیں دیکھا جاے گا ''
ہمارا انداز حتمی تھا۔
اس اعلان کے دو دن بعد ہم بہنیں۔ باپ کے لیے رشتہ دیکھنے جا رہی تھیں۔خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی لیکن جونہی انکی دہلیز پر قدم رکھادل بے اختیار کانپا آنکھیں ڈبڈبائیں۔ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اندر داخل ہوگئے۔
جس خاتون کو دیکھنے جا رہی تھیں ہم بہنوں نے یہ طے کیا کہ اگر اس عورت کو دیکھ کر ہمیں برا لگا یا غصہ آیا تو ابھی ابو کی شادی نہیں کریں گے اور خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے مزید وقت لیں گے۔ خاتون کی بہنیں اور بھابی وغیرہ سے بڑے اچھے انداز میں بات کی۔ جب خاتون کو ہمارے سامنے لایا گیا۔ ہم بہنوں نے بوکھلا کر سر جھکا لیے۔اور دل میں ہمت مجتمع کرنے لگیں۔انہوں نے سلام کیا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے انکی طرف دیکھا۔نہ تو سٹار پلس والا دھوم دھمکا ہوا نہ ہی فلیش بیک میں دنیا گھومی۔بس ایک سادہ معصوم سی شکل جسے دیکھ کر اپنائیت محسوس ہوئی، ہمارے سامنے بیٹھی تھیں۔ انہیں دیکھ کر نہ تو غصہ آیا نہ کوئی منفی بات دل میں آئی ۔البتہ ان کے چہرے پر تھوڑی گھبراہٹ ضرور تھی۔ جوان اولاد والے بندے سے شادی کرنا آسان کام تھوڑی ہوتا ہے۔ان لوگوں نے ہمارے اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا۔ اب ہماری باری تھی سو میں نے ہلکی سے مسکراہٹ سے ان سے بات چیت کا آغاز کیا۔ اس ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد وہ فیصلہ ہوگیا جو آسمانوں پر تو کب کا لکھا جا چکا تھا۔البتہ ہم نے یکم جنوری کو کرنا تھا۔
جی ہاں خاتون ہمیں پسند تھیں۔اب ہم نے دو چار دن کا وقت مانگا کہ چند دن بعد آکر نکاح کی تاریخ مقرر کریں گے۔باقی کے مرحلے کچھ خاص مشکل نہ تھے۔ چند دن بعد جا کر ہم نے تاریخ مقررکی کہ یکم جنوری کو نکاح ہوگا۔ تاریخ مقرر ہوئی تو یہ وہ موقع تھا جب امی یاد آئیں بیشک آئیں ۔خاتون سے گلے ملے۔رونا بھی آیا۔ رو بھی لیا۔ یہ کونسی معیوب بات تھی بھلا کہ نہ روتے ۔ ماں کی جدائی کا دکھ تو انہوں نے بھی دیکھ رکھا تھا۔ ماؤں کے دکھ تو سانجھے ہوتے ہیں۔ اور پھر یکم جنوری بھی آ ہی گئی۔
یہ وہ موقع تھا جب ہم باپ سمیت کچھ کنفیوز بھی تھے۔منفرد تجربہ تھا۔ ابو کی شادی کرنی ہوگی۔یہ کب سوچا تھا۔ خیر ابو کو تیار کیا۔۔ ایک دوسرے کا دل بڑھانے کے لیے ہلکا پھلکا مزاح بھی کرتے رہے۔ چھوٹی بہن بولی۔ '' لو بھئی ابو جی ہم تو آپ سے اب یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ اپنی شادی میں کیوں نہیں بلایا تھا۔''
'' ابو جی ہمارے بڑے بھائی لگ رہے ہو۔ہال میں یہ بتانا ہی نہ کرنا کہ یہ میری اولاد ہے۔ساتھ ہی نواسوں کو سمجھایا ۔ ۔خبردار جو وہاں انہیں نانا ابو کہہ کر پکارا ''
مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد چند قریبی رشتے داروں کے ہمراہ محترمہ کو لینے روانہ ہوگئے۔کچھ پیشن گوئیاں البتہ ڈرا رہی تھیں جیسا کہ دل پھٹ جائے گا۔ برداشت نہ ہوگا وغیرہ۔ تو دل میں یہی دعا کی کہ یا خدا ہمت اور حوصلہ دے۔ اور بے شک خدا نے ہمت حوصلہ دیا۔ہال میں داخل ہوئے ۔ بیٹی والوں نے اچھا سا استقبال کیا۔ہم نے بھی مسکراہٹ چہروں پر سجا لیں۔ نکاح شروع ہوا۔اب امی کا یاد آنا فطری سی بات تھی۔سو رونے کو کنٹرول کرنے پر سارا زور لگا دیا۔نکاح ہوچکا۔اور بی بی کو ابو کے پہلو میں لا بٹھایا گیا۔دل کو سنبھال کر اسٹیج پر نظر اٹھائی۔اس وجہ سے نہیں کہ برداشت نہ ہوا۔بلکہ اس وجہ سے کہ یہ جوڑا پیارا لگ رہا تھا۔یہ خاتون بھی ابو کے ساتھ ایسے ہی جچ رہی تھیں جیسی میری مرحومہ ماں۔ صدق دل سے بے اختیار انکی لمبی زندگی کی دعا کی۔اس کے بعد فوٹو سیشن شروع ہوا ۔ میرے ابو کی چھ سات سالے سالیاں ۔ انکے بچے ، ابو ان کے ہجوم میں چھپ سے گئے۔ہم خاموشی سے دیکھنے لگے۔۔ خوشی اداسی،افسردگی۔کیاکیا تھا جو محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ادھر ابو متلاشی نظروں سے ہمیں ڈھونڈ رہے تھے۔۔انکا اضطراب میں نے محسوس کر لیا۔ سو اسٹیج کی طرف بڑھی۔۔ اور بلند آواز میں ابو کو شرارت سے مخاطب کیا۔
'' ویسے ابو جی سسرال کے معاملے میں پہلے بھی خود کفیل تھے۔ اب بھی لمبی چوڑی سسرال پائی آپ نے پہلے چھ سات سالے اب چھ سات سالیاں'' سب کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا اور بہت محفوظ ہوے ۔ میرے بعد دوسری بہن نے ہمت پکڑی اور جا کر اس خوب صورت جوڑے کے سر پر سے نوٹ وار کر صدقہ دیا ۔بس جی اسکے بعد کیا تھا۔رخصتی ہوئی۔دونوں پارٹیاں روئیں۔۔وہ اپنی بیٹی کے لیے۔اور ہم اپنی ماں کے لیے۔بی بی کو گھر لے آئے۔ لمبی چوڑی تمہید کے بغیر چند نکات پر مبنی اسٹیٹ منٹ ان کے گوش گزار کی جس کے مطابق امی کی خالی سیٹ پر آئی ہیں سو گھر میں مالکن آپ ہی ہوں گی۔ہمارے لیے قابل احترام رہیں گی ہمیشہ۔ آپ کی عزت و احترام ہم پر فرض ہے۔سو ہم سے کوتاہی ہو تو معاف کر دیجئے گا۔ہم پوری کوشش کریں گے۔آپ کے ساتھ تعاون کا۔ آسانیاں فراہم کرنے والے بنیں گے۔وغیرہ وغیرہ۔پھر بہن بھائیوں کے پاس آبیٹھی۔ چھوٹے سے تاثرات پوچھے تو خاصا دلدوز انداز میں بولا۔'' آپی۔آج پہلا فنکشن امی کے بغیر گزارا۔کاش امی ساتھ ہوتیں''
میں نے بدمزگی سے اسے دیکھا۔۔'' بے تکے لڑکے تمہارے خیال میں امی کو یہ فنکشن اٹینڈ کرنا چاہیے تھا؟امی کے ہوتے ضرورت کیا تھی یہ کرنے کی؟''بھائی جھینپ گیا۔'' اوہ۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا'' اسکی بے چارگی دیکھ کر ہم بہن بھائی ہنس پڑے۔تو جناب،کوئی پہاڑ نہیں کھودنے پڑتے۔نہ تو دل پھٹتے ہیں نہ برداشت جواب دیتی ہے۔ غیر معمولی محبت چاہیے ہوتی ہے بس۔آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں۔ مدد ڈائرکٹ اللہ کی طرف سے آئے گی۔