دو دن قبل ملتان میں ماہر امراض دماغی، نفسیاتی اور منشیات ڈاکٹر اظہر حسین نے مبینہ طور پر بیٹی کو قتل کرکے خود کشی کرلی۔بتایا گیا ہے کہ ان کی اکلوتی بیٹی علیزہ اظہر بھی ماہر نفسیات تھیں اور قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے تعلیم حاصل کی تھی۔ خبر کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں. میں خبر سے زیادہ اس کے پس منظر کے حوالے سے بات کروں گا۔
یہ افسوس ناک خبر دو دن پہلے پڑھنے کو ملی۔ ملتان سے تین عشروں کا تعلق ہے۔پچیس برس سے نفسیات سے تعلق ہے۔دونوں حوالوں سے دل دکھ سے بھر گیا۔پھر کافی سارے تبصرے دیکھے جنہوں نے مزید اداس کر دیا۔کچھ میں تو باقاعدہ نفسیات اور نفسیاتی علاج پر لعن طعن شامل تھی۔آج تک کئی دفعہ علم میں آیا کہ ماہر امراض قلب دل کے دورے میں جاں بحق ہوگئے۔کئی دفعہ سننے میں آیا کہ دماغی امراض کے معالج کو برین ٹیومر ہوگیا اور وہ چل بسے، مگر کسی کو ان پر لعن طعن کرتے نہیں دیکھا۔نفسیات کے میدان میں بحیثیت پروفیشنل اترے تقریباً پچیس برس ہوگئے۔سوچا، اس معاملے پر ضرور قلم اٹھایا جائے تاکہ پڑھنے والے جان سکیں کہ نفسیاتی معالج بننا کتنا جان جوکھوں کا راستہ ہے۔
1998 میں پنجاب یونیورسٹی سے کلینکل سائیکالوجی میں سپیشلائزیشن کرتے ہوئے میں نے کچھ عرصہ میو ہسپتال میں گزارا۔ نفسیات میں داخلہ ایم اے انگلش چھوڑ کر لیا تھا اور اس وقت میں اس شاہ کلید کی تلاش میں تھا جو انسانی نفسیات کو بدل کر رکھ دے تب یہی لگتا تھا کہ کلینکل سائیکالوجی میں مہارت حاصل کر کے ماہر نفسیات کے طور پر پریکٹس شروع کردوں گا۔تاہم میو ہسپتال کے شعبہ دماغی امراض میں جا کر مجھے چکر آگئے۔دماغی امراض کے شعبے میں موجود ہر مریض ایک الگ دبستان تھا۔ایک 60 سالہ مریض جو اپنے بیان کے مطابق ایک کروڑ پتی شخص تھا جسے اس کے وارثین اس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے وہاں چھوڑ گئے تھے۔ایک 50 سالہ خاتون جسے غیبی آوازیں اپنے خاوند کو قتل کرنے پر اکساتی تھیں۔ایک 32 سالہ سکول ٹیچر جس کے تین بچے پیدائش کے مرحلے میں چل بسے تھے اور جسے ایک کالی چادر والی عورت دھمکیاں دیتی ہوئی چڑیل نظر آتی تھی۔ایک 22 سالہ ہینڈ سم لڑکا جو صرف انگریزی بولتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ کسی یورپی ملک میں پیدا ہوا ہے اور اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ پاکستان میں کیا کر رہا ہے۔
میرا ابتدائی کام کیس ہسٹری ٹریننگ میں تھا سو میں مختلف مریضوں سے ملتا اور ایک ضابطے کے مطابق کیس ریکارڈ کرتا جاتا اور پہلے سے موجود نوٹس میں اضافہ کرتا رہتا۔
تقریباً تین ہفتے گزرے تھے کہ مجھے زندگی میں پہلی بار ڈراؤنے خواب شروع ہوگئے۔ کئی مرتبہ آنکھ کھلتی اور جسم پسینہ وپسینہ ہوتا۔ عجیب وغریب وہم آنے لگے۔ہر وقت عجیب وغریب سا ڈر سر پر مسلط ہوگیا۔کچھ دن تو سمجھ نہیں آئی، مگر جب معاملات زیادہ پریشان کن ہوگئے تو میں نے وہیں موجود ایک سینئر سائیکاٹرسٹ سے باتوں باتوں میں ذکر کیا تو اس نے ایک عجیب و غریب سا قہقہہ لگایا اور کاندھے پر ہاتھ مار کر کہا ''نواں آیا ایں سوہنیاں''. مجھے اس وقت تو خاص سمجھ نہ آئی، مگر جب ڈاکٹر مبشر(فرضی نام ہے) کو لکشمی چوک دعوت میں لے گیا تو اس نے کچھ ایسی باتیں بتائیں کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔وہ بھی ایسے کہ میں نے اپنا سپیشلزم پورا کرتے ہی اپنا سفر ابنارمل سائیکالوجی سے ہٹ کر پازیٹو سائیکالوجی کی طرف سمیٹ دیا۔میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، کہ اگر دیکھتا تو پتھر کا ہوجاتا۔ڈاکٹر مبشر سے سنی گئی معلومات کچھ ایسی ہی جان لیوا تھیں۔اس نے سیدھے لفظوں میں مجھے بتا دیا تھا کہ دماغی امراض کا معالج ہونا ایک بہت ہی جان جوکھوں والا سفر تھاکہ باقی سارے مرض بندے کے جسم میں ہوتے تھے لیکن یہ مرض بندے کی نفسیات میں گھستے تھے۔مزید تحقیق پر یہ معلوم ہوا کہ دماغی امراض کے معالجین میں ڈپریشن عام ہے۔امریکن اور برطانوی اعداد وشمار کے مطابق 40-50 فیصد دماغی امراض کے معالجین ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔یہی نہیں سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ میں تقریباً %40 خود کشی کا سوچتے رہتے ہیں اور %4 خودکشی کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔یہاں بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر مبشر کے ایک جملے نے مجھے اپنا پورا کیریئر بدلنے پر مجبور کردیا تھا جب چلتے چلتے اس نے کہا تھا کہ ''بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ واقعی میرے مریضوں کو جو آوازیں آتی ہیں، وہ سچ مچ آتی ہوں اور اصل میں پرابلم مجھے ہو، جسے یہ آوازیں سنائی نہیں دیتیں''.میں پتلی گلی سے ہی بھاگ نکلا اور پھر اس راستے سے کبھی نہیں گزرا۔
نفسیات کے شعبے میں سب سے ہمت شکن بات یہ ہے کہ آپ انسانی نفسیات کے سب سے خوفناک پہلو کا سامنا کرتے ہیں انسان جو کہ جھوٹا، فریبی، کمینہ، مکار، خودغرض اور ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے۔کینسر، دل کا مرض، دیگر جسمانی عوارض کسی کو بھی ہوسکتے ہیں، مگر نفسیاتی عوارض کے پیچھے انسان کے اسفل السافلین ہونے کی روح فرسا کہانیاں ہوتی ہیں جو کسی کی نفسیات کو تڑخا دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کو سننا اور حوصلہ دینے کی ہمت دینا، اس ٹوٹے پھوٹے وجود کو جمع کرنا بذات خود ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔جس سے نفسیات کے معالج روز گزرتے ہیں۔
میں نے پچھلے 25 سال پازیٹو سائیکالوجسٹ کے طور پر گزارے۔ میرے کلائنٹس نارمل لوگ ہیں، کامیاب اور نامور لوگ ، جنہیں کیریئر، ریلیشن شپ، پراڈکٹویٹی وغیرہ پر میری ایڈوائس چاہیے ہوتی ہے۔میری ہمت نہیں پڑی کہ میں ابنارمل نفسیات سے ڈیل کرسکوں۔آپ کو ایک مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔اگر آپ ابنارمل نفسیات کے معالج ہوں اور ہر روز ایسے 10-8 کیسز ڈیل کرتے ہوں جو ڈپریشن، بائی پولر، شیزوفرینیا، پرسنیلٹی ڈس آرڈر وغیرہ کا شکار ہوں، تو آپ خود خطرے کے حصار میں ہیں۔کیوں کہ باقی امراض کی نسبت دماغی امراض کا معالج مریض کے مرض کو زیادہ جذب کرتا ہے۔ ہر روز اگر اس اسفنج کو نچوڑا جائے تو اس سے کیا کچھ برآمد ہوگا؟ آپ یاد کریں پچھلی بار جب آپ کی سہیلی کی شادی خطرے سے دوچار تھی اور اس نے دو گھنٹے آپ کے سامنے اپنے مسائل کا رونا، رویا تھا تو دو دن آپ کے سر میں درد رہا تھا۔یہی کام اگر روز دس گھنٹے کرنا پڑے تو ایک خوفناک خواب ثابت ہوسکتا ہے۔یاد رکھیں تمام تر امراض میں نفسیاتی واحد مرض ہے جب مریض کے خاندان والے خود اسے ہسپتال میں داخل کرادیتے ہیں کہ ان کی بس ہوجاتی ہے۔
تبھی پوری دنیا میں دماغی امراض کے معالجین کی خودکشی کی شرح ڈاکٹروں میں سب سے زیادہ ہے۔مغرب میں تو دماغی امراض کے ماہرین خود مسلسل تحلیل نفسی اور علاج سے گزرتے رہتے ہیں تاکہ وہ علاج کی وجہ سے حاصل کیے گئے ڈپریشن سے ڈیل کرسکیں۔بہت سے پڑھنے والوں کے لیے یہ حیران کن بات ہوسکتی ہے، تاہم کریزی شرنک کی اصطلاح نفسیاتی علاج میں عام ہے۔بعض اوقات ہوسکتا ہے آپ کا معالج آپ سے زیادہ پاگل ہو۔
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ ،مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
مزید بتاتا چلوں کہ جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ کو 1899 میں نیا فون نمبر ملا 14362. اس وقت اس کی عمر 43 برس تھی اور فون نمبر نے اسے گہری تشویش میں مبتلا کردیا۔کئی راتیں جاگنے کے بعد اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ 61 برس کی عمر میں مر جائے گا۔اس خیال نے کوئی بیس برس تک اس کو پریشان کیے رکھا۔حتیٰ کہ اس نے اپنی 63 ویں سالگرہ منا لی۔اس کی موت 83 برس کی عمر میں منہ کے کینسر کی وجہ سے ہوئی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شبہ ہے کہ اس نے اپنے معالج کی مدد سے خودکشی کی تھی کیونکہ مرض لاعلاج ہوچکا تھا۔یہی نہیں اس کے 30 آپریشن سموکنگ چھڑانے کے لیے ہوئے تھے۔اسے عام طور پر بلیک آؤٹ بھی ہو جایا کرتا تھا۔تاہم اس کے باوجود فرائیڈ بیسویں صدی کا مؤثر ترین شخص تھا۔یہی نہیں آپ کو نفسیات کی دنیا کے دس بڑے معالجین کا بتا سکتا ہوں، جنہوں نے بدقسمتی سے خودکشی کی۔یہاں پر میں ایک سکول آف تھاٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا، جس کا میں خود بھی پیروکار ہوں، کہ نفسیاتی الجھنوں کا بہترین حل نفسیاتی اور روحانی علاج کو یکجا کرنا ہے۔اس موضوع پر مزید بات ہوسکتی ہے، مگر مختصراً عرض کیے دیتا ہوں کہ دماغی اور نفسیاتی امراض کے معالج آئرن مین نہیں ہوتے۔نہ ہی وہ موٹیویشنل سپیکرز ہوتے ہیں۔وہ یہ جاننے کے باوجود اس فیلڈ کو جوائن کرتے ہیں کہ وہ خود کو اور اپنی نفسیاتی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔چار میں سے ایک نفسیاتی معالج خودکشی کا سوچتا ہے اور سولہ میں سے ایک اس کی کوشش بھی کر بیٹھتا ہے۔خودکشی کی کسی بھی صورت میں وکالت نہیں کی
جاسکتی، ایسے کسی بھی نفسیاتی معالج کی خودکشی یقیناً ایک اور روح فرسا خبر ہے۔ تاہم اپنی زندگی میں جن ہزاروں لوگوں کو وہ اذیت اور تکلیف سے بچاتے ہیں، اس پر ہم ان کے احسان مند ہیں۔ہم ڈاکٹر اظہر حسین کے بھی احسان مند ہیں۔بہت برا ہوا اور اللہ ان کی اور ہم سب کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔میں دماغی امراض کے میدان میں کام کرنے والے سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ، سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔