سوال ، جواب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2021

جواب:جو شخص قرآنِ مجید کی زبان سے واقف نہیں ہے وہ لازماً ترجمہ اور تفسیر ہی کے ذریعے سے قرآنِ مجید کو سمجھے گا۔ ایسے شخص کو یہی مشورہ دینا چاہیے کہ وہ ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ تفسیروں کا بغورمطالعہ کرے۔ اس کے بعد جن آرا پر اس کا اطمینان ہو جائے انھیں وہ اختیار کر لے۔ آپ اسے اردو زبان میں نمائندہ تفسیروں کا انتخاب کر کے دیں تو یہ اس کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔ مثال کے طور پر آپ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی بیان القرآن ، مفتی محمد شفیع صاحب کی معارف القرآن، مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کی تفہیم القرآن اور مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تدبرِ قرآن مطالعے کے لیے تجویز کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ کوئی ثابت شدہ روایت نہیں ہے۔ ایسی بہت سی روایات فضائل کے باب میں بیان کی جاتی ہیں۔ اور بسااوقات اس طرح بیان ہوتی ہیں کہ دین کی اساسات کو متاثر کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت میں فیصلہ اصلاً عمل کی بنیاد پر ہو گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ ایمان انسان کے اندر کتنا جاگزیں ہے اور اس نے اس کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا ہے۔ فیصلے کی اصل بنیاد یہی ہے۔ باقی سب چیزیں اس کے بعد مؤثر ہوتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دین کے بارے میں جو مسالک، مکاتبِ فکر یا نقطہ ہائے نظر اس وقت موجود ہیں انھیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے۔ ان میں سے کسی مکتبِ فکر کی ضروری نہیں کہ ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو۔ علم و فکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکلیہ صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ میں جو دین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اس کے بارے میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا۔ میری اپنی تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم و عقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں۔ میرے ایمان و یقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مکاتبِ فکر کے بارے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبِ فکر حقیقت کے زیادہ قریب ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مکتبِ فکر سر تا سر حق ہے۔ حق کی حتمی حجت کی حیثیت صرف اورصرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:جن اصحابِ علم پر آپ کو اعتماد ہے، ان سے دین سیکھیے۔جب آپ دین کو سمجھ لیں گے تو پھر آپ کی فطرت بیدار ہو گی اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اپنے علم اور عمل کو کن کن چیزوں سے پاک کرنا ہے۔ جہاں تک اپنے اہل و عیال کا تعلق ہے تو ان کی آخرت کے بارے میں آپ کو لازماً فکر مند ہونا چاہیے۔ ان کو تزکیہ نفس کی منزل تک پہنچانے کے لیے آپ کو جدوجہد کرنی چاہیے،لیکن اس جدوجہد کا واحد راستہ دینی تعلیم وتربیت اور صالحین کی صحبت ہے۔ دینی تعلیم خود بھی حاصل کیجیے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے بھی اس کا بندوبست کیجیے ۔ دین کے معلمین کی مجالس میں بیٹھیے اور ان لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے جنھوں نے اپنی زند گی کو دین کے سانچے میں ڈھالا ہوا ہے اپنے اہل و عیال اور احباب کو بھی صاحبِ کردار علماکی صحبت میں بیٹھنے کی ترغیب دیجیے۔ گھر والوں کو نماز کا پابند بنائیے اور ان کے دل و دماغ میں یہ شعور پیدا کیجیے کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ اس دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے اور یہ محض ایک آزمایش ہے۔ان کے ذہنوں میں، ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دیجیے کہ آخرت کی کامیابی صرف اور صرف انھی لوگوں کو نصیب ہو گی جو اس دنیا میں خدا کے دین کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنے علم و عمل کو آلایشوں سے پاک کر لیں گے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب: میرے نزدیک صرف وہی چیزیں سنت کی حیثیت رکھتی ہیں جو صحابہ کرام کے اجماع سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں۔ ہم انھی چیزوں پر اصرار کر سکتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر لوگوں کو توجہ بھی دلا سکتے ہیں۔ جن امور میں صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہے،انھیں نہ سنت کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جا سکتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق رفع یدین بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن پر صحابہ کا اجماع نہیں ہو سکا، اس وجہ سے میں اسے سنت نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد چاہے ساری دنیا متفق ہو کر اسے سنت قرار دینے لگے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں قرآن و سنت بالکل خاموش ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس کے متعلق کوئی بات وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں ہمارے علما نے قرآنِ مجید کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا ہے۔ اس لیے یہ بالکل ایک اجتہادی نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس وجہ سے اس میں اگر کوئی اختلافِ رائے ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے قرآن و سنت کی تردید یا تقلید کا مسئلہ بھی نہیں بنانا چاہیے۔ جس رائے پر اطمینان ہو، اس کو اختیار کر لینا چاہیے۔جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو میں میراث میں یتیم پوتے کا حق مانتاہوں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی،اس میں دو طرح کے امور ہیں۔ ایک وہ امور ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد، ان کے اوقات، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں، قیام میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت ، رکوع کا طریقہ، سجدے کا طریقہ اور تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
دوسرے امور وہ ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انھیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر ثنا،قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں ،حضور کے لیے دعا (درود)، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا، سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنااور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر ہمیں اصرار کرنا چاہیے۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیزبھی اختیار کر سکتے ہیں۔یہی وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ان معاملات کو چونکہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی ان میں سے کسی چیز پر اصرارنہیں کرنا چاہیے 
ان معاملات کو جنھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا یا جن کے بارے میں لوگوں کو اختیار دیا، انھیں چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ حضور نے دیکھا کہ ایک صحابی قعدے میں دعا کے موقع پر اس طرح کے کلمات ادا کر رہے ہیں:السلام علی اللّٰہ یعنی اللہ پر سلامتی ہو۔ حضور نے انھیں سمجھایاکہ اللہ تعالیٰ تو سراسر سلامتی ہیں۔ انسانوں کا ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنابے ادبی کے مترادف ہے۔پھر آپ نے التحیات کے کلمات سکھائے۔ گویا ایسا نہیں ہوا کہ حضور نے ابتدائی طور پر نماز سکھاتے ہوئے التحیات سکھائی ہو، بلکہ ایک غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور سلام پیش کرنے کا صحیح اسلوب بتایا۔سورۂ فاتحہ سے پہلے ثنا پڑھنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور امامت کرتے وقت سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے کچھ دیر خاموش کھڑے رہتے ہیں انھوں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی آپ نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتے وقت پروردگار کے حضور میں اپنی طرف سے کچھ حمد و ثنا کے کلمات پیش کرتا ہوں۔ لوگوں نے سیکھنے کی خواہش ظاہرکی تو آپ نے انھیں سبحانک اللہم وبحمدکاور اس طرح کے بعض دوسرے کلمات سکھائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا یعنی درود بھی لوگوں نے اسی طرح سیکھا۔ا ن مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کے بعض حصوں کو حضور نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا۔ ان کی حیثیت اختیاری ہے۔ ان اختیاری امور میں ہر مسلمان فطری طور پرچاہے گا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مختارات جاننے کی کوشش کرے۔ نہیں جان سکے گا تو لازماً اجتہاد کرے گا۔ اس میں ظاہر ہے کہ اختلاف ایک فطری بات ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:اقامتِ دین کا مفہوم ہے دین کو پوری طرح اختیار کرنا۔ یعنی دین کو اس کی روح اور اس کے قالب کے لحاظ سے اپنا لینا اقامتِ دین کے الفاظ میں لفظِ اقامت کے وہی معنی ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں اس لفظ کے ہیں۔تاریخِ اسلام کے جید علما نے ہر زمانے میں ان الفاظ کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بعض اہلِ علم نے ان الفاظ سے مختلف معنی اخذ کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ محض غلط فہمی پرمبنی ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:نظمِ قرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں تمام سورتیں موضوعات کی ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہیں۔ ہر سورہ اپنا ایک خاص موضوع رکھتی ہے۔ اس موضوع کے مطالب ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان ہوتے ہیں۔ ہرسورہ کی ایک تمہید ہوتی ہے اور ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ ہر آیت اپنا ایک سیاق و سباق رکھتی ہے۔ اس طرح قرآنِ مجید ایک منظم، مرتب اور مربوط کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی نوعیت اقوال کے کسی ایسے مجموعے کی نہیں ہے جس کے ہر قول کے مختلف مطالب اخذ کیے جا سکتے ہوں، بلکہ اس کی نوعیت ایک ایسی منظم کتاب کی ہے جس کا ہر جملہ اپنا ایک متعین مفہوم اور طے شدہ پیغام رکھتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: احادیث کی تدوین صحابہ کرام کے زمانے ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ بعض اصحاب نے اپنے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی مرتب کر لیے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ کام ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا اور تقریباً ڈھائی تین سو سال میں یہ کام منظم مجموعوں کی شکل میں مرتب ہو گیا۔جہاں تک اس کام کے محرکات کا تعلق ہے تو یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی ہستی نہیں تھے۔جس ہستی کے جسمِ اطہر سے چھو کر ٹپکنے والے پانی کے قطروں کو لوگ زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے، اس کی زبان سے نکلنے والے لافانی الفاظ سے وہ کیونکر صرفِ نظر کر سکتے تھے۔لوگ تو ہم آپ جیسوں کی باتوں کو محفوظ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ وہ ہستی تو پیغمبر کی ہستی تھی۔ہم جیسے تو ان کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جو لوگ ان کے زمانے میں موجود تھے، انھوں نے بالکل فطری طور پر آپ کے علم و عمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ بلا شبہ انسانیت پر یہ ان کا عظیم احسان ہے۔ آپ کے علم و عمل کی روایات کو آگے بیان کرنے میں بعض لوگ البتہ ، بے حد احتیاط کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمرِ فاروق اس معاملے میں حددرجہ محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کرتے، بلکہ جس قوم میں وہ اپنا پیغام نازل کرتے ہیں، اسی کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں مرد و عورت کو مشترک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ چنانچہ جب قرآنِ مجید یہ صیغہ استعمال کرتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مردوں کے لیے جنت کی کچھ خاص نعمتیں ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جنت کی نعمتیں ہیں جس طرح مردوں کے لیے ہیں۔ جہاں تک ازواج کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن نے ازواجِ مطہرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین کے لیے پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ اس کے بجائے اگر یہ بات کہی جاتی کہ وہاں عورتوں کو دس دس مرد ملیں گے تو آپ خود سوچیے کہ کیا یہ کوئی شایستہ اسلوب ہوتا ؟ میرا خیال ہے کہ ہماری بہنوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت کا لحاظ کرتے ہوئے ساری بات ایک جملے میں بیان کر دی ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:قرآنِ مجید نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ نکاح معاشرے کے معروف کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی صالح معاشرے کے اندر اس معاملے میں جو ضوابط ہیں، جو روایات ہیں،جو رسوم و رواج ہیں، انھی کے مطابق اس ذمہ داری کو انجام پانا چاہیے ۔ ہمارے معاشرے میں اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے نہ صرف والدین سرگرم ہوتے ہیں، بلکہ دیگر اعزہ اوراحباب بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔اسی سے رشتوں میں حسن پیدا ہوتاہے، اسی سے اچھی معاشرت وجود میں آتی ہے اور یہی ہمارا معروف ہے۔اگر کسی موقع پر والدین اپنے بچوں کی ترجیحات کو یکسر نظر انداز کردیں اور ناجائز طور پر اپنی مرضی ان پر مسلط کرنا چاہیں تواس معروف کی خلاف ورزی جائز ہو سکتی ہے،لیکن اس معاملے میں غلط یا صحیح کا تعین کسی معاملے کو سامنے رکھ کرہی کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر والدین کا موقف درست ہو اور کسی موقع پر اولاد کی بات ٹھیک ہو۔صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اولاد اور والدین دونوں ہی کو اعتدال کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ نہ والدین کو سختی اور جبر سے کام لینا چاہیے اور نہ اولاد کونافرمانی اور انحراف کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ باہمی موافقت اور محبت سے یہ معاملہ انجام پانا چاہیے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:خود کشی کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل نہیں ہوتی، بلکہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آزمایش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ اجازت نہ دیتے تو آزمایش نا ممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔اس صورتِ حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے؟
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ بات کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، امورِ متشابہات میں سے ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ سعادت نصیب ہوگی۔ لیکن یہ سعادت کیسے نصیب ہو گی، اس کا ذکر روایات میں نہیں ملتا۔احادیث میں جو باتیں درج ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی دیکھو گے جیسے کھلے آسمان پر چاند کو دیکھتے ہو۔اس موقع پر ہماری کیفیت کیا ہو گی؟ ہماری آنکھیں اس نظارے کا کیسے تحمل کر سکیں گی؟ یہ سب باتیں امورِ متشابہات میں شامل ہیں۔ ان کے بارے میں ہمیں اپنے اندازے لگانے کے بجائے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان اصرار کرے کہ میں صرف انھی چیزوں کو مانوں گا جنھیں میں دیکھ سکوں یا جنھیں حواس کی گرفت میں لے سکوں تو اس کا علم انتہائی محدود ہو جائے گا۔ جہاں تک سائنس کے دعویٰ کا تعلق ہے تو اب سائنس میں بھی یہ بات نہیں رہی۔ ہائزن برگ کے قانون عدم تعین کے بعد سائنس نے بھی اپنی عاجزی کا اعتراف کر لیا ہے۔ وہ بھی اب یہ جانتے ہیں کہ انسان کی صلاحیتوں کے حدود کیا ہیں۔ انسان صرف انھی چیزوں کو نہیں مانتا جو اس کے حواس کی گرفت میں آ جاتی ہیں۔ دیکھ کر تو جانور بھی مانتے ہیں، سونگھ کر اور سن کر وہ بھی اپنے تحفظ کا سامان کرتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ عقل محسوس سے نا محسوس کا استنباط (Deduct) کرتی ہے۔ یعنی جو چیزیں ہمارے حواس کی گرفت میں آتی ہیں ان کے ذریعے سے ان چیزوں کو جان لینا،جو حواس کی گرفت میں نہیں آتیں،یہی انسان کا کمال ہے ۔اور یہ عین علمی اور عقلی طریقہ ہے۔ آپ کا سارا علم اسی پر مبنی ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی آپ کے پاس علم ہے،جس پر انسانیت فخر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے تھا، ہم نے اس کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کی ہے۔ یعنی ہمارے سامنے ایک چیز موجود ہوتی ہے، ہمارے سامنے کچھ مظاہر ہوتے ہیں۔ ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر عقلی طریقے سے استنباط کر لیتے ہیں کہ یہ چیز اس کے پیچھے ہو گی۔ استقرائی منطق یہیں سے پیدا ہوئی ہے کہ انسان دنیا کے اندر جو چیزیں موجود ہیں، ان کا استقرا (موازنہ) کرتا ہے، ان کو جمع کرتا ہے،پھر اس سے نتائج نکالتا ہے۔ یہ نتائج نکالنا، تجزیہ کرنا، پیچھے جھانک لینا، محسوس سے نامحسوس تک پہنچ جانا، گرتے ہوئے سیب کو دیکھ کر کشش ثقل کے تصور کا استنباط کر لینا، یہی انسانیت کا شرف ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:امتِ مسلمہ کے زوال کے سبب دو ہیں: ایک یہ کہ اس کا علم و عمل پچھلے ایک ہزار سال سے بتدریج قرآنِ مجید سے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ امت میں جو لوگ ذہین تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی علمی صلاحیتیں دی تھیں، وہ بجائے اس کے کہ سائنسی علوم کو اپنا موضوع بناتے، انھوں نے فلسفے اور تصوف کو اپنا موضوع بنایا۔ اور یہ دونوں ہی بے معنی چیزیں تھیں۔ حقیقت میں یہی امت کے زوال کا سبب ہے۔
آج اس امت کی حالت بہتر کرنی ہے تو دو کام کرنے ہوں گے: ایک یہ کہ امت کو قرآنِ مجید کے معاملے میں ایجوکیٹ کیا جائے۔ یہاں تک کہ ہمارے علم و عمل پر قرآنِ مجید کی حکومت قائم ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ امتِ مسلمہ کو دنیوی علوم اور خاص طور پر سائنسی علوم کے حصول کی ترغیب دی جائے۔ اصل میں انھی امور سے غفلت برتی گئی تو ہماری امت پر زوال آیا ہے اور انھی امور کی جانب توجہ کی جائے گی تو ان شاء اللہ بہتری ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:جہاد کے بارے میں مولانا کا ایک نقطہء نظر یہ ہے کہ جہاد صرف دفاع کے لیے ہوتا ہے، اپنے اس نقطہء نظر کے حق میں انھوں نے دلائل دیے ہیں، انھیں پڑھ لیجیے، ہو سکتا ہے کہ آپ کا اطمینان ہو جائے۔ میرا ان کے استدلال پر اطمینان نہیں ہو سکا۔اس حوالے سے میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ دفاع کے لیے جنگ سرے سے دین کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو فطرت کا تقاضا ہے۔ جب کوئی آدمی مجھ پر چڑھ دوڑے گا تو میرا یہ فطری حق ہے کہ میں اپنا دفاع کروں۔ اس معاملے میں دین و شریعت کو کوئی حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں۔دین میں تو ظلم و عدوان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہیں انسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہو، ان پر زیادتی کی جا رہی ہو، اور خاص طور پر انھیں دین پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہو،دین پر عمل کرنا ان کے لیے جان جوکھم کاکام بنا دیا گیا ہو تو یہ فتنہ ہے، اس فتنے کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ دفاع کے طریقے پر بھی ہو سکتا ہے اور کسی پر حملہ کر کے بھی ہو سکتا ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ خود تربیت کا نقص ہے یعنی انسانوں کی تربیت ہمارے ہاں اچھی نہیں ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اوصاف و صفات اپنے اندر پیدا نہیں کرتے یعنی اللہ کرم فرماتا ہے رحم فرماتا ہے اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ وہ پروردگار ہو کر معاف کرتا ہے تو بندوں کو بھی آگے بڑھ کر معاف کرنا چاہیے اور اللہ اس کو بہت پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ پیغمبروں نے اس کے بہت اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں تو یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سوسائٹی کے اندر لوگوں کو اس قسم کی چیزوں کا شعور بہت کم دیا گیا ہے ہمارا نظام تعلیم بھی یہ تربیت نہیں کرتا بلکہ ساری کی ساری تربیت انتقام لینے، آدمی کو کسی کونے سے لگانے اور ا س کو کسی جہنم میں گرانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے نیک لوگ اتمام حجت کے منصب پر کھڑے ہوتے ہیں یعنی آدمی کو بتا دیا جائے کہ حق کیا ہے لیکن یہ دعوت کا رویہ صحیح نہیں۔ آپ کو اپنے بھائی کی اصلاح کرنی ہے مرتے دم تک۔ صرفِ نظر کر کے اس کی غلطیوں پر پردہ ڈال کر مرتے دم تک یہی صحیح رویہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)