ایک دفعہ کنفیوشس نے اپنے دو شاگردوں لوئے ووئی اور ژی لوو کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا۔ لوئے ووئی شریف الطبع تھا اور باقی تمام طلبہ کے ہاں ایک با امن انسان جانا جاتا تھا۔ جب کہ ژی لوو ذہین اور رحم دل ہونے کے ساتھ ساتھ مغلوب الغضب تھا۔ جب وہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا تو کر گزرتا اور کوئی بھی اس کو روک نہ پاتا۔ اگر کوئی اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتا تو وہ بلا توقف غیظ و غضب کے ساتھ اس پر برس پڑتا۔ ایک روز اسی طیش کے نتیجے میں واقع ہونے والے خرخشے کے بعد اس کا منہ لہو آلود ہو گیا۔ وہ خوف زدہ ہو کر کنفیوشس کے پاس چلا آیا اور کہنے لگا: '' میں اپنے جسم کے ساتھ کیا کروں؟ مجھے اس بات کا خوف کھائے جاتا ہے کہ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہوں گا۔ شاید یہ میرے لیے بہتر ہو کہ میں نہ پڑھوں اور نہ کوئی کام کروں میں آپ کا شاگرد ہوں اور آپ مجھے ایک باپ کی طرح پیار کرتے ہیں۔ بتائیے کہ میں اپنے جسم کے لیے کیا کروں؟
کنفیو شس نے جواب دیا: '' ژی لوو! تم اپنے جسم کے بارے میں غلط نظریہ رکھتے ہو یہ پڑھائی یا کام نہیں بلکہ تمہارا شدید غصہ ہے جو کام خراب کرتا ہے۔ '' '' میں اسے سمجھنے میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے جب تم اور لوئے ووئی گتھم گتھا ہوئے تھے؟ وہ تھوڑی دیر بعد دوبارہ پر سکون اور خوش نظر آتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس تمہیں اپنے غصے پر قابو پانے میں کتنا وقت لگا؟۔ اگر تم اسی طرح رہے تو زیادہ دیر تک جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ طلبہ میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت کچھ ایسا کہتا ہے جسے تم پسند نہیں کرتے اور اس پر غضب ناک ہو جاتے ہو۔ اس مدرسے میں ایک ہزار کے لگ بھگ طلبہ ہیں۔ اگر ان میں سے ہر ایک کا کہا، محض ایک مرتبہ بھی تمہیں بیزار کرے تو اس طرح سال بھر میں تم ایک ہزار بار غضب کھاؤ گے۔ اور یقینا مر جاؤ گے اگر تم نے ضبطِ نفس سے کام نہ لیا۔ میں تم سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔
''تمہارے کتنے دانت ہیں؟ ''
'' بتیس استاد محترم ''
'' کتنی زبانیں ہیں؟ ''
'' صرف ایک ''
'' تم نے کتنے دانت کھوئے ہیں؟ ''
'' پانچ، ایک جب میں نو برس کا تھا اور چار جب میری عمر چھبیس برس تھی ''
'' لیکن تمہاری زبان اب بھی بالکل ٹھیک ٹھاک ہے؟ '''' جی ہاں ''
'' تم مُنگُن کو جانتے ہو جو کافی بوڑھا ہو چکا ہے؟ ''
'' جی ہاں، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں ''
'' تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری عمر میں اس کے کتنے دانت تھے؟ '''' میں نہیں جانتا ''
'' اب کتنے ہیں اس کے؟ ''
'' شاید دو، لیکن اس کی زبان بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اگرچہ وہ کافی بوڑھا ہو چکا ہے ''
'' تم نے دیکھا کہ دانتوں کا وجود ختم ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ زور آور ہوتے ہیں اور ہر اس چیز کو پا لینے پر مصر رہتے ہیں جس کی خواہش کریں۔ وہ سخت ہوتے ہیں اور زبان کو کئی بار تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن زبان کبھی بھی دانتوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی حتی کہ یہ آخر تک ثابت قدم رہتی ہے جب کہ دانت انسان میں سب سے پہلے بوسیدہ ہونے والی چیز ہے۔ زبان دانتوں کے ساتھ شریفانہ اور پر امن رویہ رکھتی ہے۔ کبھی غصہ نہیں کرتی اور نہ ان سے لڑتی ہے حتی کہ اگر قصور بھی دانتوں کا ہو۔ ہمیشہ انہیں ان کے کام آتی ہے۔ انسان کے لیے کھانا تیار کرنے، میں مدد دیتی ہے۔ اگرچہ دانت کبھی زبان کی مدد نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس ہر چیز میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ ''
'' یہی معاملہ انسان کے ساتھ ہے۔ رکاوٹ کا سبب بننے والی مضبوط ترین شے سب سے پہلے فنا ہو جاتی ہے۔ اور ژی لوو تم، اسی کی ایک مثال بن جاؤ گے اگر تم اپنے نفس پر قابو پانا نہ سیکھ سکے۔ ''
٭٭٭
بشکریہ : کنفیوشس (بحوالہ چینی حکایتیں اور لوک کہانیاں۔مولف میری ڈیوس ، چاؤلنگ۔ ترجمہ احمد نوید احمد)