ملحدین بھی یہ سوال بار بار اٹھاتے ہیں اور جواب دینے والے بھی اقرار سے باز نہیں آتے۔اللہ اپنی تخلیق کو گمراہ کیوں کرے گا؟ کیا اللہ پاک کو بہت شوق ہے بندوں کوجہنم میں جلانے کا کہ اگر کوئی گمراہ نہ ہو تو وہ خود آگے بڑھ کر گمراہ کر دیتا ہے؟ جب اللہ ہی بندے کو گمراہ کرنے پر تُل جائے تو پھر کون ہے جومزاحمت کر سکے۔ بندے کو خود گمراہ کر کے پھر اس گمراہی کا بوجھ بندے پر ڈال کر اس کو جہنم میں پھینک دینا کیاعدل کہلاتا ہے؟ جس کو چاہتا ھے گمراہ کر دیتا ھے،جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو ہدایت پانے والے کا کمال کیا ہے اور بھٹکنے والے کا قصور کیا ہے؟ سب کچھ توکوئی اور کر رہا ہے۔ جب اقرار کرتے ہو کہ واقعی خدا ہی گمراہ کرتا ہے تو پھر ملحدین کو مارنے کیوں دوڑتے ہو؟ خدا کی مشیئت میں مداخلت کیوں کرتے ہو؟ اس نے ان کو آگ میں جلانے کا ارادہ بہت پہلے سے کر رکھا ھے تو تم گلی گلی اور ملک ملک ان کو جنت میں گھسیٹ لے جانے کے لئے بسترے اٹھائے کیوں پھرتے ہو؟
اللہ پاک نے گمراہ ہونے اور ہدایت پانے کا ارادہ اور اختیار انسان کو مکمل طور پر سونپ دیا ہے، اور وہ اس میں بالکل بھی مداخلت نہیں کرتا۔ کافر کی بیوی یا بیٹا ہدایت کی تمنا کرے تو ان کو بھی ہدایت دے دیتا ہے ، ذرا بھی کراہت نہیں کرتا۔ فرعون کی بیوی کی مثال قرآن میں موجود ہے اور خالد ابن ولید کے باپ ولید ابن مغیرہ یا ابوحذیفہؓ کے والد عتبہ ابن ربیعہ کی مثال سب کے سامنے ہیں۔ جب ہدایت کا ارادہ کیا ہے تو 70صحابہؓ کی شھادت کا سبب بننے والے خالد بن ولید کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔ کسی نبی کی بیوی،باپ یا بیٹا، تایا یا چچا گمراہی اختیار کرے تو اس اختیار اور ارادے میں بھی ذرا مداخلت نہیں کرتا اور ان کو گمراہ ہونے دیتا ہے۔ ابراھیم علیہ السلام کے باپ آزر، نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، لوط علیہ السلام کی بیوی، رسول اللہ ﷺ کے تائے اور چچے اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اللہ پاک نے نہایت عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا کہ جس کو ہدایت کی طلب نہیں اس کو ہدایت نہیں دے گا اگرچہ اس اصول کی بنیاد پر خود انبیاء کی طرف انگلیاں اٹھنے کے واضح امکانات موجود تھے اور انبیاء کی دعوت داغدارہو رہی تھی کہ اگر اتنی عقل و فہم والی بات تھی تو ان کے باپ، بیوی اور بیٹے کی سمجھ میں کیوں نہ آئی؟ پہلے اپنے بیٹے اور بیوی کو تو مسلمان کر لے ہم بھی ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس امکان کے باجود اللہ نے دعوت و تبلیغ کے حق میں بھی ڈنڈی مار کر اولوالعزم رسولوں کے رشتے داروں کو بھی ھدایت نہیں دی آیات نوٹ فرمائیں
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ(الکہف ۹۲)
إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا (3)الدھر
قُلْ آمِنُوا بِہِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ( بنی اسرائیل )
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات ہیں جن میں ہدایت یا گمراھی کی مشیئت اللہ پاک نے خود انسان کی طرف منسوب کی ہے لہذا ممکن نہیں کہ پھر وہ گمراہی کو اپنی طرف منسوب فرما کر اپنے کلام میں تضاد کا اظہار فرمائے۔
ان تمام آیات کا ترجمہ کہ جن میں کہا جاتا ہے اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے سرے سے ہی غلط ترجمہ ہے اور جو بات ہمارے دماغ میں گھسی ہوئی ہے اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہیں۔اسی لئے اللہ پاک نے قرآن کا اصل ٹیکسٹ قیامت تک محفوظ فرمایا ہے تا کہ امت ترجموں میں ہی گمراہ نہ ہو جائے۔
یضل اللہ من یشاء ویہدی من یشاء،،
یہ آیت قرآن میں جہاں بھی آئی ہے اس میں مشیئت اللہ کی طرف منسوب نہیں بلکہ بندے کی طرف منسوب ہے،یعنی
یضل اللہ من یشاء‘‘ان یُضل’’ و یھدی من یشاء‘‘ان یُھدی’’
اللہ گمراہ ہونے دیتا ہے اس کو جو چاہتا ہے کہ بھٹکے اورہدایت دیتا ہے اس کو جو چاہتا ہے کہ اس کو ہدایت دی جائے۔ یہاں یُضل اور یُھدی محذوف ہے۔ اللہ کی طرف گمراہی کی نسبت گستاخی ہے۔ شیطان گمراہ کرتا ہے، بندہ گمراہی کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ اس کو گمراہ ہونے دیتا ہے یہی اس کی غیرت اور صمدیت کا حق ہے۔ انسان نام کی مخلوق پہلے دن سے یہی اختیار ، ارادہ اورمشئیت دے کر ممتاز کی گئی ہے اور اسی اختیار کی وجہ سے اس کی اہمیت ہے، اور اسی اختیار کے غلط استعمال کرانے کے لئے شیطان اس کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے جس طرح اگر کسی بچے کو والدین پیسے دے دیں تو مفت خورے اس کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔