ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ گلیوں میں، سڑکوں پہ، شاہ راہوں میں سیمنٹ نما ایک چھوٹا سا لمبا باریک سا چٹان بنایا جاتا ہے، جہاں پر آکر تیز چلتی ہوئی گاڑیاں اپنے آپ،اپنی اسپیڈ کم کردیتی ہیں اور رُک رُک کر اس چھوٹی سی چٹان کو پار کرتی ہیں۔ اسپیڈ کو کم کرنے کے بورڈ سو دوسو میٹر کے فاصلے کے پہلے ہی روڈ کے کناروں پر لکھ کر لگا دیا جاتا ہے تاکہ تیز چلتی ہوئی گاڑیاں پہلے سے ہی اپنی اسپیڈ کم کرلیں۔ یہ اس لئے لکھا جاتا ہے کہ جس جگہ یہ اسپیڈ بریکر لگایا جاتا ہے اس کے آس پاس اسکول و کالج کے طالب علم یا ہسپتال کا عملہ سڑک پار کرتے ہیں، یا سڑک مڑی ہوئی ہوگی یا شاہ راہ سے ملتی دوسری یا چھوٹی شاہ راہ بھی ہوگی جہاں سے جانے اور آنے والی گاڑیاں آتی جاتی ہوں گی۔ اس طرح اسپیڈ بریکروں کی جگہ حادثات زیادہ ہونے کا چا نس بھی ہوتے ہیں۔
زندگی میں بھی انسان کو اسپیڈ بریکروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تاجر کو آج لاکھوں کا منافع ہوجاتا ہے اب وہ اپنی اسپیڈ بڑھانے لگتا ہے۔ کل تک وہ سائیکل یا موٹر سائیکل سے کام چلا لیتا تھا،آج وہ بغیر کار باہر نہیں نکلتا۔ کل تک نوکری کی تلاش میں شہر شہر کا چپّہ چپّہ چھان مارتا رہا، سو سو روپوں کی لاٹری چل رہی تھی، آج اُسے یکایک تیس ہزار روپے ماہانہ مل رہے ہیں۔ کل تک راشن کی دکان پر مفت راشن لینے کے لئے گھنٹوں لائن میں کھڑا رہتا تھا،آج اس کے دکان میں روز سو سو کسٹمر دکان کُھلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کل تک محلے کے بنجر گھر میں زندگی گذار رہا تھا، آج اس کی زمین کے دام دگنے ہوگئے، دگنی قیمت میں جگہ بیچ کر نامعلوم محلے میں آرام کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ایسے میں،انسان کو یہ مغالطہ ہونے لگتا ہے کہ جو کچھ بھی میں نے زندگی میں بنایا ہے وہ صرف میرے دماغ کا کمال ہے۔ میں نے اُس وقت فلاں پلاننگ کی تھی۔ خود میرا مالک، میرے دوست و احباب میری ان باتوں کو کھیل مذاق میں اڑادیتے تھے۔ کبھی ان پراجیکٹس پر کسی رشتہ دار یا کسی دوست سے ذکر کرتا تو وہ شیخ چلّی کا خواب سمجھ کر مجھے اِگنور کرتے تھے۔ میں نے ہی اتنا بڑا بزنس ایمپائر کھڑا کیا تھا، کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی اس دھندے میں ہاتھ لگانے کی۔ میرے سے بڑے بڑے چالاک، اس میدان میں ہمت ہار گئے، مگر انہیں کچھ نہیں ملا، وہ آج بھی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
اس طرح کی فارغ البالی کے اوقات میں پھر قدرت کے طرف سے اچانک ایک اسپیڈ بریکر کا انتظام ہوتا ہے، جو انسان کے دماغ پر سیدھے اثر کرتا ہے، جسے شاک ٹریٹ منٹ بھی کہہ سکتے ہیں یا خدا کی طرف سے پیشگی وارننگ۔ یہ بریکر بیماری کی شکل میں، حادثات کی شکل میں، بازار میں مندی کی شکل میں، اپنے سگے اور پیاروں کی اچانک موت کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ ایسے میں اگر انسان اس وارننگ کو پہچان لے، آگے آنے والی دنیا کا خیال کرتے ہوئے اپنے لئے آگے بھیج دے تو یہ پیشگی وارننگ اُسے ایک بوسٹر پیک کا کام دے گی۔
آپ کسی کا گھر بسا کے چلے جاؤگے، اس کے بیوی بچوں کی نسلیں قیامت تک آپ کے لیے دعاؤں کے ایک فیکٹری تیار کر دے گی۔ آپ کسی قرض دار کا قرض اس کے کندھوں سے اتارتے چلے جاؤگے تو وہ تمہیں جنت کے دروازے بنواکر دے گا۔ آپ کسی یتیم کی کفالت کرتے چلے جاؤگے تو وہ تمہیں آخرت میں آبِ زم زم کے پاس لے جائے گا۔ آپ کسی اپاہج کا،بیمار کے علاج میں ساتھ دو گے توخدا تمہیں جنت کے کھیتوں میں بسائے گا۔
یہ سب کچھ کرنے کے لئے انسان کو بڑا جگر چاہئے۔ بستر پر پڑے انسان پہ چوبیس گھنٹے نظریں لگی ہوتی ہیں۔ بیٹاالرٹ ہوجاتا ہے کہ کہیں باپ بڑی بیٹی کو اتنا زیادہ نہ دیدے۔بیٹی دیکھتی ہے کہ کہیں بھائی میرے حصے کا زیادہ نہ لے لے۔ بچے دیکھتے ہیں کہ کہیں غیر میرے باپ کی تجوری خالی نہ کردے۔ ان سب کی نظروں سے بیمار بچ بھی جائے تو اس کے سیل فون پر نظر رکھی جاتی ہے، کہیں کوئی پیسہ ٹرانسفر نہ کردے۔کہتے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی جس طرح سے دولت تمہارے گھر چل کر آئی تھی، آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ دولت کس دروازے سے چلی گئی۔
لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ پیشگی طور پر تیار رہے کہ اس کی بھی اسپیڈ بریک ہونے والی ہے۔